0
Sunday 15 May 2016 12:37
مسلم ممالک متحد ہوگئے تو فلسطین کی آزادی مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں ممکن ہوجائیگی

علماء و مشائخ تکفیری فتنے کے خاتمے کیلئے میدان عمل میں نکل کر رسم شبیری ادا کریں، پیرزادہ سید اظہر علی شاہ ہمدانی

اتحاد بین المسلمین اسوقت ممکن ہے جب ہم انفرادی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینگے
علماء و مشائخ تکفیری فتنے کے خاتمے کیلئے میدان عمل میں نکل کر رسم شبیری ادا کریں، پیرزادہ سید اظہر علی شاہ ہمدانی
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی پاکستان مسلم لیگ (ن) علماء و مشائخ ونگ سندھ کے صدر اور وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات شاہ کے ترجمان ہیں۔ وہ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی سرپرست کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ ان کا تعلق سلسلہ ہمدانی سادات سے ہے، جس کی اصل ہمدان ایران سے ہے۔ وہ 1964ء میں کراچی شہر میں قائم ہونے والے دارالعلوم قمر الاسلام کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی کے ساتھ دارالعلوم قمر الاسلام کراچی میں مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو مختصراً یہ بتائیں کہ آپ پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کے پیچھے کن عناصر کو دیکھتے ہیں۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
اس وقت صورتحال انتہائی واضح ہوچکی ہے، جس کے بعد مصلحت پسندی کا شکار ہونا ملک و قوم کے خلاف زیادتی ہوگی، اس وقت اسرائیل اور بھارت دہشتگردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں ملوث ہیں، کل بھوشن یادیو سمیت درجنوں بھارتی جاسوس اور ایجنٹس کی گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں، اس کے بعد ہم خود تو کیا، اب تو بھارت کیلئے بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے پچھے بھارت کا کردار ہے، خصوصاً بھارت اور اسرائیل کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے، بھارت اسرائیل کے ساتھ مل کر مسلسل اس عظیم اقتصادی و اسٹراٹیجک منصوبے کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، بھارت اور اسرائیل بھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اقتصادی و معاشی طور پر مضبوط ہو کر ترقی کی منازل طے کرے، کیونکہ اگر پاکستان ترقی کرے گا تو عالم اسلام بھی ترقی کرے گا، پاکستان مضبوط ہوگا تو عالم اسلام بھی مضبوط ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کو کافر قرار دینے والی تکفیری فکر یا فتنہ تکفیریت کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
تکفیری فکر یا تکفیریت کا فتنہ کوئی آج کا نہیں ہے، یہ خوارج کا تسلسل ہے، یہ اوائل اسلام سے، صحابہ کرام کے خلاف بھی کار فرما رہے، اس انتہا پسند جنونی طبقے نے اپنی من پسند، خود ساختہ اور ذاتی اسلام کی تشریح کو امت مسلمہ پر زور زبردستی اور جبراً مسلط کرنے کی کوشش کی۔ ہم اس تکفیری فتنے کی کھل کر ہر جگہ پرزور مذمت کرتے ہیں، اس فتنے کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اسی وجہ سے تکفیری دہشتگرد عناصر کی جانب سے ہمیں کئی بار دھمکیاں بھی مل چکی ہیں، لیکن ہم اسلام و مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بننے والی ایسی کسی بھی فکر و فتنے کے خلاف اپنی آواز مسلسل بلند کرتے رہیں گے، اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے انتہا پسند و دہشتگرد جنونی عناصر کے خلاف علم جہاد بلند کئے رہیں گے، جو ظلم و ستم اور دہشتگردی و بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فتنہ تکفیر کا سدباب کیسے ممکن ہے۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری مذہبی طبقے پر عائد ہوتی ہے، خصوصاً ہمارے علمائے کرام اور مشائخ عظام کو محراب و خانقاہوں سے باہر نکل کر تکفیری فتنے کے سدباب کیلئے رسم شبیری ادا کرنی ہوگی، رسم شبیری ادا کئے بغیر تکفیری فتنے کا سدباب ممکن نہیں ہے، علمائے کرام و مشائخ عظام کو میدان عمل میں وارد ہو کر علم حق بلند کرنا ہوگا، اسلام و شریعت کی رو سے جو بات حق اور سچ ہوگی اسے کہنا پڑے گا، اگر مذہبی طبقہ کسی مصلحت کا شکار ہوا، کسی خوف کا شکار ہوا تو اس کا خمیازہ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ علمائے کرام و مشائخ عظام کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری ارباب علم و دانش یعنی دانشور و معلم طبقے پر بھی یکساں عائد ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا دہشتگرد گروہ داعش کی دہشتگردی، ظلم و بربریت اور تشدد آمیز نظریات کو اسلام سے جوڑا جا سکتا ہے۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
قطعاً نہیں۔ آپ قرآن و سنت و حدیث کا جائزہ لیں، آپ کو کہیں بھی کسی مظلوم پر ظلم کرنے کا حکم یا مثال نظر آتی ہے، آپ رسول اکرم (ص) کی حیات طیبہ پر نگاہ کریں، کیا آپ فتح مکہ کے وہ دن بھول جاتے ہیں کہ جب ہمارے آقا (ص) فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں، تو آپ اچانک فرماتے ہیں کہ راستہ بدل دو، صحابہ کرام کہتے ہیں کہ یارسول اللہ (ص) خیر تو ہے، آج تو ہم فاتح ہیں، آج ہمارا جو دل چاہے گا، اس راستے سے جائیں گے، آج ہمیں روکنے والا کون ہے۔ آقا کریم (ص) نے فرمایا کہ وہ دیکھو، سامنے ایک کتیا اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، مبادا ہم وہاں سے گزریں تو وہ کتیا گھبرا کر بچے کو دودھ پلانا چھوڑ کر وہاں سے ہٹ جائے، تو میں نہیں چاہتا کہ دودھ پیتے بچے کو تکلیف ہو، اس کا حرج ہو۔ اب بتایئے کہ ہمارے آقا کریم کا دین ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم بے گناہوں کی گردنیں کاٹیں، ذبح کریں، لوگوں کو رسیوں سے باندھ کر انہیں آگ لگا دیں، لوگوں کے جسموں کو ٹینک تلے کچل دیں، یہ کون سا دین ہے، یہ کون سا اسلام ہے، ہمارے پیارے آقا تو تمام عالمین کیلئے رحمت بن کر آئے، دین اسلام تو دین رحمت ہے، اس کی کوئی بھی غلط تشریح کرکے دہشتگرد و بربریت پھیلانے والی داعش ہو یا اس جیسے دیگر دہشتگرد گروہ، ان کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے، یہ دشمنان اسلام کے آلہ کار ہیں۔ داعش کو اسلام کے نام پر اس لئے تشکیل دیا گیا ہے، تاکہ ہر شخص اسلام سے متنفر ہو، اسلام سے خوف محسوس کرے، اسلام سے خائف ہو، اسلام کیلئے نفرت بڑھے، مسلمانوں سے دور بھاگے۔

اسلام ٹائمز: داعش و ایسی دیگر دہشتگرد تکفیری تنظیمیں مسلمانوں کو دہشتگردی کے ذریعے کمزور کرکے مسئلہ فلسطین پر سے توجہ ہٹانے کی سازشیں کر رہی ہیں، کیا کہیں گے۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
داعش اور اس جیسے دیگر دہشتگرد گروہوں نے عالم اسلام میں دہشتگردی و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، ایک کے بعد سے اسلامی ممالک تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں، امت مسلمہ کو اپنی دہشتگرد کارروائیوں سے نشانہ بنانے والی داعش و دیگر دہشتگرد تنظیمیں اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کرتی نظر آتی ہیں، داعش و دیگر دہشتگرد گروہوں نے آج تک کسی اسرائیلی کو نشانہ نہیں بنایا، لیکن اگر نشانہ بنایا ہو تو صرف اور صرف مسلمانوں کو۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ داعش نے مسلم ممالک کو اپنی دہشتگرد کارروائیوں سے کمزور کیا ہے، جس کا فائدہ اسرائیل و دیگر دشمنان اسلام قوتوں کو ہوا ہے، مسلم ممالک کی کمزوری کے سبب مسلمانوں کی توجہ کافی حد مسئلہ فلسطین سے ہٹ گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل فلسطین اور بیت المقدس کو یہودیانے کی ناپاک سازش کر رہا ہے، اور تاریخ میں پہلی بار عالم مغرب میں اسرائیل پر شدید کھلی تنقید کی جا رہی ہے، مغربی این جی اوز بھی ان اسرائیلی مظالم کیخلاف آواز بلند کر رہی ہیں، اس موقع پر مسلم امہ کو کیا کردار ادا کرنا چاہیئے۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
عالمی سطح پر اسرائیلی کا مکروہ چہرہ اور گھناؤنی سازشیں بے نقاب ہوکر کھل کر سامنے آچکی ہے، اسرائیلی حکومت ایک جابر اور غاضب حکومت ہے، جو مقدس سرزمین فلسطین پر ناجائز طور پر قابض ہے، جس کے دوام کیلئے وہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں سمیت مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس صہیونی اسرائیل کے مقابلہ چھوٹے چھوٹے بچے غلیلوں سے کر رہے ہیں، اپنے حق کیلئے ننھے ننھے ہاتھوں سے کنکریاں اسرائیلی غاضب فوجیوں پر پھینک رہے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کیلئے عالم اسلام کو تیل کی طاقت کو استعمال کرنا چاہئے، پھر اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو اس سب سے بڑی تیل کی طاقت کے ذریعے ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں، اور فلسطین کی آزادی مہینوں کی نہیں بلکہ دنوں میں ممکن ہو جائے گی۔ لیکن امت مسلمہ اس کیلئے پوری امت مسلمہ بنے تو، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں امت مسلمہ بن نہیں پائے، آپ کے گھر میں آگ لگی ہے تو لگی رہے، میرے گھر میں تو نہیں لگی، مجھے کیا غرض کہ اگر آپ کے گھر میں آگ لگ ہوئی ہے۔ لہٰذا جب تک ہم پاکستان کی تکلیف کو پوری امت مسلمہ کی تکلیف نہیں سمجھیں گے تو بات نہیں بنے گی، جب تک ہم ایران کی تکلیف کو پوری امت مسلمہ کی تکلیف نہیں سمجھیں گے تو بات نہیں بنے گی، جب تک ہم سعودیہ کی تکلیف کو پوری امت مسلمہ کی تکلیف نہیں سمجھیں گے تو بات نہیں بنے گی، اسی طرح جب تک ہم فلسطین کو حقیقی معنوں میں اپنے جسم کا حصہ نہیں سمجھیں گے، اپنا وجود تسلیم نہیں کرینگے، اس کی تکلیف کو اپنی تکلیف نہیں تسلیم کرینگے، مسئلہ فلسطین اس وقت تک حل نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ضروری نہیں ہے کہ مسلم ممالک امریکا سے ناتا توڑ کر آپس کے تعلقات اور اتحاد و وحدت کی فضاء کو بہتر بنائیں۔؟
پیرزادہ سید محمد اظہر علی شاہ ہمدانی:
یہ تو قرآن پاک کا واضح حکم ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، تفرقے میں نہ پڑو۔ معذرت کے ساتھ بجائے اتحاد و وحدت کے ہم تو اس چکر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ یہ اہل حدیث ہے، یہ دیوبندی ہے، یہ بریلوی ہے، یہ اہل تشیع ہے، یہ حنفی ہے، یہ مالکی ہے وغیرہ۔ ہم تو چکر کا شکار ہوگئے ہیں، جب تک امت مسلمہ اتحاد و وحدت کا روپ نہیں دھارے گی، جب تک مسلمانان عالم متحد نہیں ہونگے، جب تک اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر تفرقہ کا خاتمہ نہیں کرینگے، تب تک ہم ایک قوت و طاقت نہیں بن سکتے، لہٰذا اتحاد بین المسلمین میں ہی ہماری بقا و سلامتی ہے، ہمارا فائدہ ہے، ہمارے تمام چھوٹے بڑے مسائل کا حل ہے اور اتحاد بین المسلمین اس وقت ممکن ہے کہ جب ہم انفرادی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینگے، اجتماعی مفادات کو مقدم رکھیں گے، کیونکہ جب جب ہم نے اپنے اپنے انفرادی فوائد کو فوقیت دی ہے اور اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈالا ہے، امت مسلمہ کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
خبر کا کوڈ : 538650
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش