0
Friday 20 May 2016 12:11

دشمنِ اسلام القاعدہ اور داعش وغیرہ کی شکل میں اسلام کو بدنام کر رہا ہے، مولانا گلزار صدیقی

دشمنِ اسلام القاعدہ اور داعش وغیرہ کی شکل میں اسلام کو بدنام کر رہا ہے، مولانا گلزار صدیقی
مولانا گلزار احمد صدیقی جموں و کشمیر کی ایک مشہور و معروف تنظیم انجمن نصرت الاسلام کے ضلعی صدر ہیں، یہ انجمن 1930ء کی دہائی میں معرض وجود آئی اور اس کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کی بیداری دین کی آبیاری ہے، مولانا گلزار احمد صدیقی ضلعی صدر ہونے کے علاوہ اس تنظیم کے شعبہ تبلیغ کے سربراہ بھی ہیں اور ریاست و بیرون ریاست مختلف تبلیغی پروگرام منعقد کرکے مسلمانوں کے اندر غلط افکار و نظریات کا توڑ اور سدباب کرنے میں اہم کردار نبھائے ہوئے ہیں، وہ پیر دستگیر صاحب سرائے بالا سرینگر میں امام جمعہ کے فرائض انجام دیتے ہیں اور اتحاد اسلامی کے حوالے سے وادی بھر میں اپنی تبلیغی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا گلزار صدیقی سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر میڈیا جو انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے اور مسلمانوں کو جو صورتحال درپیش ہے، اس انتشار اور صورتحال کے متعلق جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں میں بہت سارے فرقے ہیں اور دشمن سازشوں کے تحت ایک مسلک فکر کے ذریعے دوسرے مسلک کو کافر کہلواتے ہیں اور ان کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں جبکہ حضور اکرم (ص) نے بہت سارے احدیث میں واضح الفاظ میں فرمایا کہ ”جو مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہے گا تو وہ خود کفر کے قریب ہوتا جا رہا ہے“، تو ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کے سامنے ایسے مسائل رکھیں جائیں، جن سے آپسی اتحاد کو پروان چڑھایا جاسکے، آج مسلمانوں کی مساجد پر جتنے بھی خودکش حملے ہوتے ہیں تو وہ خودکش حملہ کرنے والا تو ظاہری طور مسلمان ہی ہوتا ہے اور کلمہ گو ہوتا ہے کیونکہ مسجد میں تو کوئی کافر جائے گا ہی نہیں، تو ہماری ان تبلیغاتی کاوشوں کے ذریعے ہماری توجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام کو ہم ان تمام باتوں سے باخبر کریں کہ کس طرح عالمی میڈیا جو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے، مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالتا ہے اور مسلمانوں اور اسلام کی شبیہ بگاڑ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ جو اسلام دشمن طاقتیں یا ایجنسیاں ہوتی ہیں وہ مسلمانوں کو ہی آلہ کار بناتی ہیں اور آپس میں لڑواتی ہیں، کیا اغراض و مقاصد ہیں دشمنوں کے، وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے مسلمانوں کو ہی آلہ کار کے طور پر تیار کر رہے ہیں، خاص طور پر علماء یا مفتی کہیں گے، وہ ہی آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں، اس پر آپکی تشویش کیا ہے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
اصل وجہ ہے کہ حضور اکرم (ص) کے دور میں اور ان کے رحلت کے بعد بھی جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا تو جتنے بھی دوسرے مذاہب کے لوگ تھے چاہے، وہ یہودی ہوں یا نصاریٰ ہوں، وہ اسلام کی اس ترقی سے گھبرا گئے اور اسلام کی بیخ کنی کرنے کے لئے مختلف سازشیں کرنے لگے، تاریخ میں ایسا واقعہ بھی رونما ہوا ہے کہ دشمن اسلام کی جانب سے حضور (ص) کے روضہ مبارک سے ان کا جسد مبارک چُرانے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کا رشتہ نبی پاک (ص) کے ساتھ مستحکم ہوتا رہے گا، تب تک مسلمانوں کو ہرانا یا کمزور کرنا مشکل بات ہے، جب تک مسلمانوں کے ساتھ نبی (ص) کا دکھایا گیا راستہ اور امام حسین (ع) کا طرز عمل ہے، تب تک مسلمانوں پر فتح حاصل کرنا مشکل ہے، اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ انہی کے ایجنٹ مختلف بھیسوں میں سامنے آئیں، چاہے وہ القاعدہ یا داعش کے روپ میں آئیں، اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کریں اور وہ یہ کام اپنے زر خرید علماء اور کرایہ کے مفتیوں سے کراتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں ابھی جو جہاد کے نام پر ہو رہا ہے اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام جاری ہے، مختلف دہشتگرد جماعتیں و تنظیمیں مختلف ناموں سے وجود میں آرہی ہیں، اس بارے میں آپکی رائے کیا ہے، کیا یہ واقعی جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
حضور پاک (ص) نے اپنی احادیث میں خارجیوں کی نشاندہی کی ہے کہ خارجی کون لوگ ہونگے اور ان کہ پہچان بھی بتائی ہے، انھوں نے فرمایا کہ خارجیوں کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ کم سن ہونگے، وہ گھنی داڑھی رکھنے والے ہونگے، وہ حرمین شریف سے نکلیں گے، حجاز سے نکلیں گے، حجاز جس کا نام تبدیل کرکے آج ریاض رکھا گیا ہے، تو اس حدیث مبارک سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج جو خارجی نکل کر آرہے ہیں، چاہے القاعدہ ہو یا داعش کی شکل میں، ان کے بارے میں پہلے سے ہی واضح الفاظ میں بیان ہوچکا ہے کہ بظاہر تو وہ اچھی اچھی باتیں کرتے ہونگے، لیکن کردار کے لحاظ سے وہ بڑے ظالم اور خون خوار لوگ ہونگے، وہ تمام مخلوق میں سے بدترین لوگ ہونگے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہائیں گے، مسلمانوں کا قتل عام کریں گے اور بت پرستوں کو دوست بنائیں گے اور آخر پر نبی کریم (ص) نے فرمایا کہ یہ لوگ جہنم کے کُتے ہونگے، یہ لوگ اسلام کا نام خراب کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور ان لوگوں کو وسائل اسلام دشمن طاقتیں فراہم کر رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: دیکھنے میں آیا ہے کہ بعد از نماز جمعہ پوری وادی میں خاص طور پر سرینگر میں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں اور مظاہروں کے دوران داعش کے جھنڈے بھی لہرائے جاتے ہیں، کیا کشمیر میں داعش کا عمل دخل ہے، کیا داعش کشمیر میں داخل ہوچکی ہے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
یہ ریاستی حکومت بھی جانتی ہے اور ہندوستانی حکومت بھی کہ کشمیر میں کوئی آئی ایس آئی ایس نہیں ہے، ابھی یہاں داعش کے لوگ داخل نہیں ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی ہر جمعہ کے دن داعش کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں تو اس کے پیچھے کون سی لابی کام کر رہی ہے، چونکہ میں ایک دیہات میں رہتا ہوں اور جمعہ کے روز گاؤں سے نوجوان جاتے ہیں اور میں بنا تردد کے یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو نوجوان داعش کے جھنڈے لہراتے ہیں، ان کو اس کام کے لئے باضابطہ پیسے دیئے جاتے ہیں، یہ فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے، یہ دیکھنا ضروری ہے، کیوں حکومت اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہے، مجھ جیسے سیدھے سادھے آدمی کو جب یہ پتہ ہے کہ ان بچوں کو فنڈنگ ہو رہی ہے، داعش کے جھنڈے لہرانے کے لئے اور سنگ باری کرنے کے لئے تو کیا یہاں کی حکومت اتنی ناکارہ اور نکمی ہے کہ ان کو پتہ نہیں ہے کہ فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے یا یہ جان بوجھ کر اس چیز کو پس پردہ رکھنا چاہتی ہے، چونکہ ابھی امت مسلمہ بہت پیچیدہ دور اور خطرے سے گزر رہی ہے تو اس وقت ہمیں گھروں کے بجائے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور رسم شبیری ادا کرنے کی ضرروت ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ متواتر حدیث ہے کہ خارجیوں کی یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں، پھر بھی مسلم رہنما انکی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کیوں نہیں کرتے ہیں۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
دیکھئے، مسلمان صرف آج ہی اس دھوکہ میں نہیں آئے ہیں بلکہ پہلے بھی ایسا ہوا ہے، مسلمان تو دھوکہ کے شکار ہوتے رہے ہیں، کبھی جنگ جمل کے دھوکے میں تو کبھی صفین میں، لیکن ابھی اس دور میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور خاص طور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف نماز پڑھنے کی صورت میں کسی کو مسلمان تصور نہ کریں، کیونکہ نماز یزید بھی پڑھتا تھا اور امام حسین (ع) کو شہید بھی اسی نے کیا اور آج دیکھا بھی جا رہا ہے کہ کچھ لوگ یزید کو علیہ رحمہ بھی کہتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے اس وقت علماء کو سوچنا پڑے گا کہ ہمیں محمدی (ص) اور حسینی (ع) بننا ہے اور اس اعتبار سے خود کو باقی تمام چیزوں سے الگ کرنا اور ایک رشتہ قائم کرنا ہے جناب محمد مصطفٰے (ص) سے۔ اب آپ کا یہ سوال کہ کیوں ایسے عناصر کے خلاف پردہ نہیں اٹھایا جاتا ہے تو اس وقت یہاں بالخصوص کشمیر میں جتنی بھی بڑی بڑی درگاہیں ہیں، وہ حکومت کے زیر کنٹرول آتی ہیں اور وقف بورڈ کا سربراہ ہمیشہ ریاست کا وزیراعلٰی ہوتا ہے اور باقی جتنے بھی علماء ہیں، وہ سرکاری ملازم ہیں، وہ ہر لحاظ سے چاہتے ہیں کہ ان کے اپنے کارندے ان تمام عہدوں پر فائز رہیں، جہاں سے کوئی بھی آواز اٹھنے کا خطرہ رہتا ہے، اس لئے وہ علماء حق کو چھپاتے ہیں، ابھی یہاں جو عسکری کارروائیاں چل رہی ہیں، اس میں بہت سارے حق پرست علماء کا خون بھی بہایا گیا اور ان علماء کو شہید کیا گیا، اس لحاظ سے بھی بہت سارے علماء بے باکی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے ہیں، اگر کوئی آواز اٹھاتا بھی ہے تو دوسرے مکاتب فکر کے لوگ اس کو سپورٹ نہیں کرتے ہیں، اگر ان علماء کو تمام لوگوں کی طرف سے سپورٹ ملتی تو وہ ضرور حق بولتے، الحمدللہ آج بھی ایسے حق پرست علماء ہیں، جو نڈر ہو کر ظلم اور ظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور حق بات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال پر ایک اہم سوال ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ اتحاد اسلامی کی کتنی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
اتحاد اسلامی کی اس وقت بہت ضرورت ہے اور اتحاد اسلامی تبھی قائم ہوگا جب ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کریں گے، بھروسہ اس لحاظ سے کہ ایک دوسرے کے مساجد میں جتنے بھی پروگرام ہوتے ہیں ان میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو شامل کیا جائے، مثال کے طور پر ہمارے یہاں میلاد کانفرنس ہوتی ہے تو ہمیں چاہئے کہ یہاں جتنے بھی شیعہ کیمونٹی کے لوگ ہیں یا دوسرے مکاتب فکر کے لوگ ہیں، ان کو بلائیں، اتحاد اسلامی کی پہلی کڑی مختلف مکاتب فکر کے علماء کا آپس میں اتحاد ہے، کیونکہ جب علماء کا اتحاد ہوگا، تب جاکر ان علماء کے ماننے والے آپس میں اتحاد کریں گے، میں ذاتی طور پر ہر جگہ اس بات کی کوشش کرتا ہوں کہ لوگ آپس کے فروعی اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجائیں۔

اسلام ٹائمز: یمن میں پچھلے دو سال سے وہاں کی عوام پسی جا رہی ہے اور قتل و غارت گری جاری ہے، بظاہر وہی بات کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہی مسلمان مارے جا رہے ہیں، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
یہ بالکل افسوس ناک بات ہے کہ اس وقت امت مسلمہ سنگین مسائل سے گزر رہی ہے، جیسا میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ یہ جو مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہے ہیں، ان کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ وہ خارجی ہیں، یہ دین سے ایسے خارج ہوچکے ہیں جیسے تیر کمان سے، یہ لوگ ان آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کر رہے ہیں، جو غیر مسلموں کے لئے نازل ہوئی تھیں۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو کافر، مشرک و گمراہ قرار دیتے ہیں اور مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کا ناجائز قتل کرسکیں اور قتل کرنے کے بعد بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کا قتل کرنا ثواب کا کام ہے، جبکہ رسول نازنین (ص) نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ کسی بھی کلمہ پڑھنے والے کو، ایک خدا پر ایمان رکھنے والے کو آپ کافر نہیں کہہ سکتے بلکہ جو کافر کہے وہ خود کفر کے نزدیک ہے، ابھی جو کچھ یمن میں ہو رہا ہے تو انسان ان مظالم کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا کہ ان کا مذہب کیا ہے، کیا یہ واقعی مسلمان ہیں، جو ایک مسلمان بھائی کا خون اتنی بے دردی سے بہا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ابھی فلسطین جو مسلمانوں کا ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور قبلہ اول کی بازیابی کی اگر بات کریں تو اس پر اگر ہم متحد نہیں ہو رہے ہیں اور اپنی الگ الگ راہیں اختیار کی ہوئی ہیں، اس حساس مسئلہ کے بارے میں آپکی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
دیکھئے، اس مسئلہ کی طرف ذاتی طور پر ہر کوئی آواز اٹھا رہا ہے کہ قبلہ اول کی بازیابی ہو، فلسطین میں جاری ظلم ختم ہو اور مسجد الاقصٰی میں پھر سے مسلمان نماز قائم کرسکیں۔ انفرادی طور پر ہر کوئی یہ آواز اٹھا رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں اس حساس مسئلہ کو پس پشت ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اس میں ایک بڑی رکاوٹ آئی ایس آئی ایس ہے، جو مسلمانوں کو اس پر جمع نہیں ہونے دے رہا ہے اور جب کبھی بھی اس حوالے سے بات کی جاتی ہے تو اس شدت پسند جماعت کی وحشیانہ مظالم کی داستانیں سامنے لائی جاتی ہیں، ہر ایک مسلمان چاہتا ہے کہ مسجد الاقصٰی آزاد ہو اور عالمی طاقتوں کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا سکتا تھا کہ یہ قبلہ اول مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے، لیکن بیچ میں آئی ایس آئی ایس رکاوٹ بن کر ابھر آیا، حتیٰ کہ ابھی تک اس تنظیم کی جانب سے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف کوئی بیان بھی نہیں آیا ہے اور یہاں جو اُن کے ایجنٹس ہیں، جنہیں سلف کہتے ہیں، وہ اسلام کی غلط انٹرپرٹیشن کرکے اسلام کو ساری دنیا میں بدنام کر رہے ہیں اور دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں ابھی فوجی کالونی یا سینک کالونی کے قیام کی باتیں کی جا رہی ہیں اور اس حوالے سے آپکا نظریہ اور تشویش کیا ہے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت کی جو ریاستی حکومت ہے تو انھیں اس بارے میں بیدار اور ہوشیار رہنا چاہئے کہ کشمیر کو دوسرا فلسطین نہ بننے دیں اور اس طرح کے اقدام کی اجازت نہ دیں اور اس چیز کی طرف بھرپور توجہ دیں کہ 1947ء سے ہی یہاں فوج رہ رہی ہے، ابھی تک فوجی کالونی کی ضرورت نہیں پڑی، ابھی اچانک کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس مخلوط حکومت کے عزائم بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں، کشمیر کے حوالے سے اور جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے کشمیر میں قتل غارتگری اور یا جو بیرون ریاست طلاب یا تاجر ہیں، ان کو حراست میں لینے کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے آپکی رائے اور عزائم کیا ہیں، بظاہر آر ایس ایس کے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا گلزار احمد صدیقی:
دیکھئے میں آپ کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو مسلمان ہیں، چاہے وہ کشمیر کا ہو یا ہندوستان کے کسی بھی ریاست سے تعلق رکھتا ہو، اس کو ہندوستان میں شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مسلمان ہندوستان کے دشمن ہیں، جبکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ آج تک ہندوستان میں سب سے زیادہ قربانی مسلمانوں نے ہی دی، حتیٰ کہ تحریک آزادی ہندوستان میں بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا ہے۔ اس وقت جو طریقہ کار آر ایس ایس، بجرنگ دل اور شیو سینا ادا کر رہے ہیں یا ان کی جو کومینل اکٹوٹیز ہو رہی ہیں، وہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے خلاف جا رہی ہیں۔ آج ہمارا کوئی بھی بچہ جو بیرون ریاست پڑھ رہا ہے محفوظ نہیں، وہ وہاں نماز پڑھنے سے ڈرتے ہیں، اگر پڑھ بھی لیتے ہیں تو ذہنی اور جسمانی ٹارچر کیا جاتا ہے اور ان تمام کارروائیوں میں آر ایس ایس، شیو سینا اور بجرنگ دل کے کارندے شامل ہوتے ہیں تو اس حوالے سے ریاست جموں و کشمیر میں ایسے عناصر دھیرے دھیرے اپنی جڑیں مظبوط کر رہے ہیں، جو ایک تشویش ناک بات ہے۔
خبر کا کوڈ : 539489
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش