0
Friday 21 Oct 2016 12:26
جماعت اسلامی ملک میں بلاامتیاز سب کا کڑا احتساب چاہتی ہے

امریکہ سے کوئی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، لیاقت بلوچ

ملک کو سب سے زیادہ خطرہ کرپشن کے ناسور سے ہے
امریکہ سے کوئی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، لیاقت بلوچ
لیاقت بلوچ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب یونیورسٹی سے اپنے تنظیمی کریئر کا آغاز کیا۔ بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی بلوچ فیملی سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں حصول علم کیلئے لاہور آئے اور پھر لاہور کے ہی ہو کررہ گئے۔ آج کل لاہور کے علاقے مسلم ٹاؤن میں مقیم ہیں۔ کارزار سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ متعدد بار رکن اسمبلی بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوشاں ہیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلمین کیلئے بھی ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ اتحاد امت کیلئے ملی یکجہتی کونسل کو بھی فعال بنانے میں لیاقت بلوچ نے اہم کردار ادا کیا۔ آج کل کرپشن کیخلاف تحریک میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ لاہور میں گفتگو کی، جسکا احوال پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی نے "کرپشن فری پاکستان تحریک" چلائی، لیکن اچانک اس میں ٹھہراؤ آگیا، اسکی کیا وجوہات ہیں اور کیا آپ بھی بلاامتیاز سب کے احتساب کے حق میں ہیں۔؟
لیاقت بلوچ:
پاناما لیکس، دبئی پراپرٹی لیکس، قرضے معاف کرانے اور سینکڑوں میگا سیکنڈلز کی فہرسیں منظرِعام پر آنے کے بعد جماعت اسلامی کی کرپشن فری پاکستان تحریک کا مطالبہ کرپشن کے خاتمے کیلئے قوم کی آواز بن گیا ہے، عوامی دباؤ پر ماحول تو یہ بن گیا ہے کہ سپریم کورٹ سطح کا عدالتی کمیشن بنے اور بلاامتیاز تحقیقات اور احتساب ہو لیکن سیاسی، جمہوری، سول ملٹری صفوں میں بیٹھے افراد جو کرپشن میں ملوث ہیں، انہوں نے پوری مہارت سے عدالتی کمیشن اور احتساب کے مطالبہ کا رخ موڑ کر عملاً معاملہ سرد خانے کی طرف دھکیل دیا۔ لیکن اب ملک میں نظریاتی، اخلاقی، معاشی اور انتخابی کرپشن کے خاتمہ کا مطالبہ سرد نہیں ہوسکتا، اسی طرح ریاستی اداروں اور حکومت نے بلاامتیاز احتساب کا معاملہ تقریباً مفلوج کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے متفقہ ٹی او آرز کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیں۔ اس وقت جو کیفیت ہے، اس میں سیاسی بحران اور بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ملک و ملت کو لاحق خطرات اور نقصانات کی ذمہ داری سراسر وفاقی حکومت پر عائد ہوگی۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے سب سے اہم چیز پختہ ارادہ اور پراخلاص نیت ہے، قانون سازی، عملدرآمد اور سزاؤں کے نفاذ کی مربوط اور جامع حکمت عملی ترتیب دینا بہت ضروری ہے، لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہو تو یہ سارا عمل بے کار کی مشق بن جاتا ہے۔ ایماندار سیاسی قیادت ترجیحات کے تعین، دیانتدار افسران اور عوام کی تائید سے کرپشن کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ملک سے کرپشن کے مکمل خاتمے تک ہماری کرپشن فری پاکستان تحریک جاری رہے گی۔ یہ ختم ہوئی ہے نہ اس میں ٹھہراؤ آیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ تحریک صرف اخباری بیانات تک محدود رہے گی یا جماعت اسلامی عملی طور پر بھی میدان میں آئے گی، یا کوئی احتجاج، دھرنا، مظاہرہ کرے گی اور کیا وزیراعظم کو سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش نہیں کر دینا چاہیے۔؟؟
لیاقت بلوچ:
ملک کی سلامتی کو باہر اور اندر سے یعنی حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے زیادہ خطرہ ہے، نواز شریف اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر قومی دولت لوٹنے کے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کا دامن ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے تو وہ قوم کو الجھنوں میں ڈالنے اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے عوام کو سڑکوں پر لانے سے قبل اپنے آپ کو قوم کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرکے یہ بات ثابت کریں کہ ان کے خاندان کے تمام افراد پر قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنیوالے الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور پانامالیکس کے ذریعے ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اگر وہ حقیقت کا سامنا کرکے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتے رہے تو پھر قوم یہ سمجھے گی کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ جماعت اسلامی کسی غیرآئینی طریقے سے حکومت گرانے کی خواہش مند نہیں اور نہ ہی غیر آئینی طریقہ استعمال کرنیوالی جماعتوں کا ساتھ دے گی۔ تاہم حکمران طبقے کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا قبلہ درست کرے، ورنہ ان کی حرکات تیسری قوت کو آگے آنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔ اس وقت ملک میں 800 ارب روپے کی سالانہ کرپشن ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ 69 سال سے قوم جن عناصر پر اعتماد کرکے بار بار ان کی اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کر رہی ہے، وہ عناصر قوم کو مسائل میں الجھا کر قومی دولت کی لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کے نام پاناما لیکس میں آئے تھے، انہیں شفاف تحقیقات تک اپنے عہدوں سے الگ ہو جانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ انہوں نے کرپشن پر قابو پا لیا ہے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے، آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔؟
لیاقت بلوچ:
جب سے نواز شریف وزیراعظم بنے ہیں، تب سے قوم کو خوشحالی کی نوید سنائی جا رہی ہے، لیکن گورننس کا یہ حال ہے کہ 15 لاکھ نئے بے روزگاروں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق نواز دور حکومت میں پنجاب اور سندھ کو ایک کھرب 6 ارب 93 کروڑ 62 لاکھ 63 ہزار کی امداد دی گئی، جو کرپشن کی نذر ہوگئی۔ سندھ میں امداد سے چلنے والے 5 ہزار سکولز اور 40 ہزار اساتذہ جعلی نکلے۔ قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک دستاویز کے مطابق میاں محمد نواز شریف نے 2009ء سے 2016ء تک 7 سال سے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ غریب قوم کے صدر ممنون حسین کی سکیورٹی پر ایک سال میں ایک ارب روپے کے لگ بھگ خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے قومی خزانے سے 62 لاکھ 87 ہزار روپے کی ٹپ بیرونی ممالک کے دوروں میں اپنی خدمت پر مامور خادموں کو عنایت کر دی۔ اسی طرح گذشتہ 3 برسوں میں 430 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔ پاناما لیکس کے ذریعے ایک بڑا دھماکہ ہوا، جس میں کل 479 بڑے پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، جن میں وزیراعظم اور سابق صدر زرداری کے خاندان اور دوست احباب سرفہرست ہیں۔ انہوں نے ٹیکس سے بچنے کیلئے غیر قانونی طریقے اختیار کئے اور وطن عزیز کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اسی طرح اڑھائی ہزار پاکستانیوں کے نام دبئی لیکس میں بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے دبئی میں ایک کھرب سے زیادہ کی جائیداد خرید رکھی ہے۔ ان میں سب سے بڑا نام موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ہے۔ جو وزیراعظم کے قریبی عزیز بھی ہیں۔

اسلام ٹائمز: نیب کو کرپشن کے خاتمہ کیلئے قائم کیا گیا، آپ اس کے کردار سے مطمئن ہیں اور اگر نیب بھی خاموش ہے تو کرپشن کا سلسلہ کہاں رکے گا۔؟
لیاقت بلوچ:
نیب کرپشن کے خاتمے کیلئے ہی بنا تھا، مگر یہ ادارہ کرپشن روکنے میں ناکام ہے۔ گذشتہ 16 سال میں نیب نے 309000 شکایات سرکاری و غیر سرکاری محکموں سے وصول کیں اور 6 ہزار 300 انکوائریوں کو مکمل کیا جبکہ اس دوران اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے ڈیڑھ سو بڑے مقدمات کی رپورٹ ملکی سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہے، جبکہ اس دوران 150 میں سے 71 مقدمات کی انکوائری مکمل کی گئی ہے۔ 41 مقدمات کی تحقیقات تکمیل کے مراحل میں ہیں جبکہ 38 کی تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھجوائے گئے ہیں۔ اس وقت حکمرانوں پر ٹیکس چوری کے الزامات اور ناقص پالیسیوں کے باعث ایف بی آرتمام تر کوششوں کے باوجود تاجروں کو ٹیکس دینے پرآمادہ نہیں کرسکا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں ہانگ کانگ دنیا کا کرپٹ ترین خطہ تھا لیکن آئی سی اے سی کے قیام کے محض 5 سال کی قلیل مدت میں کرپشن کے عفریت پر قابو پا لیا گیا۔ اسی طرح 1959ء میں برطانیوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والا سنگا پور کرپشن کی بدترین مثال تھا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق سنگا پور آج کم کرپشن والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ پولیٹیکل، اکنامک اینڈ رسک کنسلٹنسی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 10 سال کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کرپشن کے ناسور پر کامیابی سے قابو پانے والے دنیا بھر کے ممالک میں ایشیائی ملک سنگا پور سرفہرست ہے۔ اس وقت کرپشن کی وجہ سے وطن عزیز کی صورتحال یہ ہے کہ یوتھو نومکس گلوبل انڈیکس 2015ء نے پاکستان کو 25 سال سے کم عمر نوجوان کیلئے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا ہے۔ 2015ء میں 10 لاکھ پاکستانی روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 1971ء سے اب تک 90 لاکھ پاکستانی اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر دوسرے ملکوں میں جا چکے ہیں۔ پاکستان سے نقل مکانی کی بنیادی وجہ یہاں روزگار کی کمی ہے، ڈاکٹرز سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر بین الاقوامی تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔ سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سنٹر کے تازہ سروے کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ سے زیادہ نوجوان بے کار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کی 54 فیصد آبادی کسی بھی تعلیمی یا جسمانی سرگرمی میں مشغول نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نواز شریف حکومت کا پرویز مشرف اور زرداری کی حکومت کیساتھ کیسے موازنہ کرینگے۔ کیا موجودہ حکومت ان دونوں ادوار سے بہتر جا رہی ہے۔؟؟
لیاقت بلوچ:
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں اپنے ریمارکس میں حکومت کی گڈگورننس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس کے بعد حکمران کس منہ سے عوام کا سامنا کریں گے۔ ایک جمہوری معاشرے میں حکومت وسائل کو منظم کرکے عوام کے مسائل کو حل کرتی ہے اور ایک اچھی حکمرانی کے ذریعے عوام الناس کے دکھ درد دور کئے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے نون لیگ کا دور حکومت ہو یا پیپلزپارٹی کا برسراقتدار گروہ صلاحتیوں سے عاری رہے اور نہ صرف خود بلکہ ان کے حواریوں نے بڑھ چڑھ کر لوٹ گھسوٹ میں حصہ لیا اور اس طرح بری طرز حکمرانی کو رواج دیا، جس کی وجہ سے آج پاکستان کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونیوالا ہر بچہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ ایک سابق چیئرمین نیب کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اس طرح ملک میں ہونیوالی کرپشن کا تخمینہ لگایا جائے تو سرکاری ادارے اور حکمران 43 کھرب 80 ارب روپے کی کرپشن سالانہ کرتے ہیں، جو نہایت پریشان کن صورتحال ہے۔ مشرف دور حکومت میں اکتوبر 2005ء کے زلزلے کے بعد پوری دنیا سے 5 ارب ڈالر کی امدادی رقم متاثرین کیلئے موصول ہوئی، یہ امداد اصل متاثرین تک پہنچنے کے بجائے کہیں اور پہنچ گئی اور اصل متاثرین محروم رہے۔ اسی طرح اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے عام شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بینک سے 135 ارب روپے قرضہ لیا، جس کے ضمیمہ میں عام آدمی انصاف تو فراہم نہیں ہوسکا لیکن قوم اس قرضے کی اقساط آج بھی ادا کرنے پر مجبور ہے۔

سابق صدر زرداری کے غیر قانونی طور پر ڈیڑھ کھرب روپے اور 22 ارب روپے کمانے کے الزامات کی نیب تحقیق کر رہا ہے، جبکہ اس سے قبل زرداری صاحب پر سرے محل، ایس جی ایس کو ٹیکنا منی لانڈرنگ، عوامی ٹریکٹر سکیم کے تحت 800 ٹریکٹر خریدنے پر کمیشن بنانے اور فرانسیسی کمپنی سے معاہدے میں بھی کمیشن وصول کرنے کا الزام ہے۔ سینیٹ کی فنانس کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ زرداری کے دور میں ایک کھرب روپے کی غیر قانونی ادائیگی براہ راست آئی پی پیز کو کی گئی اور زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم حسین نے 460 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب عالمگیر نے ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیتے ہوئے 24 لاکھ ڈالر کمیشن لیا۔ جس سے لندن میں 4 فلیٹس خریدے۔ حکومتی ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ صرف لاہور شہر کے ایک حصے میں اورنج لائن ٹرین کا بجٹ 162 ارب روپے، صحت کے کل بجٹ سے 8 گنا زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ میں صحت کیلئے 22 ارب 40 کروڑ روپے مختص کئے تھے۔ ہر پاکستانی صحت کیلئے حکومت کا مختص کردہ 110 روپے سالانہ اور ماہانہ 9 روپے فی کس بنتا ہے۔ چیف جسٹس جمالی کے ریمارکس کے بعد اب لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ حکومت کہاں کھڑی ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کر رہا ہے، کشمیر میں بھی صورتحال کافی خراب ہے، کیا کہتے ہیں۔؟
لیاقت بلوچ:
بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ کشمیریوں کی عسکری اور اخلاقی امداد جاری رکھی جائے۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، تب تک بھارت سے مذاکرات فضول ہیں۔ بھارت نے سفارتی محاذ پر پاکستان کیخلاف مہم شروع کر رکھی ہے اور جھوٹ اس تواتر سے بول رہا ہے کہ دنیا سچ سمجھ رہی ہے، اس لئے پاکستان کو اپنے سفارتی محاذ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، فل ٹائم وزیر خارجہ مقرر کیا جائے، حیرت ہے کہ ملک بحرانوں کو شکار ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور ہمارے ملک کو وزیر خارجہ تک نہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم صاحب ہوش کے ناخن لیں اور کل وقتی وزیر خارجہ نامزد کریں اور بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں، ہندو بنیا کا علاج جوتے ہیں، اس لئے بھارت کو کشمیر کے ایشو پر مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ بھارت اگر جارحیت سے باز نہیں آتا تو عالمی سطح پر اس کی جارحیت کو بے نقاب کیا جائے۔ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے کیلئے کام کیا جائے اور عالمی رائے عامہ ہموار کی جائے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان جب بھی مشکل میں آیا ہے، اس نے امریکہ کی طرف دیکھا ہے، اب پاک بھارت کشیدگی میں امریکہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔؟؟
لیاقت بلوچ:
اس سلسلے میں امریکہ سے کوئی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کی مدد نہیں کی۔ جب بھی پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا وقت آتا ہے، امریکہ اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے۔ اس کے برعکس چین نے ہر فورم پر پاکستان کی آواز میں آواز ملائی ہے اور پاکستان کے کاز کی حمایت کی ہے۔ پاکستان نے اس حوالے سے اپنی ناکام خارجہ پالیسی کے باعث ایران، افغانستان اور سعودی عرب کو بھی ناراض کر لیا ہے اور ان کیساتھ بھارت نے اپنے تعلقات مستحکم کر لئے ہیں۔ اگر ہماری وزارت خارجہ میں کوئی وزیر ہوتا اور ہم اپنے ان دوستوں کیساتھ رابطے میں رہتے تو مودی کے وہاں شاندار استقبال نہ ہوتے۔ آج وہ افغانستان جس کیلئے ہم نے تن من دھن لگا دیا، وہ بھی ہم سے صرف اس لئے نالاں ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی ناقص پالیسیاں ہیں، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں فرقہ واریت کیلئے زمینہ سازی کی جا رہی ہے، تکفیری گروہ پھر منظم ہو رہے ہیں، کیا کہیں گے۔؟؟
لیاقت بلوچ:
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ حکمرانوں کی پالیسیوں کی بدولت ملکی نظام تباہ ہوچکا اور عوام بدحال ہیں۔ بیرونی قوتیں ملک میں فرقہ واریت کی آگ لگانا چاہتی ہیں، ملک کو سیکولر بنانے کی سازش کی جا رہی ہے، ایسے میں دینی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہم قیام امن کیلئے کوشش کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ ہم ان بیرونی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پوری قوم متحد ہے اور پاکستان دشمن کامیاب نہیں ہوں گے، اس سازش میں را خصوصی طور پر کام کر رہی ہے، لیکن ہماری قوم بیدار ہے اور سازشوں کا ادراک رکھتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 577225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش