0
Wednesday 29 Jun 2016 22:42
امریکہ وہ بچھو ہے جس کی فطرت ہی ڈنگ مارنا ہے

یوم القدس یوم اسلام ہے، امت مسلمہ کے تمام تر مسائل کا واحد حل اتحاد امت ہے، میاں مقصود احمد

صرف عرب ممالک متحد ہوجائیں تو فلسطین آزاد ہوسکتا ہے
یوم القدس یوم اسلام ہے، امت مسلمہ کے تمام تر مسائل کا واحد حل اتحاد امت ہے، میاں مقصود احمد
میاں مقصود احمد جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ہیں، دھیمے لہجے میں بھی گرجدار انداز گفتگو ہے۔ لاہور کے علاقے اچھرہ میں مقیم ہیں، بنیادی تعلق قصور کے علاقے چونیاں سے ہے، ابتدائی تعلیم اچھرہ سے حاصل کی، گریجوایشن پنجاب یونیورسٹی سے کی اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ہی ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کی۔ تعلیم کے دوران ہی ان کی ملاقات مولانا ابو اعلٰی مودودی سے ہوئی، جس کے بعد میاں مقصود اسلامی جمیعت طلبہ میں شامل ہوگئے، 1979-80 میں میاں مقصود احمد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے، اس کے بعد جمعیت کے مرکزی سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ تعلیم مکمل کرکے جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1999ء میں جماعت اسلامی لاہور کے امیر منتخب ہوئے، تنظیمی سفر جاری رکھتے ہوئے آج کل جماعت اسلامی پنجاب کے ذمہ داری ان کے پاس ہے، "اسلام ٹائمز" نے میاں صاحب کیساتھ لاہور میں ایک نشست کی، جس کا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گذشتہ ماہ کے اوائل میں ہی بلوچستان میں ملا منصور اختر کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا، آپکے خیال میں ایسی کارروائیوں کا کیا مقصد ہے نیز حکومت پاکستان کے ردعمل سے مطمئن ہیں۔؟
میاں مقصود احمد:
میڈیا میں ملا منصور کی بلوچستان کے علاقے میں ہلاکت کی خبریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکہ کے سامنے پاکستان کی خود مختاری کی کوئی اہمیت نہیں، پاکستانی سرزمین پر حملے حکمرانوں کی غلامانہ روش اور ناکامی کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب بھی مذاکرات کے ذریعے خطے میں امن قائم ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے تو امریکہ اسے سبوتاژ کر دیتا ہے۔ وزیراعظم کا اعترافی بیان کہ "ملا منصور کے مرنے کی تصدیق نہیں ہوئی، جان کیری کا فون حملے کے بعد آیا،" توجہ طلب ہے کہ کسی بھی ملک کا وزیراعظم ریاست کا آئینی قانونی سربراہ ہوتا ہے، اگر وہی قومی سلامتی اور ملکی سرحدوں کی حفاظت سے بے خبر رہے گا تو ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہے، ملا اختر منصور پر حملے کے بعد افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش ناکام ہونے کا خدشہ ہے۔ بلوچستان کے بعد امریکہ ڈرون حملوں کا رخ اسلام آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ نوشکی میں ہونیوالا ڈرون حملہ 2 مئی، ایبٹ آباد واقعہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ ان سے ہماری خارجہ پالیسیوں میں موجود خامیاں کھل کر سامنے آچکی ہیں۔ حکومت پاکستان شتر مرغ کی طرح گردن چھپانے کے بجائے قوم کو اصل حقائق بتائے۔ جنوبی ایشیا کے خطے میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ امریکی کردار کو محدود کیا جائے۔ پاکستانی حدود میں امریکہ ڈرون حملے پاکستان کی بقا اور سلامتی پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی عسکری قیادت 18 کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ سفیر کو طلب کر کے بھرپور انداز میں احتجاج کرے۔ ہم اس وقت تک دنیا میں آزاد و خود مختار ہو کر نہیں رہ سکتے، جب تک امریکہ امداد اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان نہیں چھڑائیں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی قربت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
میاں مقصود احمد:
امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت پاکستان کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان عملاً امریکہ کی طفیلی ریاست بن چکا ہے۔ موجودہ حکمران جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں پر گامزن ہیں، امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے برداشت کیا ہے۔ 100 ارب ڈالر اور 55 ہزار بے گناہ جانوں کی قربانی معمولی بات نہیں۔ امریکہ ناقابل اعتبار ملک ہے، جس کا دباؤ پاکستان کی طرف اور جھکاؤ بھارت کی جانب ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں۔ امریکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جس کا بھی دوست بنا ہے، اس کا بیڑہ غرق ہی ہوا ہے۔ بھارت امریکی دوستی پر بغلیں تو بجا رہا ہے لیکن اسے جلد اس بات کا علم ہو جائے گا کہ امریکہ نے اس کیساتھ کیا کیا ہے۔ امریکہ وہ بچھو ہے جس کی فطرت ہی ڈنگ مارنا ہے، اس لئے وہ اپنی فطرت سے باز نہیں آئے گا اور بھارت کو ڈنگ ضرور مارے گا۔

اسلام ٹائمز: پاناما لیکس کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک کے حوالے سے کیا کہتے ہیں اور اسکے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہیں۔؟
میاں مقصود احمد:
ملک میں موجودہ سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی جلد متفقہ ٹرمز آف ریفرنس کو حتمی شکل دے اور طے شدہ ٹائم فریم میں جوڈیشل کمیشن کے ذریعے شفاف تحقیقات کا عمل مکمل کیا جائے، تاکہ قوم کے سامنے اصل صورت حال واضح ہوسکے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے سب کا احتساب بلا امتیاز ہونا چاہیے۔ سیاست دان، عدلیہ، فوج اور بیوروکریسی سمیت کوئی بھی شعبہ احتساب سے بالا تر نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس پر احتساب کا آغاز خود اپنی فیملی سے شروع کرنے کی بات کی تھی، اب انہیں اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے۔ وفاقی حکومت چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بااختیار جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کرے۔ 1956ء کے قانون کے تحت جوڈیشل کمیشن کو زیادہ اختیارات نہیں ملیں گے۔ پاناما لیکس ایک عالمی معاملہ ہے، دنیا کے کئی ممالک میں عوام حکمرانوں کی کرپشن کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی فیملی کا نام چونکہ پاناما لیکس میں آیا ہے اس لئے یہ ازحد ضروری ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن اس حساس معاملے کی تحقیقات کرے۔

اگر نواز فیملی کا دامن صاف ہے تو اسے اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ پاناما لیکس میں نواز شریف سمیت جن اعلٰی شخصیات کے نام آئے ہیں، ان کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ جن لوگوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں روپے بغیر ٹیکس ادا کئے بیرون ملک منتقل کئے ہیں اور کالے دھن کو سفید کیا ہے، وہ قومی مجرم ہیں۔ ان کیخلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ٹی او آرز اتفاق رائے سے فائنل کرے۔ اگر پارلیمانی کمیٹی بھی خدانخواستہ ناکام ہوگئی تو جمہوری سسٹم کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ حکمران خاندان سمیت 562 شخصیات کے آف شور کمپنیوں میں 50 ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے بیرون ملک پڑے ہیں۔ پاناما لیکس کے مطابق 259 کمپنیوں کے 400 سے زائد پاکستانی مالکان نے کراچی سے 100 سے زائد، لاہور کے 108 سیاست دانوں، تاجروں، بیوروکریٹس اور دیگر کے نام پوری قوم کے سامنے آچکے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس اور ذمہ داران کیخلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی نے کرپشن کیخلاف تحریک شروع کر رکھی ہے، اس میں کہاں تک کامیابی ملی۔؟
میاں مقصود احمد:
کرپشن ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے، روزانہ اربوں ڈالر کی کرپشن نے ملکی معیشت کی مفلوج اور ترقی کی راہ کو دھندلا کے رکھ دیا ہے۔ لوگوں کو اپنے جائز کام کروانے کیلئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ جماعت اسلامی کرپشن کیخلاف سڑکوں پر ہے اور لوگوں میں شعور بیدار کر رہی ہے۔ پاناما لیکس نے سب کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایوانوں میں بیٹھے لوگ اضطراب کا شکار ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب صاف شفاف اور بے داغ کردار کے حامل لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے، 67 برسوں سے جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ دار 18 کروڑ عوام کی تقدیر کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم خود پر اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی وضاحت کریں۔ ہمارا تو مطالبہ ہے ملک میں سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے۔ ہماری یہ تحریک ملک سے کرپشن کے مکمل خاتمے تک جاری ہے اور رہے گی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حوالے سے واضح وژن دیا ہے کہ کرپشن کی موجودگی میں ملک ترقی نہیں کرسکتا، اس لئے ملک کی ترقی کیلئے ملک سے کرپشن کے ناسور کو اکھاڑ کر باہر پھینکنا ہوگا۔ اسی میں ہی ملک کی بقا کا راز مضمر ہے۔

اسلام ٹائمز: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہے، آپکی جماعت نے اس حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، کیا حکومتی سطح پر بھی ایسی کوئی مذمت یا احتجاج کیا گیا۔؟
میاں مقصود احمد:
حسینہ واجد سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، جبکہ یو این او اور او آئی سی اور انسانی حقوق کے دیگر ادارے خاموش تماشائی بن چکے ہیں، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، حکومت پاکستان حسینہ واجد کی مذموم کارروائیوں پر بنگلہ دیشی حکومت کا سفارتی بائیکاٹ کرے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو عمر قید اور پھانسیوں کی سزائیں بے گناہ انسانیت کے قتل عام کے مترادف ہے۔ مطیع الرحمان عثمانی کو پاکستان کی حمایت کی سزا دی گئی ہے، جو ہر محب وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ آج 4 دہائیوں بعد 1971ء کے واقعات کو بنیاد بنا کر بنگلہ دیش میں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں۔ حسینہ واجد بھارت کی شہہ پر پاکستان کیخلاف نفرت کا بیج بو رہی ہے، جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ متنازع ٹربیونل کی کوئی حیثیت نہیں، یہ ناقابل فہم ہے کہ پاکستان اس معاملے کو عالمی دنیا کے سامنے پیش کرنے سے کیوں گھبرا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت مودی سرکار کا کٹھ جوڑ ساری دنیا کے سامنے لایا جائے۔ بھرپور سفارت کاری کے ذریعے بنگلہ دیش کی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور سیاسی مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سنگین سزائیں دینے سے باز آجائے۔ پاکستان سے وفاداری کے جرم میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دینے پر وزارت خارجہ کا محض مذمتی بیان ناکافی ہے۔

اسلام ٹائمز: لوڈشیڈنگ کا جن ہے کہ قابو میں نہیں آ رہا، حکومت جو منصوبے بنا رہی ہے، ان کی تکمیل میں تاخیر سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔ کیا یہ حکومت کی ناکامی نہیں۔؟
میاں مقصود احمد:
نندی پور پاور پلانٹ کی تکمیل کیلئے 23 ارب روپے کی اضافی لاگت عوام سے وصول کرنے کی خبروں پر تشویش ہے، نیپرا نے حکومت کے دباﺅ میں آکر مہنگے ترین پراجیکٹ کی لاگت بڑھانے کی منظوری حاصل کرلی ہے۔ اس منصوبے کی مختص رقم 42 ارب روپے سے 65 ارب ہو جانے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمرانوں کو عوامی مسائل اور ان کے حل سے کوئی غرض نہیں۔ گڈگورننس کے دعوے دار کاغذی منصوبوں اور عوام دشمن فیصلوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ نندی پور منصوبے کی تعمیر میں تاخیر کا بوجھ بجلی صارفین سے وصول کرنا سراسر زیادتی ہے۔ ایک طرف رمضان المبارک میں بھی عوام کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے تو دوسری جانب حکومت کے عاقبت نااندیش فیصلے عوام کیلئے مسلسل سر درد بنے ہوئے ہیں۔ لاہور سمیت پورے صوبے میں بجلی کی آنکھ مچولی سے شہریوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام ہر جگہ سراپا احتجاج ہیں۔ 2018ء میں بھی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ عوام کو طفل تسلیوں سے بہکانے والے آئندہ انتخابات میں اپنے انجام کو مت بھولیں۔ توانائی بحران کے حل کیلئے ضروری ہے کہ کالاباغ ڈیم سمیت تمام دیگر چھوٹے بڑے پانی کے ذخیرے قائم کئے جائیں۔ ان کی تعمیر سے جہاں ایک طرف سستی ترین بجلی میسر ہوگی، وہاں لاکھوں ایکڑ زمین سیراب اور روزگار کے نئے موقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہئے کہ وہ ہنگامی اقدامات کرے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے مستقل اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی جمعۃ الوداع کو دیگر جماعتوں کیساتھ مل کر "یوم القدس"منا رہی ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے، کیا کوئی دن منانے سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ ہوگا۔؟
میاں مقصود احمد:
جی بالکل فائدہ ہوگا، جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے سے دباؤ بڑھتا ہے اور جب پوری دنیا میں القدس ہمارا ہے کا نعرے لگے گا تو یقیناً فلسطین کے عوام کے بھی حوصلے بڑھیں گے اور یہ ان کیساتھ اظہار یکجہتی کا ایک انداز ہے۔ جو لوگ وہاں جا کر عملی طور پر فلسطینی بھائیوں کی حمایت نہیں کرسکتے، وہ یہاں ریلیوں میں شریک ہو کر ان مظلوم مسلمانوں کو یہ احساس تو دلا سکتے ہیں کہ وہ ان کیساتھ ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے یوم منانے کا مقصد عالمی برادری تک مظلوموں کی آواز پہنچانا اور عالمی برداری کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ جماعت اسلامی جمعۃ الوداع کو یوم یکجہتی فلسطین و کشمیر کے طور پر منا رہی ہے اور اس حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یوم القدس یوم اسلام ہے، آج اگر ہمارے فلسطینی بھائی اسرائیلی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں تو وہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی ہے۔

آج پوری دنیا میں دیکھیں مسلمان ہی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ امت مسلمہ متحد نہیں، ہر کوئی اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھا ہے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک امت مسلمہ متحد نہیں ہوگی مسلمانوں کےمسائل ختم نہیں ہوسکتے۔ مسائل کا واحد حل اتحاد امت ہے، ہمیں عربی عجمی کے حصار سے باہر آنا ہوگا، ہمیں شیعہ سنی بن کر نہیں بلکہ مسلمان بن کر سوچنا ہوگا۔ آپ نے دیکھا کہ کمشیر میں آزادی کی تحریک نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے، وہاں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں، اسی طرح فلسطین کے عوام بھی اسرائیل کی نابودی چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی زمین ان کو واپس ملے، اس لئے وہ روز اول سے کوشش کر رہے ہیں اور اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہیں، اس حوالے سے اگر صرف عرب ملک متحد ہوجائیں تو فلسطین آزاد ہوسکتا ہے، لیکن حکمرانوں کے اپنے مفادات ہیں، وہ امت کی بجائے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، اسی لئے امت رسوا ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: دفاع پاکستان کونسل دوبارہ فعال ہوچکی ہے، اس میں کچھ کالعدم جماعتیں بھی ہیں، کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ اس کی فعالیت سے فرقہ واریت کو ہوا ملے گی، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
میاں مقصود احمد:
دیکھیں جی، جس طرح نام ہے "دفاع پاکستان کونسل" وہ پاکستان کے دفاع کیلئے ہے، نقصان کیلئے نہیں، دفاع پاکستان کونسل کے فعال ہونے سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہوگا اور اس کی فعالیت کا مقصد بھی سوئے ہوئے حکمرانوں کو بیدار کرنا اور ان پر دباؤ بڑھانا مقصود ہے، دفاع پاکستان کونسل میدان میں ہوگی تو بہتر انداز میں ملک کا دفاع کرسکے گی۔ حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ مودی کو اپنے گھر بلاتے ہیں، بغیر ویزے کے بھارتی وفد پاکستان میں دندناتا پھر رہا ہوتا ہے، ساڑھیاں اور چوڑیوں کے تبادلے ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں حکمرانوں سے توقع نہیں کہ وہ ملک کا دفاع کرسکیں گے، اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دفاع پاکستان کونسل کو فعال کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 549659
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش