QR CodeQR Code

غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی جیسے مسائل کے باعث نوجوان دہشتگرد عناصر کے آلہ کار بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں

نوجوانوں کو ظالم جابر حکمرانوں کیخلاف امام حسینؑ کی طرح قیام و جہاد کرنا چاہیئے، رانا تجمل حسین

علماء نے آج کے نوجوانوں کو فلسفہ شہادت امام حسینؑ سمجھایا ہی نہیں ہے

20 Oct 2016 23:33

اسلام ٹائمز: مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا "اسلام ٹائمز" کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ حکمران تو خود سب سے بڑے دہشتگرد ہیں، انہوں نے مذہبی منافرت کو بھی فروغ دیا ہے، انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ اس ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں، جو ظالم حکمران دن دہاڑے اپنے ہی معصوم بے گناہ شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیں، ہم ان سے کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ دہشتگردی کا خاتمہ کرینگے، حد تو یہ ہے کہ حکمراں جماعت کا ایک صوبائی وزیر قانون کالعدم دہشتگرد تنظیم کے جلسے جلوسوں میں جاتا ہے، ان کے پروگرامات کی صدارت کرتا ہے، تو پھر پاکستان میں کیسے امن و امان قائم ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔


رانا تجمل حسین مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، اس سے قبل وہ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے یونٹ صدر، فیصل آباد ڈویژن کے دو بار صدر اور کئی مرکزی عہدوں پر ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ جی سی یونیورسٹی سے ایم بی اے کرچکے ہیں۔ آج کل تنظیمی دورے پر کراچی میں ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے رانا تجمل حسین کے ساتھ مختلف موضوعات کے حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کراچی کے دفتر میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ کن اغراض و مقاصد کے تحت کام کر رہی ہے، کیا اہداف ہیں۔؟
رانا تجمل حسین:
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں طلباء و نوجوان طبقہ اہم ترین و بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اسی حوالے سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 6 اکتوبر 1994ء کو پاکستان میں مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ کا قیام عمل میں لائے، جو اپنے قیام سے لیکر آج تک نوجوانوں خصوصاً طلبا کی کردار سازی، نظریاتی حوالے سے محب وطن بنانے، انکے روشن مستقبل کیلئے ملک گیر سطح پر اسکولز، کالجز، جامعات اور مدارس میں فعالیت انجام دے رہی ہے، ایم ایس ایم ملک کی بنیادی ذمہ داری جہالت کے خاتمے اور علم کا نور عام کرنے، منشیات کے استعمال کی حوصلہ شکنی، بے راہ روی، فحاشی، عریانی اور مغربی تہذیب و ثقافت کے فروغ پذیر رجحانات کو ختم کرنے اور طلباء کی توجہ تشددانہ رویوں سے ہٹا کر تعلیمی، ملی اور قومی مقاصد کی جانب مبذول کرانا ہے، آج جب نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر انہیں اسلحہ پکڑایا جا رہا ہے، آج جب تعلیمی اداروں میں دہشتگردی و غنڈہ گردی کا دور دورہ ہے، اس صورتحال میں طبقاتیت، فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشتگردی کا خاتمہ، سماجی و معاشی استحصال، اخلاقی و جنسی بے راہ روی، منشیات اور شراب نوشی کا خاتمہ ہمارے اہداف ہیں۔ الحمد اللہ ڈاکٹر صاحب کے نظریات و افکار کے مطابق ہم نے ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارہ جات میں طلبا و نوجوانوں پر اپنا پیغام پہنچایا ہے، ڈاکٹر صاحب کے ویژن کے مطابق ہمارا یہ سلسلہ بلاتفریق رنگ و نسل اور بلاتفریق مذہب و مسلک، تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے تعلیمی نظام کے حوالے سے کیا کہیں گے، کیا خامیاں ہیں، انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔؟
رانا تجمل حسین:
قیام پاکستان سے ابتک ہم ایک نظام و نصاب تعلیم نہیں بنا سکے، اس کی ذمہ داری ہمارے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے ہمیشہ نااہلی و نالائقی کا مظاہرہ کیا ہے، آج ہمارے سرکاری اسکولوں میں طلبا و اساتذہ نہیں آتے بلکہ وہاں جانور باندھے جاتے ہیں، دراصل حکمرانوں کی ترجیحات میں تعلیم ہے ہی نہیں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ملک کا تعلیمی بجٹ اس کے ملکی بجٹ کا کم از کم 4.4 فیصد ہونا چاہیئے، جبکہ پچھلے سال پاکستان کا تعلیمی بجٹ 1.5 فیصد تھا، اس میں سے بھی صرف عشاریہ نو فیصد ریلیز کیا جاتا ہے، پھر ریلیز کیا گیا عشاریہ نو فیصد بھی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے ملک میں آج بھی انگریزوں کا دیا ہوا نظام تعلیم مسلط ہے، لارڈ میکالے نے 1836ء میں جو برصغیر کیلئے نظام دیا تھا، وہ آج بھی پاکستان پر مسلط ہے، جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوانوں کی سوچ سیکولر ہے، جبکہ دوسری جانب دینی مدارس میں جانے والوں کو متشدد نظریات کا حامل بنایا جا رہا ہے، آج نوجوانوں کو نبی پاک کی سیرت کے بجائے شیکسپیئر کو پڑھایا جا رہا ہے، تو پھر کیسے نوجوان پاکستان کی محبت سے سرشار ہوگا۔

اسلام ٹائمز: طبقاتی نظام تعلیم، مختلف تعلیمی بورڈز، مختلف نصاب کی موجودگی میں موجودگی میں نوجوانوں میں قومی سوچ بیدار کرنا کیسے ممکن ہے۔؟
رانا تجمل حسین:
طبقاتی نظام، مختلف تعلیمی بورڈز، مختلف نصاب، ان سب کی ذمہ داری ظاہر سی بات ہے کہ حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، ملکی نظام تعلیم کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار حکمران ہیں، لہٰذا جب چار پانچ مختلف نظام تعلیم سے الگ الگ سوچ لیکر جب نوجوان طبقہ میدان عمل میں آئے گا تو وہ کیسے ایک قوم ایک، ایک ملت بن کر سوچ سکتے ہیں، لہٰذا اس کے سدباب کیلئے ایک زبان میں ایک قومی نصاب مرتب کیا جائے، گاؤں کے ایک غریب بچے سے لیکر شہر کے پوش علاقے میں رہنے والا اشرافیہ طبقے کا بچہ بھی ایک ہی نصاب پڑھے، اس حوالے سے ایم ایس ایم نے باقاعدہ ایک مہم چلائی تھی، جس میں ایک تجویز بھی دی گئی تھی کہ ملک میں قانون سازی ہونی چاہیئے کہ تمام سیاستدان، رکن قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز اور بیورو کریٹس کو پابند کیا جائے کہ ان کے اپنے بچے بھی اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں کے سرکاری اسکولز، کالجز اور جامعات میں تعلیم حاصل کرینگے، کیونکہ جب ان کے اپنے بچے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے تو وہ ترجیحی بنیادوں پر ان سرکاری تعلیمی اداروں کے مسائل حل کرینگے، تمام سہولیات فراہم کرینگے، جب تک یہ پابندی نہیں ہوگی، اس وقت تک پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ممکن نہیں، اچھا نظام تعلیم کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے نوجوانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے اور ان مسائل کا حل کیا پیش کرتے ہیں۔؟
رانا تجمل حسین:
ملک اس وقت غربت، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی جیسے مسائل کا سامنا ہے، اس وجہ سے غریب نوجوان اور وہ اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان جنہیں روزگار میسر نہیں ہوتا تو وہ دہشتگرد عناصر کے آلہ کار بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، نوجوان سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں، ڈگریاں جلا رہے ہیں، یہ بے حس حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے، لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک میں تعلیم فری کی جائے، مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے، روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں، حکمران طبقے نے جو اربوں کھربوں روپے کا سرمایہ بیرون ملک لگایا ہوا ہے، اگر وہ محب وطن ہیں اور انکا سرمایہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ نہیں ہے تو اپنے سرمائے کو ملک میں لائیں، یہاں ملیں، فیکٹریاں لگائیں، یہاں روزگار کے مواقع پیدا کریں، جب نوجوان کو اچھا روزگار ملے گا تو وہ دہشتگرد عناصر کے چنگل میں نہیں پھنسے گا۔

اسلام ٹائمز: طلبا تنظیموں کے پلیٹ فارم متحدہ طلباءمحاذ کی مرکزی صدارت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پاس ہے، خود ایم ایس ایم اور آئی ایس او پاکستان کے درمیان کتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔؟
رانا تجمل حسین:
متحدہ طلبا محاذ کا تصور بھی مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ نے 1994ء میں دیا تھا کہ تمام طلباء تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو کر اپنے باہمی اختلافات کا خاتمہ بھی کر سکیں اور مشترکہ مسائل کا سدباب بھی، اس کی پہلی صدارت کا اعزاز بھی مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ کو حاصل ہوا تھا، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ایم ایس ایم کے ماشاءاللہ بہت ہی اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں، اچھے روابط ہیں، دونوں طلباء تنظیموں کے درمیان اچھی ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آئی ایس او بھی اہل بیتؑ سے محبت کرنے والی تنظیم ہے اور الحمد اللہ مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ کی تربیت ہی ڈاکٹر صاحب نے ایسی کی ہے کہ ہم بھی اہل بیتؑ کے خادم ہیں، نوکر ہیں، اہل بیتؑ کے ماننے والے ہیں، ان سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نوجوان طبقے کو استعمال کرنیوالی کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی کھلے عام فعالیت نے نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، کالعدم تنظیموں کی فعالیت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔؟
رانا تجمل حسین:
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے علاوہ دیگر جماعتوں کی قیادت مسائل کو زیر بحث تو لاتی ہیں، لیکن ان کا حل پیش نہیں کرتیں، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا امتیاز ہے کہ جب پاک فوج نے دہشتگردوں کے خلاف عسکری محاذ پر آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تو ڈاکٹر صاحب نے قوم کی فکری محاذ پر تربیت کرنے کیلئے انہیں شعوری و آگہی دینے کیلئے پچیس کتابوں پر مشتمل ضرب امن نصاب مرتب کیا ہے، شائع کیا ہے، اس طرح ڈاکٹر صاحب نے ملک میں دہشتگردی و انتہا پسندی کے خلاف فکری، شعوری و عملی محاذ پر ضرب امن کا اعلان کیا، ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی کبھی فتویٰ نہیں دیا، اگر دیا بھی تو وہ بھی دہشتگردی و انتہا پسندی کے خلاف، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس فتویٰ کو انہوں نے باقاعدہ کتاب کی شکل میں شائع کیا، جو ایک انتہائی معتبر و مستند دستاویز بھی ہے، دہشتگردی و انتہا پسندی کے خاتمے کا آسان حل بھی پیش کیا ہے، اسلام کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں، انتہا پسندی پھیلانے والوں، مذہبی منافرت و فرقہ واریت پھیلانے والوں، اسلام کے نام پر بے گناہوں کے گلے کاٹنے والوں، ان کا خون بہانے والوں کا اسلام کی تعلیمات اور نبی کریم کی سیرت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام کا نام استعمال کرنے والے یہ دہشتگرد عناصر خارجی ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ آپ نے بات کی کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی فعالیت کی تو موجودہ حکمران تو خود سب سے بڑے دہشتگرد ہیں، انہوں نے مذہبی منافرت کو بھی فروغ دیا ہے، انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ اس ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں، جو ظالم حکمران دن دہاڑے اپنے ہی معصوم بے گناہ شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیں، ہم ان سے کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ دہشتگردی کا خاتمہ کرینگے، حد تو یہ ہے کہ حکمراں جماعت کا ایک صوبائی وزیر قانون کالعدم دہشتگرد تنظیم کے جلسے جلوسوں میں جاتا ہے، ان کے پروگرامات کی صدارت کرتا ہے، تو پھر پاکستان میں کیسے امن و امان قائم ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، پنجاب میں ابھی تک باقاعدہ سرچ آپریشن شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔

اسلام ٹائمز: آج کے نوجوان کو حسینیت و شہادت امام حسینؑ سے کیا پیغام حاصل کرنیکی ضرورت ہے۔؟
رانا تجمل حسین:
اس قوم کے علماء نے آج کے نوجوانوں کو فلسفہ شہادت امام حسینؑ سمجھایا ہی نہیں، فلسفہ شہادت امام حسینؑ تو ظلم و باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا نام ہے، امام حسینؑ اور ان کے آل و اصحاب نے میدان کربلا میں سر تو کٹوا دیا لیکن ظالم و باطل حکمران کے آگے سر نہیں جھکایا، جان و مال تو دے دیا، لیکن ظالم، جابر، کرپٹ، بدکردار حکمران جنہوں نے امام حسینؑ کو اپنی بیعت کیلئے مجبور کیا، اس وقت خلافت تھی تو بیعت کا سلسلہ تھا، آج جمہوریت ہے تو ووٹ کا سلسلہ ہے، لہٰذا آج کے نوجوانوں کو حسینیت سے یہ سبق سیکھنا چاہیئے کہ جیسے امام حسینؑ نے نااہل، ظالم، جابر، کرپٹ، زانی، شرابی، تمام تر برائیوں کے حامل بدکردار حکمران یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی یعنی انہیں ووٹ نہیں دیا، اپنا سب کچھ اسلام پر نچھاور کر دیا، اسی طرح نوجوان بھی جب یہ دیکھیں کہ ہمارے اوپر ظالم، جابر، نااہل، اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والا حکمران مسلط ہو جائے، تو ایسے حکمرانوں کے خلاف قیام حسینی کی مانند جدوجہد کرنی چاہیئے، انکے خلاف قیام و جہاد کرنا چاہیئے، علم بغاوت بلند کرنا چاہیئے، نہ کہ خاموش رہ کر اس کے حامی بنیں یا اس اسکا ساتھ دیں۔


خبر کا کوڈ: 577162

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/577162/نوجوانوں-کو-ظالم-جابر-حکمرانوں-کیخلاف-امام-حسین-کی-طرح-قیام-جہاد-کرنا-چاہیئے-رانا-تجمل-حسین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org