0
Monday 12 Sep 2016 00:07
جو حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کو مسلمان سمجھے، میں اسے مسلمان سمجھتا ہوں

سعودی عرب میں غیر اسلامی نظام ہے، بادشاہت کے نظام کو اسلامی نظام تصور نہیں کرتا، مولانا عبدالعزیز

کیا سنی شیعہ، کیا بلوچ اور کیا متحدہ والے، سب کو شکوے ہیں، سب کیساتھ ظلم ہو رہا ہے
سعودی عرب میں غیر اسلامی نظام ہے، بادشاہت کے نظام کو اسلامی نظام تصور نہیں کرتا، مولانا عبدالعزیز
لال مسجد اسلام آباد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں، لال مسجد واقعہ کے بعد عالمی میڈیا پر چھائے رہے، اپنی ایک رائے رکھتے ہیں، ملک میں اسلامی نظام کا مطالبہ کرچکے ہیں، مشرف دور میں جامعہ حفصہ کیخلاف آپریشن بھی ہوا، اسوقت کئی دن لڑتے رہے، تاہم بعد میں انکے بقول ایک خاص حکمت عملی کے تحت برقعہ پہن کر یہ باہر نکلے۔ کافی عرصے سے میڈیا سے بالکل دور ہیں، اسکی بنیادی وجہ نیشنل ایکشن پلان تصور کی جاتی ہے۔ اسلام آباد میں کئی مرتبہ مولانا عبدالعزیز کے نماز جمعہ کے خطابات کی وجہ سے موبائل سروس بھی معطل رہ چکی ہے۔ سول سوسائٹی سمیت کئی جماعتیں مولانا عبدالعزیز کیخلاف کارروائی کی متمنی ہیں، تاہم حکومت نے تاحال ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ کئی ایف آئی آر بھی مولانا کے خلاف درج ہیں، مولانا اسوقت بھی اسلام آباد کی عدالتوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے علاقے ضلع راجن پور ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مولانا سے ملنے کی بڑی کوشش کی، تاکہ مختلف ایشوز پر ان کا نکتہ نظر جانا جائے، اس میں کئی بار ناکامی کے بعد بلآخر مولانا سے انٹرویو لینے میں کامیاب ہوئے ہیں، ایک خصوصی نشست کا احوال اس انٹرویو میں پیش خدمت ہے۔ یاد رہے کہ مولانا ایک خاص حکمت عملی کے تحت میڈیا سے بہت کترا کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: ریاست کیساتھ کیوں ٹکراؤ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔؟
مولانا عبدالعزیز:
میں نے ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کی کوئی پالیسی نہیں اپنا رکھی، البتہ ریاستی اداروں کی پالیسی سے ضرور ناخوش ہیں، اس وقت ریاست میں کوئی بھی قانون نہیں چل رہا، حتٰی جو بھی قانون بنایا ہوا ہے، وہ نہیں چل رہا، آپ نے فوجی عدالتیں بنائیں، لیکن وہاں بھی کام نہیں چل رہا۔ ہمارے کئی ساتھیوں کو اٹھا لیا گیا اور پولیس مقابلہ کرکے مار دیا گیا، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ریاست کی جانب سے تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت بنا دی گئی ہے۔ آپ نے فوجی عدالتیں بنائیں، میں کہتا ہوں کہ آپ جن کو بھی گرفتار کرتے ہیں، ان کا ٹرائل تو کریں، بغیر ٹرائل کئے آپ دوسروں کو پولیس مقابلہ شو کرکے مار دیتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔ یہ ظلم ہے اور ہمارے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ شکوہ تو اب باقی جماعتوں کو بھی ہے، اس پر کیا کہتے ہیں۔؟
مولانا عبدالعزیز:
دیکھیں کہ شروع میں سب خوش ہوئے کہ فقط دیوبندی مارے جا رہے ہیں، کچھ لوگ جو ہم سے مخالفت رکھتے تھے، وہ بھی خوش تھے کہ چلو اچھا ہوا یہ زد میں ہیں، لیکن اب سب نالاں ہیں، کیا سنی، شیعہ، کیا بریلوی، کیا بلوچ اور کیا متحدہ والے، سب کو شکوے ہیں، سب کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے۔ لوگوں کو غائب کر دینا اور پھر ان کی لاشیں برآمد ہونا کہاں کا انصاف ہے۔ میں کہتا ہوں چلو آپ جس بھی قانون پر عمل کرتے ہیں، اس پر عمل تو کریں، یہ لاشیں گرانا کہاں کا انصاف ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں کو جولائی میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پولیس مقابلہ شو کرکے مار دیا گیا، پندرہ دن تک انہوں نے اس بندے کی لاش تک نہیں دی، پھر ہم نے رابطے کئے، پریشر ڈالا، بعد میں ہمیں کہا گیا کہ آپ لاشیں وصول کرنے کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دیں، ہم نے کہا کہ بھائی صاحب ہم نے جب وصول ہی نہیں کی تو دستخط کیسے کر دیں، خیر کافی دیر بعد ہم نے دستخط کر دیئے، اس کے بعد ایک پرانی قبر کھودی گئی تو اس میں لاش کسی اور کی پائی گئی، ہمیں زبردستی وہ لاش اٹھوائی گئی، جب وہ لاش اسلام آباد لائی گئی تو لواحقین نے اسے وصول کرنے سے انکار کر دیا گیا، کیونکہ وہ اصل بندے کی لاش نہیں تھی، انتظامیہ سے کہا کہ اب اس لاش کو اسلام آباد میں دفن ہونے دو، اس پر ٹھیک ٹھاک تنازعہ بن گیا، ہمیں کہا گیا کہ آپ یہ لاش کے پی کے لے جائیں، وہاں دفن کریں، اس کے بعد بہارہ کہو پر بڑی مشکل کے ساتھ اتفاق ہوا اور وہی دفن کر دی۔ جب ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوگا تو پھر ہم ریاست سے کیسے راضی ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ریاست کیجانب سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث پائے جاتے ہیں، غازی فورس آپکے بندوں نے بنائی، اس سے بھی انکار کریں گے۔؟
مولانا عبدالعزیز:
میں غازی فورس کے وجود سے انکار کرتا ہوں، شروع میں کچھ لڑکوں نے ہمارے مدرسے کا نام استعمال کیا، لیکن اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے، جب بھی کوئی واقعہ ہوتا تو اس کو ہمارے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ اسلام کو صحیح نافذ کر دو۔ یہ سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے۔ آپ نے سودی نظام نافذ کیا ہوا ہے۔ سارے مغربی جرائم یہاں ہوتے ہیں، یہ تو اللہ سے بغاوت ہے۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب، مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں کئی مسالک رہتے ہیں، آپکے اسلام کی تعبیر کچھ اور ہے اور انکے اسلام کی تعبیر کچھ اور، ایسے میں آپ یہ مطالبہ کیسے کرسکتے ہیں، آپ مکتب دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں تو مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والی کئی جماعتیں پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، انہوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا، ایسے میں اس مطالبے میں کیا جان ہوسکتی ہے۔؟
مولانا عبدالعزیز:
دیکھو میرے بھائی، شیعہ ہوں، دیوبندی ہوں، سنی ہوں یا وہابی یا دیگر مکاتب فکر، ان میں تقریباً 80 سے 90 فیصد مشترکات ہیں، مثال کے طور پر سود کے معاملے پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ جنگ ہے، اسی طرح دیگر قرآنی احکامات میں، میں کہتا ہوں جن پر اتفاق ہے ان کو تو نافذ کرو، اس پر آپ کے ساتھ کیا مشکل ہے۔ جن احکامات پر ہمارے درمیان اتفاق ہے، اس پر نفاذ ہونا چاہیے ناں۔

اسلام ٹائمز: کئی دیگر علماء کی طرح آپکا نام بھی تکفیر کرنیوالوں میں شامل ہے، ایسے میں آپ مشترکات کی بات کر رہے ہیں، دوسرا یہ کہ تکفیر کیوں کرتے ہیں، کیا وقت نہیں آیا کہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔؟
مولانا عبدالعزیز:
دیکھیں یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ میں اس لئے تکفیر کا قائل ہوں، کیونکہ شیعہ حضرات حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان کی تکفیر کرتے ہیں، انہیں مسلمان تک تصور نہیں کرتے، بہرحال میں اس معاملے پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔

اسلام ٹائمز: دیکھیں میرا شیعہ حضرات کیساتھ بھی اٹھنا بیٹھا ہے، وہ کبھی بھی، جن شخصیات کا نام آپ نے لیا ہے، انہیں غیر مسلم نہیں سمجھتے ہیں، حتٰی شیعوں کی تمام صاحب سند شخصیات اس چیز کی قائل نہیں ہیں، اس سے بھی بڑھ کر شیعوں کے رہبر اعلٰی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس فعل کو حرام قرار دیا، واضح لفظوں میں کہا ہے، چاہیئے تو یہ تھا کہ آپ لوگ اسکا خیر مقدم کرتے، لیکن معاملہ وہیں اٹکا ہوا ہے۔؟
مولانا عبدالعزیز:
دیکھیں میں اس پر زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا، اگر ایسا ہے تو شیعہ حضرات تینوں شخصیات کے نام کیوں نہیں لکھتے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس کو نہیں مانتے۔ خیر اس سے آگے چلئے۔

اسلام ٹائمز: چلیں میں سوال بدل دیتا ہوں، کیا آپکی نگاہ میں شیعہ کلی طور پر کافر ہیں، یا یہ فرق رکھتے ہیں کہ جو تینوں شخصیات کو مسلمان سمجھتے ہیں وہ مسلمان ہیں۔؟
مولانا عبدالعزیز:
جی جی میں یہ فرق رکھتا ہوں اور میں کلی طور پر شیعوں کو کافر نہیں سمجھتا۔ جس ٹی وی چینل پر پروگرام ریکارڈ کیا گیا اور وہ بعد میں نشر نہیں کیا گیا، اس میں مجھے نہیں بتایا گیا تھا کہ خانم طیبہ بخاری دوسری جانب ہیں۔ خیر میں کلی طور پر تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔ جو تینوں شخصیات کو مسلمان سمجھتے ہیں، انہیں مسلمان سمجھتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپ تو آئین پاکستان کو بھی نہیں مانتے، جبکہ آئین مکمل طور پر اسلامی ہے۔؟
مولانا عبدالعزیز:
دیکھیں جو ہو رہا ہے کہ وہ دیکھیں، میں اس سب کی ذمہ داری میڈیا پر ڈالتا ہوں۔ میڈیا نے کام خراب کیا ہوا ہے۔ جمہوریت کفر کا نظام ہے، کفر کے نظام میں کبھی خیر نہیں ہے۔ میں اس ملک میں خانہ جنگی دیکھ رہا ہوں۔ اس وقت نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کوئی بھی مسلک ریاستی اداروں سے خوش نہیں ہے، آپ شیعوں سے پوچھ لو۔ آپ ایم کیو ایم والوں سے پوچھ لو، سب نالان ہیں۔ یہ سب جمہوری نظام کی وجہ ہے۔ اگر شورائی نظام ہوتا تو آج یہ نہ ہوتا۔

اسلام ٹائمز: حضرت آپ پاکستان میں جموری نظام کو تو لتاڑ رہے ہیں، لیکن یہ بتایئے کہ بادشاہتیں کونسا اسلامی نظام ہے، تمام عرب ملکوں میں بادشاہتیں قائم ہیں، اس پر تو کبھی تنقید نہیں کی، یا انہیں غیر اسلامی نہیں کہا۔؟
مولانا عبدالعزیز:
میں سعودی عرب میں قائم بادشاہت کے نظام کو اسلامی نظام تصور نہیں کرتا، اس میں میں کھل بات کرچکا ہوں۔ وہاں بھی غیر اسلامی نظام ہے، اسلام میں کہیں بھی بادشاہت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر میں کھل کر بات کرچکا ہوں۔

اسلام ٹائمز: لال مسجد کیساتھ کس حد تک وابستگی قائم ہے، کافی عرصے سے خطاب نہیں کیا۔؟
مولانا عبدالعزیز:
میں فی الحال لال مسجد سے مکمل طور پر ٹچ میں نہیں ہوں، ابھی میرا فوکس تدریس اور تعلیم سے ہے۔ جامعہ حفصہ میں اپنی مصروفیات رکھی ہوئی ہیں، کتابیں لکھتا ہوں، کئی تصانیف کرچکا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 566862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش