0
Saturday 24 Sep 2016 16:15
قائدین کو چاہئے کہ وہ ملک گیر سطح پر مسلم ووٹ کو متحد کرنے کی کوشش کریں

بھارت میں قومی حب الوطنی کے احساسات کو اب ہندو حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا، ڈاکٹر تسلیم رحمانی

بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے جو سیاست کی جارہی ہے وہ منفی پندرہ فیصد کی سیاست ہے
بھارت میں قومی حب الوطنی کے احساسات کو اب ہندو حب الوطنی سے جوڑ دیا گیا، ڈاکٹر تسلیم رحمانی
ڈاکٹر تسلیم رحمانی بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے تعلق رکھتے ہیں، آپ مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا نامی تنظیم جس کی بنیاد 2001ء میں پڑی کے صدر ہیں، یہ تنظیم قومی سطح پر مسلمانوں کو سیاسی مشاورت فراہم کرنے کا واحد و منفرد پلیٹ فارم ہے، یہ پلیٹ فارم ایک پریشر گروپ کی حیثیت سے کام کررہا ہے، مسلم پولیٹیکل کونسل کے بھارت بھر کے تمام صوبوں میں مشاورتی بورڈ موجود ہیں، ڈاکٹر تسلیم رحمانی ایک سینئر تجزیہ نگار بھی ہیں جنھیں عالمی امور پر کمال کی دسترس حاصل ہے اس کے علاوہ آپ روزنامہ اخبار ‘‘مشن’’ اور ہفتہ روزہ ‘‘مشن’’ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے نئی دہلی میں ڈاکٹر تسلیم رحمانی سے بھارت کے موجودہ سیاسی حالات، بھاجپا حکومت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور بھارتی مسلمانوں کی حالت زار پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کی موجودہ صوتحال کیا ہے اور ان کا سیاسی نظریہ کیسا ہے۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
پچھلے 70 سالوں سے ہندوستان میں مسلمان جس صورتحال سے دوچار ہوئے ہیں وہ یہ کہ مسلمان ایک ہی سیاسی جماعت کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے لیکن بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس سوچ میں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور 1990ء سے اب تک بہت سی نمایاں تبدیلیاں آئیں ہیں، مسلمان اب تذبذب کے شکار ہیں اور انھیں اب بی جے پی، کانگریس اور خود کو نام نہاد سکیولر جماعتیں کہے جانے والی دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہو رہا، مسلمان اب سمجھنے لگے ہیں کہ پچھلے 70 سال سے ان کو پولیٹکل ووٹ بنک کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہے اور وہ خود کو اب ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں، ان حالات میں عام مسلمان کی سوچ یہی ہے کہ کاش ان کی اپنی کوئی سیاسی جماعت ہوتی جو مسلمانوں کے لئے آواز اٹھاتی اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کرتی، لیکن بدقسمتی سے ملک بھر میں ایسی کوئی سیاسی قیادت نظر نہیں آرہی ہے جو مسلمانوں کی اس خواہش کو اس لہر اور اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے واقعی کوئی کوشش کرسکے، اس لئے مجبوراً مسلمان ان سکیولر کہے جانے والی پارٹیوں کی جانب اپنا رُخ کئے ہوئے ہیں، جیسے ہی ہمہ گیر سطح پر ہندوستان میں کسی مسلم سیاسی جماعت کا ظہور ہوتا ہے جو مسلمانوں کی نمائندگی کرے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کرے گی تو میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان اس جانب اپنا رُخ کریں گے اور ان کا رجحان اس جانب ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ کے بقول ہندوستان میں ایسی کوئی سیاسی پارٹی یا پلیٹ فارم موجود نہیں ہے جو پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کر سکے، کیا ملک میں موجود مسلم تنظیموں کی کاوشوں کا آپ انکار کرتے ہیں۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
دیکھئے یہ ماننے یا نکارنے کا معاملہ نہیں ہے، اصل معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جس سیاسی نمائندگی کی ملک میں ضرورت ہے وہ نمائندگی ان تنظیموں کی جانب سے نہیں مل سکی ہے، کسی بھی قوم کی بقا کے لئے سیاسی نمائندگی بہت ضروری ہے، تمام مسلم تنظیموں نے ابتدائی دور میں ہندوستانی مسلمانوں سے یہی کہا کہ سیاست شجرہ ممنوعہ ہے اور ہمیں سیاست سے دور رہنا چاہئے، مسلمانوں کا ایک سیاسی وجود منوانے اور انھیں ایک پولیٹکل بیلنسنگ پاور کی صورت میں کھڑے ہونے کے لئے نام نہاد مسلم تنظیموں نے کبھی ان کی رہنمائی نہیں کی، لیکن اب ان تمام تنظیموں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی ضروری ہے لیکن یہ ساری تنظیمیں ابھی تک کسی نہ کسی تذبذب کے شکار ہیں اور وہ کوئی سیاسی جماعت کھڑی کرنے میں تکلف محسوس کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کو ایک پولیٹکل پارٹی کی جگہ ایک مشاورتی بورڈ قائم کرنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
جب 2001 ء میں ہم نے یہ پلیٹ فارم ایکٹیو کیا تھا اس وقت ملک کی صورتحال یہ تھی کہ تمام مسلم تنظیمیں مسلمانوں کے لئے مقامی سطح پر کام کر رہی تھیں اور مسلمانوں کی ملک گیر یا قومی سطح پر کوئی سیاسی تنظیم نہیں تھی جو مسلمانوں کے مسائل حل کر سکتی اس کے علاوہ اس وقت موجود تمام مسلم تنظیموں نے یہ کہہ دیا تھا کہ مسلمان کوئی سیاسی جماعت نہ بنائیں، ملک میں جب بھی الیکشن آتے تھے تو یہ نام نہاد مسلم تنظیمیں مسلمانوں کو رہنمائی فراہم کرنے کے نام پر یہ کہتے تھے کہ فلاں جماعت کو ووٹ دیں اور کسی خاص جماعت کو کسی بھی حالت میں اقتدار میں نہ آنے دیں، ایسے حالات میں مجھے محسوس ہوا کہ مسلمانوں کو ایک قومی سطح کی سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے جو ان کی صرف سیاسی جماعت نہ ہو بلکہ ایک ’’پریشر گروپ‘‘ کی حیثیت سے بھی کام کرے اور اعلانیہ طور پر کہے کہ ہم سیاسی گروپ ہیں، مسلمانوں کے لئے یہ بات محسوس کرتے ہوئے میں نے مسلم پولیٹکل کونسل کے نام سے دانستہ طور پر اس تنظیم کا خاکہ تیار کیا، چونکہ میں خود سیاسی تنظیم بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھا لیکن مسلمانوں کا ایک سیاسی جماعت بنانے کی جانب ایک رائے عامہ ہموار کرنے میں یہ کونسل ایک کلیدی رول ادا کرسکتا ہے، اس کے علاوہ یہ تنظیم مسلمانوں خاص طور سے مسلم نوجوانوں کو یہ سمجھانے کے لئے تشکیل دی گئی ہے کہ سیاست کوئی شجرہ ممنوعہ نہیں ہے بلکہ اس کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

اسلام ٹائمز: سالہا سال سے آپ اس اہم کام میں فعال ہیں کیا آپ کو کامیابی کے آثار نظر آرہے ہیں اور کس حد تک آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں جبکہ آپ کے مد مقابل دوسری ایجنسیاں اور سیاسی جماعتیں ہیں جیسے کانگریس پارٹی یا بی جے پی وغیرہ۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس کام میں پریشانیاں بہت ہیں اور مجھے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے اور ہمیں بار بار بتانا پڑتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک ’’پریشر گروپ‘‘ ہے، پہلی بات کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں پریشر گروپ کا تصور ہی نہیں ہے، عوام کو پریشر گروپ کی طاقت سمجھانے میں پہلے پہل مجھے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، دوسرا یہ کہ ملک بھر میں اب تقریروں اور تحریروں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کی وجہ سے اب مسلمانوں میں ایک اضطراب پیدا ہوگیا ہے اور مسلمانوں میں یہ سوچ اب پروان چڑھ رہی ہے کہ ان کی بھی اپنی ایک قومی سیاسی پارٹی ہونی چاہئے جو مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی طاقت رکھتی ہو، ہندوستان کے مسلمان اب سمجھنے لگے ہیں کہ کانگریس اور بی جے پی جیسی پارٹیاں اگر آج کامیاب نظر آرہی ہیں تو ان کو کامیاب بنانے میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کو لگ رہا ہے کہ بھارت میں آر ایس ایس کی سوچ والی بھاجپا حکومت کے آنے کے بعد مسلمانوں کی حالت زار اور مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور کسی نہ کسی بہانے سے مسلمانوں کو تنگ کیا جارہا ہے، اس حوالے سے آپ کے تاثرات کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
میں سمجھتا ہوں کہ کانگریس اور بھاجپا جیسی سیاسی جماعتوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی واضح طور پر خود کو ایک خاص مذہب، خاص جماعت، خاص تہذہب و سوچ کی جماعت ہونے کا عندیہ دیتے رہے ہیں جبکہ کانگریس ایک سکیولر جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہے، بھاجپا نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی تھی لیکن عملی طور پر 2014ء کے انتخابات کے بعد یہ ہوا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر احساس تفاخر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں گائے کشی کے معاملات، لو جہاد جیسے معاملات، شہریت کے معاملات اور یونیفارم سیول کوڈ جیسے معاملات پر بحثوں میں تیزی آگئی ہے جو کانگریس پارٹی کے دور حکومت میں قدرے کم ہوا کرتی تھی، اس کے علاوہ ملک بھر میں قومی حب الوطنی کے احساسات کو اب ہندو حب الوطنی کے احساسات سے جوڑ دیا گیا یہی واضح اور نمایاں فرق نظر آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو بیس سال بعد آپ ہندوستان کو کیسا دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
پہلی بات یہ کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ نمایاں فرق جاری رہے گا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوگا، چونکہ کانگریس کا جو ایجنڈا تھا وہ تقریباً پورا ہو چکا ہے اور ملک میں اب کانگریس کی ضرورت تقریباً پوری ہوچکی ہے اس کے علاوہ کانگریس کو بھی اقتدار میں واپس آنے کی جلدی دکھائی نہیں دے رہی ہے، دوسری بات یہ کہ قومی سطح پر عوام کو کوئی بھی سیاسی پارٹی متبادل طور نظر نہیں آرہی ہے اس لئے مجھے لگتا ہے کہ اگلے دس سال تک بی جے پی حکومت میں برقرار رہے گی اور اگلے الیکشن سے قبل یا اس کے بعد آئین میں کسی بھی قسم کی ترمیم ہونے کا بہت بڑا خدشہ ہے، ایسے حالات بہرحال ملک کے سیکولر اور سوشلسٹ مستقبل کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسی صورتحال میں مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اپنانا چاہئے۔؟
ڈاکٹر تسلیم رحمانی:
دیکھئے بھارت میں اس وقت مسلمانوں کے حوالے سے جو سیاست کی جارہی ہے وہ منفی پندرہ فیصد کی سیاست ہے، چوںکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی پندرہ فیصد ہے اس لئے ہر جماعت ان کو الگ تھلگ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، پہلے مسلمانوں کے ووٹ جس سیاسی پارٹی کو پڑتے تھے وہ پارٹی جیت جاتی تھی، اب صورتحال یکسر بدل گئی ہے اب مسلم ووٹ جس پارٹی کو پڑتے دکھائی دیتے ہیں اس کے برعکس غیر مسلموں کا سارا ووٹ دوسری سیاسی پارٹیز کو ملتا ہے اور مسلم ووٹ تقریباً تنہا کھڑا رہ جاتا ہے، اس لئے سکیولر سیاسی جماعتیں بھی اس خواہش کے باوجود کہ مسلمانوں کا ووٹ ان کو ملے، کوشش کرتے ہیں کہ مسلم ووٹ ان کو ملتا ہوا دکھائی نہ دے، مثلاً بہار میں جو حال ہی میں الیکشن ہوا اس میں مسلمانوں کے تمام ووٹ جیتنے والی پارٹیوں کو ملا لیکن ان پارٹیوں نے بھرپور کوشش کی کہ مسلمانوں کی جماعتیں، تنظیمیں اور افراد ان کے لئے کھل کے پبلسٹی یا انتخابی مہم نہ کریں تاکہ یہ احساس پیدا نہ ہو کہ مسلمانوں کے ووٹ ان سیاسی جماعتوں کی جانب جا رہے ہیں، اسے ہم منفی پندرہ فیصد کی پالیٹکس کہتے ہیں، آج مسلمانوں کا ووٹ حاشیہ پر کھڑا ہوچکا ہے اور اقتدار کا ضامن نہیں بچا ہے بلکہ جس طرف وہ ووٹ جائے گا وہ پارٹی ہار جائے گی، یہی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ اگر بھارت میں تمام لوگوں نے منفی پندرہ فیصد کی پالیٹکس کی ہے تو مسلمانوں کے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ مثبت پندرہ فیصد کی پالیٹکس کرنے کے لئے مسلم ووٹ کو متحد کریں، جس وقت مسلمانوں کے ووٹ متحد ہوجائیں گے اور ٹرانسفریبل ہونے کی حیثیت سے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو دکھائی دے گا اور ملک میں جو اقتدار کی خواہش مند سیاسی جماعتیں ہیں وہ اس ووٹ کو اپنے ساتھ لانے کی بھرپور کوشش کریں گے، ہمارے مسلم قائدین کو چاہئے کہ وہ ملک گیر سطح پر مسلم ووٹ کو متحد کرنے کی کوشش کریں۔
خبر کا کوڈ : 569802
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش