0
Thursday 21 Jul 2016 13:07
وفاقی حکومت آزاد کشمیر کے انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے

ٹارگٹ کلنگ کیخلاف کے پی کے حکومت کا رویہ افسوسناک ہے، ڈیرہ لاوارثوں کا شہر بن چکا ہے، فیصل کنڈی

مجلس وحدت مسلمین نے دہشتگردی کیخلاف موثر آواز اٹھائی ہے
ٹارگٹ کلنگ کیخلاف کے پی کے حکومت کا رویہ افسوسناک ہے، ڈیرہ لاوارثوں کا شہر بن چکا ہے، فیصل کنڈی
فیصل کریم خان کنڈی کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی کے کم عمر ترین ڈپٹی سپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ملکی سیاست میں ان کا نام جانا پہچانا ہے۔ یکم جنوری 1975ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، اعلٰی تعلیم تھامس ویلی یونیورسٹی لندن سے حاصل کی۔ زراعت اور قانون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور خاندانی روایات کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 2008ء کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان میں چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ انکا شمار شہید بی بی کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ انکے والد فضل کریم کنڈی نے بھی مولانا فضل الرحمن کو 1990ء کے انتخابات میں این اے 24 ڈی آئی خان سے شکست دی تھی۔ انکے نانا جسٹس فیض اللہ خان کنڈی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے، جبکہ انکے پر دادا بیرسٹر عبدالرحیم کنڈی کو صوبہ سرحد کی پہلی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ فیصل کریم کنڈی نے قومی اسمبلی کے کم عمر ترین ڈپٹی اسپیکر ہونے کے باوجود ایوان کو انتہائی احسن طریقے سے چلایا، جس کا اقرار حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے کیا۔ اسلام ٹائمز نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ و دہشت گردی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے رویے کے حوالے سے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ جس میں ہونے والی گفتگو انٹرویو کی صورت پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا اپوزیشن کیساتھ ملکر پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
موجودہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ پانامہ کے معاملے پر ہم نے پٹیشن بھی دائر کر دی ہے اور اپوزیشن کیساتھ ملکر یک نکاتی ایجنڈے پر عوامی تحریک شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اب سڑکوں پر نکل کر جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: ایک جانب تحریک دوسری جانب پٹیشن بھی دائر ہے، دونوں کام ایک ساتھ کیسے ممکن ہیں۔؟
فیصل کریم کنڈی:
دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہینگے۔ پانامہ بین الاقوامی سکینڈل ہے۔ اپوزیشن یا پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی الزام تو نہیں ہے۔ اب اسی پانامہ پر وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اللہ کے ناموں کے نیچے کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ میں احتساب کیلئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اب اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اعلان کرتے ہیں، جب ٹی او آرز کی بات ہوتی ہے تو اس میں وزیراعظم کا نام ہی شامل نہیں ہوتا، پیپلز پارٹی نے تو یہاں تک بھی آفر کی کہ وزیراعظم کا نہیں تو حسین نواز اور مریم نواز کے والد کا نام شامل کرلیں۔

اسلام ٹائمز: آپکا کیا خیال ہے کہ صرف وزیراعظم کا احتساب ہونا چاہیئے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
نہیں، نہیں سب کا احتساب ہونا چاہیئے۔ جس جس کا بھی نام شامل ہے، سب کا احتساب کیا جائے، مگر شروع وزیراعظم سے کیا جائے، پارلیمنٹ میں تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ احتساب کا عمل مجھ سے شروع کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ چوہدری نثار اثاثوں کے حوالے سے بلاول بھٹو کا نام لے رہے ہیں، پھر۔؟
فیصل کریم کنڈی:
چوہدری نثار کا اپنا پورا خاندان امریکی شہری ہے، انہوں نے تو امریکہ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، وہ کس منہ سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین پر تنقید کر رہے ہیں۔ ویسے بھی وہ وزارت اعظمٰی کے امیدوار ہیں۔ آج کل وہ پچھلی نشستوں پر ہاتھ ملانے کیلئے جاتے ہیں، پہلے تو وہ ہاتھ بھی نہیں ملاتے تھے۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور صوبائی حکومت کے رویے کے بارے آپکی رائے کیا ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ہی دہشت گردی کی مذمت و مخالف میں پیش پیش رہی ہے، پاکستان کی اکلوتی جماعت ہے جس کی اعلٰی ترین قیادت سے لیکر کارکنان تک اسی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ دہشت گردی، تنگ نظری، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہماری جماعت کا موقف واضح ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں گذشتہ چند ماہ سے تسلسل کیساتھ قیمتی انسانی جانوں کو ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے، مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعلٰی اور آئی جی خیبر پختونخوا نے ڈیرہ میں آنا گوارا نہیں کیا۔ میرے خیال میں وہ ڈی آئی خان کو خیبر پختونخوا کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس شہر میں دہشت گردی کے سانحات کوئی پہلی مرتبہ ہوئے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ اتنی بے حسی پہلی مرتبہ نظر آئی ہے۔ ماضی میں اگر کوئی سانحہ پیش آتا تھا تو نہ صرف وفاقی وزیر داخلہ اس پر فوری ایکشن لیتا تھا بلکہ کسی بھی سانحہ کے بعد وزیراعلٰی امیر حیدر ہوتی اور صوبائی وزراء ڈیرہ میں موجود ہوتے تھے۔ اگر کسی سانحہ میں کوئی فرقہ واریت یا مزید انتشار کا عنصر محسوس ہوتا تو دونوں فریقوں کو اکٹھا کرکے ان کے درمیان افہام تفہیم کیلئے کوششیں ہوتی تھیں، مگر اب تو ڈی آئی خان لاوارثوں کے شہر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا جو نمائندہ وفاق میں بیٹھا ہوا ہے (مولانا فضل الرحمن) اس کو تو ڈیرے والوں کے مرنے سے ویسے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی کبھی انہیں اس حوالے سے آواز اٹھانے کی توفیق ہوئی ہے، مگر صوبائی حکومت کا رویہ افسوسناک اور شہریوں کیلئے نہایت تکلیف دہ ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں ایم ڈبلیو ایم نے دہشتگردی کیخلاف احتجاج کیا اور مطالبات پیش کئے، کیا آپ انکی حمایت کرتے ہیں۔؟
فیصل کریم کنڈی:
پرامن احتجاج تو سب کا حق ہے اور جہاں پر اتنی بے حسی اور بیڈ گورنس ہو، وہاں عوام احتجاج نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ پیپلز پارٹی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتی ہے اور ضروری ہے کہ وزیراعلٰی، آئی جی خیبر پختونخوا ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی خیبر پختونخوا کا ہی حصہ سمجھیں۔ شہریوں کے تحفظات دور کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوکر ان کا مورال بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کے اہلخانہ کیلئے فوری مالی امداد کا اعلان کریں۔ اپنے تحفظ، حقوق کے حصول اور دہشت گردی کے خلاف ایم ڈبلیو ایم نے موثر آواز اٹھائی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں عام انتخابات پر تو دھاندلی کے الزامات لگے، آزاد کشمیر کے انتخابات کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
فیصل کریم کنڈی:
اس عنوان سے متعدد میڈیا رپورٹس سامنے آچکی ہیں، جس میں آزاد کشمیر کے انتخابات میں ممکنہ دھاندلی کا ذکر کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت آزاد کشمیر کے انتخابات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کشمیر پالیسی کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ نواز حکومت کی مودی دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، ان شاء اللہ کشمیر کے الیکشن میں پیپلز پارٹی مودی کے یاروں کو شکست دیگی، تاہم اس کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں کیساتھ اداروں کا رویہ یکساں رہا ہے یا اس میں کوئی تضاد موجود ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
ساری صورت حال آپ کے سامنے ہے۔ ہمارا دور حکومت اور اس میں الیکشن کمیشن، نیب اور سپریم کورٹ کا رویہ بھی اور موجودہ دور حکومت بھی۔ پیپلز پارٹی نے ہر طرح کے چیلنجز کو فیس کیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے دور حکومت میں ہمارے ایم این ایز، ایم پی ایز، منسٹرز کو طلب کیا گیا، یہاں تک کہ ہمارے پرائم منسٹرز نے بھی اداروں کو فیس کیا۔ اس کے باوجود انہی اداروں پر ہمیں اعتماد ہے، انہی اداروں سے ہم رجوع بھی کر رہے ہیں۔ آپ موجودہ دور حکومت میں دیکھیں کہ خیبر پختونخوا حکومت، پنجاب، وفاقی حکومت کی جانب سے اعلانیہ طور پر الیکشن کمیشن کے کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی کے باوجود کسی نے انہیں نہیں بلایا۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں کو تو بلا کر فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ فارغ ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: موجودہ اور سابقہ دور حکومت کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلی دیکھتے ہیں۔؟
فیصل کریم کنڈی:
موجودہ حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ نواز اتنی بڑی جماعت ہے مگر اس کے باوجود انہیں ایک وزیر خارجہ نہیں مل رہا۔ طویل عرصے سے پاکستان کا سرے سے وزیر خارجہ ہی موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے دور میں خارجہ پالیسی کے کوئی خدوخال واضح نہیں ہو رہے۔ وزیر خارجہ کی عدم موجودگی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کے باعث ہم ایف سولہ کے معاملے پر بھی اپنا کیس خراب کرچکے ہیں۔ کون سے ملک کے ساتھ خاص طور پر پڑوسی ملک کے ساتھ ہمارے کوئی مثالی تعلقات ہیں۔ پہلے تو صرف ایک بھارت تھا، مگر موجودہ صورت آپ کے سامنے ہے۔ ہمارے دور حکومت کو سامنے رکھتے ہوئے حالیہ صورت حال کا موازنہ کریں تو فرق آپ پر واضح ہوجائیگا۔

اسلام ٹائمز: ایک جانب افغانستان کیساتھ سرحد گرم، دوسری جانب محمود خان اچکزئی کا بیان جبکہ حکومت مکمل خاموش، کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
میں ایک مرتبہ پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں، ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب بھی میاں صاحب کی حکومت مسائل کا شکار ہوتی ہے، ہماری سرحدیں گرم ہوجاتی ہیں۔ پہلے تو صرف مشرقی سرحد گرم ہوتی تھی، اب افغانستان کے ساتھ بھی معاملات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ سرحد پر باقاعدہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اتنا اہم واقعہ ہوگیا مگر اس کی پولیٹیکل بریفنگ تک نہیں ہوئی۔ اس حکومت سے آپ مزید کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ خبر نہیں یہ نااہلی ہے یا عدم اعتماد کہ میاں صاحب کو وزیر خارجہ تک دستیاب نہیں۔ سرتاج عزیز یا کسی اور کو بنا دیں۔ کوئی چیز تو واضح ہوگی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ میاں صاحبان کی توجہ بزنس پر جبکہ حکومت راولپنڈی کے سپرد ہے۔ اسی سے اندازہ لگالیں کہ محمود خان اچکزئی جس کا بھائی بلوچستان کا گورنر ہے۔ اس نے اسی افغانستان کے حوالے سے انتہائی متنازعہ بیان دیا، مگر اس بیان پر انفارمیشن، سیفران، یہاں تک کہ مشیر خارجہ تک خاموش ہیں۔ کسی نے کوئی بیان یا وضاحت تک ضروری نہیں سمجھی۔
خبر کا کوڈ : 554062
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش