QR CodeQR Code

داعش دراصل امریکہ کی پیداوار ہے جس سے انکار ممکن نہیں

سعودیہ اسرائیل تعلقات ناصرف مسلم امہ بلکہ خود سعودی بادشاہت کیلئے بھی نقصاندہ ثابت ہونگے، پروفیسر طلعت عائشہ وزارت

سعودی بادشاہت کو بے نقاب کرنا چاہیئے، تاکہ وہ اسرائیل سے کسی بھی طرح کے تعلقات قائم کرنے سے باز رہے

19 Jul 2016 21:21

اسلام ٹائمز: جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق چیئرپرسن اور معروف تجزیہ کار کا "اسلام ٹائمز" کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ داعش امریکا کی پیداوار ہے، اسکے ثبوت بھی اب دنیا بھر میں عام ہوچکے ہیں۔ پہلا ثبوت تو یہ کہ داعش کا سرغنہ ابو بکر البغدادی بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں تھا، وہاں سے میں نے ان کی تصاویریں دیکھی تھیں، جن میں بڑے بڑے امریکی عسکری و سول لیڈرز ابوبکر البغدادی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ان سے خوشگوار موڈ میں باتیں کر رہے تھے، بہت ہی دوستانہ ماحول لگ رہا تھا۔


ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت ملکی و عالمی امور کی ماہر اور معروف سیاسی و خارجہ پالیسی تجزیہ کار ہیں، وہ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا، اس کے بعد انہوں نے اسکالرشپ حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا، امریکا سے بھی government and international studies میں ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ کراچی سے Strategies for Peace and Security in the Persian Gulf کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں 34 سال سے زائد عرصہ تدریسی خدمات سرانجام دے چکی ہیں، اسکے بعد انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی میں آٹھ سال تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ وہ اکثر و بیشتر ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز، فورمز اور ٹاک شوز پر بحیثیت تجزیہ کار ملکی و عالمی امور پر اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتی نظر آتی ہیں، جبکہ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ آج کل کراچی کے معروف تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے ادارے سینٹر فار ایریا اینڈ پولیٹکل اسٹیڈیز کی سربراہ ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت کے ساتھ سعودی اسرائیل تعلقات، مسئلہ کشمیر، حالیہ بھارتی جارحیت، نواز حکومت کا ردعمل، ملک میں مارشل لاء کی افواہیں، داعش کے موضوعات کے حوالے سے ان کے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کشمیر میں بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت اور مظلوم کشمیریوں کی شہادت پر نواز حکومت سوائے کمزور بیان بازی کے کچھ کرتی نظر نہیں آرہی، آپ اسکی کیا وجہ سمجھتی ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
جب آصف زرداری صاحب اقتدار میں تھے تو وہ کمزور بیان بھی نہیں دیتے تھے، وہ کبھی مذمت بھی نہیں کرتے تھے، حالانکہ پیپلز پارٹی کا مؤقف بہت مضبوط ہوا کرتا تھا، لیکن جب سے زرداری صاحب نے پی پی پی کو ہیڈ کرنا شروع کیا، تو اس کے بعد کمزور ردعمل بھی نہیں آتا تھا اور اب اس نواز حکومت کا بھی کوئی خاص مؤقف سامنے نہیں آتا، مقبوضہ کشمیر میں حالیہ جارحیت کے بعد حالات بہت بھڑک گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود نواز حکومت کا کوئی خاص یا مضبوط ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے نواز شریف اور شریف فیملی کے اچھے تعلقات تو ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جیسا سنا گیا ہے کہ شریف فیملی کے بھارت میں بزنس لنکس بھی ہیں، لہٰذا کسی ایک انفرادی شخص سے دوستی اتنی اہم نہیں ہے، لیکن اگر تجارتی یا مالی معاملات وابستہ ہیں، سرمایہ کاری ہے، تو یہ ایک بہت بڑی اور اہم وجہ ہوتی ہے، جیسا کہ پاکستان میں عام تاثر ہے کہ وہاں شریف فیملی کی بڑی سرمایہ کاری ہے اور یہی وجہ باعث بنتی ہے، جو انہیں مسئلہ کشمیر پر بھارت مخالف بڑے اور مضبوط ردعمل سے روکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی و پاکستانی اسٹبلشمنٹ واقعی مسئلہ کشمیر کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں یا کوئی اور طاقت مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں تو سب سنجیدہ ہیں کہ مسئلہ کشمیر پُرامن طریقے سے حل ہو، کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر طول پکڑے، لیکن چونکہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے قبضے میں ہے، تو جس کے قبضے میں ہو اور وہ سمجھتا ہو کہ سارے کارڈز تو میری جیب میں پڑے ہوئے ہیں، اسے عام طور پر ترغیب نہیں ہوتی کہ وہ کسی تبدیلی کی طرف قدم اٹھائے، لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، کیونکہ بھارت کا خیال ہے کہ اس کا پہلے سے ہی کشمیر پر قبضہ ہے، دونوں ایٹمی طاقت ہیں، اس لئے ایٹمی جنگ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، کوئی یہ خطرہ مول نہیں لے گا، اس لئے بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی کوشش نہیں کر رہا ہے، بھارت مختلف بہانوں سے مسئلہ کشمیر پر بحث ہی نہیں کرتا، اس سے پہلے والی من موہن سنگھ نے بھی تجارتی تعلقات کو عام کرنے کی تو بات کی، لیکن مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کو بالکل تیار نہیں ہوئے، اسی طرح اب مودی سرکار بھی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ لہٰذا پاکستان تو مسئلہ کشمیر کا پُرامن چاہتا ہے لیکن بھارت اس کے حل میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کا حل کیسے ممکن ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ اور اسکی سلامتی کونسل میں اٹھانا چاہیئے، اسکے ساتھ ساتھ تمام عالمی طاقتوں سمیت جن جن ممالک سے پاکستان کے تعلقات ہیں، ان کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھانا چاہیئے، امریکا کے ساتھ بھی اٹھائے، جس نے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک اتحاد بنا رکھا ہے، میرا خیال ہے کہ امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کچھ بھی نہیں کریگا، لیکن اس کے ساتھ بھی اس مسئلے کو اٹھانا چاہیئے، یورپین یونین، چین، روس، برطانیہ، جاپان کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھائیں، مسلم ممالک کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھائیں، او آئی سی سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ صرف قرارداد پاس کرنے کر اکتفا نہیں کرے، بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی قدامات بھی کرے، بھارت پر دباو بڑھائے، مغربی و مسلم ممالک سے بھارت پر معاشی و اقتصادی کے ساتھ ساتھ سیاسی و سفارتی دباؤ ڈلوانا چاہئے، شاید یہی طریقہ ہے کہ جس سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مودی سرکار اور بھارت کے رویئے میں کئی لچک پیدا ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں ایکبار پھر مارشل لاء کی افواہیں عام ہیں، کیا کہیں گی اس حوالے سے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
نہیں، بالکل نہیں، میرا خیال ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بہت ہی پروفیشنل سپاہی ہیں، وہ تو اپنی مدت ملازمت میں توسیع تک کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، لہذا ان سے بالکل بعید ہے کہ وہ مارشل لاء کا کوئی اقدام کریں۔ لیکن دوسری جانب فوج کو یہ یقین ہے کہ دہشتگردی اور کرپشن آپس میں ملے ہوئے ہیں، تو وہ چاہتی ہے کہ سول حکومت ہی رہے، لیکن وہ کرپشن کا خاتمہ کرے، اسی مناسبت سے مختلف سیاسی جماعتوں کے کئی افراد کرپشن کے الزام میں پکڑے بھی گئے ہیں، لہٰذا نواز حکومت کو کرپشن کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہونا پڑے گا، کرپشن کے خاتمے کا اثر دہشتگردی پر بھی پڑے گا، دہشتگردی کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ لہٰذا پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی صرف افواہیں ہیں، ان میں کوئی حقیقت نظر نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی میں داعش کی دہشتگردی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ داعش امریکا کی پیداوار ہے، اس کے ثبوت بھی اب دنیا بھر میں عام ہوچکے ہیں۔ پہلا ثبوت تو یہ کہ داعش کا سرغنہ ابوبکر البغدادی بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں تھا، وہاں سے میں نے ان کی تصاویریں دیکھی تھیں، جن میں بڑے بڑے امریکی عسکری و سول لیڈرز ابوبکر البغدادی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ان سے خوشگوار موڈ میں باتیں کر رہے تھے، بہت ہی دوستانہ ماحول لگ رہا تھا، جتنے لوگوں کو امریکا نے گوانتا ناموبے جیل سے رہا کیا ہے، ان سب کے ایک چپ (chip) ڈالی گئی ہے، جس سے انکی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے کہ وہ کہاں کہاں جاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں، کیا کرتے ہیں، اس صورتحال میں کیسے ممکن ہے کہ امریکا ڈرون حملے میں طالبان سربراہ ملا اختر منصور کو تو مار دیتا ہے، لیکن ابوبکر البغدادی آزادانہ پھر رہا ہے، مسلمانوں کو دہشتگردی و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے، لیکن اسے امریکا کچھ نہیں کہہ رہا ہے، داعش اور اسکے سرغنہ ابوبکر البغدادی نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا ہے، ساری دہشتگردی صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف کی ہے، اسے امریکا ڈرون حملوں میں نشانہ نہیں بنا رہا ہے۔ دوسرا ثبوت یہ کہ عراقی فوج نے دو جہاز مار گرائے تھے جو کہ نیٹو کے جہاز تھے اور داعش کیلئے اسلحہ لیکر جا رہے تھے۔ تیسرا ثبوت یہ کہ اسرائیل شام سرحد پر ٹینٹ میں اسرائیل نے اسپتال بنائے ہوئے ہیں، جہاں داعش کے زخمی ہونے والے دہشتگردوں کا علاج ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں اتنے ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں کہ اس بات انکار ممکن نہیں ہے کہ داعش دراصل امریکی پیداوار ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی میں داعش مخالف کارروائیوں میں کون سنجیدہ نظر آتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
بڑی طاقتوں میں روس وہ واحد ملک نظر آتا ہے، جو بہت سنجیدہ اور واضح مؤقف رکھتا ہے کہ داعش ایک دہشتگرد گروہ ہے، جس کا خاتمہ ناگزیر ہے، جس کے باعث روس کی داعش کے خلاف کامیاب عسکری کارروائیاں جاری ہیں، روس نے شام میں کافی حد تک داعش کو کمزور بھی کر دیا ہے، دوسری جانب امریکا داعش کو مختلف بہانوں سے ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، کئی بار داعش کے علاقوں میں امریکی جنگی جہازوں نے بڑی تعداد میں مہلک ہتھیار گرائے اور کہا کہ غلطی سے داعش کے علاقوں میں گر گئے، لیکن شام سمیت مشرق وسطٰی میں امریکا کی داعش کی مدد اور حمایت کے ثبوت دنیا کے سامنے آچکے ہیں، جس سے انکار امریکا کیلئے ممکن نہیں ہے، اس کے برعکس روس کی جانب سے داعش کے خلاف سنجیدہ اور مؤثر کارروائیاں جاری ہیں، جس پر امریکا گہری تشویش کا شکار نظر آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی بادشاہت بجائے ایران کے صہیونی اسرائیل سے تعلقات بڑھا رہی ہے، کیا کہیں گی اس سعودی روش پر۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
عالمی میڈیا میں بھی اب اس بات کے ثبوت آچکے ہیں کہ سعودی شہزادے نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے، اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کیں، سعودی عرب کی اس افسوسناک روش کو پوری مسلم امہ کے سامنے آشکار کیا جانا چاہیئے، مسلم عوام کو اسرائیل کے تعلقات بڑھانے کی اس سعودی روش کا علم ہونا چاہیئے کہ سعودی اسرائیل تعلقات مسلم امہ کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی، اس حوالے سے سعودی بادشاہت کو بے نقاب کرنا چاہیئے، تاکہ وہ اسرائیل سے کسی بھی طرح کے تعلقات قائم کرنے سے باز رہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اسرائیل سے تعلقات خود سعودی بادشاہت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر طلعت عائشہ وزارت:
اسرائیل سے سعودی عرب کے تعلقات ناصرف مسلم امہ بلکہ خود سعودی بادشاہت کیلئے بھی بہت نقصان دہ ثابت ہونگے، اس سے سعودی بادشاہت ملک کے اندر بھی تنہائی کا شکار ہو جائیگی، مسلم امہ کبھی بھی اس چیز کو قبول نہیں کریگی اور سعودی عوام بھی اس بات کو قبول نہیں کریگی کہ سعودی بادشاہت چوری چھپے یا اعلانیہ اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم رکھے۔


خبر کا کوڈ: 554006

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/554006/سعودیہ-اسرائیل-تعلقات-ناصرف-مسلم-امہ-بلکہ-خود-سعودی-بادشاہت-کیلئے-بھی-نقصاندہ-ثابت-ہونگے-پروفیسر-طلعت-عائشہ-وزارت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org