1
0
Friday 22 Jul 2016 03:09

ایم ڈبلیو ایم واحد شیعہ جماعت ہے جو مین اسٹریم سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے، ناصر عباس شیرازی

ایم ڈبلیو ایم واحد شیعہ جماعت ہے جو مین اسٹریم سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے، ناصر عباس شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم میں سیکرٹری سیاسیات کے بھی انچارج رہے ہیں، سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ اس بار اسلام ٹائمز نے ناصر عباس شیرازی سے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کو خصوصی دعوت دینے پر ایک انٹرویو کیا ہے۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی کسی شیعہ جماعت کو بلایا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کو بھی مدعو کیا گیا اور آپکی قیادت میں ایک وفد نے نمائندگی کی جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ اسکی تفصیلات سے آگاہ کیجئے گا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی گذشتہ روز اپوزیشن جماعتوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ان جماعتوں نے دو ایسی جماعتوں کو اپنے اجلاس میں شرکت کیلئے دعوت دی، جو پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں رکھتیں، یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی نہیں رکھتی، لیکن ان دونوں جماعتوں کو اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں بلایا گیا۔ ان میں ایم ڈبلیو ایم واحد شیعہ جماعت ہے، جس نے تشیع کی ترجمانی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پولیٹیکل مین اسٹریم کے اندر مجلس اپنے مضبوط موقف کی وجہ سے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، اس اجلاس میں گیارہ مین ٹاپ سیاسی و مذہبی جماعتیں شریک تھیں، جس میں ایک مجلس وحدت تھی، جس نے موثر انداز میں شرکت کی۔ دوسرا یہ ہے کہ مجلس وحدت کے تین رکنی وفد نے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل (ناصر عباس شیرازی) کی قیادت میں اس اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کی۔ دیگر دو برادران میں سیکرٹری سیاسیات اسد نقوی اور برادر نثار فیضی ہمراہ تھے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس سے آپ نے بھی گفتگو کی، کن نکات کو اٹھایا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی! میں نے اس اجلاس میں گفتگو کی ہے کہ اس کے چند نکات آپکے سامنے بیان کر دیتا ہوں، میں نے کہا کہ ہم نے پولیٹیکل سائنس مولا امیر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے لی ہے، ہمارا سیاسی پروگرام کا کارنر اسٹون یہ ہے کہ ظالم کے مخالف بن کر رہنا اور مظلوم کے حامی بن کر رہنا، لہٰذا ہم ہر مظلوم کے حامی اور ہر ظالم کے مخالف ہیں۔ ظلم جس سطح پر ہو، جس نوعیت کا ہو، جس قسم کا ہو اور جس شکل کا ہو، ہم اس کے خلاف ہیں اور مظلوم جس سطح کا ہو، ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں نے اجلاس میں کہا کہ مکتب اہل بیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے اس ملک میں لگ بھگ 23 ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا گیا ہے اور ان کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ کہنا چاہیں گے کہ جب تک آپ سب اس ظلم کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، ان شہداء کی آواز نہیں بنیں گے، ان شہداء کے ورثاء کو پیغام نہیں دیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اس وقت تک ان ظالموں کا راستہ نہیں روکا جا سکتا اور اس وقت تک ایک حقیقی جوائنٹ اپوزیشن معروض وجود میں نہیں آسکتی۔ لہٰذا جب تک ہم ایک دوسرے کے دکھوں اور دردوں کا مدوا کرنے کیلئے عملی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، اس وقت تک ہم کوئی بڑی جدوجہد شروع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: بنیادی طور پر یہ اجلاس وزیراعظم کیخلاف ٹی او آرز پر مشترکہ حکمت عملی بنانے کیلئے بلایا گیا، اس پر بھی کوئی بات کی۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی، ٹی او آرز کے حوالے ہم نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین ایک ایسی عملی جماعت ہے، جس کی لیڈر شپ نے احتجاج کا مہذب ترتین طریقہ اختیار کیا ہے، تیرہ مئی سے علامہ ناصر عباس جعفری بھوک ہڑتال پر ہیں اور 67 دن سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، اس دوران انہوں نے اپنے موقف اور تحفظات کو کھل کر بیان کیا ہے۔ اس احتجاج سے ہر زندہ ضمیر بیدار ہوا ہے، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تو وفاقی حکومت ہے، یہ اندھے اور بہرے ہیں، یہ اس وقت تک ٹس سے مس نہیں ہوتے جب تک انہیں عوامی ردعمل نہ دکھائیں۔ ایم ڈبلیو ایم جس نے احتجاج کا انتہائی مہذب ترین طریقہ اختیار کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جب تک عوامی جدوجہد اور عوام کو سڑکوں پر نہیں لائیں گے، یہ ہماری بات نہیں سنیں گے۔ لہٰذا ہمیں خواتین اور بچوں کو سڑکوں پر لانا پڑا اور اب بائیس جولائی کو ملک کی اہم شاہراوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر اپوزیشن بھی یہ چاہتی ہے کہ وہ ان حکمرانوں کو پیغام دے تو وہ دستوری، آئینی اور پارلیمانی جدوجہد کے ساتھ عوامی پریشر بھی ڈالے، جب تک عوامی جدوجہد کو پارلیمانی، دستوری اور آئینی جدوجہد کی سپورٹ میں نہیں لایا جاتا، اس وقت تک موجوہ حکومت بیدار نہیں ہوگی۔ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کا علامہ ناصر عباس کی طرف سے شکریہ بھی ادا کیا، کیونکہ ان میں سے کوئی ایک بھی جماعت ایسی نہ تھی جس نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ نہ کیا ہو اور حمایت کا اعلان نہ کیا ہو۔

اسلام ٹائمز: کیا اس اجلاس میں شامل دیگر جماعتوں نے بھی بھوک ہڑتال کا کوئی ذکر کیا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی بالکل!، بلامبالغہ تمام سیاسی جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین اور اس کی لیڈر شپ کا خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں احتجاج کا خوبصورت طریقہ متعارف کرایا ہے، ان کی بات سب تک پہنچی ہے، ایک مشترکہ قرارداد میں اس بات کو شامل کیا گیا کہ پاکستان میں رنگ، نسل اور فرقہ کی بنیاد پر جو قتل کیا جا رہا ہے، وہ قابل مذمت ہے، ظلم ہے اور ناقابل برداشت ہے۔ اس ظلم کو حکومتی ناکامی سے تعبیر کیا گیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر ایم ڈبلیو ایم کی سفارشات کو شامل کیا گیا ہے۔ ایک بات جو شامل کی گئی کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ پارلیمانی تمام معاملات چلتے رہیں اور پانامہ لیکس پر کوئی بات تک نہ ہو، پارلیمانی امور کو روکنا چاہیئے۔ یہ اس ملک کے ساتھ ظلم ہے کہ ایک خاندان ملک سے باہر دولت لے جاتا ہے، پانامہ میں جو کمپنیاں بناتا ہے۔ اپنے عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اس پیسے کو ان حکمرانوں نے عوام کی خدمت کی بجائے اپنی ذات پر صرف کیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ یہ بات بھی کی گئی ہے کہ اپوزیشن کے یہ ٹی او آرز ہیں ان پر کمیشن بنانا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہمارے پاس بھی کئی آپشنز موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کے اس اجلاس میں ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھی تشکیل پائی ہے۔ کیا مجلس اس میں بھی شامل ہے یا فقط اسی اجلاس کی تک ہی رکھا گیا۔؟
ناصر عباس شیرازی:
جی بالکل! اس اجلاس کی خاص بات یہی ہے کہ معاملات کو آگے بڑھانے اور حکمت عملی تشکیل دینے کیلئے اجلاس میں ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی گئی ہے، جو آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دے گی۔ الحمد اللہ مجلس وحدت مسلمین اس کمیٹی کا حصہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 554448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت شاندار کارکردگی ہے، اگلے الیکشن میں اس کے ثمرات سامنے آئیں گے، ہوسکتا ہے کہ اسوقت کی اپوزیشن جماعتیں حکومت میں آجائیں، لیکن مین اسٹریم سیاست سے یہی مراد ہے کہ حکومتی بینچ لازمی نہیں، بدلتے حالات کے ساتھ حکمت عملی بدلتی ہے، مین اسٹریم سیاسی کردار پالیسی ہے۔
ہماری پیشکش