0
Friday 21 Oct 2016 00:48
اسلام آباد بند کرنا کوئی بڑا ٹاسک نہیں، وہ تو اکیلا سکندر بھی کرسکتا ہے

بے گناہوں کے نام فہرستوں میں جبکہ گناہگاروں کو تحفظ دیا جا رہا ہے، فیصل کریم کنڈی

کراچی میں بچوں پہ، کوئٹہ میں وکیلوں پہ اور ڈیرہ میں دہشتگردی کرنیوالے عناصر ایک ہیں
بے گناہوں کے نام فہرستوں میں جبکہ گناہگاروں کو تحفظ دیا جا رہا ہے، فیصل کریم کنڈی
فیصل کریم خان کنڈی پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ہیں، ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی کے کم عمر ترین ڈپٹی سپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ملکی سیاست میں ان کا نام جانا پہچانا ہے۔ یکم جنوری 1975ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، اعلٰی تعلیم تھامس ویلی یونیورسٹی لندن سے حاصل کی۔ زراعت اور قانون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور خاندانی روایات کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 2008ء کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان میں چالیس ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ انکا شمار شہید بی بی کے قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا ہے۔ انکے والد فضل کریم کنڈی نے بھی مولانا فضل الرحمن کو 1990ء کے انتخابات میں این اے 24 ڈی آئی خان سے شکست دی تھی۔ انکے نانا جسٹس فیض اللہ خان کنڈی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے، جبکہ انکے پر دادا بیرسٹر عبدالرحیم کنڈی کو صوبہ سرحد کی پہلی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ فیصل کریم کنڈی نے قومی اسمبلی کے کم عمر ترین ڈپٹی اسپیکر ہونے کے باوجود ایوان کو انتہائی احسن طریقے سے چلایا، جس کا اقرار حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے کیا۔ اسلام ٹائمز نے ملک کی حالیہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے انکے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔ جس میں ہونیوالی گفتگو انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شیخ محسن علی نجفی ایک علمی و فلاحی شخصیت ہیں، انکو شیڈول فور میں شامل کیا گیا ہے، جسکے خلاف تشیع کمیونٹی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، اس ناانصافی کے بارے آپکی کیا رائے ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
مجھے یہ علم نہیں ہے کہ کون کون سی شخصیات کو کن کردہ یا ناکردہ گناہوں کی پاداش میں شیڈول فور میں شامل کیا گیا ہے، تاہم موجودہ دور حکومت میں جن لوگوں کو شیڈول فور اور حکومتی گرفت میں ہونا چاہیئے، وہ باہر ہیں جبکہ جن شخصیات کو ایسی فہرستوں سے باہر ہونا چاہیئے، ان کے نام اس میں شامل ہیں۔ ویسے بھی آپ اس حکومت سے اس سے زیادہ اور کیا توقع کرسکتے ہیں، بے گناہوں کو فہرستوں میں شامل کرنے اور گناہ گاروں کو تحفظ دینے کا اندازہ تو یہیں سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اہم حکومتی اجلاس کی خبر لیک ہوجاتی ہے اور پھر یہی خبر اخبار کی زینت بنتی ہے۔ اس کے ردعمل میں وزارت داخلہ بجائے حقیقی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کے بے گناہ صحافی کا نام فہرست میں شامل کر لیتی ہے، پھر انہی ذمہ داران کو مزید تحفظ فراہم کرنے کیلئے صحافی کا نام فہرست سے خارج بھی کر دیا جاتا ہے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس ملک میں وزیر داخلہ کو پرویز مشرف سے متعلق یہ خبر نہ ہو کہ وہ ملک میں ہیں یا فرار ہوچکے ہیں، تو پھر مزید کیا کہا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ایسی علمی، فلاحی شخصیت کو شیڈول فور میں شامل کیا گیا ہے تو اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان بھر میں محرم کے دوران اہل تشیع پر کوئی بم حملہ نہیں ہوا، مگر کراچی میں امام بارگاہ پہ بم حملہ کیا گیا ہے، کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں تشیع کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
پاکستان پیپلز پارٹی مظلوموں کے ساتھ اور ظالموں کے خلاف ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ جہاں تک کراچی میں امام بارگاہ پر دہشت گردوں کے حملے کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی اس کی شدید مذمت کرتی ہے اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ہے۔ علاوہ ازیں کراچی سمیت سندھ بلکہ ملک میں محرم الحرام پرامن گزرا ہے۔ ہم نے خود محرم الحرام کے پروگراموں، جلوسوں میں شرکت کی ہے۔ میں نے خود ڈیرہ اسماعیل خان میں عزاداری کے اجتماعات میں شرکت کی ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو اس سے قبل کوئٹہ میں وکیلوں پر انتہائی خوفناک حملہ ہوا تھا۔ اسی طرز کا ایک حملہ ڈیرہ اسماعیل خان میں سول ہسپتال میں کیا گیا تھا، جس میں اہل تشیع کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ تو میرے خیال میں کراچی میں بچوں کو نشانہ بنانے والے، کوئٹہ میں وکیلوں پر حملے کرنے والے اور ڈیرہ میں دہشت گردی کرنے والے عناصر ایک ہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: شہدائے کارساز ریلی بہت پررونق اور کامیاب تھی، کیا شہداء کو خراج تحسین پیش کرنیکا بہترین طریقہ ناچ، گانے اور بھنگڑے تھے، کیا انہی شہداء کے نام سے کارکنوں کیلئے کوئی ویلفئیر فنڈ وغیرہ کا قیام کارکنوں کی قربانیوں کا بہتر اعتراف نہیں تھا۔؟
فیصل کریم کنڈی:
پیپلز پارٹی نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام دیا، جس کے تحت نہ صرف کارکنوں بلکہ سب کی مدد کی گئی۔ شہداء کیلئے یادگار تعمیر کی گئی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی اور اس کے رہنماؤں کے درمیان قربانی کا رشتہ مشترک ہے۔ یہاں تک کہ اس کے پیشوا کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ چیئرپرسن کو دہشتگردی کا شکار کیا گیا۔ یکے بعد دیگرے مائنس فارمولے کا استعمال کیا گیا۔ کسی بھی پارٹی کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قربانیاں و خدمات زیادہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پیپلز پارٹی اس حکومت کو مسلسل وقت نہیں دے رہی، اب بلاول بھٹو نے بھی اپنے خطاب میں 27 دسمبر تک کا مزید وقت دیا ہے، حکومت کو۔؟
فیصل کریم کنڈی:
ہم نے باقاعدہ مطالبات پیش کئے ہیں، اگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوا تو پھر جیسے کہ بلاول بھٹو نے اعلان کیا ہے کہ گڑھی خدا بخش سے لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ جہاں تک ٹائم دینے کی بات ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ پوری پارٹی کی ری آرگنائزیشن ہو رہی ہے۔ ضلع و تحصیل سطح پر تمام تنظیمیں ختم کر دی گئی ہیں۔ اگلے مہینے تک ہماری یہ تنظیم سازی مکمل ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ ہم نے وقت ضائع نہیں کیا۔ ہم آج بھی اپوزیشن کے ساتھ احتساب کے ایجنڈے پر مل بیٹھنے کو تیار ہیں اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر بھی۔ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر ہم نے ٹی او آرز بنائے ہیں، جو کہ حکومت کو قابل قبول نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کیجانب سے اسلام آباد بند کرنیکے اعلان کی حمایت کرتے ہیں یا مخالفت۔؟
فیصل کریم کنڈی:
میرے خیال میں اسلام آباد بند کرنا کوئی بہت بڑا پراجیکٹ یا کام نہیں ہے۔ پچھلی حکومت میں ایک سکندر نے اسلام آباد بند کر دیا تھا۔ اس حکومت میں بھی کوئی بھی بند کرسکتا ہے، یعنی جب سکندر جیسا شخص اسلام آباد بند کرسکتا ہے تو ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر کیلئے یہ بڑا ٹاسک نہیں ہوسکتا۔ سندھ کی جب بات آتی ہے تو اس کیلئے پیمانہ اور ہو جاتا ہے۔ ایم کیو ایم جب کہہ رہی تھی کہ وہ کراچی بند کر دیں گے تو اس وقت موقف یہ تھا کہ رینجرز ہر چیز کو سنبھال لے گی، وہ بند نہیں ہونے دیگی، تو کیا اسلام آباد میں بھی اب رینجرز کو دعوت دی جائے گی کہ پی ٹی آئی نے جو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا ہے، تو اسے بند نہ کرنے دیں۔ ویسے بھی ہمارے دور میں تو دن رات شور و غوغا رہتا تھا کہ رینجرز رینجرز، اب کیوں خاموشی ہے۔ ایک سکندر جیسے شخص پر جب وزیر داخلہ اور پولیس قابو نہیں پاسکے تو ایک سیاسی جماعت کو روکنے کا اہتمام کیسے کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ پی ٹی آئی کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ احتجاج کرے اور یہ احتجاج یا لانگ مارچ کوئی پہلی مرتبہ تو نہیں ہو رہے، اس سے پہلی حکومتوں کے دور میں بھی احتجاج ہوتے رہے ہیں اور اگر اس احتجاج سے حکومت بچنا ہی چاہتی ہے تو ٹی او آرز کو قبول کرے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ میاں صاحب کا نام پانامہ میں شامل نہیں تو پھر کیوں اپوزیشن کے بل پر نہیں آرہے۔ ٹی او آرز تو پوری اپوزیشن نے سائن کئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کا موقف ایک ہے، مگر حکمت عملی الگ الگ کیوں۔؟
فیصل کریم کنڈی:
پارلیمنٹ میں ہم نے اکٹھے بیٹھ کر ٹی او آرز بنائے، اس پر تمام اپوزیشن جماعتیں متفق ہیں۔ جہاں تک احتجاج کے طریقہ کار کی بات ہے تو اس میں پی ٹی آئی نے سڑکیں اور اسلام آباد بند کرنے کی بات کی ہے اور ہم نے اپنا لائحہ عمل دیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات پر 27 دسمبر تک عمل نہ ہوا تو ہم لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے نہ آنے سے نواز شریف کو سپورٹ ملی ہے۔ ٹی او آرز پر ہمارا موقف ایک ہے، باقی ایشوز پر ظاہر سی بات ہے کہ مختلف رائے ہے، حکمت عملی مختلف ہے۔

اسلام ٹائمز: سندھ میں چیف منسٹر کی تبدیلی سیاسی حوالے سے کتنی خوشگوار ثابت ہو رہی ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
وزیراعلٰی سندھ کسی کے نقش قدم پر نہیں چل رہے، بلکہ وہ کام کر رہے ہیں۔ ہر پارٹی کی یہی کوشش ہے کہ وہ ووٹرز کو زیادہ سے زیادہ اپنی جانب راغب کرے، لازمی بات ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرے، اس حوالے سے وزیراعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ کی کارکردگی بہرحال اہمیت کی حامل ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم میں مائنس الطاف فارمولے پر پیپلز پارٹی کا کیا موقف ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
دیکھیں ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت کے طور پر پہلے بھی اپنا وزن رکھتی ہے۔ اب اس پر جو الزامات ہیں، چاہے وہ ثابت شدہ ہیں یا ثابت شدہ نہیں ہیں، مگر ان الزامات کے باوجود اگر لوگ ایم کیو ایم پر اعتماد کرتے ہیں، اسے ووٹ کرتے ہیں اور اس کے پاس ممبرز آف پارلیمنٹ ہیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر سیاسی جماعت ان کا احترام کرے گی۔ جہاں تک ایم کیو ایم رہنماؤں کے لب و لہجہ کی بات ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ الطاف حسین کے ساتھ ایم کیو ایم کے ساتھ کیا کیا کچھ نہیں ہوا، مگر اس کے باوجود انہوں نے الطاف حسین کو نہیں چھوڑا۔ مصطفٰی کمال اگر کراچی کے میئر بنے تھے تو الطاف حسین کی وجہ سے بنے تھے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بیس سال پہلے یہ کرنے لگے تھے اور وہ کرنے لگے تھے۔ بیس سال پہلے تو یہ سب اسی الطاف حسین کی پارٹی میں تھے اور اس وقت انہوں نے بغاوت نہیں کی تھی۔ بات یہ ہے کہ ماضی والا تمام تر عمل دہرایا جا رہا ہے کہ جیسے ماضی میں پارٹیاں توڑی گئی، سب کو معلوم ہے کہ کیسے سیاسی پارٹیوں کا جوڑ توڑ کیا جاتا رہا۔ اب حالیہ صورتحال میں الطاف حسین کو مظلوم بنایا جا رہا ہے۔ میئر کراچی کی جیل میں موجودگی کو ہی دیکھ لیں۔ اب سیاسی طور پر ان کے پاس بڑا مضبوط پوائنٹ ہے کہ میئر کراچی کی ڈاک ہے یا کاغذات ہیں، وہ جیل سے آئیں جائیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی عدالتی کارروائی ہو، اسے تیز ہونا چاہیئے یعنی اس فیصلے میں تو دیر نہیں ہونی چاہیئے کہ میئر کراچی کو جیل کے اندر ہونا چاہیئے یا جیل سے باہر۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے اپنی حالیہ سخت تقریر میں کہا ہے کہ انہوں نے کبھی الزامات کی سیاست نہیں کی، آپکی کیا رائے ہے۔؟
فیصل کریم کنڈی:
جو جو الزامات ہمارے دور حکومت میں لگائے گئے اور جو سلوک منتخب حکومت کے نمائندوں اور راہنماؤں کے ساتھ ہوا، وہ تو سب کے سامنے ہے۔ ہم کون کون سے ثبوت لائیں کہ انہوں نے کیسے کیسے اور کن الزامات کی سیاست کی۔ میمو گیٹ کو اب تو کوئی یاد نہیں کرتا۔ اب بھی یاد کریں نا، اگر عدالت میں اس کیس کو لے کر گئے تھے تو اس کے پیچھے جائیں نا۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں یہی پانامہ لیکس کا معاملہ ہمارے دور حکومت میں ہوتا تو کیا یہی اداروں اور آپ کا یہی ردعمل ہوتا۔ فرق محض اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تحقیقات نیب کرے اور پی ایم ایل این کے دور میں ٹی او آرز پر بات ہو۔ فرق تو ہے نا۔ اسے آپ بھی تسلیم کریں۔ جو کہتے ہیں کہ ہم نے الزامات کی سیاست نہیں کی، تو کیا چیزیں آن دی ریکارڈ نہیں ہیں۔ جو چھوٹو گینگ دھمکیاں دیتا تھا کہ ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے، جب ہم رائے ونڈ گئے تو وہ کہیں چھپے ہوئے تھے۔ ہم نے نیب کا سامنا کیا، آج چیئرمین نیب کو باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی ہیں، تو یہ دہرا معیار ہے۔
خبر کا کوڈ : 576733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش