0
Tuesday 17 May 2016 13:58
مطالبات کی منظوری اور تحفظات دور ہونے تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی

قومی غیرت و حمّیت کا تقاضا ہے کہ ملت کے قتل عام پر باہر نکلا جائے، علامہ سید حسن ظفر نقوی

یہ آخری آواز ہے، حسین علیہ السلام کیلئے نکلو اور انکے ماننے والوں کی قتل و غارت گری پر نکلو
قومی غیرت و حمّیت کا تقاضا ہے کہ ملت کے قتل عام پر باہر نکلا جائے، علامہ سید حسن ظفر نقوی
علامہ سید حسن ظفر نقوی کا تعلق شہر کراچی سے ہے۔ وہ ایران کی مقدس سرزمین قم المقدس کے فارغ التحصیل ہیں، دنیا بھر میں انقلابی مجالس پڑھنے کے حوالے سے مشہور ہیں، کراچی سے خصوصی طور پر علامہ ناصر عباس جعفری کا ساتھ دینے کیلئے اسلام آباد میں لگائے گئے ہڑتالی کیمپ میں موجود ہیں۔ علامہ حسن ظفر نقوی نے شیعہ نسل کشی کیخلاف لگائے گئے اس کیمپ کو کامیاب بنانے کیلئے شعبان المعظم میں رکھی گئی تمام مجالس اور میلاد کے پروگرامات بھی منسوخ کر دیئے ہیں اور بانیان سے معذرت کرلی ہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے بھوک ہڑتالی کیمپ اور اس پر اٹھانے جانے والے سوالات پر ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: دھرنے میں آپ بھی آکر شریک ہوگئے ہیں، لیکن کچھ احباب اس بھوک ہڑتال کو غیر شرعی کہہ رہے ہیں، وضاحتیں مانگ رہے ہیں۔ اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
میں اس سلسلے میں دو چار باتیں کروں گا، اس کے بعد جو لوگوں کا ضمیر فیصلہ کرے اس پر عمل کریں۔ پہلی بات یہ ہے کہ حکمران کیا چاہتے ہیں؟، چور ڈاکو کیا چاہتے ہیں؟، یہ آفشور کمپنیاں بنانے والے، اپنی اولادوں کو سونے میں تولنے والے کیا چاہتے ہیں؟، ان کے پالتو دہشتگرد کیا چاہتے ہیں، یہ مودی کے نوکر، امریکا اور آل سود کے نوکر کیا چاہتے ہیں اور ہم کیا چاہتے ہیں؟، یہ بات سمجھنے کی بات ہے، یہ غیر ضروری سوال کیا جا رہا ہے، اس کی وضاحت دینا چاہتا ہوں۔ میرے بھائی وضاحت انہیں نہیں دینا ہوتی جو میدان عمل میں ہوتے ہیں، وضاحت اسے دینا ہوتی ہے جو گھروں میں بیٹھے ہیں، ہمیں وضاحت دینے کی کوئی ضروری نہیں ہے، ہم اپنے مومنین کیلئے یہاں بیٹھے ہیں، ہم ان بیواوں کیلئے، ان یتیم بچوں کیلئے یہاں بیٹھے ہیں، جن کے والدین کو بےگناہ قتل کر دیا گیا، یہ یتیم بچے اور بیوائیں ہم سب سے پوچھ رہی ہیں کہ کراچی سے لیکر پاراچنار اور گلگت بلتستان تک ان کیلئے آواز اٹھانے والا کون ہے۔؟ ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور میں پروفیشنلز کو قتل کر دیا جاتا ہے، پاراچنار میں ایف سی جشن امام حسین علیہ السلام منانے والوں کو قتل کرکے کہتی ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کو مار دیا ہے، بعد میں لوگوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم قبول کرو کہ پہلے ہم نے ایف سی پر فائرنگ کی تھی۔ لہٰذا ان مظلوموں کی خاطر اٹھنے والوں سے وضاحت مانگی جا رہی ہے، وضاحت ان سے مانگو جو ان واقعات پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وضاحت ان سے مانگی جائے کہ اگر یہ نہ کیا جائے تو کیا جائے۔؟ وضاحت ہمیں نہیں انہیں دینا ہوگی جو گھروں میں بیٹھ کر وضاحتیں مانگ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پوسٹیں کرکے کہتے ہیں کہ ہم بھی اپنا شرعی وظیفہ ادا کر رہے ہیں۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
میرے بھائی تحریکیں مسیجز پر نہیں چلتیں، تحریکیں سوشل میڈیا پر نہیں چلتیں، تحریکیں خون مانگتی ہیں اور تحریکیں عوام کو میدان عمل میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہاں پر کتنے لوگ بیٹھیں، دو چار آٹھ دس بارہ، بس اسی پر مذاق اڑایا جائیگا،؟ اکیلا علامہ ناصر عباس کیمپ لگا کر بیٹھا تھا ناں، 70 بھی ہوجائیں گے اور 72 بھی ہوجائیں۔ میں کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہ آئے، ہم اپنی تکلیف شرعی ادا کرنے کے پابند ہیں نتیجے کے نہیں، ہم اپنا وظیفہ ادا کر رہے ہیں، ہم یتیموں، بیواوں اور بچوں کی فریادوں کا جواب دے رہے ہیں، ہم اُن بوڑھوں کے سامنے سرخرو ہیں جن کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا گیا۔

اسلام ٹائمز: اس قتل غارت گری کیخلاف کب تک بیٹھیں گے۔ اس معاملے پر ریاست کیوں خاموش ہے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
دیکھیں، ہمیں مارا جا رہا ہے، ہر سطح پر مارا جا رہا ہے، ریاست کی سرپرستی میں مارا جا رہا ہے، پہلے یہ اعتراض تھا کہ کچھ نہیں کرتے، اب کیا جاتا ہے تو اعتراض کیسا؟، میں مومنین سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ جہاں بھی ہوں، جس ملک میں ہوں، ہماری آواز آپ تک پہنچ رہی ہے اور ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوں گے، یہاں سے جانے والے نہیں ہیں، بھلے کوئی بھی ساتھ نہ دے۔ ناصر ملت نے آواز دے کر قوم کو نہیں بلایا بلکہ عمل کر میدان میں خود قدم رکھا ہے، ہم اپنی مرضی سے آئے ہیں، انہوں نے ہمیں نہیں بلایا کہ آپ آو اور میرا ساتھ دو۔ اب یہ مولوی کو سوچنا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ یہ (علامہ ناصر عباس) اپنا وظیفہ ادا کر رہا ہے، اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ، آپ بتائیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ آپ کو سوچنا چاہیئے کہ آپ کا شرعی وظیفہ کیا ہے، آپ نے اپنے شہروں میں کیا کرنا ہے، اس پر سوچیئے۔؟

اسلام ٹائمز: اس احتجاج میں تحریک انصاف پر سب زیادہ تنقید کی جا رہی ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
دیکھیں، پشاور میں کئی پروفیشنلز کو قتل کر دیا گیا، ایک پروفیسر کو دن دیہاڑے مار دیا گیا، گھنٹوں اس کی لاش پڑ رہی، اٹھانے والا کوئی نہیں تھا، گھر والے آکر لاش اٹھا کر لے گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں چار پروفیشنلز کو ایک ہی دن مار دیا گیا، لیکن انصاف انصاف کرنے والی جماعت نے مذمت تک نہیں کی، ڈیرہ اسماعیل خان شہداء کے خانوادوں کے پاس جاکر تعزیت کرنا تو دور کی بات ہے، کسی شہید کے گھر تک نہیں گئے، کسی کی اشک شوئی تک نہیں کی۔ یہ عمران خان جو سارا دن انصاف کی بات کرتا ہے، لیکن اپنے ہی صوبے میں لوگ فرقہ یا مخصوص مکتب سے تعلق ہونے کی وجہ سے مارے جا رہے ہیں اور انہیں پتہ تک نہیں۔ چار مہینے اس کا وزیراعلٰی کینٹیر پر ناچتا رہا اور نچاتا رہا، اس نے تعزیت کے دو جملے تک نہیں کہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شہید کی بیوہ پکار رہی ہے، جس کے جنازے میں فقط چند لوگ تھے، وہ پکار رہی ہے کہ ان اعتراضات کرنے والوں کو کہ اس کی مدد کو آو۔ اگر ہم صحیح نہیں کر رہے تو تم نکلو سڑکوں پر، تم صحیح کرکے دکھاو۔

اسلام ٹائمز: قوم کے نام کوئی پیغام دینا چاہیئں۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
میری قوم سے اپیل ہے کہ اس آواز کو آگے پھیلایئے، ہم کہتے ہیں کہ آپ بتائیں کہ کیا ہم دہشتگردوں کی طرح دہشتگرد بن جائیں۔؟ ہم بھی اسلحہ اٹھا لیں؟، اپنے اوپر یہ الزامات لے لیں، دھرنے دیئے، مارچ کئے، کیا نہیں کیا، کیا اب اپنے بچوں کو بندوقیں اٹھانے کا درس دیں۔؟ یہاں کے معروضی حالات میں بتائیں کہ کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا کریں۔؟ نکلیں وہ دانشور، بیوروکریٹس، ریٹائرڈ افسران سب نکلیں، کیا ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟، اگر ہم اچھا نہیں کر رہے تو آپ آکر اچھا کیجیے۔ کیا یہ دو چار بندوں کی ذمہ داری ہے؟، سب کی ذمہ داری ہے، شہداء کا خون پکار رہا ہے۔ وہ جن کی لاشیں سڑکوں پر گرا دی گئیں، جنہیں فقط شیعہ ہونے کی وجہ سے مار دیا گیا، بتائیں کیا ان کیلئے آواز نہ اٹھائیں۔؟ پھر بھی ہم غلط ہیں، میں کہتا ہوں کہ کوئی مت آئے، ہم بیٹھے ہیں، ہم مرد ہیں۔ ہم عاشورائی ہیں، ہم جان دینا جانتے ہیں۔ ہم بارگین کرنے والے یا سودے بازی کرنے والے نہیں ہیں، تم مت آنا۔ ہم اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں، یہ فتوے بازی کی دکانیں الگ لے جاو۔

یاد رکھنا، سات سو مفتیوں نے قتل امام حسین علیہ السلام پر فتوے دیئے تھے۔ قرآن مجید کی آیت پڑھی گئی کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو، یہ آیت امام حسین جیسی ہستی کیلئے پڑھی گئی تھی۔ سوچو تم کیا کہہ رہے ہو،، یہ سوچنے کا وقت ہے۔ قومی غیرت و حمّیت کا تقاضا ہے کہ ملت کے قتل عام پر نکلو، نہیں نکلنا مت نکلو، ہماری آواز تاریخ میں محفوظ رہے گی۔ ہم اپنے بچوں کو بزدلی کا درس دیکر اس دنیا سے نہیں جانا چاہتے، لہذا ہماری للکار بھی محفوظ رہے گی۔ ہم اپنے بچوں کو شجاعت کا درس دیکر جانا چاہتے ہیں، انہیں بتا کر جانا چاہتے ہیں کہ غم حسین ؑ منانا مشکل ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل کام یزیدیت سے ٹکرانا ہے۔ ہم اپنی جان ہتھیلی پر لیکر نکلے ہیں، ہمیں دوسروں کے ساتھ مت تولنا۔ اپنی قوم سے آخری بار کہتا ہوں کہ ملت اور شیعت کیلئے نکلو، پھر مت کہنا کسی نے آواز نہیں دی تھی۔ کوئی نہیں آگے بڑھا تھا، یہ آخری آواز ہے۔ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حسین علیہ السلام کیلئے نکلو اور ان کے ماننے والوں کی قتل و غارت گری پر نکلو۔

اسلام ٹائمز: حکمرانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
حکمران بھی سن لیں کہ تمہارا واسطہ دوسرے لوگوں سے پڑا ہے۔ یہ مت سوچنا ہے کہ یہاں دو تین دن کیلئے ڈرامے بازی ہوگی اور پھر چلے جائیں گے، یاد رکھنا ہم ایسے جانے والے نہیں ہیں۔ جب تک تمام مطالبات اور تحفظات دور نہیں ہوتے، ہم یہاں سے جانے والے نہیں ہیں۔ جیسے فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر کو پکڑا جاتا ہے اور پھر بعد میں قتل کر دیا جاتا ہے، اس کیلئے کمیشن بنا دیا جاتا ہے اور رینجرز کے اہلکاروں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، اسی طرح تین شعبان کو پاراچنار کے مظلوموں پر ظلم ڈھانے والوں کو بھی پکڑنا ہوگا۔ ان اہلکاروں کو گرفتار کرنا ہوگا، جنہوں نے لوگوں کے سروں میں گولیاں ماری ہیں۔ ان لوگوں کو سروں میں گولیاں ماری گئیں جو تمہارے حامی تھے، جنہوں نے دہشت گردی کیخلاف تمہیں سپورٹ کیا تھا۔ جنہوں نے آج تک پاکستان کیلئے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا تھا، جس سے پاکستان کی بدنامی ہو۔

جب اقتدار (آرمی) والوں تک بات پہنچائی گئی تو کہا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں، میں پوچھتا ہوں کہ کیسے پتہ نہیں ہے۔ کونسا طریقہ ہے تم تک آواز پہنچانے کا؟ کیسے تم لوگوں کو پتہ چلے گا کہ تمہارے کمانڈنٹ افسر کے حکم پر بےگناہوں کو قتل کر دیا گیا۔؟ کوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے تو آپشریشن شروع ہو جاتا ہے، ایک کام جو نہیں روک سکا، وہ ہماری ٹارگٹ کلنگ نہیں روک سکی۔ حکمران بھی سنیں لیں کہ یہ خون رائیگاں جانے والا نہیں ہے۔ یہ خون نہ پہلے رائیگاں گیا تھا، نہ اب رائیگاں جائیگا۔ تم ہمارے خون میں ڈوب کر غرق ہوگے، تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو یزید کا ہوا، آج تک یزید پر لعنت برس رہی ہے، تم پر بھی برسے گی۔ چند دن بعد تم ہوگے نہ تمہارے تخت ہوں گے، پتہ نہیں تمہاری قبروں کے بھی نشان رہیں گے یا نہیں۔

اسلام ٹائمز: خرم ذکی سول سوسائٹی کا رکن تھا، انکی شہادت پر سول سوسائٹی اس طرح نظر نہیں آئی، جیسے اسے آنا چاہیئے تھا، اس پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ حسن ظفر نقوی:
جی بالکل، میرا بھی ان سے یہی سوال ہے، ہزاروں لاکھوں لوگ سول سوسائٹی کے لئے نکلتے رہے ہیں، لیکن خرم ذکی کیلئے کیوں نہیں نکلے۔؟ وہ بھی تو سول سوسائٹی کا ہی رکن تھا، وہ تو کسی مسلک کی خاطر کھڑا نہیں ہوا تھا، وہ تو سب کیلئے آواز بلند کرتا تھا، اس پر تو مسلک کی چھاپ بھی نہیں تھی، پھر تم کیوں خاموش ہو۔
خبر کا کوڈ : 539093
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش