0
Thursday 30 Jun 2016 06:46
اسرائیل کے تمام ہمنوا ممالک شام و ایران کے خلاف ہیں

جمعۃ الوداع کو بطور یوم القدس منانا امام خمینی کیجانب سے امت مسلمہ پر انعام ہے، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

ترکی نے آزادی فلسطین کے اہم مورچے پر دہشتگردوں سے نقب لگوائی
جمعۃ الوداع کو بطور یوم القدس منانا امام خمینی کیجانب سے امت مسلمہ پر انعام ہے، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
معروف ریسرچ اسکالر، کالم نویس، مقالہ نگار، ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کا نام کسی تعارف محتاج نہیں۔ طویل عرصہ شعبہ تدریس سے منسلک رہے ہیں۔ تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی تحریریں ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیمی حوالے سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ انقلاب اسلامی کے اثرات و ثمرات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر چکوال سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ایک طویل عرصے سے وفاقی دارالحکومت میں مقیم ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ برس سے طبعیت کی ناسازی کے باوجود بھی قلمی سلسلہ رواں رکھے ہوئے ہیں اور اپنی رہائشگاہ پر طالب علموں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف ممالک کا سفر کرنے کے بعد اپنے مشاہدات کو قلم بند کرچکے ہیں۔ یوم القدس اور اس کے ثمرات کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر ابوبکر عثمانی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ہے، جس کا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب آپ بھی یوم القدس پورے جوش و جذبے سے مناتے ہیں، مگر یہ عجیب نہیں کہ شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال فلسطین سے زیادہ بدتر ہے، تو ان حالات میں فلسطین سے پہلے اپنے گھر کی آگ پر توجہ نہیں دینی چاہیئے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
آپ نے بہت اچھی بات کی ہے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسلامی دنیا کو آج جن داخلی مسائل کا سامنا ہے، ان کی وجہ اور مقصد مسلمانوں کو اپنے مقصد حقیقی سے روکنا ہے۔ اگر آج آپ اپنے داخلی حالات کو مدنظر رکھ کے بیت المقدس پہ اپنا کلیم واپس لیتے ہیں، فلسطینیوں کو ان کے اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، تو کیا یہ دشمن کے عزائم کو پورا کرنے کے مترادف نہیں ہوگا۔ امت مسلمہ کا دشمن چاہتا ہی یہی ہے کہ پورا عالم اسلام خائن عرب حکمرانوں بالخصوص آل سعود کی طرح ان کے سامنے سرتسلیم خم کرلے۔ اسرائیل کی حد چاہے فرات تک آئے، تا نیل تک، کوئی مسلمان اس پر اعتراض نہ کرے۔ یعنی دنیائے اسلام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو من و عن قبول کر لیا جائے، مگر شائد کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ مشرق وسطٰی، افریقہ، ایشیا الغرض دنیا کے ہر کونے میں اب مزاحمتی قوتیں وجود رکھتی ہیں۔ یہ انہی نہضتوں کا ثمر ہی ہے کہ اسرائیل کے بڑھتے قدم رکے اور ایک طویل عرصے سے تمام تر وسائل جھونکنے کے باوجود اسرائیل و امریکہ اس حکومت تک کو نہیں گرا سکے، جو ان اسلامی مقاومتی گروہوں کی مدد کرتی تھی۔ آپ اپنا دشمن طالبان کو کہیں، یا داعش کو یا کسی اور کو، مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ صہیونیت کی پیداوار ہیں، جن کا مقصد عالم اسلام کو ان کے حقیقی مقصد سے ہٹانا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے جن جن اسلامی ملکوں کے مسائل کا ذکر کیا، وہ تو تمام داخلی مسائل کا شکار ہیں اور وہاں یوم القدس اتنے اہتمام کے ساتھ کبھی نہیں منایا گیا، جیسے پاکستان میں منایا جاتا ہے۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
میں نے شام کا خصوصی ذکر اسی لئے کیا کہ اسرائیل کے خلاف جو بھی تحریک اٹھی، شام نے اس کی بھرپور حمایت و مدد کی، یہاں تک کہ شام کے کردار کی وجہ سے اسرائیل کو بادل نخواستہ اپنا پھیلاؤ روکنا پڑا اور اسرائیلی فوج کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ شام کی حکومت کی بدولت ہی اسرائیل آج بھی خود کو انتہائی غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ شام میں بشارد حکومت کی موجودگی تک اسرائیل اپنی سرحدوں پر آزادی فلسطین کی خاطر برسرپیکار تنظیموں کے خاتمے سے عاجز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے تمام ہم نوا ممالک شام کی حکومت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے تھے، مگر نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

اسلام ٹائمز: ترکی نے غزہ کے محصورین کیلئے فریڈم فلوٹیلا نامی امدادی شپ بھیجا تھا، جس پر اسرائیل نے فائرنگ کی تھی، اس مسئلہ پر ترکی اور اسرائیل کے تعلقات بھی منقطع رہے تھے، اسکے باوجود بھی ترکی پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
میرے خیال میں ترکی اور سعودی عرب اگر اسرائیل سے تعاون نہ کرتے تو شائد آزادی فلسطین کا خواب آج پورا ہوچکا ہوتا۔ یہ ترکی ہی تھا کہ جس نے آزادی فلسطین کے اہم مورچہ پر دہشت گردوں سے نقب لگوائی۔ شام کی حکومت کو کمزور اور اسرائیل کو مضبوط کرنے میں ترکی کا کردار انتہائی اہم اور واضح ہے۔ شام میں جتنے دہشت گرد وہاں شہریوں اور حکومت کے خلاف دہشت کا بازار گرم کئے رہے، ان تمام کو لاجسٹک سپورٹ ترکی سے ملتی رہی، یہاں تک کہ ترکی کے اپنے میڈیا نے دہشت گردوں اور اسرائیل سے تعاون سے متعلق رپورٹس جاری کیں۔ فریڈم فلوٹیلا کے ذریعے عوامی پوائنٹ سکورنگ تھا۔ ورنہ جنگ زدہ علاقوں خصوصاً اسرائیلی فوج کے محصورین کو کون اعلانیہ امدادی بحری شپ بھیجتا ہے اور اس پر بھی کئی ملکوں کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھر کر، یقینی طور پر یہ غزہ کے باسیوں کی امداد نہیں بلکہ پوائنٹ سکورنگ تھا۔ غزہ کے لوگوں تک انہی افراد نے چیزیں بھجوائی تھیں، جو فلسطین کی آزادی کے خواب کے ساتھ مخلص تھے، وہی مخلص لوگ آج بھی ہر پلیٹ فارم پر اس ایشو کو فرنٹ پر لیے کھڑے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہونی چاہیئے کہ فلسطین کی آزادی سے ہی خطے میں امن کا سورج طلوع ہوگا۔

اسلام ٹائمز: جمعۃ الوداع کو یوم القدس منانے سے آج تک کیا حاصل ہوا۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
دنیا بھر میں کروڑوں لوگ پورے اہتمام کے ساتھ اگر سڑکوں پر آکر ایک ناجائز، غیر قانونی ریاست کو للکار رہے ہیں، اس کی نابودی کیلئے پرعزم ہونے کا اعلان کر رہے ہیں، یہاں تک کہ فلسطین کی آزادی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرنے اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی و تجدید عہد کر رہے ہیں، تو کیا یہ آپ کی نگاہ میں کوئی حاصل نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے ان ممالک کا نام بتا سکتے ہیں، جہاں یوم القدس کے موقع پر اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا سب سے بڑا نگہبان اور ماضی کا سرپرست امریکہ بھی اپنے ملک میں، سعودی عرب، ترکی، برطانیہ، یورپ اپنی ہی سرزمین پر ان اجتماعات کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ جمعۃ الوداع کو بطور یوم القدس منانا امام خمینی کی جانب سے امت مسلمہ پر انعام ہے۔ جس کی قدر صرف آل سعود اور ان کے حواری نہیں جانتے، کیونکہ انہیں اس آفاقی فکر سے شدید خطرہ ہے۔ طاغوت ہمیشہ اپنی پناہ طاغوتی و شیطانی قوتوں و ہتھکنڈوں میں تلاش کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: امام خمینی نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا، یہ تو یاد ہے، مگر اتحاد بین المسلمین پر جو زور دیا، کیا اسے بھلا نہیں دیا گیا۔؟ آپ بھی اپنی گفتگو میں سعودی حکمرانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، کیا یہ اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف نہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
آپ ایک تصحیح کرلیں، آج بھی یوم القدس کے اجتماعات میں اہلسنت پورے جوش و جذبے کے ساتھ شریک ہوتے ہیں، لہذا اسرائیل کے خلاف ان مظاہروں کو کم از کم آپ متنازعہ نہ بنائیں، جہاں تک سعودی عرب پر مسلط آل سعود کی بات ہے تو ان کی خیانتوں سے سمجھوتہ اتحاد بین المسلمین ہرگز قرار نہیں پاسکتا۔ کیا فلسطین میں صرف شیعہ ہیں، یا فلسطین کی آزادی کیلئے متحرک تنظیمیں صرف شیعہ ہیں، لہذا حقیقی اتحاد بین المسلمین یہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف بلا تفریق سب آواز بلند کریں۔ آپ مجھے کوئی ایک ایسی تحریک بتا دیں جو اسرائیل کے خلاف ہو، مگر سعودی عرب اسے دوست رکھتا ہو۔ چنانچہ ظالم و مظلوم کے فرق ملحوظ رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس کے مظاہروں میں خواتین و بچوں کی شرکت کا کیا مقصد ہے، وہ بھی علامتی ہتھیاروں کے ساتھ۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
دنیا کی کوئی ایک آزادی کی ایسی تحریک بتا دیں جو صرف جوانوں نے لڑی ہو، یا صرف عورتوں نے چلائی ہو، یا صرف بچوں پر مشتمل ہو۔ ہر فلسطینی وہ بچہ ہے تو اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے ہاتھ میں پتھر لیکر ایک مثال کی طرح کھڑا ہے، بچی ہے تو وہ بھی بے گناہ ہونے کے باوجود کئی کئی مہینے اسرائیلی جیلوں میں گزار چکی ہے، ماں ہے تو یکے بعد دیگرے سارے بیٹے قربان کرکے اپنے پوتے کی تربیت کر رہی ہے، بوڑھا باپ آج بھی اپنے جواں بیٹے کی قبر پر جا کر اس سے عہد کرتا ہے کہ تمہارے مقصد کے حصول کیلئے میں بھی تمہاری طرح کوشش جاری رکھونگا۔ جب فلسطین کی آزادی کیلئے ہر فلسطینی مسلمان حالت جنگ میں ہے تو کیا ان سے اظہار یکجہتی کیلئے ہمارے بچوں کا، ہماری مستورات کا، ہمارے بزرگوں کا باہر آنا ضروری نہیں۔ بچوں کے علامتی ہتھیار اس بات کی علامت ہیں کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو طاغوت کے سامنے سرجھکانے کی نہیں بلکہ طاغوت و سامراج سے ٹکرانے کی تربیت دے رہے ہیں۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہے کہ ہمیں ڈرا کر ہمارے نظریات کو تبدیل کرے گا تو وہ ہماری نظریاتی قوت کا انتہائی غلط اندازہ لگا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: استنبول میں ہونیوالے حالیہ دھماکوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
ترکی نے بھی اپنی سرزمین میں دوست نما دشمنوں کے کہنے پر غلط فصل بوئی، جس کو کاٹنا اس کی مجبوری ہے۔ میں ترکی کی حکومت سے ہزار اختلافات کے باوجود اس دہشتگردی کی شدید مذمت کرتا ہوں اور ترکی سے اپیل کرتا ہوں داعش و دیگر دہشت گردوں سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔

اسلام ٹائمز: گوادر اور چابہار، پاکستان اور ایران کے درمیان تنازعہ بن سکتی ہیں۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
یہ باتیں پھر کبھی سہی، ویسے جب دونوں بندرگاہیں نہیں تھیں تب بھی دونوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، سوال یہ ہے کہ ہم کتنے آزاد و خود مختار ہیں۔
اسلام ٹائمز: کوئی پیغام۔؟
ڈاکٹر ابوبکر عثمانی:
جمعۃ الوداع والے دن نماز جمعہ کے بعد یوم القدس کے مظاہروں و ریلیوں میں اس نیت کے ساتھ شرکت کریں کہ اسرائیل ظالم ہے، اس ظالم سے اظہار برایت ہر صاحب ایمان کیلئے ضروری ہے۔ واپسی پر اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کیا مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنے سے مطمئن ہے یا نہیں۔ مجھے یقین ہے اس شام آپ خود کو آسودہ پائیں گے۔ شکریہ۔
خبر کا کوڈ : 549711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش