0
Monday 27 Jun 2016 13:54

دنیا کے مختلف خطوں میں 80 کروڑ سے زیادہ افراد اردو کو رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں، ڈاکٹر شریف نظامی

دنیا کے مختلف خطوں میں 80 کروڑ سے زیادہ افراد اردو کو رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں، ڈاکٹر شریف نظامی
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس فرمان کو کہ ”میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی“ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ڈاکٹر محمد شریف نظامی کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں، دردمند پاکستانی اور نوجوان نسل میں قومی زبان کی ترویج کے لئے مصروف عمل ہیں۔ پاکستان قومی زبان حریک کے سربراہ کے مطابق تحریک کا نصب العین قومی زبان اُردو کے تحفظ، فروغ اور انگریزی کی جگہ اِس کے ہر سطح (تعلیمی ادارے، دفاتر اور عدالتوں وغیرہ) پر مُکمل نفاذ کے لئے پُرامن جمہوری ذرائع اختیار کرتے ہوئے جدوجہد کرنا، جب حکومتِ پنجاب نے غیر آئینی، غیر جمہوری اور قائدِ اعظم کے ارشادات کے سراسر خلاف اقدامات کرتے ہوئے تمام سرکاری سکولوں میں اُردو ذریعہ تعلیم ختم کرکے اِنگلش میڈیم کا آغاز کر دیا، تو 5 نومبر 2010ء کو لاہور میں تحریک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان قومی زبان تحریک کے چیئرمین کے ساتھ اسلام ٹائمز کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اردو زبان کی کیا اہمیت ہے، کیا ایک زبان کو لیکر ہم دیگر اقوام کیساتھ چل سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شریف نظامی:
اردو پاکستان کی قومی، علمی اور ثقافتی زبان ہے۔ اگرچہ اس زبان کو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہے، تاہم یہ بڑی جامع زبان ہے۔ اس کی اپنی تاریخ ہے اور اس کے دامن میں بڑی وسعت ہے۔ اردو زبان کا شمار بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد یہ تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دوسرے خطوں میں 80 کروڑ سے زیادہ افراد اسے رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ اردو مشرق بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطٰی اور یورپ کے بازاروں، جنوبی افریقہ اور امریکہ کے متعدد شہروں میں یکساں مقبول ہے۔ یہاں ہر جگہ اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔ یہ زبان ایک جاندار اظہار اور اظہار کا جان دار ذریعہ ہے۔ اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔

اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصہ ہے۔ یہ عربی اور فارسی جیسی دو عظیم زبانوں اور برصغیر کی تمام بولیوں سے مل کر بننے والی، لغت اور صوتیات کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور قبول عام کے لحاظ سے ممتاز ترین زبان ہے۔ اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے۔ اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن ہے، ایک لسان الارض ہے، جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے ہیں۔ اردو میں مختلف زبانوں مثلاً ترکی، عربی، فارسی، پرتگالی، اطالوی، چینی، انگریزی، یونانی، سنسکرت اور مقامی بولیوں اور بھاشا یا ہندی سے لئے گئے ہیں۔ اردو زبان محبت کی سفیر ہے۔ یہ مختلف ذہنی دھاروں سے تعلق رکھنے والے، مختلف عقائد سے وابستہ، مختلف مزاجوں کے حامل بڑے گروہوں کی تخلیقی و تصنیفی زبان ہے اور بول چال کی سطح پر دنیا کے لاتعداد ممالک میں وہاں کی گلیوں، کوچوں، بازاروں اور گھروں میں اپنی زندگی کا ثبوت دے رہی ہے اور عالمی سطح پر اپنے حلقہ اثر میں وسعت پیدا کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: بطور قومی زبان اردو ہمارے لئے کیوں اہم ہے، کیا اردو کے نفاذ کی تحریک اسوقت کی تحریک ہے۔؟
ڈاکٹر شریف نظامی:
اردو صرف ہماری قومی زبان نہیں بلکہ عالمی رابطہ کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ بعض بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق بولنے والوں کی تعداد کے حوالہ سے اردو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے، جبکہ وہ اپنے پھیلائو اور دنیا کے مختلف بر اعظموں میں بولی اور سمجھی جانے والی سب سے بڑی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی استعمار کے تسلط کے بعد مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو قائم رکھنے کے لئے جو دو بڑے عنوانات اختیار کئے گئے تھے، ان میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت و امتیاز کے ساتھ اردو زبان کو بھی ملی جدوجہد میں برابر کا درجہ دیا گیا تھا۔ چنانچہ سر سید احمد خان مرحوم نے جہاں دو قومی نظریہ کے عنوان سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو ہندو تہذیب و ثقافت سے الگ ایک مستقل تہذیب کے طور پر پیش کیا، وہاں ہندی زبان کے فروغ کے مقابلہ میں اردو کے تحفظ اور فروغ کی جنگ بھی لڑی، اور اسے مسلمانوں کا تشخص برقرار رکھنے کی ایک مستقل کوشش اور عنوان کا درجہ دیا۔ اس کے بعد علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولوی عبد الحق اور دیگر زعماء نے اردو کے فروغ و تحفظ کے لئے سرگرم کردار ادا کیا۔ اس لئے نظریہ پاکستان کی اساس جداگانہ مسلم تہذیب کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اردو کو قومی زبان قرار دینے کا دوٹوک اعلان کیا۔

اسلام ٹائمز: بابائے قوم کے واضح اعلان کے باوجود اردو کا نفاذ کیوں نہیں ہوا، کیا پاکستانی قوم کو اردو سے لگاو نہیں۔؟
ڈاکٹر شریف نظامی:
اردو کو ایک زندہ، متنوع اور ادب و علم کے ذخائر سے مالا مال زبان ہونے کے باوجود ہماری اسٹیبلشمنٹ نے نظر انداز کرنے کی روش اختیار کر رکھی ہے اور دفتری اور عدالتی دائروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے مجموعی ماحول کو بھی انگریزی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ جس طرح ہر زبان کی پشت پر اس کی تہذیب و ثقافت کار فرما ہوتی ہے، اسی طرح ہمارے ہاں انگریزی زبان کے جلو میں انگریزیت اپنی پوری نفسیات کے ساتھ ہر طرح پائوں پھیلاتی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی رابطہ اور عالمی ضروریات کے لئے انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، لیکن اسے عملاً قومی زبان کی جگہ بھی دے دی گئی، جس کا نتیجہ ہم قومی سطح پر فکری اور تہذیبی خلفشار کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ حتٰی کہ عدالت عظمٰی کو اس کا نوٹس لینا پڑا اور اس کی طرف سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ دستور کے مطابق اردو کو اس کا صحیح مقام اور کردار دلانے کے لئے اقدامات کریں۔

جہاں تک اردو زبان کی دفتری اور عدالتی شعبوں میں ترویج و تنفیذ اور قومی اداروں میں اردو کے عملی فروغ کے سپریم کورٹ کی ہدایات کا تعلق ہے، ان پر عملدرآمد کا کوئی سنجیدہ ماحول سرکاری حلقوں میں دکھائی نہیں دے رہا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظریۂ پاکستان کی پہلی اساس یعنی مسلم تہذیب و ثقافت کے امتیاز و تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی دوسری اساس یعنی اردو زبان بھی ورلڈ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سائے میں قومی اسٹیبلشمنٹ کی مصلحتوں کے جال میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ جبکہ اس سے زیادہ المیہ کی بات یہ ہے کہ اسے اب سر سید احمد خان، مولوی عبدالحق، اور ڈاکٹر سید عبد اللہ جیسا کوئی وکیل بھی میسر نہیں، جو اس کا مقدمہ لڑ سکے اور اردو کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے والے عناصر کے درمیان کم از کم پُل کا کردار ہی ادا کرسکے۔


اسلام ٹائمزۛ:
اردو ہمارے لئے کیوں ضروری ہے، جبکہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کو اپنانے میں کوئی قباحت بھی نہیں، ہمارا نصاب بھی انگریزی ہے۔؟
ڈاکٹر شریف نظامی:
یہ ہمارا المیہ ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے، لیکن ہم اسے اپنانے کی بجائے شرماتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں قومی زبان اردو کو رائج کرنے کے حوالے سے عوام نے بہت سی امیدیں لگا لی تھیں۔ 1973ء کے آئین میں اس امر کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ آنے والے 15 سالوں میں پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی، مگر بدقسمتی سے آج تک اس کے نفاذ کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہ کئے گئے۔ ان 15 سالوں کے اندر اگر قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کا درجہ مل جاتا تو آج ہم بھی دنیا کی نظروں میں ایک ترقی یافتہ قوم ہوتے۔ قوم زبان سے زندہ رہتی ہے۔ یہ زبان ہی ہے جو قوم کی تاریخ و تہذیب اور تمدن کی نمائندہ اور محافظ ہے۔ زبان کے بغیر قوم اندھی، بہری اور گونگی بن کر ختم ہو جاتی ہے۔ دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس نے کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کرکے ترقی کی ہو۔ ترقی یافتہ ممالک جاپان، چین، جرمنی اور فرانس نے اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر کامیابی کی منازل کو چھوا۔ اگر وطن عزیز کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنا ہے، تو سب سے پہلے تمام علوم کو قومی زبان میں پڑھانے کا بندوبست کیا جانا چاہئے۔ سی ایس ایس، این ٹی ایس، پی سی ایس سمیت تمام ٹیسٹ اپنی زبان میں ہونے سے کامیابی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: انگریزی ترقی یافتہ زبان ہے، وقت کی ضرورت ہے، تعلیمی نظام کو عصر حاضر کی ضروریات کے مطابق نہیں ہونا چاہیے۔؟
ڈاکٹر شریف نطامی:
ہمارے ملک میں انگریزی زبان اپنے عروج پر ہے۔ ہم انگریزی کو اہمیت دے رہے ہیں، لیکن ہماری قومی زبان تو اردو ہے۔ جاپان، چین، جرمنی، کوریا اور روس سب ترقی یافتہ ممالک ہیں، لیکن وہ انگریزی کا ایک لفظ تک نہیں جانتے۔ وہ صرف اپنی مقامی زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو ایسے بہت سے ممالک ہیں، جو صرف اپنی مقامی زبان کو اہمیت دیتے ہیں اور ترقی یافتہ بھی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنی مقامی زبان کو اہمیت دیتی ہیں، ترقی کی منازل بھی وہی طے کرتی ہیں۔ ہم دوسروں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر اساتذہ جو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھاتے ہیں، انھیں ٹھیک طرح سے اردو بولنی نہیں آتی، جب ہمارے اسکولوں میں ایسے اساتذہ ہوں گے، تو وہ بچوں کو کیا سکھائیں گے؟ جب ہماری بنیاد ہی کم زور ہوگی، تو آگے جا کر ہمارے بچے خاک ملک کی ترقی میں کردار ادا کرسکیں گے؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور جب ہمیں اپنی ہی زبان پر دسترس حاصل نہ ہوگی، تو پھر لازمی بات ہے کہ دنیا ہم پر ہنسے، بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے، تو سب سے پہلے پڑھنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد لکھنے کا۔ دھیرے دھیرے بچوں کو کسی نہ کسی زبان کے حروف اور الفاظ لکھنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف زبانوں سے آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔ ہماری صورتحال اچھی نہیں، اسی لئے درست انگریزی بھی نہیں سیکھ پاتے اور اردو کو اولیت بھی نہیں دیتے۔

مشہور لطیفہ بھی ہے کہ ہم پاکستانیوں کی زندگی بھی بڑی عجیب ہے، پیدا ہوتے ہی اپنی اپنی مادری زبان بولتے ہیں۔ جب بڑے ہوتے ہیں، تو درسی کتب میں قومی زبان کا توتی بولتا ہے، پھر جب دفاتر میں جاتے ہیں، تو دفتری زبان انگریزی ہوتی ہے اور موت کے بعد سوال جواب کا سلسلہ عربی میں ہوگا۔ اس لئے ہمارا پورے کا پورا نظام ہی الٹ پلٹ ہے۔ یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، بات ہو رہی تھی قومی زبان کی۔ زبانیں سیکھنا کوئی بری بات نہیں، مگر اردو کے ساتھ ہمارا یہ جو رویہ ہے، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہماری زیادہ تر کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم دوسری زبان پہ دسترس حاصل کرلیں۔ ہمارے ہاں اعلٰی تعلیمی اداروں میں اپنی قومی زبان کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اعلٰی تعلیمی اداروں کو تو رکھ چھوڑیئے، یہاں تو اسکولوں میں بھی اردو کو صرف ایک عام مضمون کے طور پہ پڑھایا جاتا ہے۔ بیش تر پرائیویٹ اسکولوں میں اردو کے لئے ماسٹر ڈگری ہولڈر نہیں ہوتا۔ جو استاد اسلامیات اور دیگر آرٹس مضامین پڑھاتا ہے، اسے اردو بھی پڑھانے کا کہا جاتا ہے۔ ایسے میں طلبہ خاک اردو سیکھ سکیں گے؟ بہت کم ادارے ایسے ہوں گے جو اردو مضمون کے لئے الگ استاد رکھیں گے۔ میرا مقصد دیگر زبانوں پہ تنقید کرنا نہیں ہے۔ مقصد و منشاء یہی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو اہمیت دی جائے۔ اسے صرف ایک مضمون کی حد تک محدود نہ رکھا جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ترقی کریں تو اپنی قومی زبان کو ترجیح دینا ہوگی۔

اگر انگریزی ذریعہ تعلیم ٹیکنالوجی کے حصول کا ذریعہ ہے اور پسماندگی دور کرنے کا امرت دھارا، تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مغرب میں فرانس اور جرمنی جبکہ تقریباً پورا یورپ پسماندہ ہے؟ اگر وہ اپنی زبانوں میں تدریس و تحقیق کر رہے ہیں تو کیا ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں؟ اسی طرح مشرق میں جاپان، چین اور کوریا کی ترقی کیا انگریزی کے مرہون منت ہے؟ کوریا ساٹھ کی دھائی میں پاکستان کے پانچ سالہ منصوبوں سے استفادہ کے لئے ان کی نقول لے کر جایا کرتا تھا، کیا اس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کیلیے انگریزی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کا امرت دھارا استعمال کیا ہے؟ دوسرے پہلو سے دیکھیں تو روس سے ہم نے سٹیل مل کی ٹیکنالوجی لی، کوریا کے میزائل سسٹم سے استفادہ کیا، چین نے ٹیکسلا میں سول اور فوجی اہمیت کے کئی کارخانے لگا کر دیئے اور اب ائیر فورس کے لئے “تھنڈر” جہاز کی تیاری میں تعاون کر رہا ہے۔ مزید برآں فرانس نے کامرہ کمپلیکس میں ہوائی جہازوں اور دیگر نہایت اہم شعبوں میں تعاون کیا۔ سوچئے تو سہی! کیا یہ ساری ٹیکنالوجی بزبان انگریزی آ رہی ہے؟ اور کیا اس کی ترقی و نشوونما ان ممالک میں انگریزی پڑھ پڑھ کر بلکہ “رٹ رٹ“ کر پایہ تکمیل کو پہنچی ہے؟ قرآن مجید میں دلائل کے بعد اکثر بار یہ فرمایا جاتا ہے کہ “کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

اسلام ٹائمز: قومی زبان کے نفاذ اور فروغ کیلئے فوری اور ضروری اقدامات کیا ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر شریف نظامی:
 اردو ایک جامع زبان ہے۔ تاہم اردو زبان کے تحفظ اور اس کی اہمیت کو تسلیم کروانے کے لئے ہمیں چند نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور اس کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جانا چائیے۔ اول یہ کہ غیر ملکی زبانوں کے سائنسی علوم و فنون کو اردو کے قالب میں ڈھالا جائے، جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوئم اردو کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہونی چاہئے، تاکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت واضح ہوسکے اور اس کا وقار قائم ہو۔ اس کے علاوہ اردو دشمنی کے رویے اور رجحان کا سدباب ضروری ہے۔ قومی تاریخ و ادبی ورثہ کی وزارت کے اعلٰی افسران، اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان کے ذریعے اردو کے بطور دفتری زبان نفاذ کیلئے فوری طور پر ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے اور اس سلسلے میں تمام وزارتوں اور دیگر سرکاری محکموں کو فوری سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے عملے کی تربیت کا پروگرام وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور وزیر اعظم کے دس نکاتی ہدایت نامے کی روشنی میں تفصیلات فراہم کی جائیں کہ اب تک کیا اقدامات ہوئے ہیں، ہر نوعیت کے دفتری کام اور مراسلات کے لئے اردو زبان کو ترجیح دی جائے۔

یہ افسوس ناک ہے کہ سپریم کورٹ کے نفاذ اردو کے بارے میں دیئے گئے فیصلہ پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا اور عدالتی حکم کے باوجود ملک کا صدر، وزیر اعظم اور دیگر اعلٰی حکام بیرون ملک دوروں کے موقع پر اپنی تقاریر قومی زبان میں نہیں کر رہے، جبکہ تمام انتظامی اور دفتری معاملات انگریزی میں سرانجام دیئے جا رہے ہیں، جو سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف ہے۔ اس سلسلہ میں تعلیمی اداروں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور تعلیمی اداروں کو ہر سطح پر اس کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ اردو صحافت کی بہتری بھی ضروری ہے، قومی اردو پورٹل کی تشکیل ایک اہم کام ہے۔ اردو سیکھنے کے خواہشمند افراد کو آن لائن اردو لرننگ کی سہولت فراہم ہونی چاہیے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے مختلف اسکیموں کے تحت ادیبوں، رضاکار تنظیموں، دیگر اداروں کو مالی اعانت فراہم کی جانی چاہیے۔ لسانی، ادبی اور تہذیبی روایات کے موضوعات پر سیمینارز، کانفرنس، ورکشاپ، مشاعرے وغیرہ کا انعقاد زبان کی ترقی اور فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ اردو کیساتھ موجودہ حکومتوں کے سلوک سے مطمئن ہیں۔؟
ڈاکٹر شریف نظامی:
انکا رویہ اطمینان بخش نہیں، جیسے خودکش حملہ آوروں کے متعلق اب تک جو معلومات ملی ہیں، ان کے مطابق مسلمان نوجوان کو دنیا میں ہی جنت کی نعمتوں اور حوران بہشت کے حسن دلفریب کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں اور اس بات پر آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ “اپنی جان کو دھماکہ مین اڑا کر ابدی جنت حاصل کر لو۔ اس عارضی زندگی و ناپائیدار دنیا کو خیر باد کہو، اپنے ہم وطنوں کو خاک و خون مین لوٹاؤ اور ابدی زندگی کی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاؤ۔” بدقسمتی سے کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب مین آئینی تحفظ رکھنے والی اور قائد اور علامہ کی محبوب زبان اردو کے حوالے سے پیش آگئی ہے۔ حکومت پنجاب کو اسکے مشیر حضرات نے اردو ذریعہ تعلیم کو اسکولوں سے بے دخل کرکے “انگلش میڈیم” کے نفاذ کے تحت ترقی اور خوشحالی کی جنت کا یقین دلایا ہے، لہذا خادم اعلٰی پنجاب برصغیر میں مسلم رہنماؤں کی اردو کیلئے دو ٹوک حمایت اور جدوجہد کو ایک طرف رکھ کر پنجاب کو “جنت ارضی” بنانے پر تلے ہوں۔

یوں لگتا ہے کہ ان کے خیال مین متذکرہ قائدین اور پاکستان کے تمام آئین بنانے والے دور جدید کے تقاضوں اور انگریزی کی اہمیت سے قطعاً نا بلد تھے جبکہ حکومت پنجاب جو جنت حاصل کرنا چاہتی ہے، بلاشبہ اس کی ترقی اور خوشحالی کے بجائے ناخواندگی اور جہالت کے فوارے تو ضرور ہی پھوٹ رہے ہوں گے، کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1943ء سے اس وقت تک چالیس لاکھ نوجوانوں کو صرف اس لئے جہالت کے غاروں میں دھکیل دیا گیا کہ وہ دسویں جماعت میں انگریزی (بطور مضمون) پاس نہیں کرسکے۔ اس طرح بی اے، بی ایس سی کے حالیہ نتائج کے مطابق 78 فیصد ناکام ہوئے، جن میں بہت بڑی اکثریت انگریزی میں فیل ہونے والوں کی ہے اور کم و بیش ہر سال ذہانت کا یوں قتل عام ہو رہا ہے۔ ایسا آخر کیوں نہ ہو؟ ہمارے ارباب اقتدار انگلش دیوی کے چرنوں میں اپنے نوجوانوں کی ذہانتوں کا خون یوں پیش نہ کریں تو وفاداری کا اور کیا ثبوت پیش کریں؟ لیکن ہم تو ان سے مخلصانہ گزارش کرین گے کہ اردو پر رحم فرمائیں اور قومی تشخص کے اثاثے کو تباہ نہ ہونے دیں۔

ہمارے ملک میں آج تک بر سر اقتدار رہنے والے سیاستدان خواہ موجودہ ہوں یا گذشتہ ادوار کے، آئین اور جمہوریت کا بہت تذکرہ کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ انہوں نے بذات خود قانون شکن آمروں کی گود میں پرورش پائی ہو یا ان کے سہارے میں آ کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہوں۔ اسی تناظر میں جائزہ لیں تو باقی دساتیر کو ایک طرف رکھتے ہوئے 1973ء کے آئین کو لیجئے۔ اس کے مطابق 14 اگست 1988ء تک پاکستان میں نفاذ اردو کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ آئین کی دفعہ نمبر (1) 251 اس امر کی یقین دہانی کراتی ہے، لیکن ہر آنے والا دن قومی زبان کو پیچھے دھکیلنے کی خبر لے کر آتا ہے۔ اردو کو سکولوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر منسوخ کرکے وہاں انگریز ی رائج کرنا ایک سراسر غیر آئینی قدم ہے۔ لہٰذا ایسے فیصلوں اور اقدامات کی آئین و اخلاق ہر دو اجازت نہیں دیتے۔ اس موقع پر صوبائی یا علاقائی زبانوں کا معاملہ سامنے آسکتا ہے، لیکن اسے ایک بدیشی زبان کو رائج کرنے کی دلیل قطعاً قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی ترقی کے اقدامات سے مفر نہیں، لیکن ان سب پر انگریزی کو مسلط کرنا کونسی جمہوری روش ہے؟

اگرچہ یہ مسئلہ قدرے پیچیدہ ہے اور بدقسمتی سے اردو سندھی کشمکش بھی جنم لے چکی ہے، لیکن یہاں ایک بزرگ کے قول سے خاصی رہنمائی ملتی ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے (مذہبی تناظر میں ) کہ “مختلف فرقوں کے پیروکار ایک دوسرے کی فقہ کے رائج ہونے کے راستے میں تو مزاحم ہیں، لیکن انگریز کی فقہ بلکہ دین (نظام حیات) کو سب نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ہوا ہے۔ “انگریزی ذریعہ تعلیم (صوبے پنجاب تک) کے حق میں ایک کونے سے یہ آواز بھی اٹھتی ہے کہ نصابات تیار ہوچکے ہیں اور فیصلہ ہوگیا ہے۔ لہٰذا اسے کیسے بدلیں؟ یوں تو پاکستان کی تاریخ میں ارباب اقتدار نے خود کئے ہوئے لاتعداد فیصلے بدلے ہیں، لیکن سب سے بڑی مثال جوہر آباد میں پاکستان کے دارالحکومت کا فیصلہ ہے، جس کی شہادت کے طور پر وہاں اب تک کچھ عمارات بھی موجود ہیں۔ بعد ازاں قومی مفاد میں اس فیصلے کو بدلا گیا اور اسلام کے نام سے نیا شہر آباد کرکے اسے ملک کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ اسی طرح ماضی قریب میں مسلم لیگ (ن) نے میثاقِ جمہوریت کے تحت انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، جسے تبدیل کرکے الیکشن میں بھرپور طریقہ سے حصہ لیا گیا۔

اسلام ٹائمز: قومی زبان کی ترویج اور نفاذ کیلئے عام آدمی کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔؟
ڈاکٹر شریف نظامی:
 رہی بات عوام الناس اور اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر کے حضرات کی، تو جن کے دل پر یہ ہماری آواز دستک دے، وہ ہر آئینی اور جمہوری ذریعہ اختیار کرکے اپنے ملک اور دین اسلام سے آئندہ نسلوں کے کٹ جانے سے بچاؤ کی تدابیر کریں۔ یعنی انگریزی ذریعہ تعلیم کے فیصلے کو تبدیل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ رہا سوال کہ کون کیا کرے؟ کیسے اور کب کرے؟ اس کا جواب ہر شخص کے پاس خود موجود ہے۔ کیونکہ “جو کام ہمیں کرنا ہو، اس کے لئے طریقے بہت اور جو نہ کرنا ہو، اس کے لئے بہانے بہت“ کہا جا سکتا ہے، آئندہ نسلیں انگریزی ذریعہ تعلیم کے تحت پڑھ لکھ کر اپنے ملک اور دین اسلام سے کس طرح کٹ جائیں گی۔
خبر کا کوڈ : 548644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش