شہید خرم زکی کے سب سے قریبی اور دیرینہ ساتھی جناب خالد راؤ مذہبی اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک محبان اولیا کے سینئر وائس چیئرمین بھی ہیں۔ صحافتی حوالے سے آپ بحیثیت میزبان اور تجزیہ کار کئی نجی نیوز چینلز سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے جناب خالد راؤ سے شہید خرم زکی کے حوالے سے کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں شہید کی جائے شہادت پر مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہاسلام ٹائمز: آپ شہید خرم زکی کے سب سے قریبی ساتھی ہیں، ان کے مشن کس مشن پر کارفرما تھے۔؟
خالد راؤ: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ شہید خرم زکی یہ سمجھتے تھے کہ دہشتگردی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، تمام طبقات اس کا شکار ہیں، جس کا وہ خود بھی شکار ہوئے، دہشتگردی کرنے والے تکفیری عناصر ہیں، جن میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جند اللہ ہے، طالبان ہیں، داعش ہے۔ شہید خرم زکی کا حکومت سے یہ شکوہ بھی رہتا تھا کہ سپاہ صحابہ سمیت کالعدم دہشتگرد تنظیموں کو عوامی سطح پر سرگرموں کی اجازت کیوں دی ہوئی ہے، انکے جھنڈے بھی لہرا رہے ہیں، ریلیاں، جلسے جلوس بھی ہو رہے ہیں۔ یہ دوہرا معیار کیوں ہے کہ ایک طرف تو ان پر پابندی عائد کی گئی ہے تو دوسری طرف ان کو تمام سرگرموں کی اجازت بھی د ی گئی ہے، حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے، لہٰذا پابندی کے باوجود کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی کھلے عام فعالیت اور اس پر مجرمانہ حکومتی خاموشی کے خلاف وہ سرگرم تھے، یہی ان کا مشن تھا۔
اسلام ٹائمز: شہید خرم زکی کے اہداف کیا تھے۔؟
خالد راؤ: شہید خرم زکی کے اہداف یہ تھے کہ پورے ملک میں امن و امان قائم ہو، یہاں یہ رجحان پروان چڑھا کہ دہشتگرد عناصر پہلے تکفیر کرتے تھے اور پھر بے گناہوں کی لاشیں گرایا کرتے تھے، و چاہتے تھے کہ تکفیریت کے خاتمے کے حوالے سے مباحثے ہونے چاہیئے، تمام طبقات کے درمیان آپس میں لڑائی جھگڑے اور بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے دلائل پر مبنی علمی گفتگو ہونی چاہیئے، جب وہ نجی ٹی و چینلز سے منسلک تھے تو اس وقت بھی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ چاروں بڑے مکاتب فکر سے علما کرام کو پروگرامات میں بلاتے تھے، اور کوئی بھی متنازع موضوع اٹھاتے تھے، تاکہ اس پر تمام علما کرام دلائل و برہان کی بنیاد پر اپنے اپنے مؤقف پیش کر سکیں۔ وہ لڑائی جھگڑے کے بجائے دلائل و برہان پر مبنی گفتگو کے قائل تھے۔
اسلام ٹائمز: مشن و اہداف کے حصول کیلئے شہید خرم زکی کی روش کیا تھی۔؟
خالد راؤ: عام طور پر ہمارے یہاں اگر کوئی ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہیئے تو وہ عام طور پر پریس کلب کے سامنے جاکر کھڑا ہو جاتا ہے، وہاں کھڑے ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیتا ہے، گو کہ یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن شہید خرم زکی کی روش اس سے بہت مختلف تھی، اگر سعودی عرب یمن کے مظلوم عوام پر حملہ کرتا ہے، یمن پر ناجائز جارحیت کرتا ہے، سعودی عرب پاکستان کو بھی اس کا حصہ بننے کیلئے دباؤ ڈالتا ہے تو وہ وزارت خارجہ کے دفتر کے باہر جاکر احتجاج کرتے ہیں، جب سعودی عرب میں شیخ نمر کو پھانسی دی جاتی ہے تو وہ سعودی ایمببسی کے باہر جاکر احتجاج کرتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ سپاہ صحابہ دہشتگردی کر رہی ہے تو وہ سپاہ صحابہ کے گڑھ صدیق اکبر مسجد کے باہر جا کر احتجاج کرتے تھے، وہ عملی اور مؤثر احتجاج کے قائل تھے، جدوجہد ایسے کرو کہ ظالم کے گھر کے باہر جا کر آواز حق بلند کرو، اسے للکارو، تاکہ اسے احساس ہو، تاکہ احتجاج مؤثر ثابت ہو سکے، لیکن صرف فوٹو سیشن نہیں ہونا چاہیئے کہ آپ پریس کلب گئے، تصویریں کھنچوائیں اور گھر چلے گئے، نہیں، بلکہ آپ ظالموں کو اس کے گھر جاکر للکاریں، ظالموں کو بتائیں کہ ہم اسکے تعاقب کرتے رہیں گے۔
اسلام ٹائمز: شہید خرم زکی کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو جو عوام کے سامنے نہیں آ سکا ہو۔؟
خالد راؤ: شہید خرم زکی اور میرا تقریباً 26 سال کا ساتھ تھا، ان چھبیس سالوں میں کثرت سے میں نے جو ایک پہلو مشاہدہ کیا، جو عوام کے سامنے نہیں آیا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں پاکستان میں اپنے کاز اور نظریئے سے اتنا مخلص شخص آج تک نہیں دیکھا، وہ بیوی بچوں کو وقت نہیں پاتے تھے، وہ ذاتی زندگی میں دیگر مشاغل کو وقت نہیں دے پاتے تھے، شہید کہتے تھے کہ سب سے پہلے نظریہ ہے، سب سے پہلے کام ہے، اس کے بعد نیند و آرام ہے، اس کے بعد بیوی بچے ہیں، آپ آج کسی مشن پر کام کر رہے ہوں اور آپ کی نوکری اگر پچاس ساٹھ ہزار روپے کی بھی ہے اور آپ کو یہ اندیشہ ہو کہ اگر میں اپنے کاز سے مربوط فلاں کام کرونگا تو میری نوکری ختم ہوسکتی ہے یا متاثر ہو سکتی ہے، تو ایسی صورتحال انہیں اس وقت درپیش آئی کہ جب وہ ایک نجی نیوز چینل میں بحیثیت ہیڈ آف کرنٹ افیئرز کام کر رہے تھے، جس کی تنخواہ و دیگر مرعات کا پیکیج بہت شاندار ہوتا ہے، اس دوران ان کے ہاتھ ایک تصویر لگی، جس میں شاہ عبداللہ خادمین الحرمین شریفین امریکی صدر بش کے ساتھ شراب پی رہے تھے، تو میں بھی ان کے وہاں نوکری کر رہا تھا اور انکے ساتھ ہی آفس میں بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا کہ خالد بھائی جلدی سے وائس اوور کا اسکرپٹ لکھیں، ہم نے یہ تصویر پرائم ٹائم میں 9 بجے شب دکھانی ہے، تو میں نے ان سے کہا کہ دیکھ لیں، ان کے پاس خادم الحرمین شریفین کا ٹائٹل ہے، ایسا نہ ہو کہ کہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو جائے، خاص طور پر نوکری کے حوالے سے، تو آپ یقین کریں کہ میں نے پہلی بار شہید کے چہرے کو متغیر دیکھا، شہید خرم زکی نے کہا کہ خالد بھائی آپ کو یہ غلط فہمی کب سے ہوگئی ہے کہ ہم یہاں نوکری کیلئے اور پیسے کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں، ہم تو یہاں نظریہ لیکر بیٹھے ہیں، ہم یہاں اپنے نظریئے کی خاطر کام کر رہے ہیں، آپ جلدی سے وائس اوور کا اسکرپٹ لکھیں، میں نے اس خادم الحرمین شریفین کے چہرے کو بے نقاب کرنا ہے، پرائم ٹائم میں عوام کو دکھانا ہے، پھر میں نے وائس اوور کا سکرپٹ لکھا، جس کے بارے میں میں مختصر بتاؤں، وہ یہ تھا کہ ”ایک طرف تو طاغوتی قوتیں مسلمانوں پر آگ و خون برسا رہی ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے نام نہاد خادم الحرمین شریفین اپنے آقاؤں کے ساتھ شراب کا جام نوش کر رہے ہیں“ کچھ ایسا وائس اوور کا اسکرپٹ تھا، تو شہید خرم زک نے پرائم ٹائم میں اسے دکھایا، جس کے دوسرے دن انہیں وہاں نوکری سے فارغ کر دیا گیا، لیکن اس پر شہید کو نہ تو کوئی ندامت تھی، نہ ہی کوئی افسوس۔
اسلام ٹائمز: شہادت سے قبل انہیں کسی قسم کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔؟
خالد راؤ: شہید خرم زکی کو شہادت سے قبل مسلسل دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں ، انہیں خطرات کا بھی سامنا تھا، قومی سلامتی کے اداروں نے انہیں بلا کر آگاہ بھی کیا تھا کہ آپ دہشتگردوں کے ناشنے پر ہیں، آپ کا نام سرفہرست ہے، لیکن انکا جواب ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ میں اپنا کام اور مشن نہیں روک سکتا، میں اسے ہر قیمت پر جاری رکھوں گا۔
اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کے نشانے پر ہونے کی بنا پر وہ کیا احتیاط برتتے تھے۔؟
خالد راؤ: میں نے خود بھی شہید خرم زکی سے سیکورٹی اور احتیاط کرنے کے حوالے سے بات کی تھی، یہاں اسی ہوٹل پر جو ان کی جائے شہادت بھی ہے، یہاں وہ روز آتے تھے، میں نے ان کو منع کیا کہ آپ یہاں میرے پاس روز نہیں آیا کریں، احتیاط کیا کریں، گارڈز رکھ نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس وسائل ہی نہیں تھے، انہوں بس یہ احتیاط کی کہ انہوں نے اپنے شیڈول کو تھوڑا تبدیل کیا، اور جب ان کی شہادت ہوئی، تو اس دن وہ میرا خیال ہے کہ میرے پاس گیارہ دن بعد آئے تھے، یہی بس ان کی احتیاط تھی، لیکن چونکہ شہید خرم زکی دہشتگرد عناصر کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہوئے تھے، انہوں نے طے کر لیا تھا کہ بس اب انکی آواز کو خاموش کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، لہٰذا انہیں نے انہیں شہید کر دیا۔
اسلام ٹائمز: شہید خرم زکی کی شہادت کے بعد ان کے مطالبات اور قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے حکومت اور ریاستی اداروں کا کیا رسپونس رہا۔؟
خالد راؤ: خرم زکی جب شہید ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ زخمی ہوا، اس وقت تو میں خود بھی بے ہوش تھا، تین چار دنوں تک حالت انتہائی خراب رہی، لیکن بعد میں جب ہم نے میڈیا کو مونیٹر کیا، مختلف رپورٹس دیکھیں، تو سبھی فعال نظر آئے، تمام سیاسی قائدین و شخصیات بھی بیانات دے رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ خرم زکی کی شہادت کے بعد بس اب انکے مطالبات پر بھی عمل ہوگا اور انکے قاتل بھی بہت جلد گرفت میں آ جائیں گے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، بے حسی جو شروع سے ایک طریقہ رہا ہے وہ بڑھتی گئی، نہ تو شہید خرم زکی کے کسی مطالبے پر عملدرآمد کیلئے سوچا گیا اور نہ تو انکے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوتی ہمیں نظر آرہی ہے، یعنی سب کچھ نظر انداز کر دیا گیا، حکومتی اداروں کی طرف سے خاص طور پر ان تمام چیزوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
اسلام ٹائمز: شہید خرم زکی قتل کیس ابھی کس پوزیشن پر ہے، پیشرفت جاری ہے یا جوں کا توں ہے۔؟
خالد راؤ: شہید خرم زکی کے قتل کی ایف آئی آر تو اورنگزیب فاروقی اور مولوی عبدالعزیز کے خلاف کٹ چکی ہے، لیکن پیشرفت کی حالت یہ ہے کہ نامزد افراد نے یہ بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ ضمانت قبل از گرفتاری ہی کرا لیں، کیونکہ نامزد افراد جس شیلٹر کے نیچے چل رہے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے، ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جائے گا، اسلئے وہ بے فکر ہیں، پچھلے کئی سالوں سے سول سوسائٹی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا کر، احتجاج کر کرکے مر گئی ہے، لیکن دہشتگردوں اور انکے سرپرستوں پر نہ کوئی ہاتھ ڈالتا ہے اور نہ کوئی ہاتھ ڈالے گا، اس کی وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں میں کچھ افراد ان دہشتگرد عناصر کو ابھی بھی مجاہدین اسلام سمجھتے ہیں۔ لہٰذا کیس جوں کا توں ہے، اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
اسلام ٹائمز: شہید خرم زکی کی شہادت کے بعد کیا انکے رفقا، انکے دوست مایوسی کا شکار ہیں یا انکے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔؟
خالد راؤ: کیونکہ شہید خرم زکی کے ساتھیوں کو شہید سے بے پناہ لگاؤ تھا، اسی وجہ سے انکی شہادت کے وہ ذہنی طور پر کچھ ڈسٹرب ہیں، کیونکہ شہید کی شہادت کے بعد انکے ساتھیوں کے سروں سے سایہ اٹھا گیا، یقیناً درد رکھنے والے دل انکے ساتھیوں کی اس کیفیت کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں، گو کہ ہم شہید خرم زکی جیسے تو نہیں ہو سکتے، ہماری سطح شہید کی سطح کے برابر نہیں ہے، لیکن شہید خرم زکی کے تمام ساتھیوں کے عزائم پختہ ہیں، انشاءاللہ تعالیٰ شہید کے تمام ساتھیوں نے عہد کیا ہوا ہے کہ ہم اپنی بساط کے مطابق شہید کے مشن کو، انکے کاموں کو جاری و ساری رکھیں گے۔
(روتے ہوئے) میری اگر آپ مثال لیں تو مجھے بھی آپ شہید کے بعد نارمل حالت میں نہیں دیکھ سکتے، میں بغیر کسی منافقت و ریاکاری کے آپ کو بتا رہوں کہ میں ابھی تک شہید خرم زکی کی قبر پر نہیں جا سکا ہوں، میں کوشش کرتا ہوںکہ شہید کی قبر پر جاؤں، لیکن اس کے بعد میری ہمت نہیں جواب دینے لگتی ہے، میرے قدم نہیں اٹھتے ہیں، لرزا طاری ہو جاتا ہے کہ وہ 26 سال جو ہم نے ایک ساتھ گزارے ہیں اور آج وہ مجھ سے بہت دور چلا گیا ہے، میرے پاس نہیں ہے، یہ سوچتا ہوں تو بیٹھ کر رونے لگتا ہوں، لیکن انشاءاللہ تعالیٰ ہم تمام شہید کے ساتھی مایوس نہیں ہیں، ہمیں یہی چیز حوصلہ دے رہی ہے کہ ہم نے ان کے کاموںکو رکنے نہیں دینا ہے، انہیں آگے بڑھانا ہے، شہید کی زندگی میں جس طریقے سے آگے بڑھ رہا تھا، ویسے نہ صحیح لیکن انشاءاللہ تعالی تکفیریت کے خلاف ہم انکے مشن اور کاموں کو آگے ضرور بڑھائیں گے۔