0
Friday 10 Jun 2016 20:55
داعش، القاعدہ جیسی تنظیموں کے پیچھے اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے

امام خمینیؒ نے اسلامی اقدار اور اسلامی احکام نافذ کرنے کیلئے کسی کی بھی پرواہ نہیں کی، مولانا مشتاق قاسمی

اگر ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں تو ہم مسلمان نہیں ہیں
امام خمینیؒ نے اسلامی اقدار اور اسلامی احکام نافذ کرنے کیلئے کسی کی بھی پرواہ نہیں کی، مولانا مشتاق قاسمی

مولانا مشتاق محی الدین قاسمی کا تعلق جنوبی مقبوضہ کشمیر کے ضلع باہمولہ سے ہے، گجرات انڈیا میں تعلیمی و تدریسی سلسلے کے بعد مولانا مشتاق محی الدین قاسمی 1992ء سے اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے فعال کردار نبھائے ہوئے ہیں، مختلف مقامات پر وعظ و تبلیغ اور امام جماعت کے فرائض انجام دیتے آئے ہیں، فعلاً وہ جامع مسجد نارہ بل بڈگام کشمیر میں امام و خطیب کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور غوثیہ ہائیر اسکنڈری اسکول پٹن میں بحیثیت نائب مدیر ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں عسکری محاذ پر بھی بحثیت کمانڈر فعال رہے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا مشتاق قاسمی سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس خطے میں اتحاد اسلامی کے حوالے سے ابھی تک آپکی کیا کاوشیں رہی ہیں، اس بارے میں آپ سے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
اللہ کا شکر ہے کہ میں نے سب سے پہلے ملت اسلامیہ کو اسلامی اتحاد کی دعوت 1992ء میں دی، ابھی جو موجودہ حالات مسلمانوں کے ہیں، وہ بہت گھمبیر ہیں، تشویشناک اور پریشان کُن ہیں، تشویشناک اس لئے ہیں کہ مسلمان بحیثیت مسلمان نہیں رہا وہ مرکز سے کوسوں دور جا چکا ہے، اگر آج ہم غم، پریشانی و مصیبت میں مبتلا ہیں تو اس کی وجہ ہم خود ہیں، ہم نے اللہ کی کتاب کو جو ہماری درسگاہ اور آئین ہے، کو چھوڑ رکھا ہے، ہم نے رسول اکرم (ص) اور اہلبیت طاہرین (ع) کے طریقہ کار کو یکسر بھلا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم پٹ رہے ہیں اور لٹ رہے ہیں۔ ہم اہلبیت طاہرین (ع) و رسول (ص) کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوئے، ہم نے آخری رسول (ص) کی اس بات کو بھی بُھلا دیا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں،ک ایک قرآن اور دوسری میری عترت و اہلبیت (ع)، لیکن ہم نے اس پیغام کو نظر انداز کر دیا، یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسا قصائی آج ہم پر مسلط ہے اور مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے، ان پُرآشوب حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم اتحاد کا مظاہرہ کریں، اپنے جزوی و فروعی اختلافات کو بھول کر ایک ہو جائیں، تبھی ہم دنیا کے ساتھ مقابلہ کرسکتے ہیں، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مسلمان ایسے ہی مرتے رہیں گے اور پٹتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ ہمارے نام نہاد علماء اور نام نہاد مفکرین دشمنوں کے آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں اور دشمن کی آلہ کاری میں لگے ہوئے ہیں۔؟
مولوی مشتاق محی الدین قاسمی:
رسول نازنین (ص) کی ایک حدیث ہے، جس میں انھوں نے تین بار فرمایا کہ مجھے ڈر ہے، ڈر ہے، ڈر ہے تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ (ص) کو کس چیز کا ڈر ہے تو انھوں نے فرمایا کہ مجھے ان علماء کا ڈر ہے جو علمائے سُو ہیں، جو پیٹ کے پچاری بنے بیٹھے ہیں اور جو صرف اور صرف دنیا کے پیچھے پڑے ہیں۔‘‘ اصل میں ان علماء سُوء کا اسلام سے کوئی مطلب نہیں ہے بلکہ وہ اپنے دنیاوی اور ذاتی مفادات و نفع کی خاطر دشمنوں کے آلہ کار بنتے ہیں، جو انسان اپنے نفس کا غلام بن بیٹھا ہے، اس انسان سے صرف انسان سوز حرکات ہی کی امید کی جاسکتی ہے، دوسری بات کہ جو علمائے حق ہیں، انھوں نے چُپ سادھ رکھی ہے، وہ اپنا فریضہ انجام نہیں دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا میں برائی پھیل رہی ہے اور اسلامی دنیا پر غیر اسلامی اور طاغوتی ممالک کا قبضہ ہے اور مسلمان عالم دنیا میں بدحالی کے شکار ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایسے میں علمائے ربانی کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
علمائے ربانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی ترویج کریں اور لوگوں کو حقیقی اسلام کی طرف دعوت دیں، تاکہ اسلام پھولے پھلے اور مسلمانوں تک اصل بات پہنچے، علمائے ربانی کو چاہئے کہ وہ لوگوں تک قرآنی تعلیمات پہنچائیں اور کتاب اللہ کے عین مطابق لوگوں کو زندگی گزارنے کی تلقین کریں، اسلام کی خاطر اپنے آپ کو ہمیشہ پیش پیش رکھیں، اپنے وقار کو اسلامی اقدار کے لئے قربان کریں، یہ علمائے ربانی کا کام ہے، جس طرح کربلا کے میدان میں امام حسین (ع) نے تپتے ہوئے ریگستان میں اسلام کی بقاء کے لئے اپنے اہل عیال کی قربانی پیش کی تو جو علمائے ربانی ہیں، انھیں بھی چاہئے کہ وقت آنے پر اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنا سب کچھ پیش پیش رکھیں اور اسلام جو کچھ بھی ہم سے تقاضہ کرے، ہمیں خوشی خوشی دینا ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ سلمان رشدی جیسے مرتد کے لئے امام خمینی (رہ) جیسے عالم ربانی نے سزا سنائی اور اسلامی دنیا میں کسی بھی عالم کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس شیطان صفت انسان کے لئے اس کی گستاخی پر لب کشائی کرے۔

مگر یہ امام خمینی (رہ) ہی کی شخصیت تھی کہ جنھوں نے اسلامی اقدار کی خاطر اور اسلامی احکام نافذ کرنے کے لئے کسی کی بھی پرواہ نہیں کی، علمائے ربانی میں خلوص ہونا چاہئے اور وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہونے چاہئے، تاکہ اسلام پر کسی بھی طرح کا کوئی وار نہ ہو اور دشمن کے لئے ایک واضح پیغام ہو کہ جب تک ایسے عالم موجود رہیں گے، تب تک اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اور مسلمان جو پیغمبر (ص) کو ماننے والے ہیں، وہ آپس میں دست گریبان نہ ہوں بلکہ وہ دشمنوں کے لئے، ظالموں کے لئے اور کفار کے لئے شدید و سخت ہوں اور آپس میں رحم دل ہوں۔ اگر آج ہم ایک دوسرے پر رحم دل نہیں ہیں، ہم آپس میں دست گریبان ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم مسلمان ہی نہیں ہیں، ہم نبی (ص) اور آل نبی (ص) کے دعویٰ دار بھی نہیں ہوسکتے۔

اسلام ٹائمز: ابھی جو عالم اسلام میں نئی نئی دہشتگرد تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں، جیسے داعش، طالبان، القاعدہ اور اسکے علاوہ اور بھی بہت سی شدت پسند تنظیمیں ہیں، جو دشمن اور اغیار کی پیداوار ہیں، فلسطین، بیت المقدس کی بازیابی جیسے اہم ترین مسائل کی طرف وہ دھیان نہیں دے رہے ہیں، لیکن شام، عراق اور دوسرے اسلامی ممالک میں قتل غارتگری کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں، اس پر آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
دیکھئے، میری نظر میں اصل مسلمان وہی ہے، جو آپس میں متفق ہوں، جو تضاد و انتشار کا شکار نہ ہوں، اللہ کے نزدیک وہی افضل ترین ہے، جو تقویٰ گزار ہو، جو بھی مسلمان یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں اور کتاب اللہ کے احکامات، رسول (ص) کے پیغامات اور سیرت پر عمل نہ کرے، وہ مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتا ہے، رسول (ص) نے اپنے اسوہ حسنہ سے غیروں کو بھی متاثر کیا، اصلی مسلمان وہی ہے جس کو دوسرے مسلمان بھائیوں کے درد کا احساس ہو، ان کے مقدس مقامات کی عزت کرے، وہ لوگ جو مسلمانوں کے لباس میں مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے خلاف صف آرائی کرتے ہیں، سیدھی سی بات ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور ان کی ہر حرکت کے پیچھے اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے، چاہے وہ داعش ہو النصرہ ہو القاعدہ ہو یا دوسری کوئی اور دہشتگرد تنظیمیں، ان کی حرکات غیر اسلامی ہیں اور غیر انسانی، ان حرکات سے دنیا میں اسلام کی بدنامی ہو رہی ہے، آج جو تنظیمیں اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں، وہ اصل میں وہ دشمنوں کے منصوبوں کی پایہ تکمیل کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں، ان تنظیموں کا اسلام کے ساتھ کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کا اسلام ناب محمدی (ص) جسکی تعلیم حضور (ص) نے دی، اس کیطرف مسلمانوں کو واپس آنا چاہئے، لیکن ہم ان تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، ہم قرآنی احکامات پر عمل نہیں کرتے ہیں، اسکی کیا وجہ ہے ہوسکتی ہے۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
دیکھئے علم آفاقی اور علم نبوت ہمارا سرمایہ ہیں، لیکن یہ دونوں ہم سے گُم ہوچکے ہیں، بقول امام خمینی (رہ) مسلمانو! اسلام گُم شدہ ہے، اسے تلاش کرو، جب ہم اپنی وراثت یعنی علم کو حاصل کریں گے، تبھی جا کر ہم لوگوں کو حق کی دعوت دے سکیں گے اور صحیح معنوں میں ہم مسلمان کہلانے کے قابل ہوجائیں گے، ہم جو ابھی آپسی اختلافات کا شکار ہیں اور غیر ضروری فروعی مسائل پر جھگڑ رہے ہیں، ان کے متعلق ہم سے سوال کیا جائے گا کہ کیوں آپس میں اختلافات کو ہوا دیتے رہے، کیوں آپ نے اپنے مشترکات پر اتحاد نہیں کیا، اصل مسلمان وہی ہے جو ان آپسی انتشار اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر تمام مسلمانوں اور اسلام کی بقاء کے لئے سوچے اور عمل کرے، لیکن آج کے مسلمان اغیار کی نقل کرتے ہیں اور اسلامی اقدار کی پابندی کو فرسودہ خیال مانتے ہیں، قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی زندگی کیسے گزاری، کن کن طریقوں پر زندگی گزاری، کیا اسلامی افکار پر زندگی گزاری یا غیر اسلامی طریقہ اپنایا، کیا ہم ہمارے روز مرہ کاموں میں اسلامی تعلیمات کو ملحوظ نظر رکھتے ہیں یا غیر اسلامی طریقوں سے اپنی روز مرہ کی زندگیاں گزارتے ہیں، یہ ساری چیزیں ہم سے پوچھی جائیں گی، سچا مسلمان وہ ہے، جس کے طور طریقے اسلامی ہوں، جو دوسرے مسلمان کا درد محسوس کرے، اگر مشرق کے مسلمان درد و کرب میں مبتلا ہوں تو جو مسلمان مغرب میں رہتا ہے اسے اس درد کا احساس ہونا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: جو اختلافات و متفرقات ہوتے ہیں، کہا گیا ہے کہ ان پر سوچنا، ان پر بحث مباحثہ کرنا علماء کا کام ہے، عام لوگوں کا کام نہیں ہے۔ اگر ایسے مسائل عوام میں آئیں گے تو تفرقہ ہوگا اور اتحاد بین المسلمین کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا، اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ جو مختلف مسالک کے درمیان فروعی مسائل ہیں، انھیں عوامی سطح پر چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے، ایسے مسائل ہمیں مدبر اور حق پرست علماء پر چھوڑنا چاہئے، کیونکہ اگر ایسے حساس مسائل عوام کے بیچ آئیں گے تو فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا، تو اس حوالے سے ہماری کوشش رہی ہے کہ مختلف کانفرنسوں کے ذریعے اور مختلف پروگراموں کے ذریعے لوگوں تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان حساس مسائل پر لب کشائی نہ کی جائے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی ایسے پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے، ہمارے درمیان اختلافی مسائل اتنے گہرے نہیں ہیں، لیکن امریکہ جیسے اسلام دشمن ملک نے میڈیا کے ذریعے ان مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان تعصب بڑھ گیا ہے، اس لئے ہمیں ایسے سازشی عناصروں سے باخبر رہنا چاہئے اور بے جا مسلکی تعصب سے بالاتر ہو کر صداقت پسندی و خلوص نیت و و بلند تر مفاد کے لئے کام کرنا چاہئے اور اس میں سب سے اہم اور بڑا رول علمائے حق کا ہے۔

اسلام ٹائمز: امام خمینی (رہ) نے ایک بہت بہترین کنسپٹ دیا تھا کہ جو جمعۃ الوداع ہوتا ہے، اسے یوم القدس خاص طور بیت مقدس کی بازیابی کے حوالے سے منایا جائے، تاکہ پورے عالم اسلام میں ایک آواز ہو، قبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے آپ سے جاننا چاہیں گے کہ مسلمانوں کی اتنی تعداد ہوکر بھی ابھی تک اسکو ہم آزاد کیوں نہیں کر پا رہے ہیں۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
اصل میں جن پر ہماری نگاہیں لگی ہوئی ہیں، وہ رھبروں کے بھیس میں رہزن نکلے، آپ سعودی عرب کو دیکھئے، پاکستان کو دیکھئے، وہ لوگ کس چیز میں مبتلا ہوچکے ہیں، میں ان ممالک کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں، میں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک دردمندانہ اپیل کرکے اور خلوص نیت سے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں مل کر امام خمینی (رہ) کے اس پیغام پر عمل کرنا چاہئے اور اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے، اگر ہم ان با برکت اور الہٰی انعام یافتہ رہبر کے اس فرمودات پر عمل کریں گے تو ان شاء اللہ ہم ضرور قبلہ اول کو آزاد کرسکیں گے، ہم اپنے طور سے بھی اس دن مختلف پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں اور دنیا تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم مرتے دم تک قبلہ اول کہ بازیابی کے لئے لڑتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کا اتحاد قبلہ اول کی بازیابی کیلئے کیا ایک مقدمہ ہوگا۔؟
مولانا مشتاق محی الدین قاسمی:
ہاں اتحاد اسلامی کے نتیجہ میں ہمارے تمام چھوٹے بڑے مسائل حلہ ہوسکتے ہیں، مسلمانوں کے لئے قبلہ اول کی بازیابی بحیثیت ایک مقدمہ ہی ہے، لیکن مسلمانوں کو جگانے کی ضرورت ہے، اس لئے میں نے کہا کہ علمائے حق لوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کریں کہ ہمیں اسلام دشمن طاقتوں چاہے وہ اسرائیل ہو، امریکہ ہو، برطانیہ ہو یا ہندوستان، ان کے خلاف یک آواز ہونا ہے، تبھی جاکر ہم مسلمانوں کے مسائل حل کرسکتے ہیں اور قبلہ اول کو آزاد کرسکتے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 544742
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش