0
Monday 20 Jun 2016 21:32
بیت المقدس مسلمانوں کے قبلہ اول ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ اول مقام رکھتا ہے

فلسطین کی بازیابی کے حوالے سے جدوجہد کرنا تمام مسلمانوں کا ایمانی تقاضا ہے، پروفیسر مقصود الحسن قاسمی

ایک حقیقی مسلمان بیت المقدس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا
فلسطین کی بازیابی کے حوالے سے جدوجہد کرنا تمام مسلمانوں کا ایمانی تقاضا ہے، پروفیسر مقصود الحسن قاسمی
پروفیسر مولانا مقصود الحسن قاسمی کا تعلق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہے، وہ 9 سال سے امام کونسل آف انڈیا کے صدر ہیں، امام کونسل آف انڈیا کے ساتھ کشمیر، اترانچل، دہلی، اترپردیش، ممبئی سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں کے جید علماء کرام و مفتی عظام جڑے ہوئے ہیں امام کونسل آف انڈیا کا قیام بھارت میں فعال علماء کرام کے درمیان ہم آہنگی اور ہم آواز بنانے کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں دینی تعلیم و ماڈرن ایجوکیشن کے لئے امام کونسل آف انڈیا کا اہم رول ہے، مولانا مقصود الحسن قاسمی اوکھلا نئی دہلی میں امام جمعہ و الجماعت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں، مولانا مقصود الحسن قاسمی ساتھ ہی ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ (یونیورسٹی) میں بحیثیت پروفیسر اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، موصوف نئی دہلی اور اس کے اطراف میں اہم دینی امور اور اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے بہت ہی فعال ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا مقصود الحسن قاسمی سے نئی دہلی میں ملاقات کے دوران ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اولاً ہم یوم القدس کی اہمیت کے حوالے سے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
بیت المقدس مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس لئے عالمی اسلام کے بچے بچے کو بیت المقدس سے دینی عقیدت ہونا چاہیئے اور ہے، تو سب مسلمانوں کا جذباتی اور دینی لگاو قبلہ اول کے ساتھ ہونا چاہیئے اسی کا احساس امام خمینی (رہ) نے کرایا، یہ ایک بہت بڑی ابتداء اور بہت بڑا آغاز جو امام خمینی (رہ) نے کیا کہ انہوں نے یوم القدس کے لئے رمضان المبارک کے آخری جُمعہ جو جمعۃ الوداع ہے جو تمام دنوں میں سب سے بڑا دن ہے، جو جمعوں میں سب سے بڑا جمعہ ہے، اس کو یوم القدس کا نام دیا اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان مساجد میں، اسلامی مراکز میں اور سڑکوں پر نکل کر بیت المقدس پر تقاریر کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں اور فلسطینی مظلوموں کی ساتھ اظہار ہمدردی و اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور صہیونیت و اسلام دشمن عناصر کے ساتھ اظہار نفرت کرتے ہیں، بیت المقدس کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں اور اس کی بازیابی کے لئے آواز بلند کرتے ہیں، کسی طرح کی قربانی سے دریغ نہ کریں گے اس کا عہد کرتے ہیں، پوری دنیا میں یوم القدس کے دن قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی کے لئے پرچم لہرائے جاتے ہیں، اس دن اسلام کا ایک نادر اور بے مثال نمونہ سامنے آتا ہے، دن بہ دن بیت المقدس کے بازیابی کے لئے زیادہ اثر اور زیادہ جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے اور لوگ اس کاروان میں شامل ہوتے جارہے ہیں، لیکن یہ سب امام خمینی (رہ) کو کریڈت جاتا ہے۔

ہم سب کو امام خمینی (رہ) کے فرمان پر لبیک کہنا چاہیئے اور ہمیں اس آواز کو آگے بڑھانا ہوگا، اور آنے والے یوم القدس کو زور و شور کے ساتھ فلسطین اور بیت المقدس کے بازیابی کے لئے جو ہم سے بن پڑے گا کرنا چاہیئے، یہی ایک دائرہ ہے ایک مرکز ہے جہاں تمام عالم اسلام متحد ہو سکتا ہے، یہ وہ دن ہے جب تمام مسالک کے لوگ جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کا تعلق بیت المقدس سے ہے، فلسطین سے ہے، اسکو آزاد کرانا ہم سب کی دینی ذمہ داری ہے اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، ہر کلمہ گو کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المقدس کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کے ایسے حالات میں یوم القدس کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
ابھی جہاں تمام عالم اسلام انتشار و تضاد سے دوچار ہے، عراق و شام میں اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں، تو یوم القدس ہی ایک ایسا نعرہ ہے، بیت المقدس اور فلسطین ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جو تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتا ہے، تو اس تناظر میں جتنا بھی یوم القدس کا عظیم و منظم و مستحکم اہتمام ہو ہے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پروان چڑھے گا۔

اسلام ٹائمز: ابھی ہر جگہ SAVE GAZA کے نعرے بلند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، کیا صرف غزہ کا مسئلہ ہی ہمارے سامنے ہے، کیا اس نعرے کے نتیجے میں بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ نظر انداز کرنے کی کوئی سعی تو نہیں کی جارہی ہے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
SAVE GAZA کا جو نعرہ بلند کررہے ہیں اور فلسطین کو یا بیت المقدس کو نظر انداز کررہے ہیں یہ دراصل نام نہاد سیکولر یا ڈیموکریٹک سوچ ہے، ہاں غزہ بھی چاروں اطراف سے محصور ہے، وہاں لوگوں کو صہیونی بربریت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پانی تک بند کردیا گیا ہے، اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو سیو غزہ کی بات کرنا بھی درست ہے، لیکن مسلمانوں کو کلاً مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی بازیابی کے حوالے سے کاوشیں کرنی چاہیے، اصل مسئلہ سے ہمیں توجہ نہیں ہٹانی چاہیے، مسلمانوں کا بیت المقدس سے ایمانی لگاؤ ہے، ایمانی وابستگی ہے، جو ہمارے دلوں سے ہرگز نکالی نہیں جاسکتی ہے، فلسطین کی بازیابی کے حوالے سے جد و جہد کرنا ہمارا ایمانی تقاضا ہے، یہ مسئلہ انسانیت کی پہچان ہے۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان میں قدس ڈے کے حوالے سے تیاریاں۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
ہندوستان میں یوم القدس منانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، مساجد و خانقاہوں میں اس حوالے سے فعالیت دیکھی جارہی ہے، بینرز اور پوسٹرز سے شہر و گام کی دیواریں سجی ہوئی ہیں، بھارتی مسلمان یک زبان ہوکر فلسطینیوں اور دیگر مستضعفین جہاں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ظالم و جابر اسرائیل کے خلاف تمام حق پسند عوام تیار نظر آرہے ہیں، اب عوام اس حوالے سے متحد و منظم نظر آرہے ہیں، اس پر کام ہورہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا محسوس نہیں ہورہا ہے کہ ابھی بھی ہندوستان عوامی کی اکثریت اس مسئلہ سے ناواقف ہے، ان کے لئے آگہی مہم کی ضرورت ہے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
دیکھئے ہندوستان کے مسلمانوں کے اپنے کچھ مسائل بھی ہیں، روز بروز نت نئے مسائل ان کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہورہے ہیں، آر ایس ایس کی جانب سے روز نئی سازشوں کا شکار انہیں کیا جارہا ہے، عالمی مسائل پر اگر انکی توجہ کم جارہی ہے تو یہ حقیقت تسلیم کی جانی چاہیے، لیکن پھر بھی بیت المقدس ایک ایسا معاملہ ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ اول مقام رکھتا ہے، ایک حقیقی مسلمان بیت المقدس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا، ہاں اگہی کی مہم جاری رہنی چاہیے، لوگوں کو فلسطین کے معاملے سے اور آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، ہمیں ہمارے مشترک معاملوں پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، آپ کو یہ بھی بتاتا چلو کہ ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس دیش کی حکومت اور عوام نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی ہے، ان کا ساتھ دیا ہے، لیکن اب یہاں کی حکومت اسرائیل کی آلہ کار اور معاون و مددگار بنے جارہی ہے، یہ واقعاً ایک فکر مندی کی بات ہے، رونہ تاریخ ہمارا سر اونچا کئے ہوئے تھی کہ ہم نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے، تو ہمیں بھارتی حکومت پر بھی دباؤ بنانا چاہیے کہ اسکا جو کردار فلسطین کے حوالے سے رہا ہے اسے بحال کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: جمہوری اسلامی ایران کی فلسطین سے حمایت اور وابستگی، اس کے برعکس نام نہاد عرب حکمرانوں کی اس جانب بے اعتنائی کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مقصود الحسن قاسمی:
میرا ماننا ہے کہ اسلامی جمہوری اسلامی ایران کی وجہ سے ہی مسئلہ فلسطین دنیا کے گوشے گوشے میں گونج رہا ہے، آج فلسطین کی بازیابی کے لئے جو بھی کام ہو رہا ہے وہ ایران کی کاوش اور قوت کی وجہ سے ہے، ایران پر پابندیاں عائد ہونے کے باوجود وہ فلسطین کاز کی مدد کر رہا ہے، ورنہ فلسطین کے پڑوسی ممالک گھاس اور کوڑے کی مانند ہیں، مسئلہ فلسطین کا زندہ ہونا سب سے زیادہ جمہوری اسلامی ایران کو ہی کریڈٹ جاتا ہے اور تمام مسلمانوں کو دُعا کرنی چاہیئے کہ اللہ جمہوری اسلامی ایران کی حفاظت کرے، اسے ترقی دے تاکہ وہ ایک سایہ بنے، چھایا بنے اور مسلمانوں کے لئے چھاتے کا کام کرے اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرے اور پوری دنیا میں امن کا پیغام لے کر آگے بڑے، ایرانی قیادت نے یوم القدس کی بنیاد رکھی۔ فلسطین کا محور ہی بیت المقدس ہے تو اس لحاظ سے بیت المقدس کا جب ذکر ہوتا ہے تو یہ اسلامی عبادت کے طور پر ایک پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے یہ کوئی ایسی تحریک نہیں ہے کہ جو فلسطین کی کوئی لبریشن فرنٹ ہو یا کوئی سیاسی تحریک ہو یہ تحریک ایک ایسی انقلابی تحریک و دینی تحریک ہے کہ جس میں اسلامی عبادت کا پہلو بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 547335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش