0
Thursday 2 Jun 2016 20:04
اینٹی طالبان قوتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

قومی ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، آصف رضا ایڈووکیٹ

پاکستان میں کرپشن کا راج ہے، اس سے نجات ضروری ہے
قومی ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، آصف رضا ایڈووکیٹ
مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ سیاسیات کے مرکزی کوارڈینیٹر آصف رضا ایڈووکیٹ معروف قانون دان ہیں، آئی ایس او پاکستان میں ڈویژن اور بعد ازاں مرکز میں ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کے مستعد، متعہد اور فعال سیاسی رہنما کی کرپشن فری پاکستان مہم میں جماعت اسلامی کیساتھ مل کر ایم ڈبلیو ایم کے کردار، پانامہ لیکس اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف بھوک ہڑتال کے بارے میں اسلام ٹائمز کیساتھ اہم گفتگو قاریئن کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کرپشن فری پاکستان مہم سے متعلق جماعت اسلامی کی طرف سے بلائے گئے نیشنل یوتھ جرگہ میں کن نکات پہ بات ہوئی، کن امور پر اتفاق رائے ہوا ہے۔؟
آصف رضا ایڈووکیٹ:
جماعت اسلامی کی طرف سے تمام جماعتوں کو دعوت دی گئی تھی، تاکہ مل کر بیٹھیں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے میں پاکستانی یوتھ کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ سب سے پہلے یوتھ جرگہ میں شرکت کرنے والی تمام جماعتوں کے نمائندگان کو موقع دیا گیا کہ وہ پاکستان کو درپیش مسائل میں سے حساس ترین ایشو پر بات کریں۔ سب نے اس پہ اظہار خیال کیا، ہم نے بھی اپنا نکتہ نظر سامنے رکھا کہ کرپشن ایک کلچر بن چکا ہے، اگر ایک طالب علم تعلیم مکمل کرنے کے لئے تعلیمی ادارے میں جائے تو وہاں سے ہی اسے اپنے مستقبل کے لئے ایسی رکاوٹوں کا سامنا شروع ہو جاتا ہے کہ روزگار حاصل کرنے کی تگ و دو کے دوران بھی وہ کسی ناجائز ذریعے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

یہ لعنت معاشرے اور پورے نظام میں سرایت کرچکی ہے۔ اس کا حل اس طرح ممکن ہے کہ سب سے پہلے اس کلچر کو ختم کیا جائے، معاشرے میں یہ احساس بیدار کیا جائے کہ یہ ایک لعنت ہے، جو ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، انفرادی زندگی سے لیکر قومی نظام تک، اسکا خاتمہ ضروری ہے۔ ہماری طرف سے دوسری تجویز یہ تھی کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے، تاکہ کرپٹ عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے، آئندہ کوئی ایسی جرات نہ کر سکے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بالکل اس کے الٹ ہو رہا ہے، کسی حد تک قانون بھی موجود ہے، بعض ممالک میں تو کرپشن ثابت ہونے پر موت کی سزا مقرر ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ مشتاق ریئسانی اور ڈاکٹر عاصم جیسے لوگوں پر بے پناہ کرپشن ثابت بھی ہوگئی ہے، لیکن غیر ضروری طور پر انکا ٹرائل طوالت اور بعد ازاں التوا کا شکار ہے۔ حالانکہ فوری انصاف اور سزا دی جانی چاہیے۔ باقی شرکاء نے بھی اپنا اپنا نکتہ نظر بیان کیا، مکمل طور پر اس مسئلے کا جائزہ لیا گیا، اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے سب نے عزم کا اظہار کیا۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم اس تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے جماعت اسلامی کا ساتھ دیگی، اسکی نوعیت کیا ہوگی۔؟
آصف رضا ایڈووکیٹ:
فی الوقت تو سب لوگ جمع ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کا نکتہ نظر سننے اور اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا ہے۔ پاکستان کو کرپشن فری بنانے کے ایشو پہ مل بیٹھنا خوش آئند ہے۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے، اس پہ سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے۔ ایم ڈبلیو ایم اس یک نکاتی ایجنڈے پہ اس تحریک میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ ابھی تو شروعات ہیں، سازگار فضا بنائی جا رہی ہے، پہلے فیز میں اسلام آباد میں نیشنل یوتھ جرگہ کے عنوان سے جماعت اسلامی نے مختلف الخیال گروہوں کو افہام و تفہیم کے لئے بلایا تھا، اس سے اگلے مرحلے میں کوئٹہ میں ایسا ہی جرگہ منعقد ہوگا۔ اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے پہلے مرحلے میں آگاہی مہم کی تجویز ہے، جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے گا، فوری نتائج کی توقع نہیں، لیکن یہ کام نہایت اہم ہے، کرپشن کا خاتمہ از بس ضروری ہے، اس نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ آگاہی مہم کے دوران معاشرے کے مختلف طبقات کو احساس دلانے کیساتھ ساتھ سرکاری غیر سرکاری اداروں کو بھی متوجہ کرنے کے لئے اقدامات کریں گے۔ اس سے فرق پڑے گا، اگر ضرورت پڑی تو پاکستان کو کرپشن فری بنانے اور کرپٹ عناصر کو کڑی سے کڑی سزائیں دلوانے کے لئے احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ ایک دفعہ پھر واضح کر دوں کہ ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے کرپشن کیخلاف مہم کے یک نکاتی ایجنڈا پر اس تحریک میں مثبت کردار کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کرپشن کی بات کریں تو پانامہ لیکس نے دنیا کو ہلا کر دکھ دیا ہے، یہ حقائق کرپٹ عناصر کو بے نقاب کرنے کیلئے نشر کئے گئے ہیں یا یہ تیسری دنیا میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے کسی عالمی سازش کا حصہ ہے۔؟
آصف رضا ایڈووکیٹ:
میرے خیال میں یہ حقیقت پہ مبنی ہیں، ایک ادارے نے ذمہ داری سے چھان بین کی ہے، چار سو کے قریب لوگوں کی معلومات سامنے آئی ہیں۔ پانامہ پیپرز کو یہ کام کرتے ہوئے اور بعد میں نشر کرتے ہوئے اس کا بھی پتہ ہوگا کہ ان کے خلاف مزاحمت ہوگی، انہیں دباو کا سامنا کرنے پڑے گا، پھر اس کے اثرات صرف تیسری دنیا کے ممالک پہ نہیں ہوئے بلکہ ترقی یافتہ یورپی ممالک میں ہل چل ہوئی ہے، یورپ کی قدیم ترین جمہوریت برطانیہ میں وزیراعظم کو وضاحت دینی پڑی ہے، نیوزی لینڈ کے صدر کو پارلیمنٹ کے اسپیکر کو اجلاس سے نکال دیا، آئس لینڈ کے وزیراعظم کو حکومت چھوڑنا پڑی اور وہ مستعفی ہوگئے۔ اگر یہ صرف ایسی کوئی سازش ہوتی کہ تیسری دنیا کی حکومتوں کو مزید عدم استحکام کا شکار کیا جائے تو ترقی یافتہ ممالک اس کی زد میں نہ آتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس سازش کا ہدف عالمی طاقتوں کے سامنے ڈٹ جانے والے ممالک اور حکومتیں ہوتیں تو اسلامی جمہوری ایران کو سب سے پہلے اس کا نشانہ بنایا جاتا، ایسا نہیں ہوا۔ اسی طرح سعودی عرب جیسے عالمی طاقتوں کے اتحادی ممالک بھی ان لیکس کے بعد منفی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں کرپشن کا راج ہے، آف شور کمپنیوں کی تفصیلات سے یہ بات اور واضح ہوگئی ہے کہ حکمران طبقہ، اپویشن، سرکاری ادارے سب اس کی زد میں ہیں، انکا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کرپشن کے واضح ثبوتوں کے باوجود عدلیہ، فوج، مقننہ سب اس کے خلاف کوئی موثر کاروائی کرتے نظر نہیں آتے۔

اسلام ٹائمز: قومی ایکشن پلان کے نتیجے میں 80 % تک دہشتگردی کی کاروائیاں ختم ہوگئی ہیں، سیاسی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے ان نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے، آپ مطمئن ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں۔؟
آصف رضا ایڈووکیٹ:
قومی ایکشن پلان کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا، بلکہ وہ قوتیں جو اینٹی طالبان ہیں، انہیں نشانہ بنایا گیا ہے اور مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔ وہ تمام جماعتیں جنہوں نے طالبان دہشت گردوں کیساتھ مذاکراتی عمل کی مخالفت کی تھی بلکہ انکے خلاف آپریشن کی حمایت کی تھی، جیسے مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک ہیں، قومی ایکشن پلان کے نام پر ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، انکے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور فورتھ شیڈول میں ڈالا جا رہا ہے، ایف آئی آرز کاٹی جا رہی ہیں، دہشت گردوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کا دائرہ کار کراچی جیسے علاقوں تک محدود رکھا گیا ہے، خود پنجاب میں اس پر عمل درآمد کرکے دہشت گردوں اور انکے معاونین کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔

اسلام ٹائمز: جن ایشوز کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، یہ زیادتی ہے، لیکن اسکا تعلق تو سیاسی حکومت کے ان انتقامی اقدامات سے ہے، جو دھرنے میں شریک جماعتوں کیخلاف انجام دیئے گئے ہیں، قومی ایکشن پلان کا کنٹرول تو فوج کے پاس ہے۔؟
آصف رضا ایڈووکیٹ:
فوجی کارروائی بھی قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے، اے پی سی میں قومی ایکشن پلان کی منظوری دینے والی جماعتوں نے فوجی آپریشن کی تائید کی تھی اور ساتھ ہی فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا، لیکن ان عدالتوں میں کیس بھیجنا تو سول حکومتوں کا کام ہے، سندھ میں صرف تین کیس بھیجے گئے ہیں، کے پی کے میں صرف ایک کیس بھیجا گیا ہے، پنجاب میں کیس نہیں بھیجے گئے۔ فوجی آپریشن تو جاری ہے، لیکن سول حکومتیں قومی ایکشن پلان کو منحرف کرچکی ہیں۔ پنجاب اور سندھ دونوں حکومتوں نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ طالبان دہشت گردوں، تکفیری قوتوں اور انکے سہولت کاروں کو تقویت ملی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کیجانب سے بھوک ہڑتال کے ذریعے ہی احتجاج کا راستہ کیوں اختیار کیا گیا ہے۔؟
آصف رضا ایڈووکیٹ:
مجلس وحدت مسلمین نے فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف ایک عرصے سے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے، اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کی گئیں، پریس کانفرنسز کی گئیں، ریلیاں نکالی گئیں، ہر پلیٹ فارم پہ آواز بلند کی گئی، لیکن بے حس حکمرانوں کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا اقدام سامنے نہیں آیا۔ انسان جب بے بس ہو جاتا ہے تو آخری حربے کے طور پر اپنی جان اور اپنی ذات کو پیش کرتا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے بالآخر اس اقدام کا فیصلہ کیا کہ شاید یہ بے حس حکمران ہمارے درد کو محسوس کریں، ہماری مظلومیت کا احساس کریں۔ اس وقت پاکستان میں 30، 40 جگہوں پر علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے جا رہے ہیں، پاکستان کے تمام سیاسی اور مذہبی طبقات نے علامہ راجہ ناصر عباس کے مطالبات کی حمایت کی ہے، پی ٹی آئی کے سربراہ نے خود آکر علامہ راجہ ناصر عباس سے ملاقات کی، مطالبات پورے کروانے کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ یہ مطالبات حقیقی ہیں، تین زونز میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔

پنجاب حکومت اور وفاق کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی، صرف وزیر مملکت طارق فضل چوھدری نے ملاقات کی ہے، انہیں اپنے مطالبات دے دیئے گئے ہیں، لیکن انہوں واپس آکر کوئی رسپانس نہیں بتایا، اسی طرح مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما سید ناصر عباس شیرازی اور مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے وزیر داخلہ چوھدری نثار علی سے ملاقات کی ہے، انہیں شمالی علاقہ جات اور کرم ایجنسی میں زمینوں پر قبضے، فورتھ شیڈول میں کارکنوں کو ملوث کرنے کی حکومتی کارروائی، ناجائز ایف آئی آرز جیسے امور سے متعلق مطالبات سے آگاہ کیا گیا، لیکن انہوں نے معذوری کا اظہار کیا۔ اپنے مطالبات کی تکمیل تک ہم بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری یہ اعلان کرچکے ہیں کہ جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے، رمضان المبارک میں بھی ہماری بھوک ہڑتال جاری رہے گئی، ہم متزلزل نہیں ہوں گے، ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 542886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش