0
Thursday 15 Sep 2016 22:09
تبدیلی محض کھوکھلے نعروں سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت سے آتی ہے

عمران خان اپنے ساتھیوں کیساتھ ملکر سیاست میں خانہ جنگی کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، ڈاکٹر نادیہ عزیز

دھرنے کی کوشش کی گئی تو زمان پارک اور بنی گالہ محفوظ نہیں رہیں گے
عمران خان اپنے ساتھیوں کیساتھ ملکر سیاست میں خانہ جنگی کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، ڈاکٹر نادیہ عزیز
پی ایم ایل این سرگودہا کی ممبر صوبائی اسمبلی پیشہ ور ڈاکٹر ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی سے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا، 2002ء میں ایم پی اے کے طور پر منتخب ہوئیں، اسوقت بھی رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ پنجاب کی ہیلتھ اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کی فعال ممبر ہیں، انکے ساتھ اسلام ٹائمز کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ابھی 2014ء کے دھرنوں کے اثرات باقی ہیں اور اسی ماہ عمران خان اپنا لاو لشکر لیکر رائے ونڈ جا رہے ہیں، حکومت انہیں کیسے کنٹرول کرے گی۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
یہ دھرنے اور احتجاج حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، انکی حقیقت ہر ایک پر عیاں ہوچکی ہے، وہ اپنی خفت مٹانا چاہتے ہیں، یہ خود جاگیرداروں اور مفاد پرستوں میں گھرے ہوئے ہیں، عوام نے مفاد پرست جاگیرداروں کی سیاست کو بری طرح مسترد کر دیا ہے، جھوٹ اور الزام تراشی کی سیاست عمران کا وطیرہ بن چکی ہے، کنٹینر اور انقلاب کے نام پر کاروبار چلانے والے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، مگر حکومت ترقی و خوشحالی کے منصوبے جاری رکھے گی۔ دھرنوں اور احتجاجی تحریک سے حکومت کی پوزیشن مزید مضبوط ہوگئی۔ انکا نعرہ تبدیلی کا ہے، لیکن ایجنڈا کوئی اور ہے، تبدیلی محض کھوکھلے نعروں سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت سے آتی ہے، چند سیاسی عناصر کی منفی سیاست کو عوام رد کرچکے ہیں اور ان عناصر نے 2014ء میں دھرنا سیاست کرکے ملک و قوم کا بے پناہ نقصان کیا، باشعور عوام ایسے عناصر کے چہروں سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ عوام کی بے لوث خدمت کون کر رہا ہے اور انتشار کی سیاست کون۔ اگر یہ باز نہ آئے تو ہمارے کارکنوں کو ہر لیڈر کے گھر کا راستہ معلوم ہے، دھرنے کی کوشش کی گئی تو زمان پارک اور بنی گالہ محفوظ نہیں رہیں گے۔ ہم لندن میں عمران خان کے بچوں کے گھر کا گھیراؤ کریں گے، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے گھروں کا بھی گھیراؤ کیا جائے گا۔ ہمارے لیڈر کے گھر پر حملے کی غلطی کی تو نقصان کے ذمہ دار خود خان صاحب ہوں گے۔ عمران خان وہ کام کر رہے ہیں، جو ملک میں دہشتگرد کرتے ہیں، خان صاحب اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں، عمران خان چادر اور چاردیواری کا تقدس بھول بھی چکے ہیں۔ دوسروں پر بے جا الزام تراشی، غیر جمہوری رویے اور جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر عمران خان کو عوام دوبارہ گہرا سیاسی گھائو لگائیں گے اور انہیں ماضی کی طرح دوبارہ خفت کا سامنا کرنا پڑیگا۔

عمران خان سڑکوں پر آکر حکومت کو دھمکیاں دیتے ہیں اور اب رائے ونڈ جانے کی بات کرتے ہیں، اگر عمران خان رائے ونڈ گئے تو ان کی سیاست اور تحریک رائے ونڈ کے کھیتوں میں ہی دم توڑ دے گی اور وہ رسوا ہوکر نکلیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان اپنی اس نام نہاد تحریک میں تنہا ہیں، جماعت اسلامی کے امیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ رائے ونڈ میں شریف برادران کے گھر کا گھیرائو تحریک انصاف کا پارٹی فیصلہ ہے، جس سے ہمارا کا کوئی سروکار نہیں، 24 ستمبر کو پاکستان تحریک انصاف کے رائے ونڈ احتجاج میں جماعت اسلامی شرکت نہیں کریگی، حالانکہ جماعت اسلامی کے پی کے میں انکے ساتھ ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی کہہ چکی ہے کہ رائے ونڈ نہیں جائیں گے، حالانکہ وہ اپوزیشن میں ہیں۔ عمران خان کرسی اور اقتدار کی ہوس میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ اداروں تو کیا سپریم کورٹ اور اعلٰی جج صاحبان کو بھی حالیہ خطاب میں دھمکیاں دیئے جاتے ہیں۔ وہ خود ہی جج اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔ عمران خان اپنے گھٹیا طرز سیاست سے اسپیکر قومی اسمبلی کی ذاتی شخصیت پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان اقتدار کے لالچ میں کارکنوں کو انتشار اور انارکی کے لئے اکسا رہے ہیں۔ عمران کرسی کے لئے عوام میں انتشار اور ریاست کیخلاف نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی، قاف لیگ اور ایم کیو ایم نے بھی پی ٹی آئی کے سربراہ کو واضح پیغام دیا ہے کہ عمران خان نے سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بغیر احتجاج کا فیصلہ کیا، یہ عمل اچھا نہیں ہے۔ اپوزیشن نے عمران خان سے اس بات پر بھی اعتراض کیا ہے کہ گھروں کے سامنے احتجاج اور دھرنے دینے کی روایت قائم نہ کی جائے، اپوزیشن کی ایک بات نہیں، سب پارٹیوں کے مقصد اور راستے الگ الگ ہیں، پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیا، طاہرالقادری نے بھی کہا ہے کہ وہ رائے ونڈ نہیں جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حکمران خاندان کی آف شور کمپنیاں ہیں، تو احتساب کی بات کرنیوالوں کے رد میں الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں، احتساب شروع کیوں نہیں کیا جا رہا۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
جب آپ کا اپنا دامن صاف نہیں تو دوسروں پر اعتراض کیسے کرسکتے ہیں۔ عمران خان ایک طرف قرضہ معاف کرانے والے جہانگیر ترین اور دوسری طرف غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرانے والے علیم خان کو کھڑا کرکے کون سے احتساب کی باتیں کرتے ہیں، مشرف کے آٹھ سالہ دور میں شریف خاندان کی ایک ایک چیز کو کھنگالا گیا اور ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی۔ یہ صرف حکومت کے ترقیاتی کاموں کو دھندلانے کے لئے شور مچایا جا رہا ہے، آف شور کمپنیوں کا نام لیکر ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ عمران خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سیاست میں خانہ جنگی کو متعارف کرانا چاہتے ہیں، اگر آج رائے ونڈ کا گھیراؤ کیا گیا، تو کل لوگ بنی گالہ ہوں گے اور پرسوں کہیں اور۔ اس طرز سے کسی سیاستدان کا گھر محفوظ نہیں رہے گا، جو کہ ان کا بنیادی آئینی حق ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان پر کرپشن کے الزامات اگر حقیقت پر مبنی ہیں تو حکومت نے انکے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
یہ تو شفاف طرز حکومت کی دلیل ہے کہ ہم نے کسی کو انتقامی سیاست کا نشانہ نہیں بنایا، کسی ادارے کو کسی سیاسی مخالف کے خلاف استعمال نہیں کیا، جب وزیراعظم کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا، جس میں رتی برابر ثبوت نہیں، تو ہماری طرف سے جواب میں عمران خان کیخلاف ریفرنس لایا گیا، جسے ہم منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ یہ بھی بتا دیں کہ وزیراعظم کیخلاف ریفرنس کا پاناما پیپرز سے کوئی تعلق نہیں، صرف اخباری خبر پر وزیراعظم کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا، اسی لئے جمع کرائے گئے ریفرنس میں رتی برابر ثبوت نہیں تھے، صرف پاسپورٹ سائز تصویر لگا دینا کہاں کا ثبوت ہے کہ کسی نے کچھ غلط کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف دیکھیں، عمران خان نے جو نیازی سروس قائم کی وہ 2015ء تک ڈکلیئر ہی نہیں کی، جبکہ نیازی سروس کی پہلی درخواست 1993ء میں دی گئی۔ مشرف کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں عمران نے فلیٹ ظاہر کیا اور قیمت 20 لاکھ بتائی، عمران نے فلیٹ کی قیمت 20 لاکھ ٹیکس چھپانے کے لئے بتائی۔ اسی طرح عمران خان نے بنی گالہ کی زمین پہلے خریدی اور لندن فلیٹ بعد میں فروخت کیا، پیسے کہاں سے آئے۔ انکی سابقہ زوجہ جمائما اپنے ڈکلیئریشن میں کہہ چکی ہیں کہ بنی گالہ والی پراپرٹی میرے نام نہیں۔

عمران خان بنی گالہ کی زمین کے بارے میں الگ الگ دعوے کرتے ہیں، ہمارے پاس ثبوت ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے احتساب کی بات کرنے والے دراصل اقتدار کے خواہش مند سیاستدان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف سازشوں میں دن رات مصروف ہیں۔ لیکن ریلیاں نکالنے اور تماشا کرنے سے جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ دھرنا سیاست کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ عمران خان تعصب، افراتفری اور فساد کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں، مگر انہیں مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عمران خان اپنی پارٹی کے اندرونی اختلافات اور بری کارکردگی کو چھپانے کے لئے احتجاج اور ریلیوں کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں، آئندہ انتخابات میں ان کا کڑا احتساب ہوگا۔ انتشار کی سیاست کرنے والوں نے پاکستان کا دھڑن تختہ کیا، قوم کے قیمتی 8 ماہ ضائع کرکے ترقی کے سفر میں رکاوٹ پیدا کی۔ پاکستان کے ساتھ اس سے بڑا ظلم، زیادتی اور دشمنی ہو نہیں سکتی۔ عمران خان لائن سے اتر چکے ہیں، انہیں خود پتہ نہیں کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟ کچھ طاقتیں پاکستان کو خطے میں دفاعی اور معاشی لحاظ سے مضبوط ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتیں، یہ انہیں تقویت پہنچا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی عوام کو یہ حقیقت کیوں سمجھ نہیں آ رہی، ہر دفعہ دھرنے میں شامل ہوتے ہیں، اپوزیشن کی احتجاجی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
پاکستانی عوام کی آنکھیں کھلی ہیں، حکومت کی ترقیاتی پالیسی کو بھی دیکھ رہے ہیں اور ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کا احتساب بھی کر رہے ہیں، عوام نے انکا احتساب شروع کر دیا ہے، اسی لئے تحریک انصاف کا نشتر پارک کراچی میں ہونے والا جلسہ انتہائی ناکام رہا ہے۔ جلسے کے شرکاء کی مجموعی تعداد 5 سے 7 ہزار تھی جبکہ تحریک انصاف کے جلسوں کی زینت بننے والی خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ان کے لئے مختص حصہ مکمل طور پر خالی رہا اور چند درجن کے قریب خواتین موجود تھیں۔ عمران خان سڑکوں پر آکر حکومت کو دھمکیاں دیتے ہیں اور اب رائے ونڈ جانے کی بات کرتے ہیں، پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو اکیلے ہوں گے یا مفاد پرستوں کا ٹولہ ہوگا، وہ بھی وقت آنے پہ انہیں چھوڑ دیں گے۔

اسلام ٹائمز: ملک دشمن طاقتوں کی طرف سے اگر سی پیک جیسے منصوبے سازشوں کا شکار ہیں؟ تو کیا حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
یہ بات تو ہر پاکستانی جانتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، حال ہی میں خلیج ٹائمز نے رپورٹ شائع کی ہے کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سے 150 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بڑھنے کی توقع ہے، جیسا کہ اس منصوبے کا حجم اور افادیت سے ظاہر ہوتا ہے اور پوری دنیا سے ہونے والی سمندری تجارت اسے معاشی اعتبار سے مستحکم خطہ میں بدل دے گی، جنوبی ایشیاء، چین اور وسط ایشیائی ممالک کے تین بڑے اقتصادی نمو کے خطوں کو ملانے کا منصوبہ ہے، سی پیک نے مجموعی بین الاقوامی سرمایہ کاری کی توجہ حاصل کر لی ہے، جو 2014ء سے 2030ء تک 150 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری تو محض ابتداء ہے۔ جب یہ نظر آ رہا ہے کہ اس میگا منصوبہ کے ذریعے رابطوں کو بڑھانے سے پاکستان کیلئے تجارتی مواقع فروغ پائیں گے اور 70 فیصد سمندری تجارت پاکستان کی دو بڑی بندرگاہوں کراچی اور گوادر کے راستے ہوگی۔ ہمارے دشمن کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ گوادر، متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک، سعودی عرب اور ملحقہ خطوں کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کا تیز ترین ذریعہ بنے۔ چین جیسا ملک جب ان منصوبوں کی تیز رفتاری سے تکمیل کا منتظر ہے تو دوسری طرف عالمی طاقتیں اور بھارت مل کر اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیا پاکستانی ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری نہیں کہ ملک میں استحکام برقرار رکھنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، حکومت اس سے غافل نہیں ہے، قومی ایکشن پلان اور ضرب عضب کے ذریعے ایسے تمام عناصر کو نکیل ڈال دی گئی ہے، جو دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے، جو لوگ سیاست کے نام پر، کبھی دھاندلی کے نام پر اور کبھی احتساب کے نام پر افراتفری مچا رہے ہیں، ان کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، حکومت اپنی ذمہ داری پوری طرح جانتی ہے اور پوری کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے یہ الزام سامنے آیا ہے کہ شریف فیملی کی ملز میں بھارتی ورکرز موجود ہیں، جو ممکنہ طور پر ایجنٹ ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
اقتدار نہ ملنے اور عوامی پذیرائی سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی مریض بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے وہ مسلم لیگ نون کی اعلٰی قیادت پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی عائد کرچکے ہیں، اسکے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ چاند پر تھوکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے گئے ہیں، عوام ملکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والوں کا خود محاسبہ کریں گے۔ پاکستان کے عوام صرف ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ عوام کی دیانتداری سے خدمت کا نام ہی سیاست ہے۔ افراتفری کی سیاست کرکے عوامی منصوبوں میں رکاوٹیں ڈالنے والے ملک و قوم سے دشمنی کر رہے ہیں۔ بعض سیاسی عناصر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تیز رفتار ترقیاتی منصوبوں اور شفافیت کی پالیسی سے خائف ہیں، ان عناصر کو خوف ہے کہ فلاح عامہ کے یہ منصوبے مکمل ہونے سے عوام 2018ء میں بھی مسلم لیگ (ن) دوبارہ بر سر اقتدار نہ آ جائے۔ جسطرح پانامہ لیکس کے غبارے سے ہوا نکل چکی، رائے ونڈ کی طرف مارچ کرنیکی کوشش بھی عوام ناکام بنادینگے۔ دراصل نون لیگ کی حکومت کے تحت پاکستان معاشی ترقی کی طرف ٹیک آف کرچکا ہے اور پاکستان کے مخالفین کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی اور وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ملک میں احتجاج، دھرنے کے ذریعے سے بدامنی پھیلا کر دراصل ترقی کو روکنا چاہتے ہیں، تاہم لیگی عہدیداران اور نمائندگان وطن دشمن عناصر کی سازش کو ناکام بنادینگے۔

طاہر القادری قصاص کے نام پہ ڈرامہ کرچکے ہیں، طاہر القادری حالات خراب کرنے پاکستان آ جاتے ہیں، بھارت نے طاہر القادری کو اسٹیٹ گیسٹ پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لئے بنایا۔ ہمارے نزدیک ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف پر بھارتی ایجنٹ کے الزامات سے گھٹیا بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ میاں صاحبان نے طاہرالقادری کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر قانونی ماہرین سے مشاورت کی ہے، اس معاملے کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے۔ وہ انہیں عدالت لے کر جائیں گے، جھنگ سے سائیکل پر بیٹھ کر اتفاق مسجد آنے والے کینیڈین مولوی سے پوچھا جائے ارب پتی کیسے بنا، کسی کو جمہوریت اور آئین پاکستان کے خلاف سازش نہیں کرنے دیں گے۔ ہمیں سیاست کو عوامی خدمت سمجھ کر کرنے کا درس دیا گیا ہے، اخلاق سے گری ہوئی گفتگو ہمارا شیوہ نہیں، عزت کسی شان و شوکت سے نہیں، لوگوں کے دل جیت کر حاصل ہوتی ہے۔ احتساب، قصاص اور دھاندلی کا واویلا کرنے والے قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں، جبکہ ہم ملک میں معاشی اور صنعتی انقلاب لانے کی طرف گامزن ہیں۔ دھاندلی کے الزامات کو پہلے بھی سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا، اب بھی انہیں دوبارہ منہ کی کھانا پڑے گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دورہ بھارت کے دوران گرینڈ ویلی ہوٹل میں قیام کے دوران بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر نے ان سے ملاقات کی اور پھر اس انٹیلی جنس ایجنسی کے کہنے پر انہیں بھارت میں زیڈ پلس سکیورٹی فراہم کی گئی تھی، انٹیلی جنس ایجنسی کے کہنے پر انہیں بھارت کے سرکاری ٹیلی وژن دور درشن پر لائیو لیا گیا۔

اسلام ٹائمز: لاہور میں میگا پروجیکٹس زور و شور سے جاری ہیں، صوبے کے دوسرے حصوں کیلئے کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں، دوسرے علاقوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے، کیا پنجاب صرف لاہور تک محدود ہے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
یہ کہنا کہ سارے ترقیاتی فنڈز لاہور میں خرچ ہو رہے ہیں، حقیقت کے خلاف ہے، پنجاب حکومت جنوبی پنجاب کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے جامع پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی خوشحالی کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں آبادی کے تناسب سے زیادہ وسائل مختص کئے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر مجموعی طو رپر 173 ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ملتان میں جدید ٹرانسپورٹ کا نظام میٹرو بس کا منصوبہ جلد مکمل ہوگا اور اس منصوبے سے جنوبی پنجاب کے عوام کو جدید، باکفایت اور آرام دہ سفری سہولتیں میسر آئیں گی۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ 2018ء تک مشکل ہے، کیا یہ دعویٰ صرف عوام کو تسلی دینے کیلئے ہے۔؟
ڈاکٹر نادیہ عزیز:
توانائی کے منصوبے پورے ملک میں جاری ہیں، جن میں سی پیک منصوبہ کے ساتھ منسلک توانائی کے پروجیکٹس بھی ہیں، اس حوالے سے بھی پنجاب کے بار ے میں بدنیتی کے ساتھ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کے تحت پورے پاکستان میں بجلی کے منصوبوں کیلئے 36 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، یہ پاور پلانٹ ہی پاکستان سے توانائی بحران کے خاتمہ کا باعث بنیں گے۔ سیاسی مخالفین توانائی بحران کے خاتمہ کیلئے حکومتی اقدامات سے بھی خوفزدہ ہیں۔ پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ہے، اپوزیشن اور حکومت کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 567604
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش