2
0
Tuesday 24 May 2016 10:29
پولیس اور انتظامیہ بے بس ہے یا پھر یرغمال ہیں

ہمیں شیعہ ہونیکے جرم میں قتل کیا جا رہا ہے، سید خادم حسین شاہ زیدی

ہمارے خاندان کے 30 افراد شہید ہوچکے ہیں
ہمیں شیعہ ہونیکے جرم میں قتل کیا جا رہا ہے، سید خادم حسین شاہ زیدی
سید خادم حسین شاہ زیدی ڈیرہ اسماعیل خان میں چند روز قبل شہید ہونے والے سید علی مرتجز شاہ زیدی ایڈووکیٹ کے والد گرامی ہیں۔ شہید سید علی مرتجز شاہ کو پانچ مئی کے روز بندھن شادی ہال، سرکلر روڈ پر دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا۔ شہید کے والد گرامی کی عمر ساٹھ سال ہے اور محکمہ ایری گیشن سے ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔ وہ ایک شہید کے والد ہیں، ایک شہید کے داماد ہیں، اور کئی شہداء کے چچا، کزن، و قریبی عزیز ہیں۔ سید خادم حسین شاہ زیدی ڈی آئی خان کی اس چنیدہ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں سب سے زیادہ شہداء رکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساٹھ سال کی عمر میں آپ کو اکلوتے جوان بیٹے کا جنازہ اٹھانا پڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہی عمر ہے کہ جس میں جوان اولاد والدین کا سہارا بنتی ہے، مگر سید خادم حسین شاہ زیدی کو اس عمر میں اپنے تیس سالہ کڑیل جوان بیٹے کا جنازہ اٹھانا پڑا ہے۔ ان کے حوصلوں و جذبوں کو ہمارا سلام، ادارہ ان کی خدمت میں ہدیہ تبیریک پیش کرتا ہے۔ ادارہ نے شہید کے والد کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ اس ملاقات میں ہونیوالی گفتگو انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ (اس ملاقات اور گفتگو میں سید توقیر حسین زیدی جو کہ شہید کے کزن اور معروف صحافی ہیں، موجود تھے، ان کے تعاون کے بھی مشکور ہیں۔)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپ شہید کی فیملی کے بارے میں بتائیں۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
میں محکمہ ایری گیشن سے ریٹائرڈ تحصیلدار ہوں۔ شہید علی مرتجز کی والدہ یعنی میری خانم ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں۔ ہماری کل متاع دو بیٹیاں اور ایک بیٹا (شہید) تھا۔ میرے تینوں بچے شادی شدہ ہیں۔ بڑی بیٹی ایک شہید کی بیوہ ہے، اُس کا شوہر سید ساغر علی زیدی (سرکاری ملازم ڈرافٹمین) زیدی فیملی پر 19-08-2008 کو سول ہسپتال خودکش بلاسٹ میں شہید ہوگئے اور اس کے تین بچے ہیں، جن میں 1 بڑی بیٹی جو کہ میڑک کی طالبہ ہیں اور 2 بیٹے عدیل عباس عمر تقربیاً 10 سال اور دوسرا بیٹا سید قائم عباس زیدی عمر 5 سال ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید کے بچپن اور تعلیمی سفر کے بارے میں کچھ بتائیں۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
سید علی مرتجز 1983ء کو پیدا ہوئے۔ شہید کا پورا نام سید علی مرتجز زیدی تھا۔ پیار سے تمام عزیز و اقارب علی پکارتے تھے۔ شہید کا نام ان کے دادا سید نذر حسین شاہ زیدی نے رکھا تھا۔ شہید کے دادا ڈیرہ اسماعیل خان کے نامی گرامی ذاکر اہلبیت (ع) تھے اور بہت دین دار خوش مزاج طبیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ہی شہید کا نام علی مرتجز رکھا تھا۔ شہید نے ابتدائی تعلیم میٹرک تک ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور و معروف سکول (فادر سکول) سے حاصل کی 1998ء میں میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج نمبر1 سے 2000ء میں کی، بی ایس سی 2003ء میں، ایم ایس سی متھمیٹکس گومل یونیورسٹی سے 2005ء اور ایل ایل بی لاء کی ڈگری 2008ء میں حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر وکالت کا پیشہ اپنایا اور اپنے ماموں و معروف قانون دان (سپریم کورٹ) سید مستان علی زیدی کے ساتھ باقاعدہ وکالت کا کام شروع کیا۔ شہید کی شادی 2010ء میں اپنے ہی خاندان میں معروف قانون دان سید مستان علی زیدی ایڈووکیٹ کی بیٹی سے ہوئی۔ شہید علی مرتجز کے دو بچے ہیں ایک بیٹا سید غیاث حیدر زیدی عمر 4 سال اور ایک بیٹی سیدہ سفینہ زہرا زیدی عمر 2 سال ہے۔ شہید کی بیوی بھی پروفیسر ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید کے مشاغل، طور اطوار کے بارے میں کچھ بتائیں۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
شہید کا بچپن نہایت ہی اچھا گزرا۔ والدین اور دو بہنوں کا اکلوتا بیٹا و بھائی ہونے کی وجہ سے علی مرتجز فیملی میں کافی لاڈلا تھا۔ والدہ سکول ٹیچر، دادا دین دار ہونے کے باعث دینی و دنیاوی تعلیم پر کافی توجہ رہی، ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتا رہا۔ شہید ایک ہمدرد انسان تھا۔ میں نے ایک بات اس میں نوٹ کی کہ جب ڈیرہ میں کسی مومن کو شہید کیا جاتا اور اس کی خبر علی مرتجز سنتا تو کافی دن بے چین رہتا تھا اور کہتا تھا کہ ان کو انصاف کیوں نہیں ملتا۔ شاہد یہی وجہ تھی کہ شہید نے وکالت کا شعبہ اپنے لئے پسند کیا۔ شروع سے ہی دینی کاموں میں لگاو تھا۔ محرم الحرام کے ایام میں امام بارگاہ پر سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینا۔ اس کے علاوہ علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے بھاگ دوڑ کرنا، اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ہمارے علاقے میں PTI کی کامیابی میں شہید علی مرتجز نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ مگر افسوس کی PTI شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے کچھ نہیں کرسکی۔ علی مرتجز کی شہادت کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہید اپنے علاقے میں جو سکول نہیں جاتے تھے یا بیروزگار نوجوان تھے، ان کے لئے کافی کام کرتے تھے۔ جن کے پاس تعلیمی اخراجات نہیں ہوتے تھے، ان کی تعلیم کا بندوبست کرتے اور بے روزگار کے روزگار کے لئے کوشش میں رہتے تھے۔ علی مرتجز انقلابی سوچ کے حامل تھے۔

اسلام ٹائمز: شہید شہادت کے روز کس کام کی غرض سے نکلے تھے۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
شہید علی مرتجز کی شہادت سے آدھا گھنٹہ پہلے مریالی موڑ پر دو مختلف دارداتوں میں دو مومن مختیار حسین بلوچ (سکول ٹیچر) آف مریالی اور اختر حسین (پروفیسر) آف ڈیرہ سٹی کو شہید کیا گیا۔ مگر علی کو اس کا علم نہیں تھا، وہ گھر سے بازار کچھ سامان لانے گیا۔ جی پی او چوک کے قریب ان کے کزن معروف نوحہ خوان اور یوتھ کونسلر سید سفیر حسین زیدی سے شہید کی ملاقات ہوئی، جو اس وقت دو شہیدوں کو سول ہسپتال میں دیکھ کر آرہے تھے۔ علی نے سلام کرنے کے بعد سفیر پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ آپ دشت گردوں کے نشانے پر ہو اور لاپرواہ ہو کر پیدل چل رہے ہو، مگر جب سفیر نے علی مرتجز کو بتایا کہ میں ہسپتال سے آرہا ہوں، ابھی ہمارے دو مومن شہید ہوئے ہیں۔ تو علی مرتجز یہ سن کر کافی دکھی ہوگئے اور سفیر کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھا کر گھر لے آئے۔ کچھ دیر بعد عاطف شہید دروازے پر آیا اور دونوں اپنے دوست وکیل (بھٹنی) کے گھر پر چلے گئے۔ بعد میں ٹی وی پر میں نے نیوز دیکھی کہ دو وکیل قتل ہوئے ہیں، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ میرے اپنے بچے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جب آخری مرتبہ رخصت ہوئے تو گھر میں والدہ سے، آپ سے یا خانم سے کیا بات کی۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
شہید علی مرتجز گھر میں موجود تھے کہ عاطف شہید تیار ہو کر ہمارے گھر آیا۔ علی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہم بھٹنی (دوست) کے گھر جا رہے ہیں۔ جس پر بیوی نے کہا کہ احتیاط سے جانا اور جلدی آنا کیونکہ ابھی دو مومن شہید ہوئے ہیں۔ جس پر علی مرتجز نے کہا کہ آپ دعا کیا کرو، میں بس گیا اور آیا، میرا بیٹا واپس نہیں آیا۔ ظالمو نے میرے بیٹے کو شہید کر دیا۔

اسلام ٹائمز: شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے انتظامیہ، پولیس اور دیگر ذمہ داران کیا کہتے ہیں۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
جھوٹی تسلیاں ہی دیتے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں یا پھر یرغمال ہوچکے ہیں۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کافی ترقی کرچکے ہیں، جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی ہے قاتلوں کی CCTV موجود ہیں، پھر بھی یہ بے بس ہیں۔

اسلام ٹائمز: شیعہ ہونے کے علاوہ کوئی ایسی وجہ کہ جس کی بناء پر علی کو نشانہ بنایا گیا ہو۔؟
سید خادم حسین شاہ بخاری:
نہیں جی، صرف اور صرف آل محمد (ص) سے محبت کرنے کے جرم میں شہید کیا گیا۔ نہ تو ہماری کسی سے ذاتی دشمنی ہے، نہ کسی سے کوئی لین دین کا کوئی مسئلہ ہے۔ ہمیں شیعہ ہونے کے جرم میں ہی قتل کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خانوادے کی پہلی قربانی ہے یا شہادت کا اعزاز پہلے بھی حاصل ہے۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
جی سید علی مرتجز کی شہادت سے پہلے میرے خاندان کے تقربیاً 30 کے قریب افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں میرا بڑا داماد سید ساغر علی زیدی (سرکاری ملازم ڈرافٹمین) زیدی فیملی پر 19-08-2008 کو سول ہسپتال خود کش بلاسٹ میں شہید ہوئے تھے۔ اس کے تین بچے ہیں، جن میں ایک بڑی بیٹی جو کہ میڑک کی طالبہ ہیں اور دو بیٹے سید عدیل عباس زیدی عمر تقربیاً 10 سال اور دوسرا بیٹا سید قائم عباس زیدی عمر 5 سال ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے پہلے عزیز شہداء کے گھرانوں کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور شہادتوں کے بعد ان گھرانوں میں کون کون سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔؟
سید خادم حسین شاہ زیدی:
اللہ اکبر، چونکہ ہمارے ہر گھر سے جوان کی شہادت ہوئی ہے۔ جن میں کچھ شہداء کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور کچھ شہداء کے معصوم چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، لیکن اللہ تعالٰی کا احسان ہے، شہداء کے گھرانوں کی صورت حال ٹھیک ہے، اپنی مدد آپ کے تحت پورا خاندان ایک دوسرے کا کافی خیال رکھتا ہے۔ خاص طور پر شہداء کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کافی توجہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام شہداء کے بچے دینی و دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ آپ نے سوال کیا کہ شہادتوں کے بعد ان گھرانوں میں کون کون سی تبدیلیاں رونما ہوئی۔ 19-08-2008 کو سول ہسپتال خودکش بلاسٹ میں ہمارا بے حد قیمتی نقصان ہوا، ایک دفعہ تو ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم 100 برس پیچھے چلے گئے، کیونکہ ہمارے خاندان کے ہر گھر کا ایک قیمتی اثاثہ چلا گیا، مگر ہمارے نوجوان اور باہمت خواتین نے اس واقعہ کے بعد جو اہم کردار ادا کیا، وہ قابل ستائش ہے۔ آپ کو بتاتے ہوئے مجھے فخر ہو رہا ہے کہ شہداء کی شہادتوں کے بعد ہمارے نوجوان اور باہمت خواتین نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی۔ ان کے کردار افکار پر غور کیا۔ ان کو معاشرے میں ایک مثال بنایا۔ ہمیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جو خاندان 100 سال پیچھے چلا گیا ہے، وہ اتنے جلدی اپنے آپ کو ریکور کر لے گا۔ یہ ان کی دن رات کی محنت کا صلہ ہے۔ آج آپ دیکھیں الحمد اللہ ہمارے بچے اور بچیاں نہ صرف اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اعلٰی سرکاری و نیم سرکاری عہدیوں پر فائز ہیں۔ ہمارے زیدی خاندان کی اصل پہچان ہی ہماری نسل کی دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت ہے۔ بس یہ وجہ ہے کہ ہم دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔
خبر کا کوڈ : 540596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Pakistan
یااللہ! ہمیں بھی شہداء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین
MAZHER ABBAS BALOCH
Pakistan
یااللہ! ہمیں بھی شہداء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین
ہماری پیشکش