0
Friday 30 Sep 2016 21:34
آل سعود کے مظالم کیخلاف ضرور آواز بلند کرنی چاہیئے

کشمیر ایشو پر ضیاءالحق کی پالیسی دہرائی گئی تو یہ پاکستان کیلئے موت بن جائیگی، علامہ حیدر علوی

کشمیر ایشو پر ضیاءالحق کی پالیسی دہرائی گئی تو یہ پاکستان کیلئے موت بن جائیگی، علامہ حیدر علوی
علامہ محمد حیدر علوی جمعیت علماء پاکستان (نورانی) پنجاب کے ترجمان ہیں، ملک میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہ اس سے پہلے سنی تحریک کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، طالب علمی کے زمانے میں انجمن طلباء اسلام پنجاب کے ناظم رہے ہیں، اسکے علاوہ دعوت اسلامی میں بھی مختلف عہدوں پر کام کیا ہے، علامہ حیدر علوی پاکستان عوامی تحریک راولپنڈی کے رہنماء بھی رہے ہیں۔ عالم اسلام، اسلامی تحریکوں اور ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر رکھتے ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے اُن سے حالیہ ملکی حالات پر انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی اقوم متحدہ میں کی گئی تقریر کو کافی سراہا جا رہا ہے، لیکن بعض حلقے تنقید بھی کر رہے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ اور کلبھوشن یادیو کا معاملہ نہیں اٹھایا، آپ اسے کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
دیکھیں سچ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کشمیر کے ایشو کو بہت پیچھے لے گئی تھی، وجہ یہ تھی کہ ان کے بھارت میں بزنسز ہیں، اس لئے یہ معاملے کو اس طرح نہیں اٹھاتے تھے جیسے اٹھانے کا حق تھا، سوشل میڈیا پر تنقید اس لئے بھی کی جا رہی ہے کہ میاں صاحب نے لکھی لکھائی تقریر کی، بہرکیف کشمیر کے ایشو پر پاکستان کا جاندار موقف سامنے آیا ہے، کشمیر میں ہونے والے مظالم کا کوئی دفاع نہیں کرسکتا، اگر مسلمانوں کی جگہ سکھ یا کوئی اور لوگ بھی ہوتے تو ہمیں اسی طرح سے ہی حمایت کرنی چاہیئے تھی، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اس کی ایک آواز ہے، دنیا بھر میں اس کا ایک مقام ہے، اسے یمن اور فلسطین سمیت دیگر مظلوم عوام کیلئے بھی آواز بلند کرنی چاہیئے۔ لیکن شائد انہیں اپنے اعمال کا پتہ ہے کہ شائد سعودی عرب بھاگ کر جانا پڑ جائے، یو این میں میاں صاحب نے جو بات کی ہے، وہ لگ رہی تھی کہ ان کی اپنی نہیں تھی۔

اسلام ٹائمز: کلبھوشن یادیو اور دیگر بھارتی مداخلت کا معاملہ نہیں اٹھایا، اسکا اعترافی بیان بھی موجود تھا۔؟
علامہ حیدر علوی:
مجھے لگ رہا ہے کہ ہمارے ادارے چاہتے تھے کہ انڈین جاسوس کا معاملہ نہ اٹھائیں، کیونکہ بلوچستان متنازعہ علاقہ نہیں ہے، ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا کی توجہ اس طرف نہ جائے کہ وہاں سکیورٹی اتنی کمزور ہے کہ انڈیا براہ راست مداخلت کر رہا ہے۔ اس سے صرف نظر کرنے میں حکمت دکھائی دیتی ہے۔ اگر میاں صاحب کی حکومت کچھ کرنا چاہتی تو بھارتی ایجنٹس تو ان کی اپنی ملوں سے برآمد ہوئے ہیں، میڈیا پر یہ خبریں آچکی ہیں، اس حوالےسے دستاویزات سامنے آچکی ہیں۔ اس طرح کے ایجنٹس کو پھانسیاں ملنی چاہیئے، بھارت کو پیغام دینا چاہیے۔ یہ ابھی تک آم اور ساڑیوں والی سیاست کر رہے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ بھارت ہمیں آنکھیں دکھاتا رہے ہیں اور یہ چپ رہیں۔؟ ان کے اپنے مفادات انڈیا میں ہیں۔ اس ملک میں وزارت خارجہ ہی نہیں، اس کا وزیر ہی نہیں، یہ کیا خارجہ پالیسی مرتب کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا میاں صاحب پانامہ لیکس کے معاملے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اپوزیشن اس معاملے پر تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ہی تنہا جماعت رہ گئی ہے جو میاں صاحب کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔؟
علامہ حیدر علوی:
ہمارے اداروں نے ثابت کر دیا ہے کہ قانون فقط کمزور غریبوں کیلئے ہے، چھوٹا گناہ کرے تو اس کی پکڑ ہے، باقی کسی پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ نیب، ایف آئی اور عدلیہ سمیت دیگر اداروں کی جانب سے کمال بےحسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، دو لاکھ روپے والے پر ادارے حرکت میں آجاتے ہیں کہ یہ پیسے کہاں سے آئے ہیں، لیکن اربوں روپے باہر منتقل کرنے والوں سے کوئی پوچھ کچھ نہیں۔ اگر عالمی ریسرچر کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم اور ان کا اہل خانہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہے، اس پر تو ادارے خود حرکت میں آجاتے۔ جہاں تک آپ نے عمران خان کی بات کی ہے کہ یہ بات طے ہے کہ اکیلے عمران خان کچھ نہیں کرسکتا، جب تک قوم فیصلہ نہ کرلے کہ ہم نے کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے چھٹکار حاصل کرنا ہے، اس وقت اکیلے کھڑے ہونے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ عمران خان کے لب و لہجے سے یہی لگتا ہے کہ وہ بذات خود اچھا انسان ہے لیکن اس کے آس پاس اچھے لوگ نہیں ہیں، پہلے وہ خود اپنے ساتھیوں کو چھلنی سے گزاریں، تاکہ عوام کا ان پر اعتماد بحال ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان کے تحت 2100 سے زائد افراد کے اکاونٹس منجمد کر دیئے گئے ہیں، ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں، جو محب وطن لوگ تھے، جنہوں نے ہمیشہ دہشتگردی کیخلاف آواز بلند کی، نیپ کے کئی نکات پر آج بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا، اس پوری صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
ہمارے اداروں نے پانامہ لیکس پر بتا دیا ہے کہ وہ حکومت کی سطح پر کسی پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے، انہوں نے بتا دیا ہے کہ وہ حکومت کے غلام ہیں، ان کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ وہ آزاد کہیں بھی انکوائری نہیں کرسکتے، جب ادارے آزاد نہیں ہیں تو پھر وہ پابند ہیں کہ حکومت جو فیصلہ کرے، اس پر عمل درآمد کریں، آپ پھر یہ جان لیں محب وطن لوگوں کو اس لسٹ میں ڈالنا حکومت کی پالیسی ہوگی۔ نون لیگ دہشتگردوں کےساتھ ہے، پنجاب میں انہوں نے رینجرز کو نہیں آنے دیا، اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، پنجاب میں یہ لوگ دہشتگردوں کےساتھی ہیں، تبھی تو انہوں نے محب وطن لوگون کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ چھوٹے گینگ کے خلاف بھی کارروائی ہوئی ہے تو فوج نہیں کی ہے، انہوں نے کچھ نہیں کیا، دہشتگرد اور کالعدم تنظیمیں آزاد گھوم رہی ہیں، اب کشمیر ایشو پر ضیاءالحق کی پالیسی کو دہرایا گیا تو یہ پاکستان کی موت ثابت ہوگی، ہماری آئندہ آنے والی نسلیں آگ اور بارود سے کھیلیں گی، نیشنل ایکشن پلان پر فوج کام کر رہی ہے، سپاہ سالار کہہ چکے ہیں کہ صرف فوج کام کر رہی ہے، باقی ادارے کچھ نہیں کر رہے، اس پر فوج ان سے پوچھ سکتی ہے اور کام لے سکتی ہے۔ دہشتگرد جنوبی پنجاب میں آج بھی موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: آرمی چیف کو توسیع ملنی چاہیئے یا نہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
مجھے لگ رہا ہے کہ پاکستان بطور ریاست فیصلہ کرچکا ہے کہ دہشتگردی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، اسی طرح کرپشن سے چھٹکارا ہے، لیکن راحیل شریف کی جو تصویر سامنے آئی ہے، جس طرح لڑ رہے ہیں اور دہشتگردوں سے دلیری کے ساتھ لڑ رہے ہیں، جس طرح یہ قوم کی امید بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ افواج پاکستان کے بہترین لیڈر ہیں، پوری دنیا اس کی تعریف کر رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کو توسیع ملنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: اس بار حج کے موقع پر شرکت کم تھی، کئی ممالک پر پابندی عائد کی گئی، دوسرا مشرق وسطٰی بالخصوص یمن کی صورتحال پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ حیدر علوی:
سعودی خاندان کے حوالے سے کئی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ وہ انتشار کا شکار ہے اور اسی انتشار کے باعث وہ اس طرح کے غلط فیصلے کر رہے ہیں، حج وحدت کی علامت تھی، سعودی عرب نے اپنی ذاتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ایسا کیا ہے، حالانکہ اربوں روپے وصول کرتے ہیں، انہوں نے چند اسلامی ممالک پر پابندی لگائی، وہ ممالک کہ جو چودہ سو سال سے حج کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، انہوں نے پابندی لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ خود ایک فرقہ کو پیش کرتے ہیں، اس سے منفی پیغام گیا ہے، خود سعودی عرب میں اس پر غم و غصہ پیدا ہوا ہے، اہم سوال یہ ہے کہ جن ممالک پر پابندی لگائی گئی ہے، ان کا مطالبہ کیا تھا؟، وہ تو یہی کہتے تھے کہ حج کے انتظامات اچھے کئے جائیں، ان کی جان و مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کی جائے، ہر سال حادثات ہوتے ہیں، اس سے چھٹکارا چاہتے تھے، یہ جائز مطالبات تھے، لیکن سعودی عرب نے غیر ملکی آقاوں کو خوش کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں، جن پر پابندی لگائی گئی وہ بیرونی مداخلت پر پابندی چاہتے ہیں، یہ لوگ داعش اور النصرہ جیسے گروپوں کی سپورٹ کرتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ داعشی اور وہابی فکر کی بنیاد پر ہی یمن پر حملہ آور ہیں، امت مسلمہ کی بےرحمانہ خاموشی سعودی عرب کو جلا بخش رہی ہے، جن کے ٹیکسز پر آل سعود عیاشی کر رہی ہے، انہیں حج پر آنے سے روکا جا رہا ہے۔ آل سعود کے مظالم کے خلاف ضرور آواز بلند کرنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 571526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش