0
Saturday 25 Jun 2016 22:27
پاکستانی حکومت عوام کی حقیقی آواز بنتے ہوئے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے اور اسرائیلی مظالم آشکار کرے

شام میں داعش کی مدد کرکے بعض عرب ممالک نے تحریک آزادی فلسطین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، مولانا قاضی احمد نورانی

عرب حکمرانوں اور بادشاہتوں کو اپنا اقتدار عزیز ہیں، جسے باقی رکھے کیلئے وہ دنیا کے نام نہاد بڑے ممالک کی غلامی کیلئے تیار ہیں
شام میں داعش کی مدد کرکے بعض عرب ممالک نے تحریک آزادی فلسطین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، مولانا قاضی احمد نورانی
معروف اہلسنت عالم دین مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور اس وقت جے یو پی کراچی کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ اس کے ساتھ آپ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان اور اسکی بعض ذیلی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں اور رابطے کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی پاکستان میں مسئلہ فلسطین کیلئے آواز بلند کرنے والے ادارے فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان (PLF Pakistan) کے مرکزی ادارے "سرپرست کونسل" کے مرکزی رکن بھی ہیں۔ وہ ہمیشہ اتحاد امت و وحدت اسلامی اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور ان حوالوں سے پاکستان بھر میں اور ایران، شام، لبنان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کے ساتھ مسئلہ فلسطین اور عالمی یوم القدس کے حوالے سے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: داعش اور اس جیسے دیگر دہشتگرد گروہ کس طرح تحریک آزادی فلسطین کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ دہشتگرد گروہ داعش کی مذمت دنیا بھر میں ہو رہی ہے، لیکن داعش کے وجود کی جو خرابیاں ہیں، ان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ داعش کے وجود سے مسلمانوں کے ایک عظیم مقصد کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ ہے آزادی قدس۔ فلسطین کی سرحدیں مصر، لبنان، شام سے ملتی ہیں، مصر چونکہ ایک عرصے سے امریکا نواز رہا ہے، اس لئے مصر سے کوئی خیر کی توقع ہی نہیں ہے، لبنان ایک بہت چھوٹا ملک ہے، لیکن لبنان میں حزب اللہ موجود ہے، اس لئے جہاں تک ممکن ہوتا ہے لبنان سے غزہ کے مسلمانوں کو ایک تقویت ملتی ہے، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ایک بہت بڑا امیدوں کا مرکز شام رہا ہے، فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک حماس ہے، اس کا مرکز بھی شام میں رہا، شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود رہی، جو شام میں اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کیلئے عارضی طور پر مقیم رہے اور وہیں سے بیٹھ کر دنیا بھر کی توجہ مسئلہ فلسطین کی طرف مبذول کراتے رہے، داعش کی دہشتگرد کارروائیوں سے ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ شام بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔

امریکا اور اسکے حامی کچھ عرب ممالک نے مل کر دہشتگرد گروہ داعش کو وہاں اس مقام پر پہنچا دیا کہ اس نے بشار حکومت کیلئے شدید مشکلات پیدا کر دیں، ہزاروں شامی مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا، فلسطین کے پناہ گزین جو ایک عرصے سے شام میں تھے اور انکی آمدورفت جاری تھی، شامی حکومت کی طرف سے انکو اخلاقی مدد بھی حاصل تھی، شامی عوام کی جانب سے بھی انہیں بہت بڑی سپورٹ کا سلسلہ جاری تھا، یہ تمام سلسلے رک گئے، شام میں حماس اور دیگر فلسطینی تنظیمیں بے ترتیب ہوگئیں، اس طرح داعش کے وجود اور داعش کی دہشتگرد کارروائیوں سے اسرائیل کو بہت بڑی تقویت پہنچی اور فلسطین کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی شدید متاثر ہوگئی، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ داعش کو مدد فراہم کرکے امریکا اور بعض نادان عرب ممالک نے کوئی خیر خواہی نہیں کی بلکہ بلواسطہ اسرائیل کی مدد کی، صہیونیوں کی مدد کی، جدوجہد آزادی فلسطین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جو کہ پچھلے دو تین سالوں میں ہونے والے المیوں میں ایک سب سے بڑا المیہ ہے، جس سے تحریک آزادی فلسطین کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور فلسطین کا دفاع اسلام کا دفاع ہے، اس حوالے سے آپکی کیا رائے ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
اقوام عالم میں اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے عین مطابق یہ طے ہے کہ دنیا میں بسنے والی ہر قوم کو اپنے وطن میں پوری آزادی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے، جب ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، تو ہم دراصل یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی بھی طاقت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی خطے کے بسنے والوں سے انکا وطن بالجبر چھین لے اور جب یہی اصول دنیا میں ہر جگہ استعمال ہوتا ہے، مثلاً کشمیر کشمیریوں کا ہے، جس پر دنیا کے اکثریت ممالک ہماری آواز کو سنتے ہیں، تو جب ہم کہتے ہیں کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، تو یہ بات کیوں نہیں مانی جاتی۔ جس طرح صہیونیوں نے فلسطین سے زبردستی وہاں کے رہنے والوں کو نکالا، انہیں دربدر کیا، جس طرح اسرائیل کے ناجائز و ناپاک وجود کو وہاں پیدا کیا گیا، اب بھی بیت المقدس کے اطراف میں ناجائز بستیاں قائم کی جا رہی ہیں، یہ عمل مظلوم فلسطینیوں کو انکے وطن سے مستقل بے دخل کئے رکھنے کی ایک سازش ہے، لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ فلسطنی فلسطینیوں کا ہے اور جب تک فلسطین اپنے وطن کو واپس نہیں لوٹ جاتے، آزادی فلسطین کی جدوجہد اور تحریک جاری رہے گی۔

اسلام ٹائمز: ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل فلسطین اور بیت المقدس کو یہودیانے کی ناپاک سازش کر رہا ہے اور تاریخ میں پہلی بار عالم مغرب میں اسرائیل پر شدید کھلی تنقید کی جا رہی ہے، مغربی این جی اوز بھی ان اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں، لیکن دوسری جانب بعض مسلم و عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات بڑھا رہے ہیں، کیا کہیں گے اس افسوسناک صورتحال پر۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
اکثر عرب ممالک کے رابطے امریکا، برطانیہ، فرانس جیسے ممالک سے ہیں، ان ممالک نے دنیا پر اپنی اجارہ داری کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے کو اپنا حق سمجھا ہے، جب یہ ممالک دیکھتے ہیں کہ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی تیز ہو رہی ہے، اور عالمی رائے عامہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں جا رہی ہے، تو یہ عرب ممالک سے ایسے کام کرواتے ہیں کہ جس سے عالمی رائے عامہ کو نقصان پہنچے اور مظلوم فلسطینیوں کا مستقبل ایک بار پھر مخدوش ہو جائے، یہ بعض عرب ممالک کی اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی خبریں منظر عام پر لا کر یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عربوں کا اسرائیلیوں سے کوئی جھگڑا نہیں، لیکن یہ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو ہرگز ہرگز نہیں روک سکتے، یہ فلسطینیوں کو بھٹکا نہیں سکتے، ان کی سازشیں ناکام ہونگی، اسرائیل کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے تمام ہمدرد بھی بہت جلد نیست و نابود ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: شام میں بحالی جمہوریت کے نام پر داعش و دہشتگرد گروہوں پر جتنا سرمایہ ان عرب ممالک نے خرچ کیا، اگر اسکا دس فیصد بھی اسرائیل کیخلاف استعمال ہوتا، تو اسرائیل کب کا مٹ چکا ہوتا، کیا کہیں گے عرب ممالک کی اس افسوسناک روش کے حوالے سے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
اسرائیل کی نابودی کا فیصلہ تو اعراب نے کبھی کیا ہی نہیں، عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر عربوں کی غیر دانشمندی واضح ہوچکی تھی، مصر میں آنے والی حکومتوں کی طرف سے اسرائیل ک بے جا حمایت واضح ہے، جب تک عرب اور ان کے نام نہاد حکمراں یہ طے نہیں کر لیتے کہ دنیا میں مسلمانوں کا مستقبل اسی وقت محفوظ ہے کہ جب مسلمان ایک امت بن کر رہیں، وگرنہ اسی طرح ان کا سرمایہ ضائع ہوتا رہے گا، ان سے جب کوئی کام لینا چاہے گا، تو انہی کے تیل کو بیچ کر انہیں پر حملے کروا دیگا، انہیں کے سرمائے سے داعش اور اس جیسے دیگر دہشتگرد گروہوں کو ان پر مسلط کر دیگا، اگر یہ عرب ذرا بھی ذی شعور، ذی عقل ہوتے اور اپنے اس سرمائے کو جو ضائع کا کیا گیا، مسلمانوں ہی کی بربادی کا باعث بنا، اس کو اگر فلسطین کیلئے استعمال کرتے تو آج اسرائیل نابود ہوچکا ہوتا، لیکن چونکہ عربوں کے ذہن میں مسلمانوں کا مستقبل نہیں ہے، انہیں صرف اپنی اپنی حکمرانی اور بادشاہتیں عزیز ہیں، جسے باقی رکھے کیلئے وہ دنیا کے نام نہاد بڑے ممالک کی غلامی کیلئے تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: او آئی سی اور عرب لیگ کی مسئلہ فلسطین پر مجرمانہ خاموشی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
او آئی سی ایک عضو معطل ہے، چونکہ عرب ممالک ک طرف سے ایک واضح مؤقف نہیں ہوتا تو بقیہ ممالک کا موقف بھی بے سود ثابت ہوتا ہے، او آئی سی ذرا سی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے، کم از کم ایک موثر آواز بلند کرے، اس سے دنیا کے سامنے ایک مؤثر آواز جائے گی، اس سے فلسطین کی جدوجہد آزادی کو تقویت ملے گی، اسرائیل کو اگر فوری نابود نہیں بھی کیا جاسکتا تو اس کیلئے مشکلات پیدا کی جاسکتی ہیں، اس کے اثر و رسوخ کو روکا جا سکتا ہے۔ بہرحال او آئی سی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ہے، وگرنہ آزادی فلسطین کے حوالے کافی بہتر صورتحال سامنے آچکی ہوتی۔

اسلام ٹائمز: بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینیؒ کے جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس منانے کے اعلان نے مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، کیا کہیں گے عالمی یوم القدس منانے کے اعلان کے حوالے سے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
1979ء میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد جہاں ایران نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور چونکہ وہاں ایک انقلابی ذہن پروان چڑھا، انہوں نے طول جدوجہد کے بعد اپنے ہاں سے سامراج کو شکست دیکر نکال باہر کیا، اس کے بعد آیت اللہ روح اللہ امام خمینیؒ نے جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا، اس طرح ایران سے ایک انتہائی مؤثر آواز اٹھی اور دنیا بھر میں پھیلی، دنیا میں یوم القدس منانے کا سلسلہ انتہائی فعال ہوا، اس سے فلسطینی مسلمانوں کو بہت تقویت ملی، اس کے ساتھ ساتھ ایران میں سال میں کبھی ایک بار، کبھی دو بار انٹرنیشنل فلسطین کانفرنسز ہوتی ہیں، القدس کے حوالے سے وہاں جو تقریبات ہوتی ہیں، ان میں دنیا بھر سے مسلم رہنما شریک ہوتے ہیں، اس طرح ایران سے اٹھنے والی یہ آواز تحریک آذادی فلسطین کی ایک مؤثر آواز بن گئی اور اسی کا اثر یہ ہے کہ پاکستان میں بھی انتہائی فعال طریقے سے یوم القدس منایا جاتا ہے، اس سال بھی پچیس رمضان بروز جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس کے موقع پر پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یوم القدس منایا جائیگا، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان بھی اس دن کو شایان شان طریقے سے منائے گی، بڑے بڑے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں ہونگی، تمام آئمہ و خطباء اجتماعات جمعہ میں فلسطینی مسلمانوں کے حق میں قراردادیں منظور کروائیں گے، پاکستان کے بھی کروڑوں مسلمان اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت اعلان کرینگے، عالمی یوم القدس تحریک آزادی فلسطین کا ایک اہم باب ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
پاکستان کی پالیسی اکثر امریکا نواز رہتی ہے، پھر پاکستان اپنے داخلی مسائل میں اس قدر گھرا رہتا ہے کہ وہ عالمی مسائل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کر پاتا، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح ہیں، ہم اسلامی دنیا کے حمایتی ہیں، فلسطین اور کشمیر کی آواز ہر فورم پر اٹھاتے ہیں، پاکستانی عوام بھی مسلسل فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی و ہمدردی کرتی ہے، وہاں کے حوالے سے پاکستانی عوام باخبر رہتے ہیں، فلسطین فاؤنڈیشن اور دیگر تنظیمیں فلسطین کی اخلاقی حمایت جاری رکھتی ہیں، دو سال پہلے جب غزہ میں اسی ماہ رمضان میں بدترین جنگ مسلط کی گئی تو دنیا کے بڑے مظاہروں میں سے اہم مظاہرے کراچی سمیت پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں ہوئے، عالمی یوم القدس جو پچیس رمضان کو آ رہا ہے، پاکستان بھر میں شایان شان طور پر منایا جاتا ہے، پاکستان کا حکمران طبقہ فلسطین کے حق میں ایک واجبی سے آواز تو بلند کرتا ہے، لیکن چونکہ پاکستان اپنے داخلی مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس لئے کوئی عملی اقدام نہیں کر پاتا، لیکن جب بھی دنیا میں مؤثر آواز اٹھے گی پاکستان اس میں آگے آگے ہوگا، فلسطین کیلئے ہراول دستے کا کردار ادا کریگا۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی حقیقی آواز بنے اور عالمی یوم القدس کے موقع پر تمام تر میڈیا کو فعال کرتے ہوئے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے، اسرائیلی مظالم کو آشکار کرے، تحریک و جدوجد آزادی فلسطین کو دنیا بھر کے سامنے پیش کرے۔

اسلام ٹائمز: عالمی یوم القدس کی مناسبت سے پاکستانی عوام کو کیا پیغام دیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی:
پچیس رمضان جمعة الوداع عالمی یوم القدس کے موقع پر پاکستانی عوام ملک بھر میں تمام ریلیوں، جلسے، جلوسوں، مظاہروں میں بھرپور شرکت کریں اور فلسطینی مسلمانوں کے حق میں، آزاد فلسطین و بیت المقدس کیلئے آواز بلند کریں۔
خبر کا کوڈ : 548617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش