0
Thursday 16 Jun 2016 21:50
امریکہ نے بھارت کی حمایت کرکے پاکستان کو ٹھینگا دکھا دیا ہے

ایران انڈیا معاہدے سے پاکستان کا نقصان نہیں ہوگا، شیخ رشید

پاکستان چین اور روس کیساتھ مل کر بھارتی بالادستی کا خواب چکنا چور کر سکتا ہے
ایران انڈیا معاہدے سے پاکستان کا نقصان نہیں ہوگا، شیخ رشید
شیخ رشید احمد عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں، آپ 6 نومبر 1950 کو پیدا ہوئے۔ ممتاز سیاست دان ہیں، اپنے دبنگ سٹائل کی وجہ سے ٹی وی پروگرامز میں کافی مقبول ہیں، شیخ رشید نے اپنی سیاست کا آغاز 70 کی دہائی میں کیا لیکن 1985ء میں قومی سیاست میں شامل ہوئے۔ تب سے اب تک وہ 7 بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔ شیخ رشید کا سیاسی کیریئر 2 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ متعدد وزارتوں پر بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے حامی ہیں، دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر بھی متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ فرزند راولپنڈی کہلاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا بھارت اور امریکہ کے درمیان فوجی نظام کو استعمال کرنے کا معاہدے اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارتی شمولیت کے لیے امریکی حمایت سے خطے میں طاقت کا توازن تبدیل نہیں ہو جائے گا، ایسے میں پاکستان کو کیا اقدامات اٹھانے چاہییں کہ وہ آنیوالے بحرانوں کا مقابلہ کر سکے؟
شیخ رشید:
امریکہ نے اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے، جس سے خطے میں طاقت کا توازن یقیناً بگڑ جائے گا، ہمیں بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ اب امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنا ہو گی، میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرنے کا اعلان کر کے پاکستان کو ٹھینگا دیکھا دیا ہے۔ اسی طرح ہم سفارتکاری میں یکسر ناکام نظر آتے ہیں۔ دینا پر واضح کرنا ہوگا کہ اگر بھارت ایٹمی کلب کا ممبر بن سکتا ہے، تو پھر پاکستان کیوں نہیں، چین سمیت دیگر ممالک نے نیوکلیئر گروپ میں بھارت کی شمولیت کی مخالفت کر کے پاکستان دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ہم نے سفارتکاروں کو بریفنگ دینے میں دیر کر دی ہے۔ اس کے کوئی خاص نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اس وقت ہمیں بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ کس بنیاد پر اس کو ایٹمی کلب کا ممبر بنایا جا رہا ہے۔ ایسے ملک کو جو جنگی جنون میں مبتلا رہتا ہے، جس کے اپنے ہمسایوں کیساتھ تعلقات بھی اچھے نہیں رہے۔ جس کے ملک میں اقلیتیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، جہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے، دنیا کو بھارت کا حقیقی چہرہ دکھانے کی ضرورت تھی، مگر ہم سفارتکاری میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اگر امریکہ نے اپنا جھکاؤ بھارت کی طرف کر لیا ہے، تو ہمیں بھی ایف سولہ حاصل کرنے کیلئے زور دینا چاہیے۔ پاکستان چین اور روس کیساتھ مل کر خطے میں بھارت کی بالادستی کے خواب کو توڑ سکتا ہے، جو وہ امریکہ کیساتھ مل کر دیکھ رہا ہے۔

اس وقت پالیسی معاملات پر ہمارے پاس کسی غلطی کی گنجائش نہیں۔ ہمیں امریکہ کی بھارت نوازی پر کھل کر تشویش کا اظہار کرنا چاہیے۔ بھارت جو ہمارے ملک کیخلاف طرح طرح کی سازشیں کر رہا ہے اس کی خفیہ ایجنسی را نے جس انداز میں بلوچستان میں دراندازی کر رکھی ہے، جس کا واضح ثبوت کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ ہمیں یہ کیس اقوام متحدہ کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ آرمی چیف نے تو واضح کر دیا ہے کہ دشمن کے خفیہ ارادوں کو پاکستان کے اندر گڑبڑ نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے تو امریکہ کے ڈرون حملے کی بھی مذمت کی ہے جبکہ حکمرانوں کا امریکہ و بھارت سے متعلق نرم رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ وقت ہے کہ امریکہ اور بھارت کو کھل کر جواب دیا جائے کہ اگر بھارت امریکہ کیساتھ تعلقات بڑھائے گا تو پاکستان بھی امریکہ کیساتھ اپنے تعلقات پر مجبور ہو جائے گا۔ خورشید قصوری سچ کہتے ہیں کہ ملک کو اس وقت فل ٹائم وزیر خارجہ کی ضرورت ہے۔ ایسے وقت میں جب پاک امریکہ تعلقات عہد حاضر کے سب سے زیادہ ڈرامائی موڑ پر آچکے ہیں، وزیراعظم کے معاون خصوصی کس منہ سے کہتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات نارمل ہیں۔ وہ نواز شریف سے زیادہ اوباما کے ترجمان بنتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خارجہ امور کے معاملات سونپنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اوبانا انتظامیہ تو چاہتی ہے کہ بھارت کو جلد ازجلد ایٹمی کلب کا ممبر بنا دیا جائے۔ پچھلی مرتبہ چین کی مداخلت سے بھارت این پی ٹی کا رکن نہ ہونے کے سبب رہ گیا تھا۔ لیکن اب امریکہ اسے خصوصی کیس کے طور پر ڈیل کر رہا ہے۔ مگر پاکستان کا کیس بھی کمزور نہیں، ہم کہتے ہیں کہ اگر بھارت کو ممبر بنایا گیا تو پھر پاکستان کو بھی بنایا جائے گا۔ امریکہ اور بھارت، افغانستان کو ساتھ ملا کر پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنا چاہتے ہیں مگر پاکستان چین اور روس کیساتھ مل کر خطے میں ان کے جارحانہ عزائم خاک میں ملا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ پاناما لیکس کے سلسلہ میں حکومت اور اپوزیشن کی ٹی او آرز تیار کرنیوالی کمیٹی سے مطمئن ہیں، ابھی تک تو ڈیڈ لاک موجود ہے، مشترکہ ٹی او آرز تیار نہ ہو سکے، تو اپوزیشن سڑکوں پر آئے گی؟
شیخ رشید:
پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے جلد کمیشن قائم کیا جائے، اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مشترکہ ٹی او آرز پر متفق ہو جائیں، مگر ابھی تک تو اتفاق رائے پایا
نہیں جاتا، اگر ڈیڈ لاک ختم نہ ہوا، تو اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے مجبور ہو جائے گی۔ اپوزیشن نے تو اپنے ٹی او آرز حکومت کے سامنے رکھ دیئے ہیں، حکومتی ارکان نے اتفاق نہ کرکے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ عوام ملک سے کرپشن کے خاتمے پر متفق ہو چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کسی ایک شخص یا ایک پارٹی کا معاملہ نہیں، بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اسے حل کئے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ پاناما لیکس آنے پر جب پوری دنیا میں احتساب ہو رہا ہے، تو ہمارے حکمران کون سے دودھ کے دھلے ہیں کہ ان کا احتساب نہ کیا جائے۔ جس طرح حکومت چاہتی ہے کہ 1947ء سے سب کا احتساب ہو، اس کیلئے پہلے وزیراعظم نوازشریف کا احتساب ہونا چاہیے کہ انہوں نے خود ٹی وی پر آ کر اسمبلی کے فلور پر واضح طور پر کہا تھا کہ وہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں۔ پہلے انہی سے احتساب کا عمل شروع ہونا چاہیے۔ ہم نے حکومتی ٹی او آرز مسترد کر دیے تھے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتی نمائندے غیر سنجیدہ رویہ اپنا کر قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ وزیراعظم اور ان کی فیملی کو احتساب سے بچانا چاہتے ہیں، جبکہ ہم کہتے ہیں کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم کے صاحبزادے اور صاحبزای کا نام آیا ہے، اس لئے ان سے اس کا آغاز کیا جائے۔

ہم کسی کیخلاف نہیں اور نہ کسی کو بچانا چاہتے ہیں۔ ہم بھی بلاتفریق سب کا احتساب چاہتے ہیں، ملک کو لوٹنے والے سب ایک جیسے لوگ ہیں۔ مگر اس وقت مسئلہ پاناما لیکس کا ہے، تحقیقات کا آغاز ہر صورت میں وزیراعظم اور اس کے خاندان سے ہونا چاہیئے۔ پھر آپ چاہے جس کا مرضی احتساب کریں۔ حکومتی ارکان جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کر رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ حکومت نے اگر اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی تو پھر فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔ اس لئے حکومت اپوزیشن کو سڑکوں کی طرف دھکیلنے کی کوشش نہ کرے۔ ویسے بھی اب سڑکوں کے علاوہ راستہ کوئی اور نہیں بچا۔ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اس لئے حکومت فوری کمیشن بنائے اور تحقیقات کا آغاز کر دے۔ اب عوام کو پتہ چل چکا ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح کرپشن کرکے دولت بیرون ملک منتقل کرتے ہیں۔ ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ حکمرانوں کی دولت بیرون ملک پڑی ہے۔ الیکشن میں ہماری بات پر دھیان نہیں دیا گیا مگر دنیا کے بہترین تحقیقی صحافیوں نے دن رات ایک کر کے دنیا کے کرپٹ ترین حکمرانوں کی آف شور کمپنیوں میں جمع دولت کی فہرست جاری کر دی، اس سے نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ دنیا بھر میں ہلچل پیدا ہوئی۔

مہذب دنیا میں تو بعض حکمرانوں، وزراء نے استعفے پیش کر دیئے، مگر ہمارے ہاں اس معاملے پر بھی مٹی پاؤ کی پالیسی اختیار کی گئی، مگر یہ معاملہ دبنے والا نہیں۔ اگر کوئی اور اس معاملے میں نواز شریف کا ساتھ دے کر اسے بچانے کی کوشش کرے گا تو وہ بھی بے نقاب ہو جائے گا۔ اس لئے میری تو یہی گزارش ہو گی کہ وزیراعظم قوم کےسامنے سچ بول دیں، سچ میں طاقت ہوتی ہے، اگر ان کی کمائی کا ذریعہ ٹھیک ہے تو پھر ڈر کس بات کا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی، ملاقات میں کیا طے پایا اور ڈاکٹر طاہرالقادری اب کیا ایجنڈا لائے ہیں؟
شیخ رشید:
ڈاکٹر صاحب کوئی ایجنڈا نہیں لائے، ان کا صرف ایک ایجنڈا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مارے جانیوالے بے گناہ افراد کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔ اس حوالے سے مجبور ہو کر 17 جون کو لاہور میں مال روڈ پر دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ قوم کرپٹ حکمرانوں سے نجات چاہتی ہے۔ قوم جب سڑکوں پر نکلے گی، تو پھر حکمرانوں کے ایوان لرز جائیں گے۔ 17 جون کو مال روڈ پر ہونیوالے دھرنے میں عوامی مسلم لیگ ڈاکٹر طاہرالقادری کیساتھ ہے، مسلم لیگ (ق) نے بھی حمایت کا اعلان کیا ہے، یہ دھرنا فیصلہ کن ہوگا۔ اس میں حکمرانوں کو پتہ چل جائے گا کہ بے گناہوں کو کس طرح قتل کرتے ہیں۔ کیوں کہ بے گناہوں کا خون رائیگاں نہیں جاتا، 2 سال گزر چکے ہیں، پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف نہیں فراہم کیا۔ ایسے لوگوں کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں جو اپنے ہی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیں اور پھر کیس کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ بھی دبا لیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نئے عزم کیساتھ لوٹے ہیں، اب انشا اللہ فیصلہ کن جنگ ہو گی اور حکمرانوں کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کسی ایک جماعت کا کیس نہیں، ظلم کیخلاف نفرت کے جذبات رکھنے والے ہر انسان کا کیس ہے، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے خون کے صدقے 2016 حکمرانوں کی سیاسی فاتحہ خوانی کا سال ہو گا۔ حکمران چھٹی پر ہیں، ملک بغیر وزیراعظم کے چل رہا ہے، ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی فوج نے بنانی ہے تو حکومت کس کام کی؟ِ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف سے پاکستان کے ہر محکوم اور مظلوم کو انصاف ملنے کی راہ ہموار ہو گی۔

اسلام ٹائمز: دفاع پاکستان کونسل پھر فعال ہو گئی ہے، کہتے ہیں کہ کالعدم جماعتیں اس کی آڑ میں دوبارہ سر اٹھا رہی ہیں، اس سے ملک میں دوبارہ خانہ جنگی کا امکان پیدا نہیں ہو گیا؟
شیخ رشید:
دفاع پاکستان کونسل ملک میں خانہ جنگی کیلئے متحرک نہیں ہوئی، بلکہ دفاع پاکستان کونسل، پاکستان
کے دفاع میں متحرک ہوئی ہے، آپ نے دیکھا کہ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملہ ہوتا ہے اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، نواز شریف نے مسلسل خاموشی اختیار کئے رکھی، ایک لفظ تک مذمت میں نہیں کہا، اس پر آرمی چیف نے پاکستانی عوام کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک انداز میں امریکہ کو جواب دیا ہے۔ اس لئے جب حکومت ستو پی کر سو رہی ہے، تو ضرورت محسوس ہوئی کہ کوئی ایسی جماعت یا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جس سے حکومت پر دباؤ میں آئے اور کچھ کرے۔ تو دفاع پاکستان کونسل، حکومت کو متحرک کرنے کیلئے فعال ہوئی ہے۔ جہاں تک کالعدم جماعتوں کی بات ہے تو اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ آپریشن ضرب عضب جاری ہے، جس نے کوئی اوچھی حرکت کرنے کی کوشش کی وہ اسی وقت دھر لیا جائے گا۔ فوج کسی کو نہیں چھوڑے گی۔ اس لئے اس حوالے سے کسی کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان آج کل حکومت کے حامی بنے ہوئے ہیں، اس "اتحاد" کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
شیخ رشید:
مولانا فضل الرحمان کو دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسے عالم دین ہے، جو اسلام کی بجائے اسلام آباد کے رسیا ہیں، یہ انتہائی چالاک اور مفاد پرست ہیں، ان کا جس سے مفاد ہوتا ہے یہ اسی کیساتھ نتھی ہو جاتے ہیں۔ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے مجھے کہا کہ نواز شریف انہیں لفٹ نہیں کراتے، میرا فون نہیں سنتے، پھر نواز شریف نے "رقم بڑھا" دی تو مولانا اس کے پیچھے ہو لئے، مولانا فضل الرحمان کا ایک ہی نعرہ ہے کہ "رقم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمھارے ساتھ ہیں" تو جب تک نواز شریف مولانا فضل الرحمان کو مراعات دیتے رہیں گے، یہ ان کیساتھ رہیں گے، ان سے جیسے ہی مفادات ختم ہوئے، نواز شریف کی کشتی سے اترنے میں مولانا صاحب ذرا بھی تامل نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو کیساتھ بھی آپ کی ملاقات ہوئی، آپ کی رائے مثبت تبدیلی آئی کہ ابھی تک آپ بلاول کے بارے میں وہی رائے رکھتے ہیں؟
شیخ رشید:
بلاول کیساتھ میری مختصر ترین ملاقات ہوئی، صرف 14 یا 15 منٹ ملا، میں نے ان کو بہت مختلف پایا، مجھے اس میں بے نظیر کی جھلک نظر آئی اور میں یہ تسلیم کرنے میں ذرہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہا ہے کہ میں نے بلاول کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی وہ غلط تھی، میں نے ان کے بارے میں جو کچھ کہا وہ غلط تھا، بلاول بھٹو میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جراثیم ہیں، پیپلز پارٹی کے ایم پی اے اور ایم این اے تو ممکن ہے زرداری کیساتھ ہوں، لیکن پیپلز پارٹی کے جیالے بلاول بھٹو کیساتھ ہیں اور اگر آصف زرداری اور بلاول میں الیکشن کرایا جائے تو بلاول باپ کو ناک آؤٹ کر دے گا۔ میں نے واضح طور پر بلاول کو کہا کہ میں نے آپ کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی، وہ اس ملاقات کے بعد تبدیل ہو گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: شیخ صاحب! آخری سوال، کہ پاک ایران کشیدگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا انڈیا کا ایران کے قریب آنا ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں؟
شیخ رشید:
دیکھیں جی، ہماری خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے، جب کسی ملک کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہو گا تو معاملات کیسے چلیں گے، نواز شریف نے وزارت خارجہ کے معاملات 2 بابوں کےہاتھ دے رکھے ہیں، جو آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں، ان کی آپس میں نہیں بنتی تو کسی دوسرے ملک کیساتھ کیسے تعلقات اچھے کریں گے۔ جہاں تک ایران کی بات ہے تو ایران نے گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا، اس میں ہمارے ساتھ ساتھ بھارت بھی شامل تھا، لیکن بھارت امریکی دباؤ میں اس معاہدے سے آؤٹ ہو گیا اور ہم ہی رہ گئے، ہم نے بھی امریکی دباؤ میں اس منصوبے کو درمیان میں ہی لٹکا دیا۔ جبکہ ایران نے بھاری سرمایہ لگا کر گیس پائپ لائن سرحد تک پہنچا دی ہے۔ یہ بھی ایران کا پاکستان پر احسان ہے کہ اس نے ہم سے جرمانہ نہیں لیا، جو معاہدے کے مطابق ہمیں ادا کرنا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاک ایران دوستی میں پاکستان کی طرف سے ہی ایک خلا پیدا کیا گیا جس کو بھارت نے دیکھتے ہوئے اس کا فائدہ اٹھایا اور فوراً ایران کے قریب ہو گیا۔

اس کے علاوہ جب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ شروع ہوا ہے، اس وقت سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے، بھارت اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو فلاپ کر دے، اس کیلئے وہ کبھی ایران جاتا ہے تو کبھی افغانستان، اس لئے بھارت کی وجہ سے ہی ایران اور پاکستان میں کچھ سردمہری آئی ہے لیکن یہ وقتی اور عارضی ہے، اس سے بھارت کو شائد کوئی فائدہ نہ ہو لیکن ایران کو فائدہ ضرور ہو گا، پاکستان اور ایران کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ وہ زوال پذیر نہیں ہو سکتے۔ یہ مضبوط دوستی ہے، چین ایران اور ترکی ہمارے فطری دوست ہیں، ہماری اس دوستی کی جڑیں عوام میں ہیں، حکومتی سطح پر کشیدگی پیدا بھی ہو گئی تو عوامی سطح پر یہ رابطے ختم نہیں ہو سکتے۔ اس لئے ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی نہیں۔ اس میں بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا ہوگا، اس کیساتھ حکومت کو چاہیے کہ کابل کیساتھ اپنے تعلقات خراب نہ کرے۔ تہران اور کابل کیساتھ رابطے رکھے اسی میں ہی بھارتی سازشیں ناکام ہو جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 546444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش