0
Monday 3 Oct 2016 23:31
حسینیت کے پیروکار ہر قسم کی یزیدیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے

کربلا آج بھی کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف جدوجہد کرنیوالوں کیلئے مشعل راہ ہے، ملک شاکر بشیر اعوان

اسلام آباد بند کرنے کی باتیں انارکی پھیلانے کی کوشش ہے
کربلا آج بھی کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف جدوجہد کرنیوالوں کیلئے مشعل راہ ہے، ملک شاکر بشیر اعوان
پاکستان مسلم لیگ نون خوشاب کے رہنما ملک شاکر بشیر اعوان، ممبر قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اور ریسرچ کے چیئرمین ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم کو احتساب کے لئے پیش نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد بند کرنے کے اعلان، کشمیر اور بھارت کیساتھ کشیدگی کی صورتحال کے ضمن میں اسلام ٹائمز کیساتھ پی ایم ایل این کے رہنما کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: رائے ونڈ مارچ کی کامیابی سے عمران خان کی مقبولیت واضح ہوگئی ہے، حکمران جماعت کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا، جبکہ وہ اسلام آباد کو بند کرنیکا اعلان بھی کرچکے ہیں۔؟
ملک شاکر بشیر اعوان:
ملک جس صورتحال کا شکار ہے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ بیرونی دشمن کے خلاف صف آرائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف مظاہرہ کیا جاتا اور سرحدوں پر دشمن کی نقل و حرکت کے پیش نظر مودی کو للکارا جاتا ہے، اس لحاظ سے دیکھیں تو مودی اور عمران خان کا مشن ایک ہے، کہ پاکستانی قوم کو تقسیم در تقسیم کے ذریعے تکڑوں میں بانٹ دیا جائے، لیکن لاکھوں کے دعوے کرنے والے صرف چند ہزار لوگوں کو اکٹھا کرسکے ہیں، جس کے لئے بے تحاشا پیسہ خرچ کیا گیا ہے، جلسے میں جو زبان استعمال کی گئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب بار بار ناکامیوں کا منہ دیکھنے کے بعد سخت جھنجھلاہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، اپنی ان حرکتوں سے وہ خود ہی بے نقاب ہو رہے ہیں، لوگ انہیں مسترد کرچکے ہیں، ضمنی الیکشن میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان کے عوام سنجیدہ قیادت کی پہچان رکھتے ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ میوزیکل شوز کے ذریعے تفریح تو ہوسکتی ہے، ملکی استحکام کی کنجی کسی اور کے پاس ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک تو پی ٹی آئی کا دھرنا مودی کے حق میں نہیں تھا بلکہ وہاں یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت کیساتھ اختلافات کے باوجود ساری قوم متحد ہے، دوسرا میڈیا رپورٹس اور سینیئر ترین صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حیرت انگیز حد تک عمران خان کی قیادت پر یقین رکھنے والے لوگ کرپشن اور احتساب کے معاملے میں حقیقت میں بہت سنجیدہ ہیں، پھر آپکی رائے کہاں تک درست ہوسکتی ہے۔؟
ملک شاکر بشیر اعوان:
یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی عمران خان کے جلسوں میں اسی قماش کے لوگ شامل ہوتے ہیں، جو زیادہ تر کم عمری اور شوقین مزاج ہونے کی وجہ سے اس شغل میں شامل ہو جاتے ہیں، یہ ایسے افراد ہیں جن کے ووٹ ہی نہیں ہوتے، نہ وہ سیاست کی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے جمع کیا جاتا ہے، ورنہ آپ دیکھیں کشمیر میں بھی بڑے جلسے ہوئے، جہلم میں، وہاڑی میں، کہیں بھی پی ٹی آئی اپنی ہی چھوڑی ہوئی نسشتیں نہیں جیت سکی، بلکہ پورے پاکستان کے ووٹرز نے مسلم لیگ نون پر ہی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ آنے والے الیکشن میں یہ بات زیادہ واضح انداز میں ثابت ہو جائے گی، ان کے جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جوں جوں طویل ہو رہا ہے، لوگوں پر ان کی ذہنیت عیاں ہوتی جا رہی ہے، ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ ثابت ہوا ہے کہ عمران خان کا غیر سنجیدہ انداز مسلم لیگ نون کے لئے کامیابی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ایک طرف تو محرم الحرام کی آمد کے موقع پر انہوں نے شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، احتجاج کے نام پر میوزک اور ڈانس کا سلسلہ جاری رکھا، جو کوئی بھی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ دوسرا دھرنے میں تقریر کے دوران جس طرح انہوں نے رشتے مانگنے اور شادیوں کی بات کی، یہ کہاں کا احتجاج ہے، انکی یہی حرکتیں انہیں تنہا کریں گی، وہ پہلے ہی اپوزیشن کے کاغذوں سے نکل چکے ہیں، پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے رائے ونڈ مارچ میں عدم شرکت کا فیصلہ بھی عمران خان کی نازیبا زبان کی وجہ سے تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی ایسا ہی رد عمل آیا ہے کہ عمران خان اپنی اور اپنے دوستوں کی زبان کو سنبھالیں۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ حکومت کیخلاف تو اپنی ناکامیوں اور شکست کو چھپانے کے لئے ہر طرح کی بات کہہ دیتے ہیں، خود اپنے ہم خیال اور سیاسی کزنز کیساتھ اتنی بری زبان تو اس بات کی غماز ہے کہ وہ نہ کسی کو ساتھ لیکر چل سکتے ہیں، نہ کسی کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں، یہ غیر سنجیدگی اب پاگل پن کو پہنچ چکی ہے، عوام کی طرف سے اس کا ردعمل آئندہ الیکشن میں ضمنی انتخابات سے بھی زیادہ شدید ہوگا۔ عمران خان نے بھارتی وزیراعظم کو جو مشورے دیئے ہیں، وہ ہر پاکستانی سمجھتا ہے، انہوں نے اسی زبان سے اپنے ملک کے وزیراعظم کو بھی دھمکی دی ہے، انہوں نے دلی پر چڑھائی کرنے کی بات نہیں کی بلکہ اسلام آباد کو ہی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ رائیونڈ جلسہ میں مودی کو پاکستانی وزیراعظم کی رخصتی کا مژدہ سنایا گیا، یہ لوگ اقتدار کیلئے مرے جا رہے ہیں اور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں، ہیلری کلنٹن اور زیک گولڈ سمتھ کی انتخابی مہم چلانے والے لوگ کس طرح کا نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔؟ عمران خان نے کرکٹ کے سوا پاکستان کیلئے کچھ کیا ہے تو سامنے لایا جائے، جو لوگ صرف اپنے اداروں کیلئے بیرون ممالک جاکر بھیک مانگتے ہوں، وہ کیسے کسی دشمن ملک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں، جب سے سعودی عرب، ایران اور افغانستان نے سی پیک منصوبے میں شمولیت کی خواہش کی ہے، پاکستان کیخلاف سازشیں مزید تیز ہوگئی ہیں، کچھ بھی ہوجائے سی پیک اور توانائی کے منصوبے نہیں رکیں گے، پاکستان مخالف دشمنوں کو شکست ہوگی۔

اسلام ٹائمز: ایسا تو نہیں لگتا کہ وزیراعظم احتساب کیلئے اپنے آپکو پیش کریںگے، اگر اسلام آباد کو بند کرنے کیلئے عمران خان کال دیتے ہیں تو نوجوانوں کا جنون اسلام آباد کا رخ کریگا، انکا اعلان ہے کہ حکومت کو نہیں چلنے دینگے، حکومت کیا اقدامات کرے گی۔؟
ملک شاکر بشیر اعوان:
وزیراعظم اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر نہیں سمجھتے، لیکن جس کو عمران خان جنون سمجھ رہے ہیں، وہ دراصل پاگل پن ہے، سیاست میں ایسی کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام آباد بند کرنے کی بات سے انارکی کی بو آتی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سیاست کی بجائے طاقت، جبر اور دھونس دھاندلی سے اپنی خفت مٹانا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد کوئی کریانہ کی دکان یا سبزی منڈی نہیں جسے چند سر پھروں کے کہنے پر بند کر دیا جائے گا، اسلام آباد ایٹمی طاقت کی حامل ملک کا وفاقی دارالحکومت ہے، حکومت اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور اسے پورا کرے گی۔ رائیونڈ مارچ کی ناکامی کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ قوم جلاؤ گھیراؤ اور منفی سیاست کے کلچر کو مسترد کرچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول ترین جماعت ہے، حکومت اس وقت ورثے میں ملے ہوئے مسائل اور بحرانوں سے احسن طریقہ سے نمنٹ رہی ہے۔ وزیراعظم کی معاشی اور اقتصادی میدان میں کامیابیاں سیاسی مخالفین کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں، احتجاج اور دھرنوں کے باوجود حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ سیاست میں شائستگی ہونی چاہیے، عمران خان کو احساس ہونا چاہیے کہ کسی سے رشتہ مانگنے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور اسے جلسے میں اپوزیشن یا حکومت کے بارے میں کہنا کیسا ہے؟ ایسی گفتگو سیاسی رہنما نہیں کرسکتا۔

اسلام آباد بند کرنا آسان نہیں، عمران خان سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اس وقت سیاست کرنے کے بجائے عناد کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جس طرح دہشت گردی اور کشمیریوں کی حمایت پہ حکومت نے نرمی نہیں دکھائی، ایسے ہی اندرونی بحرانوں کو بھی پوری قوت سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان خود ہی مدعی، خود ہی تھانیدار اور خود ہی منصف بننا چاہتے ہیں، انہیں پارلیمنٹ، اعلٰی عدالتوں، الیکشن کمیشن، قومی احتساب بیورو، ایف بی آر، میڈیا اور پولیس سمیت دیگر اداروں پر اعتماد نہیں، وہ صرف اپنے مفاد کیلئے ملک میں محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جو ان کے منہ سے نکلے وہ پتھر پر لکیر بن جائے، ایسا نہیں ہوگا، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی توہین 18 کروڑ عوام کی توہین ہے، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی توہین برداشت نہیں کی جائیگی۔ اسلام آباد کو میدان کربلا نہیں بننے دیں گے، حسینیت کے پیروکار ہر قسم کی یزیدیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ یہ ایام محرم ہیں اور نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ کی شہادت ہمیں صبر و تحمل، جذبہ ایثار کا درس دیتی ہے، اس لئے عشرہ محرم الحرام کے دوران امن و امان اور بھائی چارے کی فضا کو برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ملک کی حالت کسی اندرونی انتشار کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محرم الحرام میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے تمام مکاتب فکر کے لوگ ملکر امن کا دامن تھام رکھیں۔ عوام میں انتشار کی بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔ منفی سیاست اس کو ہوا دی رہی ہے، پاکستانی عوام ملکر پاک فوج کیساتھ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے ان کیساتھ ہے۔

اسلام ٹائمز: کربلا تو ظالم کے مقابلے میں قیام اور اسکی راہ میں آنیوالی مشکلات کے مقابلے میں صبر و استقامت کا درس دیتا ہے، آپس میں تو اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔؟
ملک شاکر بشیر اعوان:
بالکل درست ہے، کربلا سے ملنے والا درس حریت اسوقت کی کربلا کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے، موجودہ دور کی ظالم طاقتیں یکجا ہیں، امریکی و اسرائیلی حمایت اور عسکری طاقت کے زعم میں مبتلا بھارت یہ بات بھول گیا ہے کہ افواج پاکستان جذبہ شہادت سے ہی سرشار نہیں، بلکہ ان کا شمار دنیا کی بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی حامل منظم و محب وطن ترین افواج میں ہوتا ہے، کشمیری نوجوان ہوں یا پاکستان کی مسلح افواج کے سپاہی، وہ جذبہ حسینی سے سرشار ہیں، جو شہادت اور قربانی کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ جذبہ تو یقیناَ کامیابی کی ضمانت ہے، لیکن وزیراعظم کے متعلق تو یہ تاثر عام ہے کہ وہ بھارتی حکومت کیخلاف سخت موقف نہیں اپناتے، جیسا کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں کشمیر کی بات کی، لیکن کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا، اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حالیہ سرجیکل اسٹرائیک کے ڈرامے پیچھے مقاصد میں سے ایک مسلم لیگ نون کی حکومت کو اندرونی طور پر اپوزیشن کے دباو سے نکالنا بھی تھا۔؟
ملک شاکر بشیر اعوان:
ہمارا تو موقف بڑا واضح ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسندانہ سوچ اور رویے کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہیں۔ مودی نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی ہے، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی جس طرح مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے، اس پر بھارت تلملا اٹھا ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے پاکستان پر، بلوچستان میں مظالم کا الزام لگایا ہے، حالانکہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور اس کی خفیہ ایجنسی را کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسی طرح بھارت نے سارک کانفرنس ملتوی کرا کے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش سے پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے اڑی واقعہ کا ڈرامہ رچا کر اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جبکہ بعد ازاں لائن آف کنٹرول کی خلاف وزری کرکے سرجیکل سٹرائیک کا جھوٹا دعویٰ کیا، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا اور بھارت کو لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دیا۔ وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں تاثر اگر درست ہوتا کہ وہ بھارت کے معاملے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں تو اقوام متحدہ کے خطاب سے ہی یہ تاثر زائل ہوگیا ہے۔

دوسرا یہ کہنا کہ بھارت کی سرجیکل اسٹرائیک انڈیا نے مسلم لیگ نون کو فائدہ پہنچانے کے لئے کی، اس سے بڑھ کر کوئی مذاق نہیں ہوسکتا، اگر ایسا ہوتا، انڈیا پاکستان کو پانی بند کرنے کی دھمکی نہ دیتا، نہ ہی فوجیں بارڈر پر لے آتا، کیا کشمیر میں موجود بھارتی فوج کسی پاکستانی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنے کے لئے موجود ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک کی سلامتی کی خاطر بھی سیاسی مفادات قربان کرنے کے تیار نہیں ہیں۔ ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث عمران خان حکومت کیخلاف رائیونڈ مارچ کے بجائے بھارت کے خلاف واہگہ بارڈر پر آزادیٔ کشمیر مارچ کرتے تو ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرکے نواز شریف نے کشمیریوں کے دل جیت لئے اور حریت قیادت نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا، جبکہ بھارت میں نواز شریف کے سر کی قیمت لگائی گئی، اسی دوران پاکستان میں بھی آواز لگائی گئی کہ نواز شریف کو نہیں چھوڑنا، کینیڈا میں بیٹھنے والے اور لاہور میں احتجاج کرنیوالے آمر مشرف کیلئے ووٹ مانگتے رہے، دھرنا دینے والوں نے دہشتگردی کے واقعات پر کبھی احتجاج نہیں کیا، نواز شریف نے ہمیشہ ملک کو سنوارا، دہشتگردی کا خاتمہ، امن و امان کا قیام، ملک کو اندھیروں سے روشنیوں میں لانا اور معاشی ترقی، کشمیری مظلوموں کی حمایت اگر جرم ہے تو نواز شریف نے یہ جرم پہلے بھی کیا اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 572431
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش