0
Monday 19 Sep 2016 23:58
روس کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات اتنے ہی ضروری ہیں جتنے چین کے ساتھ ہیں

عالمی امن کیلئے پاکستان، ایران، چین، روس اور افغانستان پر مشتمل بلاک کا قیام ضروری ہے، پروفیسر این ڈی خان

پیپلز پارٹی آج بھی سامراج مخالف ہے، اسکی یہ شناخت کبھی تبدیل ہو ہی نہیں سکتی
عالمی امن کیلئے پاکستان، ایران، چین، روس اور افغانستان پر مشتمل بلاک کا قیام ضروری ہے، پروفیسر این ڈی خان
پروفیسر این ڈی خان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے ہیں، آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ وفاقی وزیر و سینٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر این ڈی خان کے ساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا پیپلز پارٹی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے کے نظریات پر قائم ہے۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
زمینی حقائق کے مطابق پیپلز پارٹی کے طریقہ کار میں تبدیلی تو نظر آسکتی ہے، لیکن جہاں تک پیپلز پارٹی کے اپنے فاؤنڈیشن پیپرزہیں، اس کے جو بنیادی نظریات ہیں، جو سیاسی فلسفہ پر مبنی ڈاکٹرائن (political philosophical doctrine) ہے، اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، وہ بھٹو صاحب کے دور جیسا ہی ہے، طرز عمل میں تبدیلی نظر آ سکتی ہے لیکن نظریات میں تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی، زمینی حقائق یا زمانے کے تقاضوں کے مطابق جو ردبدل اور تبدیلیاں یقیناً ہوتی ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ آپ بدل گئے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ آج بھی پیپلز پارٹی کے نظریات وہی ہیں، ہمیں وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے، پیپلز پارٹی نے وقت کے تقاضوں کے مطابق طریقہ کار کو ضرور تبدیل کیا ہے لیکن اپنے نظریات کو بھی تبدیل نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: کیا پیپلز پارٹی آج بھی سامراج مخالف ہے۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
بالکل، پیپلز پارٹی آج بھی سامراج مخالف ہے، پیپلز پارٹی کی یہ شناخت تو کبھی تبدیل ہو ہی نہیں سکتی، پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو صاحب کے سامراج مخالف نظریات پر قائم ہے، بھٹو صاحب کی تصانیف، پریس کانفرنسز، تقاریر کو اٹھا لیں اور پھر آپ بینظیر بھٹو شہید کی کتابوں اور ان کی تقاریر و پریس کانفرنسز کو دیکھ لیں تو آپ کو نظریات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئے گی، لیکن زمانے کے تقاضوں کے مطابق آپ کو طریقہ کار میں ردوبدل ضرور نظر آئے گا، جو نظریات پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہوتے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ دور میں پیپلز پارٹی طریقہ کار میں تبدیلی کے باوجود اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے کس طرح فعالیت کرتی نظر آرہی ہے، وضاحت کرینگے۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
آصف علی زرداری صاحب نے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب پارٹی کی سربراہی سنبھالی، ان کا ڈکٹرائن بھی چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کے مطابق تھا، یعنی تمام سیاسی جماعتیں اگر نظریاتی طور پر ایک ہیں تو مل کر کام کرنا چاہیئے، اب آپ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی کو دیکھیں تو اس کے signatories محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف ہیں، زرداری صاحب نے اسی ڈکٹرائن کے تحت کوشش کی کہ جمہوریت کا تسلسل جاری رہنا چاہیئے، ڈیموکریسی ایک ارتقا کا نام ہے نہ کہ کسی آسمانی صحیفہ کا نام، اسی لئے آپ کو مسلم دنیا میں ہر جگہ مختلف اقسام کی جمہوریتیں نظر آئیں گی، لیکن سب کا مقصد ایک نظر آئے گا، یعنی عوام کی خدمت۔ زرداری صاحب نے جس فلسفہ مفاہمت کو اپنایا اور اس کے نتیجے میں مشرف دور میں پارلیمانی نظام میں آنے والی خرابیوں کو سب سے پہلے درست کیا، سارے اختیارات جو صدر کو دے دیئے گئے تھے وہ واپس وزیراعظم کو دیئے گئے، اس طرح پارلیمانی نظام بحال ہوا، پیپلز پارٹی نے کئی نقصانات اٹھائے لیکن جمہوریت کے تسلسل اور بقا کیلئے پروسس کو جاری رکھا، جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچایا، اگر ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے تو ہم اسے برداشت کر سکتے ہیں، لیکن جمہوریت اور پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے، اسی لئے ہم نے تمام تر اختلافات کے باوجود نواز شریف کی حکومت کو گرنے نہیں دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: تاثر عام ہے کہ سامراج مخالف سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی نے عالمی سامراج سمجھے جانے والے امریکا سے تعلقات بڑھائے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
عالمی سامراج کا تصور ہی بدل چکا ہے، سرد جنگ کے زمانے میں دنیا تو کیمپس میں تقسیم تھی، امپیریلسٹ (imperialist) کیمپ اور سوشلسٹ (socialist) کیمپ۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکا دنیا میں واحد سپر پاور کی حیثیت سے حکومت کر رہا ہے، ایران نے تمام تر اختلافات کے باوجود امریکا کے ساتھ مفاہمت کی، کیا ایران نے اپنی پالیسی تبدیل کی، نہیں ایسا نہیں ہے، بلکہ انہوں نے امریکا کے ساتھ ورکنگ رلیشن شپ قائم کی، پیپلز پارٹی ہے تو سامراج مخالف، لیکن امپیریل ازم کا تصور تبدیل ہو گیا ہے، تو اس بدلتی ہوئی دنیا کے اندر امریکا واحد سپر پاور ہے، جو دنیا پر حکمرانی کر رہی ہے، تو اس عالمی قوت کو تابع کرنے کیلئے اپنے تعلقات اور خارجہ پالیسی پرنظر ثانی کی ہے، اس اعتبار سے ہم تمام ممالک کے ساتھ اصولی طور پر ورکنگ ریلیشن شپ اور دوستی قائم کریں، قائداعظم کی فکر اور خارجہ پالیسی یہی تھی کہ تمام ممالک کے ساتھ اصولی بنیاد پر دوستانہ تعلقات رکھے جائیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم امریکا کے دشمن ہیں، ہم دوست بھی نہیں ہیں اور دشمن بھی نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
بحیثیت وزیر خارجہ بھٹو صاحب اپنے زمانے میں انڈونیشیا کے شہر بانڈنگ (bandung) میں ہونے والی غیر وابستہ ممالک کی تحریک کی کانفرنس (Non-Aligned Movement conference, bandung) میں جب شریک ہوئے تھے تو انہوں نے وہاں کہا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہے، آزاد کا مطلب یہ کہ ہم اپنے ملکی مفادات کے مطابق دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا فیصلہ کرینگے، لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ عالمی مفاد کو بھی سامنے رکھنا ہوگا، پاکستان پہلے دن سے ہی خارجہ پالیسی کے معاملے میں بحران کا شکار رہا ہے، اسے شروع دن سے ہی پڑوس میں دشمنیاں ملیں، افغانستان سے دشمنی ملی، ہندوستان سے دشمنی ملی، لیکن خوش قسمتی سے باقی دنیا سے پاکستان کے ورکنگ ریلیشنز قائم تھے، ہم چاہتے ہیں کہ خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلیاں لائیں، سرد جنگ کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت غلطیاں ہوئیں، بہرحال ہماری خارجہ پالیسی غیر جانبدار (non alien) ہونی چاہیئے، جو ملکی مفادات کا تحفظ کرے۔ ہمیں ملکی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام ممالک کے ساتھ برابری و اصولی بنیاد پر دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہیئے، جو کہ بدقسمتی سے ہم نہیں کر سکے ہیں ابھی تک۔ یہاں واضح کر دوں کہ جیسے جیسے جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط و مستحکم ہونگے، ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوتی چلی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خطے کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو چین، ایران اور روس کے ساتھ ملکر مضبوط سیاسی، اقتصادی و اسٹراٹجک بلاک بنانا چاہیئے۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
میں اس سے بالکل اتفاق کرتا ہوں، لیکن جو بھی اتحاد بنے، اسکی بنیاد اقتصادی ہونی چاہیئے، ہمیں اقتصادی توازن قائم کرنا ہے، خود محترمہ بینظیر بھٹو شہیدنے سینٹرل ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی تھی، ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانا چاہیئے، ہمیں اقتصادی الائنسز بنانے چاہیئے، جس میں پاکستان کے ساتھ سب سے پہلے چین آتا ہے، اس میں ایران، افغانستان کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک کو بھی شامل کرنا چاہیئے، کیونکہ اس خطے کو غربت کا سامنا ہے، دہشتگردی کے بعد ہمارا بنیادی مسئلہ غربت ہے، ہمارا تعلق تیسری دنیا سے ہے، خوش قسمتی سے ہمارے پڑوس میں ایسے ممالک ہیں جن سے ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں، بھارت کے علاوہ، اس کے اپنے مقاصد بہت مختلف ہیں، پھر یہاں ایک حد تک امریکا کی بلواسطہ مداخلت بھی ہے، کیونکہ اسے چین سے سب سے زیادہ خطرات ہیں، امریکا غیرضروری طور پر بھارت کی حاصلہ افزائی کر رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں خطے میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے، لہٰذا طاقت کے توازن کومضبوط بنانے کیلئے پاکستان کو ایران، چین، روس، افغانستان کے ساتھ ملکر ایک بلاک بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، جو ہوگا تو اقتصادی لیکن آگے جاکر مزید بڑی شکل اختیار کر لے گا، اور ہمیں ہندوستان کو یہ بتانا چاہیئے کہ اس کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ وہ اس بلاک کا حصہ بنے، ناکہ چین کی مخالفت میں امریکا کے ہاتھوں میں کھیلے، ہندوستان کی پاکستان کے ساتھ دوستی خود اسکے مفاد میں زیادہ ہے، امریکا جو پاکستان کا دوست نہ ہوسکا پھر وہ بھارت کا دوست کیسے ہوسکتا ہے ۔ اس طرح اس بلاک کے قیام کے نتیجے میں طاقت کا توازن قائم ہوسکے اور دنیا کو آئندہ کسی عالمی جنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اسلام ٹائمز: بڑھتے ہوئے پاک روس تعلقات کے حوالے سے کیا کہیں گے، جسے پالیسی شفٹ قرار دیا جا رہا ہے۔؟
پروفیسر این ڈی خان:
ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ لیاقت علی خان کے زمانے میں ہم غلط سمت میں داخل ہوگئے، ہمیں سوویت یونین کی جانب سے بھی دعوت نامہ آیا تھا اور امریکا کی جانب سے بھی، ہم نے سوویت یونین کے دعوت نامے کو ہزیمت کے ساتھ مسترد کر دیا، جو کہ نہیں کرنا چاہیئے تھا، ہمیں سوویت یونین کے دعوت نامے کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیئے تھا، ہمیں دونوں ممالک کا دورہ کرنا چاہیئے تھا، ہمیں سوویت یونین کے ساتھ بھی تعلقات رکھنے چاہیئے تھے، بہرحال پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچا، پھر بھٹو صاحب نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بڑھیں، آپ کی اسٹیل مل بھی انہیں کے تعاون سے قائم ہوئی، ہمیں روس کے ساتھ دوستی کو بڑھانا چاہیئے تھا، اگر نہیں بڑھا سکے تو اب روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کیلئے پوری کوشش کرنی چاہیئے، بہرحال ہم نے اپنی غلطیوں کا احساس کیا ہے، جس کے بعد روس کی جانب ہماری دلچسپی بڑھنی چاہیئے، جو بڑھ رہی ہے، ویسے بھی ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سلامتی کی خاطر دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدے، بھارت تو اسرائیل سے اسلحہ حاصل کر رہا ہے، وہ اسرائیل جس کا مقصد ہی دنیا کے امن و درہم برہم کرنا ہے۔ ہم اگر امریکا مخالف نہیں ہیں تو ہمیں روس مخالف بھی نہیں ہونا چاہیئے، ہمیں روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بڑھانا چاہیئے، پھر روس ہمارا ایک علاقائی دوست بھی تو ہے، روس تقریباً ہمارے ہمسائے میں واقع ہے، ہمارا روس کے ساتھ عسکری و اقتصادی مفاد بھی ہے، اپنی سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں روس کے ساتھ اسے ہی دوستانہ تعلقات بڑھانا چاہیئے، جیسا کہ چین کے ساتھ ہمارے روائتی طور پر تعلقات قائم ہیں اور رہے ہیں، روس کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ تعلقات اتنے ہی ضروری ہیں، جتنے چین کے ساتھ ہیں، ہمیں امریکا کی مخالفت کی فکر نہیں کرنی چاہئے، روس کے خطے میں گہرے اثرات پائے جاتے ہیں، اس کا زوال ہوا ہے لیکن عسکری حوالے سے آج بھی وہ بہت طاقتور ملک ہے، امریکا کو اگر کوئی خطرہ ہوگا تو وہ روس سے ہوگا، لہٰذا اگر پاکستان، ایران، چین، روس، افغانستان پر مشتمل بلاک قائم کیا جائے تو دنیا کے امن کیلئے بہتر ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 568655
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش