0
Saturday 14 May 2016 20:22

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اسوقت ملک کے مقبول ترین شحص ہیں، میاں منظور وٹو

پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب میں کامیابی حاصل کریگی اور ایک بار پھر ثابت کریگی کہ پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اسوقت ملک کے مقبول ترین شحص ہیں، میاں منظور وٹو
میاں منظور احمد وٹو گذشتہ تیس سالوں سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ ہیں، میاں منظور احمد وٹو نے 1983ء میں اوکاڑہ میں ضلع کونسل کی چیئرمین شپ سے سیاسی سفر کا آغاز کیا، 1985ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 1988ء میں آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر بھی رہے، اور پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1993ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، تاہم صوبائی اسمبلی کی رکنیت کا انتخاب کیا اور ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کی خدمات انجام دیں۔ 1993ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی حمایت سے پاکستان مسلم لیگ نون کے غلام حیدر وائیں کی وزارتِ اعلٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرکے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا اور بعدازاں خود کو وزیِراعلٰی منتخب کرانے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے ساتھ لگ بھگ سترہ ارکانِ اسمبلی تھے۔ 1996ء میں وہ اپنے قائم کردہ سیاسی دھڑے کے پلیٹ فارم سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء کے عام انتخابات میں اُنہوں نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 46 اوکاڑہ اور این اے47 سے حصہ لیا اور دونوں پر کامیاب ہوئے۔ اکتوبر 2012ء میں اُنہیں پی پی پی وسطی پنجاب کا صدر نامزد کیا گیا۔ گذشتہ روز ''اسلام ٹائمز'' نے اُن کے ساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال حاضر خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پانامہ لیکس کے حوالے حکومت کیجانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط اور شریف خاندان کی کرپشن کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
میاں منظور وٹو:
پانامہ لیکس کی شکل میں پاکستانی قوم پر خدا کی رحمت نازل ہوئی ہے، اگر ہم اپنی پاک سرزمین سے کرپشن کی لعنت ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کوئی سنہری موقع نہیں ہوگا، ساری اپوزیشن اور پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں قائم جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی پوزیشن واضع کریں، پانامہ لیکس کی فہرست میں شامل دیگر سیاستدانوں، بیورکریٹس اور تاجروں سمیت ہر ایک کا احتساب ہونا چاہئے، لیکن اس کا آغاز وزیراعظم سے کیا جائے، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے اقتدار میں آنے سے پہلے جو اثاثے تھے، آج ان میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اربوں کی اراضی، محلات، فیکٹریاں اور اندرون و بیرون ملک کاروبار اقتدار میں آنے کے بعد ہی بنے ہیں۔ احتساب کا معاملہ، سیاست یا حکومت میں آنے سے پہلے یا بعد کے اثاثوں کے تحت ماپنا چاہئے اور چیف جسٹس کی جانب سے جوابی خط نے حکومت کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر آپکو کہا جائے تو آپ حکومت اور اپوزیشن کو کیا مشورہ دیں گے۔؟
میاں منظور وٹو:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف چیف جسٹس کی سرابراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرکے ٹی او آرز طے کرنے کیلئے متحدہ اپوزیشن سے باضابطہ مذکرات کریں، اے این پی اور قومی وطن پارٹی (شیرپاو) کے متفق نہ ہونے پر متحدہ اپوزیشن وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ نہیں کر رہی، پانامہ لیکس ملک سے کرپشن کے خاتمے کا سہنری موقع اور پاکستانی قوم کیلئے ایک غیبی امداد ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب کا عمل بڑوں سے شروع کیا جائے، پھر چھوٹوں تک بھی اس کا دائرہ وسیع کر دیا جائے۔ اپوزیشن میں سے تو میں نے اپنے آپکو پیش کر دیا ہے، اپنا احتسابی گوشوارہ پبلک کرکے خود احتسابی کی ایک نئی روایت قائم کی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ نے اپنے دور اقتدار میں اپنے اثاثے ظاہر کئے تھے۔؟
میاں منظور وٹو:
میں نے 1985ء سے پہلے اور 1999ء کے بعد 2012ءتک اپنے اثاثے ڈکلیئر کئے ہیں۔ 1985ء سے قبل کی وراثتی جائیداد، سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیراعلٰی پنجاب اور وفاقی وزیر امور کشمیر بننے تک 2012ءکے آخر تک جائیداد میں جو اضافہ ہوا اور اس دوران جو اثاثہ جات فروخت کئے گئے ہیں، ان کی تمام تفیصلات درج ہیں۔ میرا چیلنچ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی ملک میں میرے خاندان کا ایک ڈالر بھی بنک اکاونٹ یا جائیداد ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دونگا اور ہر قسم کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ کوآپریٹو فارمنگ کے تحت کاشتکاری ہمارا ذریعہ معاش ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکمرانوں کی کرپشن کے باعث معاشرے میں کون سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔؟
میاں منظور وٹو:
موجودہ حکمرانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اثاثوں میں سینکڑوں کے حساب سے اضافہ کر لیا ہے۔ پاکستان میں موجود کاشتکاروں کو لے لیں، جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، 65 فیصد دیہاتی طبقے کا آج جس طرح استحصال ہو رہا ہے، اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کسان کی معاشی حالت روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے، اب کسان کے پاس مالی بحران کی وجہ سے بچوں کی فیس اور اہل خانہ کیلئے علاج معالجے کیلئے وسائل نہیں ہیں۔ چھوٹے دکاندار کو دیکھ لیں، اس کا بھی برا حال ہے۔ مجموعی طور پر اگر ملکی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو حالت بڑی کمزور ہے۔ بظاہر ملک میں بے برکتی ہے، چند افراد کے ہاتھوں میں پیسہ ہے، باقی سارے بھوکے مر رہے ہیں۔ اب ترقی رک کر رہ گئی ہے، جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں، لیڈرشپ درست نہیں، برسر اقتدار لوگ پیسہ اکٹھا کرکے باہر بھجوانے میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ فوراً الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ یہ اپنے نابالغ بچوں اور بیوی کے نام سے ظاہر کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے بالغ بچوں کے گوشوارے ظاہر نہیں کئے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بچوں کے نام سے کیا جانے والا کاروبار بھی ظاہر کیا جانا چاہئے۔ ان کی اربوں کی جائیدادیں ظاہر نہ کرنا بہت بڑی بد دیانتی ہے، جس سے ملک کی سیاست بدنام ہو رہی ہے، سسٹم بدنام ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کرپشن کو بے نقاب کرنے میں آرمی چیف نے جو اقدامات کئے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
میاں منظور وٹو:
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اس وقت ملک کے مقبول ترین شحص ہیں، جن کا کہنا ہے کہ انہیں جو پلاٹ ملے تھے، وہ بھی انہوں نے شہیدوں کی فیملی کو دے دیئے ہیں۔ ایک شخص نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دن رات کام کر رہا ہے، جبکہ اقتدار میں شامل لوگ دولت بنانے میں مصروف ہیں، جن لوگوں کے پاس اقتدار سے پہلے ایک کنال بھی نہیں تھی، اب وہ کئی کئی مربع اراضی کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ خود کو اہل خانہ سمیت احتساب کیلئے پیش کر دیں اور احتساب ادارہ بھی ایسا ہو جو کہ چیف جسٹس پاکستان کی نگرانی میں قائم ہو۔ انہیں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت اپوزیشن کو متحد دیکھ رہے ہیں یا آج بھی اپوزیشن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہی ہے۔؟
میاں منظور وٹو:
میرا نقطہ نظر بھی وہی ہے، جو سب جماعتوں کا ہے، سب جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم خود کو فوراً کلیئر کریں، وزیراعظم کے بعد دیگر تمام جماعتوں کے افراد ان میں (ن) لیگ ہو یا پیپلزپارٹی ہو یا تحریک انصاف ہو، انہیں بھی کلیئر کرنا چاہئے۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں، جس پارلیمنٹ نے انہیں وزیراعظم بنایا ہے، اسی میں آکر اپنی ساکھ بحال کریں، انہیں بھی یہی کرنا چاہئے جو میں نے کیا ہے۔ میں نے 1985ء سے لے کر اقتدار میں موجود رہنے اور اس کے بعد تک اپنے اور بیوی بچوں کے والدہ، والد اور بھائیوں کے اثاثے ظاہر کئے ہیں۔ میں نے اگر ایک پائی بھی چھپائی ہو تو سیاست کو خیرباد کہہ دوں گا اور سزا بھی بھگتنے کو تیار ہوں۔ میاں منظور وٹو نے کہا کہ وزیراعظم اپوزیشن کا مطالبہ مان لیں، عمران خان کو میں خود منا لوں گا۔ ساری اپوزیشن اس وقت متحد ہے، وزیراعظم نہ مانے تو بڑا بحران آسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں منظم کرنے کیلئے کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں۔؟
میاں منظور وٹو:
ابھی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات میں مصروف ہیں، ان شاء اللہ ان انتخابات کے فوری بعد پارٹی کے چیئرمین اور دیگر مرکزی قائدین پنجاب کا دورہ کریں گے، اس سے پہلے پنجاب میں تنظیم نو کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور پنجاب میں ناراض اور نظرانداز کئے جانے والے ورکرز کو اُن کا مقام دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ آئندہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب میں کامیابی حاصل کرے گی اور ایک بار پھر ثابت کرے گی کہ پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے۔
خبر کا کوڈ : 538551
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش