0
Sunday 9 Oct 2016 18:20

ہمارے ہاں جسکا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، اسکی تکفیر شروع کر دی جاتی ہے، علامہ رضا حسین

ہمارے ہاں جسکا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، اسکی تکفیر شروع کر دی جاتی ہے، علامہ رضا حسین
علامہ رضا حسین کا تعلق پنجاب کے ضلع اکاڑہ سے ہے، بچپن سے ہی دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سے دینی تعلیم مکمل کی۔ سن 2000ء میں انجمن طلباء اسلام پنجاب کے ناظم بھی رہے، ضلع رحیمیار خان سے لیکر اٹک تک کے علاقوں میں کافی متحرک کام کیا۔ آجکل جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ سے وابستہ اور ضلع اوکاڑہ کی مسئولیت رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے رضا حسین سے ملکی حالات پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان میں سب بڑی مشکل کیا دیکھتے ہیں، موجود حالات میں کیا مسائل ہیں اور انکا حل کیا ہے، خاص طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تناظر میں کیا ہونا چاہیئے۔؟
علامہ رضا حسین:
پاکستان اس وقت کئی مشکلات سے دوچار ہے، عالمی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان کیخلاف نیا بلاک بنا ہے، جس میں امریکہ، افغانستان اور بھارت شامل ہیں، افسوس ہے کہ ایران بھارت کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو بیرونی مشکلات کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیئے اور موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ کیا تبدیلیاں کی جانی چاہیئں۔ اس پالیسی کی بنیاد پر پاکستان کو دوستوں اور دشمنوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے، اس چیز کو بھی دیکھنا چاہیئے کہ مشکل اور کٹھن حالات میں پاکستان کے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے، ان کو ساتھ ملایا جائے، جو ممالک مفاد پرست ہیں، ان کے ساتھ الگ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اندرونی طور پر پاکستان انتہائی خلفشار کا شکار ہے، حکمران تفرقہ بازی کیخلاف باتیں کرتے ہیں، لیکن سپورٹ انہی کو کرتے ہیں جو تفرقہ بازی کرتے ہیں اور ان کا کردار تفرقہ بازی میں نمایاں ہے۔ کے پی کے کے اندر ایک مدرسے کو کروڑوں روپے امداد دی گئی، اسی طرح پنجاب میں انہی مدارس کو سپورٹ کیا جاتا ہے، جو مدارس دہشت گردوں کے سپورٹرز ہیں، یہاں سے انہیں ٹرینگ ملتی ہے، سپورٹ ملتی ہے، لیکن یہ حکمران انہی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جن دہشتگردوں نے پاکستان کیخلاف کارروائیاں کیں، ان کا بیک گراونڈ دیکھیں کہ کہاں ملتا ہے، یہ کہاں کے فارغ و التحصیل ہیں، حکومت کی جانب سے ان مدارس کو بند کر دینا چاہیئے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جو مدارس حب الوطنی کا درس دیتے ہیں انہیں دبایا جاتا ہے، ان کیخلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ بارہ ربیع الاول کا جلوس دیکھ لیں، بہت پرامن اور پرسکون ہوتا ہے، لیکن اس کی سکیورٹی کیلئے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں محرم کے جلوسوں کی سکیورٹی بہت بہتر ہوتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ محرم کے جلسوں کی سکیورٹی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ بہتر ہونی چاہیئے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میلاد کے جلسوں کو بھی سکیورٹی کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں حکومت کی توجہ نہیں ہوتی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ایران کو بھی پاکستان مخالف بلاک میں شامل کر لیا ہے جبکہ ایرانی سفیر نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کہا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی ایران کی سکیورٹی ہے تو پھر آپ لوگ کیوں ایسا سوچتے ہیں۔؟
علامہ رضا حسین:
پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر کے اس بیان کا خیر مقدم کرتا ہوں، تاہم یہ بات تشویش ناک ہے کہ ایران چاہ بہار بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں تعمیر کر رہا ہے، اس کے لئے وہ بھارت سے مدد لے رہا ہے۔ (اسلام ٹائمز: ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفاد میں فیصلے کرے، اگر پاکستان تعمیر کرسکتا ہے تو یہ حق ایران سے کیسے چھین سکتے ہیں، خیر آگے چلیں)

اسلام ٹائمز: کشمیر پر وزیراعظم اور انکی حکومت کے موقف پر کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ رضا حسین:
جی، میرے وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت سے لاکھ اختلاف ہیں، لیکن میں ان کے کشمیر پر حالیہ موقف کی تائید اور داد دیتا ہوں اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں، انہوں نے پوری قوم کی ترجمانی کی ہے۔ اگر کسی کو اعتراض ہے کہ بلوچستان کا ایشو نہیں اٹھایا تو میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اچھا کیا ہے کہ کشمیر پر فوکس رکھا ہے، اگر ہم بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کو قبول کرتے تو شائد ہماری کمزوری سامنے آتی۔

اسلام ٹائمز: نیشنل ایکشن پلان کے کچھ نکات پر عمل درآمد کیا گیا ہے لیکن بیشتر نکات آج بھی عمل درآمد کو ترس رہے ہیں، فوج کہتی ہے ہم عمل کر رہے ہیں لیکن سول حکومت اور ادارے کام نہیں کر رہے۔ کالعدم تنظیموں پر کوئی پابندی نہیں، پرامن لوگوں کے اکاونٹس منجمد کئے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ رضا حسین:
یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے، کچھ لوگوں نے طے کیا ہوا ہے کہ ہم نے ملک دشمنیوں میں شامل نہیں ہونا لیکن انہیں بھی تنگ کیا جا رہا ہے، میرے خیال میں نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کیلئے پولیس، فوج اور دیگر تمام اداروں سمیت ہر پاکستانی کو اپنی معاونت شامل کرنا ہوگی۔ میری مراد یہ ہے کہ ہر بندہ پابند ہے کہ وہ مکان کرائے پر دے تو اس کی اطلاع تھانے میں دے اور تھانیدار کا فرض ہے کہ وہ کرائے داروں کی مکمل جان کاری کرے اور اطمینان کے بعد اس درخواست کو منظور کرے، لیکن تھانیدار تین چار سو روپے لیکر درخواست وصول کر لیتا ہے۔ بھلے اس مکان میں کوئی دہشتگرد ہی کیوں نہ رہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان میں نقاص سامنے آ رہے ہیں۔ اگر مکان دہشتگردوں کو دیدیا ہے اور پولیس تحقیق ہی نہیں کرتی، پھر کیسے امن آئے گا۔ کرپشن اہم مسئلہ ہے۔ سب کو وطن دوستی کا ثبوت دینا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ملک سے تکفیر کو کیسے ختم کیا جائے۔؟
علامہ رضا حسین:
کسی بھی مکتب فکر کی تکفیر نہیں ہونی چاہیئے، تمام مکاتب فکر اپنے اجداد یعنی بزرگ علماء کی پیروی کریں، اہل تشیع اپنے آئمہ اور مجتہدین کے فتاویٰ پر عمل کریں، اسی طرح اہل حدیث امام ابوحنیفہ کے فتاویٰ پر عمل کریں، امام حنیفہ نے جو شرائط بیان کی ہیں تکفیر کی وہ بہت سخت ہیں، اگر کوئی وہ پڑھ لے تو اسے سمجھ آجائیگی کہ تکفیر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ ہماری انانیت ہوتی ہے کہ ہم فتوے بازی والا کام شروع کر دیتے ہیں، پاکستان میں جس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اس پر کفر کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے، میں کہتا ہوں کہ اگر ایک بندے میں 99 فیصد چیزیں کفر کی ہیں اور ایک فیصد ایمان والی صورتحال ہے تو ہمیں ایک فیصد کی حمایت کرنی چاہیئے، تاکہ وہ 99 پر غالب آجائے۔ تمام مسالک کو ایک دوسرے کی تکفیر سے گریز کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: جو لوگ تکفیر کرتے ہیں انکے ساتھ کیا کرنا چاہیئے۔ کیا اسپیکروں کی بندش سے یہ سلسلہ رک جائیگا۔؟
علامہ رضا حسین:
میں سمجھتا ہوں کہ پوری قوت کے ساتھ ایسے عناصر کو روکنا چاہیے، ان کی زبان بندی ہونی چاہیئے، بھرپور ایکشن لینا چاہیئے، قانون پر عمل درآمد کرنا ہے تو سب پر کریں، ایسا لیٹریچر جو نفرت آمیز ہے، اسے ختم کریں۔ ایسے عناصر کیلئے اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے، میں کہتا ہوں کہ بھائی ان زبانوں پر پابندی لگائیں جو نفرت پھیلاتی ہیں۔ جن کا کاروبار ہی یہی ہے، اب مسجدوں میں چار کی جگہ ایک سپیکر لگا دیا گیا ہے، اب ایک مسجد سے ایک سپیکر چلے گا، ارے بھائی اگر سپیکر سے نفرت پھیلتی ہے تو تین سے بھی پھیل سکتی ہے اور وہ ایک سے بھی۔ آپ نفرت پھیلانے والوں کو روکیں۔ اسپیکر اذان کیلئے ہے، ناجائز استعمال روکا جائے۔

اسلام ٹائمز: محرم کی مناسب سے کوئی پیغام دینا چاہیئں۔؟
علامہ رضا حسین:
جی بس اتنا کہوں گا کہ اللہ، اس کے نبی ﷺ اور انکی آل و اہل بیت اور امام حسین علیہ السلام کے پیغام پر عمل پیرا ہوں، انہی کا پیغام زندہ ہے، ایک دوسرے کا احترام کریں، برداشت کا مادہ پیدا کریں، امام حسن علیہ السلام نے ام المومنین حضرت عائشہ (رضی) سے اجازت مانگی تھی کہ میں اپنے نانا کے حجرے میں دفن ہونا چاہتا ہوں، اس پر انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی بتا دیا تھا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا سے اجازت طلب کر لی ہے، تاہم میرے وصال کے بعد بھی اجازت مانگی جائے، اگر تلواریں نکل آئیں تو مجھے جنت البقیع میں دفن کر دینا۔ کتنا خوبصورت پیغام ہے۔ اسی طرح حضرت رسول خدا کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ آپ ﷺ خانہ کعبہ کے سامنے آئے اور سوچا کہ اس کی دیواروں کی تعمیر اس طرح سے کروں جس طرح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی، تاہم آپ کو خدشہ تھا کہ لوگ جو تازہ مسلمان ہوئے ہیں، کہیں تلواریں نہ نکال لیں، یوں آپ نے اپنا یہ ارادہ ترک دیا۔ ہمیں بھی ایسے کام سے اجتناب کرنا چاہیے جس سے تفرقے کی بو آتی ہو یا امت کے درمیان انتشار کے باعث بنے۔
خبر کا کوڈ : 573749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش