0
Friday 27 May 2016 14:58
قران پاک کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں

مسلمانوں کی کامیابی تعلیمات قرآنی، اسوہ حسنہ اور اتحاد اسلامی میں مضمر ہے، مولانا اخضر حسین

مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی ہزاروں اور لاکھوں وجوہات موجود ہیں، جبکہ انتشار کی ایک بھی وجہ موجود نہیں ہے
مسلمانوں کی کامیابی تعلیمات قرآنی، اسوہ حسنہ اور اتحاد اسلامی میں مضمر ہے، مولانا اخضر حسین
مولانا اخضر حسین کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، وہ 36 سال سے جموں و کشمیر میں دینی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، 1985ء میں انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی، مولانا اخضر حسین جموں و کشمیر مسلم وقف بورڈ میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں، 1994ء میں جب کشمیر بھر میں حالات کشیدہ ہوئے تو وہ درگاہ حضرت بل کے امام جمعہ و جماعت منتخب ہوئے، جو کشمیر کی سب سے بڑی و قدیمی درگاہ ہے، مولانا اخضر حسین انجمن علماء احناف کے سربراہ بھی ہیں، جو سابقہ آٹھ سال سے منشیات اور دیگر بدعات و خرافات کے حوالے سے جموں و کشمیر کا فعال ترین ادارہ ہے، وہ اسٹیٹ حج کمیٹی کے اہم ممبر بھی ہیں، وہ حنفی مسلک، صوفی مشرب کی آبیاری اور خاص طور پر جو سماج میں بے راہ روی موجود ہے، اسکے خلاف مہم میں وہ کمربستہ ہیں، ایک ملاقات کے دوران اسلام ٹائمز نے مولانا اخضر حسین سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے بہت عرصہ تک مقبوضہ کشمیر میں شراب کی خرید و فروخت اور دیگر منشیات کے استعمال کیخلاف ایک موثر مہم چلائی، کیا وجہ ہے کہ وہ مہم جاری نہ رہ سکی اور اس میں سستی آئی یا کیا رکاوٹیں پیش آئیں۔؟
مولانا اخضر حسین:
شراب کی روک تھام کے حوالے سے میں نے اور میری انجمن (انجمن علماء احناف) کے اراکین نے بہت موثر مہم چلائی تھی اور جس علاقے سے ہم نے اس مہم کا آغاز کیا وہاں شراب اور شرابیوں کا تسلط تھا اور آج بھی ہے، جہاں شراب کے خلاف مہم چلانے والوں کی مخالفت کی جاتی ہے اور شرابیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ہماری اس مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمنوں نے مختلف سازشیں کرکے مجھے ذہنی عتاب کا شکار بنایا اور مجھے میری منصبی ذمہ داری سے ہٹایا گیا، مجھے بہت کٹھن حالات سے گزرنا پڑا، صرف اس وجہ سے کہ میں یہاں شراب کی خرید و فروخت کے خلاف مہم چلا رہا تھا اور سماج میں پھیلے اس ناسور کو ختم کرنے کی سعی کر رہا تھا، جب چاروں طرف سے مجھے ظلم و تشدد کا شکار بنایا گیا تو آخر وقتی طور میں نے خاموشی اختیار کر لی۔

اسلام ٹائمز: ابھی دیکھا جا رہا ہے کہ تمام تنظیمیں حتٰی پولیس بھی منشیات مخالف مہم کے حوالے سے ایکٹو ہیں، لیکن پھر بھی اس میں کوئی کمی واقعہ نہیں ہو رہی ہے، کیا آپکو یہ ایک ڈھونگ یا دکھاوا نہیں لگ رہا ہے اور پس پردہ ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور جو لوگ ان بدعات کیخلاف آواز اٹھا رہے ہیں، انکے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں جسکی زد میں آپ بھی آگئے۔؟
مولانا اخضر حسین:
اگر ریاستی پولیس اور دوسری تنظیمیں شراب کی روک تھام میں مخلص ہوتیں تو ہمارے سماج سے یہ بدعات کب کی ختم ہوگئی ہوتی، کیوں ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے، مگر یہ لوگ بات کچھ اور کہتے ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں، اگر جموں و کشمیر پولیس چاہتی تو وہ اس کی روک تھام کرتی اور پابندی لگا سکتی تھی، جس سے شراب و دیگر منشیات کے استعمال کا بہ آسانی خاتمہ ہوسکتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ تمام آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں اور اس آپسی ملی بھگت میں ہمارے نوجوانوں کی زندگیاں خراب ہو رہی ہیں اور ان کا مستقبل مخدوش ہو رہا ہے، انھیں جان بوجھ کر منشیات کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے، تاکہ وہ کچھ اور نہ سوچ سکیں اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی طرف سے کشمیری پنڈتوں کیلئے الگ کالونیاں بنانے اور فوجی کالونیوں کا قیام عمل میں لانے کا منصوبہ ہے، اس حوالے سے آپکی تشویش کیا ہے، کیا ایسا ہونا چاہئے۔؟
مولانا اخضر حسین:
دیکھئے 1989ء تک کشمیری پنڈت مسلمانوں کے ساتھ رہتے تھے، لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے وہ لوگ گورنر جگموہن کے اُکسانے پر یہاں سے چلے گئے، جس کی وجہ سے انھیں کافی مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پنڈت بھائی واپس اپنے گھروں کو آئیں اور پہلے کی طرح ہمارے ساتھ زندگی گزاریں، جو لوگ الگ بستیاں بسانے کی بات کر رہے ہیں، وہ صرف سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر اور اپنے ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں، وہ صرف اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں، اس کے علاوہ جو سینک کالونیوں کے قیام کا مسئلہ ہے، اس بارے میں میں اتنا کہوں گا کہ ایسا کوئی بھی قدم کشمیر کی سالمیت پر ایک حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر بھاجپا ایسا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو انجمن علماء احناف کا ان حالات میں کیا ردعمل ہوگا۔؟
مولانا اخضر حسین:
دیکھئے بھاجپا اگر ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 کو پس پشت ڈال کر یہاں سینک کالونیوں کا قیام عمل میں لائی یا دوسرے ایسے اقدام کئے تو مجھے لگتا ہے کہ 1989ء کے جیسے حالات پھر سے پیدا ہونگے اور حالات مزید خراب ہونگے، یہ بھاجپا حکومت جان بوجھ کر ایسے مسائل پیدا کرتی ہے، جن سے امن خطرے میں پڑنے کا امکان پیدا ہوتا ہے، کیا ضرورت ہے سینک کالونیاں بنانے کی، یہاں سبھی لوگ اتحاد سے رہتے ہیں اور اگر اس ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اتحاد کو قائم رکھنا ہے تو ایسی سازشیں بند ہونی چاہئے، ہم اپنے پنڈت بھائیوں کو خوش آمدید کہیں گے، اگر وہ اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ دوسری بات یہ دفعہ 370 ایک پُل کی حیثیت رکھتا ہے، ہندوستان اور کشمیر کے درمیان، اگر اس دفعہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو کشمیر کا الحاق اور ہندوستان کے ساتھ تمام رشتے خود بہ خود ختم ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: کشمیری حریت قائدین کے درمیان آپسی مشاورت کا ایک سلسلہ چلا ہے اور ابھی یاسین ملک، سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ کی ایک مشترکہ کانفرنس اور ایک میٹنگ ہوئی، حریت کے درمیان اس اتحاد اور آپسی بھائی چارگی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا اخضر حسین:
یہ بہت اچھی بات ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ یہ الگ الگ پلیٹ فارم مت بناؤ بلکہ اتحاد سے رہو، سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک و دیگر حریت کے زعماء پورے کشمیر کے قائد ہیں تو کتنی اچھی بات ہوگی، اگر یہ سب ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر آزادی کی تحریک چلائیں گے، یہ ایک اچھی شروعات ہے اور قوم ان تمام لیڈران کا اتحاد چاہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی حالات اور مسلمانوں کی پسماندگی، انتشار و آپسی تفرقہ کی وجہ کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا اخضر حسین:
دیکھئے عالم اسلام میں انتشار اس لئے ہے کیونکہ ہم اسوہ حسنہ پر عمل پیرا نہیں ہو رہے ہیں، اگر ہم اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں، اگر ہم قرآن پاک کے احکامات پر چلتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت مسلمانوں کو الگ نہیں کرسکتی، ہمارے پاس سب سے بڑا ہتھیار قرآن پاک اور اسوہ حسنہ ہے۔ ہمیں قرآن و اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونا چاہئے، پھر کوئی بھی ملک چاہیے امریکہ ہو اسرائیل ہو یا دوسرے اسلام دشمن ممالک، جو اسلام کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں، ہمارے مقابل میں کھڑے نہیں ہوسکتے۔ اگر آج اسلام دشمن طاقتیں اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور کامیاب ہو رہے ہیں تو وہ اس لئے کیونکہ ہم نے قرآن اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم قرآن پاک اور رسول (ص) کے فرمودات پر عمل کریں تو واقعی عالم اسلام کی تقدیر بدل جائے گی، دیکھئے سعودی عرب کا اپنا پلیٹ فارم ہے، ایران کا ایک الگ، افغانستان کا الگ، انڈونیشیا اور پاکستان الگ الگ نظر آرہے ہیں، کہیں بھی مسلمان متحد نظر نہیں آرہے ہیں، ہر جگہ تفرقہ اور پریشانی ہے، پاکستان جو مملکت خدا داد ہے، وہاں بھی انتشار ہے، سعودی عرب جو مسلمانوں کا مرکز ہے، وہاں بھی انتشار ہے، اتحاد کہیں نظر نہیں آرہا ہے، ہم تبھی ترقی کرسکتے ہیں، جب ہم اتفاق اور اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: اس انتشار کی وجہ کیا ہے، کیوں مسلمانوں کے مفتیان، علمائے کرام ہی دشمن کے آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔؟
مولانا اخضر حسین:
دیکھئے، قول رسول (ص) ہے کہ جب آخری زمانہ آئے گا تو مسلمان انتشار اور پریشانی کا شکار ہونگے، ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے اتحاد میں، عالم اسلام کے لوگ اس لئے پریشان ہیں اور دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں، کیونکہ ہم نے اسوہ حسنہ اور قرآن پاک پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، اگر ہم قرآن پاک کی تعلیمات پر چلیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں انتشار میں مبتلا نہیں کرسکتی، حضور اکرم (ص) کے دور میں مسلمان انتشار کا شکار کیوں نہیں تھے، آج ہی مسلمان انتشار کا شکار کیوں ہیں، آج ہی سب سے زیادہ سازشیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیوں ہو رہی ہیں، آج اگر ہمارے لوگ دشمن کی سازشوں کا شکار ہوکر ان کے آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات، قرآنی تعلیمات اور اسوہ حسنہ پر عمل پیرا نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: ابھی جو عناصر اسلام کے نام پر تعلیمات اسلامی کے نام پر اسلام کی بقاء کے نام پر سامنے آرہے ہیں اور سراسر دہشتگردی پر اتر آتے ہیں اور مسلمانوں کے مقدسات کیساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، ایسے عناصر کے بارے میں آپکا کیا کہنا ہے۔؟
مولانا اخضر حسین:
مجھے کافی صدمہ ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے مظالم یہ لوگ ڈھاتے ہیں بے گناہ لوگوں پر، اللہ تعالٰی نے ان کی عقلیں سلب کر لی ہیں، اگر ان کے پاس فہم و فراست ہوتی تو وہ ایسا کام نہیں کرتے، میں اسے بدقسمتی سے تعبیر کروں گا۔ دوسری بات اسلام کی حفاظت کرنے والا اللہ خود ہے اور اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگر دنیا کی کوئی بھی طاقت اسلام کے خلاف کوئی بھی سازش کرے تو اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، ہاں وقتی طور مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام کی طرف جو لوگوں کا رجحان تھا کیا ان کارروائیوں سے اس میں خاصی کمی واقع ہوتی نظر آرہی ہے۔؟
مولانا اخضر حسین:
مجھے لگتا ہے کہ وقتی طور ان کارروائیوں سے کچھ حد تک تو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن اس سے اسلام کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، آپ دیکھئے دنیا میں جہاں بھی کفر کا تسلط تھا، اب اسلام کا بول بالا ہے، کسی جاہل کے اسلام پر انگلی اٹھانے سے اسلام کو نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے، اسلام دن بہ دن ترقی کی طرف گامزن رہے گا، ان شاء اللہ۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں ابھی کچھ عناصر داخل ہوچکے ہیں اور کچھ تنظیمیں جو باہر کے ممالک کی فنڈڈ ہیں اور وہ یہاں پر انتشار پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں اور بڑی سرمایہ گزاری وہ یہاں پر کر رہے ہیں، اس حوالے سے آپکے تاثرات اور آپکی تشویش کیا ہے۔؟
مولانا اخضر حسین:
دیکھئے، جب یہاں کشمیر میں بُلبُل شاہ صاحب آئے تو انھوں نے یہاں گھر گھر جاکر حنفیت قائم کی، پھر جب امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رہ) آئے تو وہ شافعی مسلک کے تھے اور انھوں نے حنفی مسلک کی ترویج کی اور انھوں نے بُلبُل صاحب کے مسلک پر چلنے کی کوشش کی کیوں؟ امیر کبیر (رہ) تو بڑے اسکالر تھے، ولی تھے تو انھیں کیا ضرورت پڑی شافعی مسلک ترک کرنے کی، انھوں نے اس لئے ایسا کیا کیونکہ وہ یہاں انتشار نہیں دیکھنا چاہتے تھے، چاہے یہاں کوئی بھی فنڈنگ کرے، اعتقاد کے حوالے سے نقصان پہنچانے کے لئے تو یہ ان کی بھول ہے، یہ اولیاء و صوفیان کرام کی سرزمین ہے اور مقدس سرزمین ہے، جتنی بھی سازشیں یہاں اولیائے کرام کے خلاف ہونگی، اسے زیادہ سے زیادہ اولیائے کرام کی محبت میں اضافہ ہوگا، وقتی طور اثر تو پڑتا ہے مگر آپ دیکھ لیجئے کہ حضرت بل، خانقاہ معلٰی، دستگیر صاحب، مخدوم صاحب وغیرہ کے آستان عالیہ میں عقیدت مندوں کی کتنی بھیڑ ہوتی ہے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں، ہم دوسروں کی طرح غیر ملکی سرمایہ وصول نہیں کرتے، ہم اپنی محنت، لگن سے اور دن رات ایک کرکے اپنے عقیدے کی ترویج و تبلیغ کرتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ایسے عناصر پانی کے بلبلوں کی طرح غائب ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایسی سنگین صورتحال میں اتحاد اسلامی کی ضرورت اور اہمیت کتنی محسوس کی جا رہی ہے۔؟
مولانا اخضر حسین:
جب ہمارا کعبہ ایک ہے، قرآن ایک ہے، ہمارا خدا ایک ہے، پیغمبر ایک ہے تو بہتر ہوتا اگر ہم ایک ہوتے، اسی میں ہماری کامیابی ہے اور عالم اسلام کی کامیابی ہے، ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ جب قرآن ایک ہے، اللہ و نبی (ص) ایک ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اللہ ہم سے خوش ہوگا اگر ہم بکھریں گے اور اتحاد کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اللہ تعالٰی نے خود فرمایا ہے کہ ’’وعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا‘‘ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو، جب ہم اس آیت کریمہ پر عمل پیرا ہونگے اور عالم اسلام میں اتحاد پیدا ہوگا تو اللہ دن بہ دن مسلمانوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ غرض کہ ہم مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کی ہزاروں اور لاکھوں وجوہات موجود ہیں، جبکہ انتشار کی ایک بھی وجہ موجود نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 541165
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش