0
Thursday 12 May 2016 22:49

سانحہ پاراچنار کے مظلومین کو انصاف دلوانا آرمی چیف کا امتحان ہے، علامہ عابد الحسینی

سانحہ پاراچنار کے مظلومین کو انصاف دلوانا آرمی چیف کا امتحان ہے، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 1968ء کو گورنمنٹ کالج پاراچنار سے نمایاں پوزیشن کے ساتھ ایف ایس سی کرنے کے بعد علوم دینی کے حصول کی غرض سے نجف اشرف اور اسکے بعد قم تشریف لے گئے۔ جسکے بعد انہوں نے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس کا آغاز کیا۔ پاراچنار میں مرکزی انجمن حسینیہ اور علمدار فیڈریشن کی بنیاد میں علامہ شہید عارف حسینی اور مرحوم شیخ علی مدد کے ہمراہ تھے۔ پاراچنار میں نماز جمعہ کی ابتداء سب سے پہلے 1982ء میں علامہ عابد الحسینی ہی نے کی اور 1990ء تک مرکزی جامع مسجد کے امام جمعہ کے فرائض بھی وہی انجام دیتے رہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے ممبر منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ عابد الحسینی کے ساتھ پاراچنار میں حالیہ پیش آنے والے ریاستی دہشتگردی کے حوالے سے اہم انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سانحہ پاراچنار کیسے پیش آیا، ہمارے قارئین کو تفصیل سے آگاہ کیجئے گا۔؟
علامہ عابد الحسینی:
بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے، دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں عوام اپنے مطالبات کے لئے احتجاجات، دھرنوں، جلسے اور جلوسوں کا سہارا لیتے ہیں، جو کہ جمہوری عمل کا حصہ ہے، جبکہ طاقت کے ذریعے مطالبات کو تسلیم کروانا تو دہشتگردوں کا شیوہ ہے۔ جس طرح کہ آپ سمیت پورے ملک کے عوام کو علم ہے کہ تحریک حسینی کا اپنے مذہبی اور جائز مطالبات کے حق میں احتجاج تھا۔ کیا حکومت کے پاس یہی ایک ہی راستہ تھا کہ طاقت کا استعمال کرکے بے گناہ محب وطن عوام کا قتل عام کیا جائے۔ ہمارے لوگ 3 شعبان کو نواسہ رسول (ص) امام حسین (ع) کے یوم ولادت کا جشن منانے کیلئے اکٹھے ہو رہے تھے، اسلام آباد سے ایک نامور عالم دین اور ایک منقبت خوان کو اس جشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، یہ واضح ہو کہ ان دونوں شخصیات کی عوام میں بے حد مقبولیت ہے، اور ان پر کسی قسم کی منافرت پھیلانے کا آج تک کوئی الزام بھی نہیں لگ سکا، ایف سی اور پولیٹیکل انتظامیہ نے ان دونوں شخصیات کو پاراچنار میں داخلہ سے بلاجواز طور پر روک دیا، چونکہ طوری بنگش مہمان نواز اور غیرت مند قوم ہیں، انہوں نے اپنا جمہوری اور آئنی حق استعمال کرتے ہوئے اپنے مہمانوں کے حق میں احتجاج شروع کر دیا، جس پر کرم ملیشیاء کے کمانڈنٹ ملک عمر نے کہا کہ میں 5 منٹ کی مہلت دیتا ہوں، اگر احتجاج ختم نہ کیا تو فائر کھول دوں گا، جس کے فوراً بعد انہوں نے نہتے عوام پر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی اور پھر جو ظلم ہوا، اس سے سب آگاہ ہوچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سارے واقعہ کا سب سے بڑا ذمہ دار کمانڈنٹ ملک عمر ہے۔؟
علامہ عابد الحسینی:
موجودہ کمانڈنٹ کرم ملیشیاء ملک عمر نے بے شک فوجی وردی پہن رکھی ہے، مگر اس نے گذشتہ دنوں جو رول ادا کیا، وہ پاک فوج جیسے ادارے یا اس سے وابستہ کسی فرد کا نہیں بلکہ ملک دشمن ایجنسی کے ایجنٹ کا کردار ہی ہوسکتا ہے۔ اگر ملک اور اسکے عوام کے محافظ ادارے کا اپنے عوام کے ساتھ ایسا سلوک رہے تو عوام کو اپنے ملک میں رہنے کی کیا امید باقی رہے گی۔ اب ملک عمر اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں اور بے بنیاد اخباری بیانات کا سہارا لینا چاہتا ہے۔ بظاہر فوجی وردی میں ملبوس ظلم اور بربریت کی حد کرنے والا کرنل اب اپنے مظالم کو چھپانے کے لئے یہاں تک کہنے سے نہیں کتراتا کہ جانی نقصان مظاہرین کی فائرنگ سے ہوا ہے۔ کیا یہ الزام معقول اور قرین قیاس ہے کہ فائرنگ کرنے والے اپنے ہی فریق کو مار ڈالیں، جبکہ اس بات کا ویڈیو ریکارڈ ہمارے پاس اور خود اس قاتل کے پاس بھی موجود ہے کہ مظاہرین مکمل طور پر غیر مسلح اور نہتے تھے، کیا مسلح افراد کی بجائے نہتے افراد سے فائرنگ کی توقع ممکن ہے، کیا فائرنگ کرنے والے اپنے ہی ساتھیوں پر فائرنگ کرسکتے ہیں اور اگر مظاہرین نے فائرنگ کی ہے تو بتایا جائے کہ ایف سی یا پولیس کے کتنے افراد کو گولیاں لگی ہیں، جبکہ مظاہرین میں سے تین شہداء اور تیرہ زخمیوں کا ریکارڈ تو ہمارے پاس موجود ہے۔ کیا صرف چند سو نہتے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے یزاروں لیوی اہلکار ناکافی تھے، جو ایف سی، فوج حتیٰ کہ ایس او جی کی اتنی بھاری نفری بلانے کی نوبت اور ضرورت پیش آئی۔

اسلام ٹائمز: کیا اب تک حکومت کی طرف سے مظلومین کی حمایت میں کوئی ایکشن لیا گیا۔؟
علامہ عابد الحسینی:
میں پوچھتا ہوں کہ مظاہرین کا سڑک بند کرتے ہوئے بغیر کسی وقفے کے فوج کی جانب سے فوری طور پر مظاہرین کا محاصرہ اور پھر فوراً ایکشن لینے کا کیا جواز پیش کیا جاسکتا ہے، کیا سڑک بلاک ہونے کو کئی دن یا حتیٰ کئی گھنٹے گزرے تھے، کیا سول انتظامیہ کی جانب سے جرگہ بھیج کر مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔ کیا مظاہرین کے مطالبات کچھ ایسے تھے جو ماننے کے قابل نہ تھے اور یہ کہ جن علماء کو واپس کر دیا گیا، جن پر شرانگیزی پھیلانے کا جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے، کیا انکی کسی ایسی تقریر کا ثبوت موجود ہے، جس میں ان علماء نے کوئی شرانگیز بات کی ہو۔ سڑک بند کرنا اگر جرم تھا تو یہ بتایا جائے کہ چند ہی ماہ قبل مجلس علمائے اہلبیت (ع) کی جانب سے چاردیواری کے اندر قرآن خوانی اور مجلس کا جو اہتمام کیا گیا تھا تو کیا یہی کرنل نہیں تھا، جس نے صبح سویرے اپنی فورس کے ساتھ دفتر کا محاصرہ کرکے لوگوں کو قرآن خوانی سے روکا۔ کیا اسکا یہ اقدام عوام الناس کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے ڈائریکٹ ٹکر لینے کا محرک نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: اس سے قبل بھی پاراچنار میں نہتے عوام پر فورسز کی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا، اس پر کوئی ایکشن لیا گیا تھا۔؟
علامہ عابد الحسینی:
جی، چند سال قبل مین بازار میں ہونے والے دھماکہ میں 11 افراد شہید ہوگئے تھے، اس کیخلاف احتجاج کرنے والوں پر فورسز نے اندھادھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مزید 30 افراد شہید ہوگئے، یعنی دہشتگردوں نے اگر 11 لوگوں کو نشانہ بنایا تو ہماری فورسز نے 3 گنا نہتے افراد کو شہید کر دیا، اس وقت بھی ہمارے لوگوں نے کوئی مزاحمت نہ کی، کیونکہ ہم نے کبھی ملکی سلامتی کیخلاف کوئی کام کیا ہے اور نہ ہی ان شاء اللہ کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں، یہ واضح ہو کہ کرم ایجنسی میں اپنی حفاظت کیلئے ہر گھر میں اسلحہ موجود ہوتا ہے، لیکن یہ اسلحہ کبھی ریاست کیخلاف استعمال نہیں ہوا، لیکن ہمیں مجبور نہ کیا جائے، ہم اس وطن کو بنانے والے ہیں، ہمارے ساتھ اتنی زیادتیاں نہ کی جائیں کہ ہم مجبور ہوجائیں۔

اسلام ٹائمز: اس واقعہ کے حوالے سے آرمی چیف سے انصاف کی کیا امید رکھتے ہیں۔؟
علامہ عابد الحسینی:
پاک فوج وطن عزیز کا محافظ اور ایک نہایت قابل قدر ادارہ ہے، پاک فوج ہی کی وجہ سے عوام الناس ملک میں امن اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تاہم بعض افراد نہ فقط پاک فوج بلکہ وطن عزیز کے سفید چہرے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ظلم اور بربریت کے مرتکب افراد کی آزادانہ انکوائری کی جائے، مجرمین کا کورٹ مارشل کیا جائے اور محب وطن پاکستانی مظلومین اور مقتولین کو جلد از جلد انصاف فراہم کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ پاراچنار کے مظلومین کو انصاف دلوانا آرمی چیف کا ایک امتحان ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سانحہ پاراچنار اور ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی کیخلاف بھوک ہڑتال کر دی ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ عابد الحسینی:
علامہ ناصر عباس اور ان کی جماعت اہل تشیع کے حقوق کیلئے ہمیشہ صف اول میں نظر آئی ہے، پورے ملک کے عوام کی ان سے امیدیں ہیں اور وہ اپنا فریضہ بھی اچھے طریقہ سے نبھا رہے ہیں، پاراچنار کا معاملہ ملکی سطح پر اٹھانے پر ہم ان کے شکر گزار بھی ہیں، اور ان کیلئے دعا گو بھی ہیں کہ خدا انہیں کامیابی عطا فرمائے، ان ظالم حکمرانوں کیخلاف ان کی جماعت مظولوں کیساتھ کھڑی نظر آتی ہے، خدا ان کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
خبر کا کوڈ : 538374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش