0
Friday 7 Oct 2016 08:52
بھارت کو کشمیر کے حالات اور لوگوں کے اندر چھپے غصے کو سمجھنا ہوگا

بھارتی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں، حکیم محمد یاسین

بھارت صرف طاقت کے بل بوتے پر کشمیر میں حالات ٹھیک کرنا چاہتا ہے
بھارتی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں، حکیم محمد یاسین
حکیم محمد یاسین مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع چاڑودرہ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ نامی سیاسی پارٹی کے صدر ہیں، جسکی بنیاد انہوں نے 2008ء میں ڈالی تھی، حکیم محمد یاسین مقبوضہ جموں و کشمیر کے ایک معروف سیاست دان ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی میدان میں گزارا ہے، انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1977ء میں کیا، 1977ء میں پہلی بار محض اُنیس سال کی عمر میں نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کی، اسکے بعد 1983ء میں دوسری بار الیکشن لڑ کر جیت درج کی، حکیم محمد یاسین نیشنل کانفرنس کے دور حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں، 1984ء میں جب عوامی نیشنل کانفرنس کی بنیاد پڑی تو انہوں نے نیشنل کانفرنس سے علیحدگی اختیار کی۔ اسلام ٹائمز نے حکیم محمد یاسین سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ سے جاننا چاہیں گے۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھیے یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کیا ہے، پچھلے اڑھائی ماہ سے مسلسل کرفیو اور ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں، قابض فورسز کی جانب سے لوگوں پر زیادتیاں ہو رہی ہیں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، لوگوں کو پُرامن مظاہرے کرنے کی بھی آزادی نہیں ہے اور اوپر سے پیلٹ گن، پاوا شلوں اور گولیوں کی بوچھار کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے اب تک نوے افراد شہید اور 13 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوچکے ہیں، کشمیر کی موجودہ صورتحال بہت ہی تشویشناک ہے۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ پیلٹ گن کا استعمال نہیں ہوگا، اسکے بدلے پاوا شل کا استعمال ہوگا، جو پیلٹ گن سے کم مہلک ہے لیکن زمینی صورتحال کچھ اور ہی بیان کر رہی ہے، اس حوالے سے آپکی تشویش کیا ہے۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھیے پیلٹ گن کا استعمال نہ کرنے کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے، ہوم منسٹر کے کہنے کے باوجود بھی اس کے استعمال میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، اس کے برعکس اب پاوا شل بھی استعمال ہو رہے ہیں، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں اور نوے سے زیادہ لوگوں کی جانیں تلف ہوچکی ہیں، ہندوستان کے وزیر داخلہ جنھوں نے تین بار کشمیر کا دورہ کیا، مگر اس کے باوجود بھی وادی کی صورتحال پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑا اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، ہم نے پارلیمنٹری ڈیلیگیشن کے سامنے بھی اپنی بات رکھی کہ کم از کم انسانی حقوق کی پامالی اور پتھر بازوں پر اندھا دھند گولیاں برسانا بند کیا جانا چاہئے اور فوج کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے، بدقسمتی کی بات ہے کہ فوج اور پولیس صبر و تحمل سے کام نہیں لے رہی ہے، بلکہ اگر مظاہرین کی طرف سے پتھر پھینکا جاتا ہے تو پولیس اور فوج کی جانب سے گولیوں، پیلٹ اور پاوا شلوں کا استعمال ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کو یہاں کے حالات اور لوگوں کے اندر چھپے غصے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کشمیریوں کو جاننے اور سمجھنے کے لئے ایک حکمت عملی کی ضرورت ہے، مگر اس کے برعکس فورسز کو مزید اختیارات دیئے جا رہے ہیں اور ایک ہفتہ کے اندر حالات ٹھیک کرنے کے ہدایات دی جا رہی ہیں، ہندوستانی سرکار کو چاہئے کہ یہاں کے لوگوں سے بات کرے، یہاں کے جوانوں سے بات کرے اور جو لوگ ابھی تک بات چیت کے میز پر نہیں آئے ہیں، ان کو مائل کریں اور بنا کسی شرط کے بات چیت کا سلسلہ شروع کرے، تبھی مجھے لگتا ہے کہ امن قائم ہونے میں مدد ملے گی۔

اسلام ٹائمز: ہندوستان کے وزیر داخلہ اب تک کشمیر کا تین بار دورہ کرچکے ہیں، کیا انکی طرف سے کوئی پیشرفت ہوئی ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں سے اور یہاں کی حریت لیڈر شپ سے بات چیت کا سلسلہ شروع کریں۔؟
حکیم محمد یاسین:
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ ریاستی سرکار یہاں کے لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہے، کیونکہ ہندوستان کی حکومت بات چیت کرنے کے حق میں دکھائی نہیں دے رہی ہے، وہ صرف طاقت کے بل بوتے پر حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، جس کی واضح مثال فوج کو مزید اختیارات سونپنا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کا بات چیت کے بجائے طاقت کا استعمال کرنا سب سے بڑی بدقسمتی کی بات ہے، اس اقدام سے پورا برصغیر حالت جنگ میں پہنچ گیا ہے، ہندوستان کے وزیر داخلہ نے اس بات کا اعتراف خود کیا ہے کہ کشمیر کے حالات جوں کے توں ہیں اور حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ آخر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کی زمینی صورتحال میں کوئی فرق کیوں نہیں آیا، اگر بقول وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کشمیر کے صرف پانچ فیصد لوگ وادی کے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں اور 95 فیصد امن چاہتے ہیں تو ان پانچ فیصد لوگوں کو قابو کرنا کون سی بڑی بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ جتنی جلد ہوسکے ہندوستان کو کشمیر مسئلہ کے ہر فریق سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے، چاہے وہ پاکستان ہو یا کشمیری لیڈرشپ ہو۔

اسلام ٹائمز: اگر بھارت علیحدگی پسندوں اور پاکستان سے بات چیت اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو کیا آپکو لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل نکالا جا سکتا ہے۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھیے ہم بار بار کہتے آرہے ہیں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک بنیادی فریق ہے اور اس بات سے کوئی انکار نہیں سکتا، بھارت ہمیشہ پاکستان پر یہ الزام لگاتا آرہا ہے کہ سرحد پار سے دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے، لیکن دہشتگردوں کو روکنا فوج کا کام ہے، کیونکہ حکومت کے پاس طاقت ہے، فوج ہے اور دوسرے طریقے ہیں، جن سے دہشت گردوں کو ہندوستان میں گھسنے سے روکا جا سکتا ہے، مگر بھارتی فورسز ان کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کشمیر میں بیرون ملک سے دہشتگرد آتے ہیں تو اس کے لئے لوگوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، بلکہ ذمہ داری فوج کی بنتی ہے، فوج کو جوابدہ بنایا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مرحوم مفتی سعید نے مخلوط حکومت کے ایجنڈا آف الائنس میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ پاکستان اور کشمیری عوام سے بات چیت ہوگی، لیکن اس ایجنڈا آف الائینس پر آج تک کوئی عمل نہیں ہوا، حکومت بنانے سے پہلے ایجنڈا آف الائینس میں صاف صاف لکھا گیا کہ حریت، پاکستان اور بھارت کشمیر مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بات چیت اور بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے تو آج کیوں بھارتی حکومت بات چیت کے دروازے بند کئے ہوئے ہے، میرا ماننا ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان واقعی مسئلہ کشمیر کا دائمی حل چاہتے ہیں تو انھیں مذاکرات کا سلسلہ جلد از جلد شروع کر دینا چاہئے اور میں سمجھتا ہوں کہ بامعنی مذاکرات سے ہی اس دیرینہ مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہندوستانی لیڈران کیطرف سے ایسے بیانات آرہے ہیں کہ حریت لیڈران کی سکیورٹی اور انکو دی جانیوالی مراعات کو چھین لیا جائے اور انکے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہئے، اس سلسلے آپکے تاثرات کیا ہیں۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھئے بھارتی حکومت ایک طرف کہہ رہی ہے کہ وادی میں امن و شانتی قائم ہو اور دوسری طرف ایسے بیانات دے رہی ہے کہ جس سے امن کی بحالی ناممکن دکھائی دے رہی ہے، بھارت حکومت زور زبردستی اور طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کرنا چاہتی ہے، جو میری نظر میں ممکن نہیں ہے۔ اگر بھارتی حکمران واقعی جموں و کشمیر میں امن چاہتے ہیں تو انھیں زمینی سطح پر ایسے اقدام کرنے چاہئے، جن سے امن کی بحالی میں مدد مل سکے، بھارتی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں۔

اسلام ٹائمز: آپ اور آپکی پارٹی مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کیا نظریہ رکھتے ہیں۔؟
حکیم محمد یاسین:
ہمارا موقف ہے کہ تمام فریقین مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے غیر مشروط بات چیت شروع کریں اور ہر ایک کی بات سنی جائے، تاکہ ایسا پائیدار حل نکالا جائے، جس پر تمام فریقین متفق ہوں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور ایسے مسائل راتوں رات حل نہیں ہوتے، تمام فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور مذاکرات کا سلسلہ شروع کرکے مرحلہ وار طریقے سے اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ نکالیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کیطرف سے سیلف رول اور اٹانومی کی باتیں ہو رہی ہیں، کیا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یہ متبادل ہوسکتے ہیں، اس حوالے سے آپکی کیا رائے ہے۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھئے ہم نہ سیلف رول کی بات کریں گے اور نہ اٹانومی کی، جس بات پر تمام فریقین متفق ہوں وہی مسئلہ کشمیر کا حل ہوسکتا ہے اور اس کے لئے غیر مشروط بات چیت کا ہونا لازمی ہے اور ہر فریق کی بات سنی جائے، یہ نہیں کہ ایک فریق کی بات سنی اور دوسرے کی نہ سنی جائے، ایسے مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا اور سب سے پرامن راستہ مذاکرات کا راستہ ہے۔

اسلام ٹائمز: اگرچہ نریندر مودی حکومت کے پاس اسوقت دو تہائی اکثریت موجود ہے، اسکے باوجود وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کیطرف کوئی توجہ نہیں دکھا رہا ہے، کیا آپکو لگتا ہے کہ نریندر مودی مسئلہ کشمیر حل کرکے ایک تاریخ رقم کرسکتے ہیں، کیونکہ ایک تو انکے پاس اکثریت ہے، دوسرا اپوزشین پارٹیاں بھی مسئلہ کشمیر کا حل چاہتی ہیں۔؟
حکیم محمد یاسین:
آپ کا کہنا بالکل دُرست ہے کہ نریندر مودی کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلہ کو حل کرکے ایک تاریخ رقم کرسکتے ہیں اور یہ بات ہم نے کل جماعتی وفد کی میٹنگ میں بھی کہی، آج نریندر مودی کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت ہے اور دوسرا اپوزشین پارٹیاں بھی اس مسئلہ کا حل چاہتی ہیں، آج سرکار کے پاس سنہرا موقعہ ہے کہ وہ بات چیت شروع کرے اور بامعنی مذاکرات کے ذریعے اس حساس مسئلے کو حل کرے، میرا ماننا ہے کہ اگر اس بار یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو کبھی حل نہیں ہو پائے گا۔

اسلام ٹائمز: بھارت نے ہمیشہ ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے اور ابھی بھی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور کسی قسم کی لچک نہیں دکھا رہا، اس تناؤ بھرے ماحول میں کیا مسئلہ کشمیر کبھی حل ہو پائے گا۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھیے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جب بھی کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کا موقعہ ملتا ہے تو بھارت کی جانب سے ضد اور ہٹ دھرمی دیکھنے کو ملتی ہے، اٹل بہاری واجپائی نے ایک اچھی شروعات کی تھی اور اس پیشرفت کا پاکستان کی جانب سے بھی خیر مقدم کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ان کو آج تک کشمیر میں یاد کیا جا رہا ہے، لیکن پارلیمنٹ پر حملہ کے بعد بات چیت کا سلسلہ بند کیا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر بات چیت کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جائے اور جو راستہ واجپائی صاحب نے دکھایا تھا، اس پر چل کر تمام فریقین سے بات کی جائے تو یقیناً یہ مسئلہ حل ہو کر رہے گا، واجپائی صاحب نے عسکریت پسندوں سے بھی بات چیت کا اشارہ دیا تھا اور بہت سارے اقدامات بھی کئے تھے، جس کی وجہ سے کشمیر میں کسی حد تک امن قائم ہوا تھا، اگر اسی راستے کو نریندر مودی اپناتے ہیں اور مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہیں تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا، تشدد اور دہشت گردی کسی چیز کا علاج نہیں ہے اس سے مسائل کے حل میں رکاوٹیں ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں ابھی جو عوامی ایجیٹیشن چل رہا ہے اور جو اب تیسرے مہیںے میں داخل ہونے جا رہا ہے، اس عوامی تحریک کا اختتام آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھئے اس ایجیٹیشن کا اختتام کیسے ہوتا ہے، یہ معنی نہیں رکھتا بلکہ ہمیں اس چیز پر غور کرنا چاہئے کہ جو نوجوان پہلے فوج سے ڈر محسوس کر رہے تھے اور اپنی جان بچا کر بھاگ جاتے تھے، لیکن آج ان میں ڈر اس قدر کم ہوگیا ہے کہ وہی نوجوان سینہ تان کے گولی کھانے کے لئے تیار ہے، اس بات کی طرف بھارتی سرکار کو توجہ دینی چاہئے، اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ ایجیٹیشن بزور طاقت کچھ عرصہ کے لئے ختم کر دیا جاتا ہے، لیکن کچھ سال یا کچھ ماہ بعد لوگ پھر نکلیں گے۔ 1947ء سے لیکر آج تک کشمیریوں کے ساتھ کتنے وعدے کئے گئے، مگر کسی ایک وعدے پر عمل نہیں کیا گیا، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک نادر موقع ہے بھارتی سرکار کے لئے اس مسئلہ کو حل کرنے کا اور انھیں چاہئے کہ وہ اس موقع کو نہ کھوتے ہوئے کشمیر مسئلہ کا قابل قبول حل تلاش کریں، اگر ہندوستان واقعی ترقی کرنا چاہتا ہے اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو بھارت کو ہمیشہ کے لئے مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا، ہندوستان کو چاہئے کہ وہ پاکستان، حریت اور مین اسٹریم جماعتوں کے ساتھ بلا مشروط بات چیت کا سلسلہ شروع کرے، تاکہ جموں و کشمیر کے علاوہ پورے برصغیر میں امن قائم ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان اور پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کے متعلق نریندر مودی کے حالیہ بیانات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
حکیم محمد یاسین:
نریندر مودی نے کس تناسب میں یہ بیانات دیئے، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، میں صرف جموں و کشمیر کے بارے میں بات کرسکتا ہوں، ہم سالہا سال سے مصیبت اور بدامنی کا شکار ہیں اور اب تک لاکھوں لوگ اس تشدد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، بلوچستان کا مسئلہ پاکستان کا اپنا مسئلہ ہے، ہمیں اپنے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے اور انھیں حل کرنا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: نریندر مودی کہہ رہے ہیں کہ یہ ترقی کا معاملہ ہے اور اگر کشمیریوں کو مراعات دی جائیں اور وہاں کے نوجوانوں کو نوکریاں دی جائیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے، اس بارے میں آپکا کیا کہنا ہے۔؟
حکیم محمد یاسین:
دیکھئے اگر یہ ترقی کا معاملہ ہوتا تو 2014ء کے تباہ کن سیلاب کے دوران لوگ فاقہ کشی سے مر رہے تھے، لیکن کسی نے پتھر نہیں اٹھایا، کوئی سڑک پر نہیں نکلا، اگر کشمیر کا مسئلہ تعمیر و ترقی کا مسئلہ ہوتا تو لوگ اُس وقت بھڑک اٹھتے، لیکن دنیا نے دیکھا کہ اس وقت کشمیریوں نے پتھر بازی نہیں کی، اگر یہ بے روزگاری کا معاملہ ہوتا تو اس عوامی تحریک میں بڑے بڑے ڈاکٹر، انجینئر، اور آسودہ حال لوگ سڑکوں پر نہیں آتے، آج اسی ہزار کروڑ روپے دینے کے باوجود لوگ سڑکوں پر ہیں، نریندر مودی کا یہ بیان حقیقت سے دور ہے، کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 573451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش