0
Wednesday 26 Oct 2016 09:58
انصاف نہ ہوا تو خون خرابے کا خطرہ بڑھ جائے گا

نواز لیگ کا پارٹی الیکشن مستقبل قریب میں شریف خاندان کیخلاف بغاوت کا سبب بنے گا، جویریہ ظفر آہیر

بیوروکریسی اور حکومت کو نہیں چلنے دیں گے
نواز لیگ کا پارٹی الیکشن مستقبل قریب میں شریف خاندان کیخلاف بغاوت کا سبب بنے گا، جویریہ ظفر آہیر
پاکستان تحریک انصاف خوشاب کی ضلعی صدر جویریہ ظفر آہیر پنجاب کے معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، انکا خاندان ضیاءالحق کے دور سے پاکستانی سیاست میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اسلام آباد شٹ ڈاون کال، مسلم لیگ نون کے انٹرا پارٹی الیکشن، اپوزیشن جماعتوں کی بدلتی حکمت عملی کیساتھ حکمران جماعت کی بڑھتی تنہائی اور تحریک احتساب جیسے ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: 2014ء میں مسلسل دھرنے، رائے ونڈ مارچ اور پھر اسلام آباد بند کرنیکی دھمکی سے بظاہر کوئی تبدیلی یقینی نہیں، لیکن پی ٹی آئی پر اس تحریک کے کوئی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ کیا یہ سب الیکشن کی تیاری کیلئے ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
الیکشن میں دھاندلی سے لیکر مقتدر کرپشن مافیا کے اسکینڈلز کیخلاف ہماری جدوجہد دراصل پاکستان کے استحکام اور عوام کی نجات کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان کے عوام کا خون چوس کر وطن عزیز کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے مفاد پرست یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ عمران خان سیاسی مفادات کے لئے احتجاج کر رہے ہیں، حالانکہ پی ٹی آئی کی جراتمندانہ جدوجہد کے نتیجہ میں پاکستانی عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی، ہمارا یقین ہے کہ اب حکمران ٹولہ اُنھیں مزید فریب دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا، شریف برادران کو اپنی غلط حکمت عملی اور ناقص پالیسیوں سمیت ایوانِ اقتدار سے واپس جانا ہوگا۔ پی ٹی آئی نے سیاست سے کرپشن کے خاتمہ، اداروں کی تطہیر اور عوام کے حقوق کے تحفظ کا عزم کر رکھا ہے، کرپٹ حکمرانوں کو عوامی حقوق غصب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جہاں تک الیکشن کی تیاری کا سوال ہے، حکمران جماعت کو اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے، الیکشن ضرور ہوگا، پی ٹی آئی اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی، آئندہ انتخابات سے پہلے ضروری ہے کہ کرپٹ مافیا کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے، تاکہ عام آدمی کے حافظے میں انکی لوٹ کھسوٹ تازہ رہے، دوسرا یہ کہ چوری کرنے والے کو یہ احساس رہے کہ کوئی اسے پوچھنا والا ہے، دھرنوں، مارچ اور طویل عرصے سے جاری احتجاج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی عوامی جماعت ہے، پاکستان کے عوام کو عمران خان پر اعتماد ہے، لوگ حکمران مافیا سے تنگ آچکے ہیں، تبدیلی یقینی ہے، مستقبل عمران خان کا ہے، کرپٹ پارٹیوں، کرپٹ لیڈروں کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر ملکی مفاد اور استحکام کی بات کریں تو اداروں کی مضبوطی اور تقدس سب سے اہم ہے، لیکن سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران پانامہ لیکس کے ایشو پہ احتجاج عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار ہے؟ حکمران کرپٹ ہیں یا ادارے بھی کرپشن سے آلودہ ہیں۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
سپریم کورٹ کا نوٹس بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے کی طرف پہلا قدم ہے، لیکن پرامن احتجاج کرنا ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ اسلام آباد میں دیا جانے والا دھرنا فیصلہ کر دے گا کہ ملک میں جمہوریت رہے گی یا بادشاہت، یا تو ملک تباہی کی طرف جائے گا یا پھر قائداعظم کے خواب کے مطابق پاکستان کو جدید اور ترقی پسند پاکستان بنانے کی شروعات ہوگی۔ سپریم کورٹ میں کیس شروع ہونے سے احتجاج ختم نہیں ہوگا بلکہ کیس شروع ہونے سے احتجاج کو مزید زور ملے گا۔ اس وقت قوم کی نظریں عدالت پر لگی ہیں، عدالت نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لے بلکہ انصاف کرے، اگر اس بار بھی انصاف نہ ہوا تو عوام خود اٹھیں گے اور ملک میں خون خرابے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ عوام خود اٹھیں گے، بیگناہ لوگ پھانسیوں پر چڑھ جاتے ہیں تو عدالتیں انہیں بری کرتی ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں، پاناما لیکس شرم ناک معاملہ ہے، جو حکمرانوں کے گلے کی زنجیر بن چکا ہے۔ حکمران غریب عوام کی جیبوں پر سرجیکل سٹرائیک کر رہے ہیں۔ خود حکمران اتنا کماتے ہیں کہ مال چھپانے کیلئے جگہ نہیں ملتی۔ اب تو ان کے پاس وقت نہیں ہے، حکمران اب توبہ و استغفار کرکے خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیں۔

اسلام ٹائمز: اس سے تو تصادم کی سیاست شروع ہو جائے گی، ملک میں دہشتگردی جاری ہے، فوج الرٹ ہے، ضرب عضب زیر تکمیل ہے، کیا ملک سیاسی افراتفری اور متشدد احتجاج کا متحمل ہوسکتا ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
پاکستان کے عوام کو بند گلی میں دکھیلنے والے حکمران ہیں، ملک میں بحران کے ذمہ دار نواز شریف اور ان کی ٹیم ہے، جنہوں نے ہر معاملے کو مذاق سمجھا، آج حکمرانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ عوام کو کس طرح مطمئن کریں۔ کرپشن مافیا نے ملکی اداروں کو تباہ کر دیا ہے، لٹیر ے احتساب سے بچنے کیلئے نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہیں، جبکہ قوم ان کا احتساب دیکھنے کیلئے بے چین ہے، 2 نومبر کو عوام کا سمندر اسلام آباد کی سٹرکوں پر ہوگا۔ ہم ایک مجرم کو وزیراعظم کے منصب پر نہیں دیکھ سکتے۔ دنیا میں مثالیں ہمارے سامنے ہیں، ہمارا ضمیر بھی گوارا نہیں کرتا، آئس لینڈ میں احتجاج کے بعد جمہوریت مضبوط ہوئی، پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے، سوئس کیس میں نواز شریف نے آصف زرداری کو بچایا، الطاف حسین نے نواز شریف کا ساتھ دیا، اب آصف زرداری ایک سال، متحدہ بانی 25 سال سے بیرون ملک ہیں، اگر سب کچھ اسی طرح چلتا رہا تو ملک تباہی کی طرف جائے گا۔ قوم 2 نومبر کو کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہوگی، تمام جماعتوں کو دعوت دی ہے، یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، اگر حکومت نے گرفتار کیا یا تشدد کا راستہ اختیار کیا تو اس کا ردعمل آئیگا۔ ہمیں تھوڑی مشکلات کا سامنا ہوگا، لیکن اس سے آگے آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ہم جائز مطالبے کے لئے دبائو ڈال رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وزیراعظم ہیں۔ تصادم نون لیگ چاہتی ہے، تحریک انصاف کا احتجاج تاریخی نوعیت کا ہوگا، کارکن گرفتاریوں سے بچنے کی پوری کوشش کریں گے، لیکن حکومتی ہتھکنڈوں سے کسی طور مرعوب نہیں ہوں گے۔ نون لیگ چاہتی ہے کہ عوام اور پولیس آپس میں لڑیں، تاکہ وزیراعظم کو بچ نکلنے کا موقع ملے، تحریک انصاف مکمل طور پر پرامن رہے گی، مگر حکومتی جبر کسی طور گوارا نہیں کریں گے، کرپشن کیخلاف فیصلہ کن معرکے کیلئے پوری طرح تیار ہیں، اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

عمران خان کی کال پر 2 نومبر کو عوام کا سیلاب اسلام آباد پہنچے گا۔ تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فائنل راؤنڈ کھیلنے کیلئے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں، منفی ہتھکنڈے ہمیں خوف زدہ نہیں کرسکتے۔ نون لیگ کی کرپٹ حکومت آخری سانسیں لے رہی ہے۔  باشعور قوم حکمرانوں کی اصلیت جان چکی ہے۔ ان کا اقتدار اب محض چند روز کا مہمان ہے۔ اسلام آباد کا میچ سب سے بڑا ہے، نہ عمران خان کبھی جھکا اور نہ پاکستانی قوم جھکے گی۔ دو قومی نظریہ والا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، 2 نومبر کو 10 لاکھ لوگ اسلام آباد لے کر جائیں گے، کشتیاں جلا کر اسلام آباد پہنچیں گے اور نواز شریف سے استعفٰی لیں گے۔ ہم تب تک اسلام آباد رہیں گے جب تک نواز شریف استعفٰی یا تلاشی نہیں دے دیتے، حکمران پہلے جدہ چلے جاتے تھے، اب نہیں جاسکیں گے، پی ٹی آئی کے کارکن گرفتاریوں سے ڈرنے والے نہیں۔ ہمارا صبر، عزم اور حوصلہ ظلم و جبر کی داستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بنا دے گا۔ حکومت جتنا زیادہ زور لگائے گی، 2 نومبر کو عوام اتنی زیادہ تعداد میں نکلیں گے۔ حکومت خود ہی اسلام آباد کو بند کرکے ہمارا کام آسان کر رہی ہے۔ آندھی آئے یا طوفان، پی ٹی آئی کے کارکن 2 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ حکمرانوں کا کوئی حربہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتا۔ کارکن سروں پر کفن باندھ کر کرپشن کے خلاف جاری تحریک احتساب کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے۔ صرف ہسپتال کے راستوں، ایمبولینسز اور روزمرہ چیزیں خریدنے کی جگہوں کو کھلا رکھیں گے، ڈپلومیٹک برادری کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی، لیکن بیوروکریسی اور حکومت کو نہیں چلنے دیں گے، سرکاری دفاتر کو جانے والے راستوں کو بند رکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایم ایف چیف کرسٹین لغراد نے کہا کہ مالیاتی اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہے اور وہ یقیناً معاشی بحران سے نکل چکا ہے، آپ کیا کہیں گی۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
 نا اہل حکمرانوں نے معیشت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ معاشی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں، پاکستان کے اہم ادارے گروی رکھ کے ملکی نظام چلایا جا رہا ہے، میگا پراجیکٹس کی آڑ میں لوٹ مار اور اقربا پروری کا بازار گرم ہے۔ کرپشن کے باعث سرمایہ کار پاکستان نہیں آتے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنایا جائے، ان کا کہنا تھا کہ کرپشن کے عالمی انڈیکس میں پہلے نمبروں پر آنے والے ممالک سے عالمی سرمایہ کار دور رہتے ہیں، لہذا پاکستان کو کرپشن پر قابو پاکر سرمایہ کاری کیلئے ماحول کو ابتر بنا دیا گیا ہے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ 19 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے اور اس پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہونے والی رقم ملک کے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے بھی بڑھ گئی ہے، پاکستان میں سالانہ 20 لاکھ نوجوان ملازمتیں تلاش کرنے کیلئے ملکی معاشی مراکز کا رخ کر رہے ہیں، لیکن ملکی معیشت انہیں روزگار فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا ایشو کرپشن ہے۔ کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری آئیگی۔ شریف فیملی نے ملک کا قرض اتارنے کی بجائے صرف اپنی اولادوں کو سنوارا ہے۔ انکی تعریف عالمی اداروں نے کی ہے، پاکستانی عوام کے لئے دو وقت کی روٹی مشکل ہوگئی ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ ملک کے عوام کیا کہتے ہیں۔ کرپٹ طبقے نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنا رکھا ہے، فرسودہ نظام کے باعث عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، تعلیم و صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، حکمران قرضے لے کر عیاشیاں کرتے ہیں، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں اور ملک میں غربت و جہالت کا راج ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے ریکارڈ قرض لیکر بہترین وزیر خزانہ کا اعزاز پایا لیکن ہماری آئندہ نسلوں پر قرضوں کا کوہ ہمالیہ لاد دیا۔ قرضے لے لیکر تمام دولت حکمران اپنے اللے تللوں اور عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف جمہوری وزیراعظم ہیں اور اب تو نون لیگ کے انٹرا پارٹی الیکشن میں انہیں بلامقابلہ صدر بھی منتخب کیا گیا ہے، پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جمہوریت نہیں بادشاہت ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
یہ الیکشن صرف دکھاوا ہے، جہاں ایک ہی خاندان کی بادشاہت ہے۔ مستقبل قریب میں نواز لیگ کا پارٹی الیکشن بغاوت کا سبب بنے گا اور نون لیگ کے زوال کے اسباب میں سے ایک ہوگا۔ یہ صرف ایک نمائشی الیکشن تھا، یہ انتخاب جمہوریت کی روح کے منافی تھا اور تخت رائیونڈ کو مضبوط کرنے کے مترادف تھا، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ نواز اور شہباز کے مقابلے میں کسی پارٹی رکن نے کاغذات جمع نہیں کرائے۔ نون لیگ دراصل ایک خاندان کی پارٹی ہے، جس میں ماموں، بھانجا، سمدھی و دیگر رشتہ دار ہیں، حالانکہ پنجاب کا صدر پسماندہ اضلاع میں سے ہونا چاہیے تھا، تاکہ جنوبی پنجاب میں جو احساس محرومی پایا جاتا ہے، اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی۔ مستقبل قریب میں نواز لیگ ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو جائے گی۔ عوامی شعور کیساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں میں بھی بیداری کی ضرورت ہے، یہ سایسی کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے، پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب کے وہ لوگ جو پندرھویں کھلاڑی کی حیثیت سے انکی ٹیم کا حصہ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ شریف خاندان کے عزائم سمجھ کر الگ ہو جائیں اور اپنے اپنے حلقوں کے لوگوں کے حقوق کی بقاء کیلئے اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کریں۔

اسلام ٹائمز: ملتان میں میٹرو سمیت جنوبی پنجاب میں ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں، وزیراعظم تو جنوبی پنجاب کے لوگوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے آنسو بہا رہے تھے، مزید کیا ہوسکتا ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
احتساب کا ڈر اور استعفٰی کا خوف ہے، جسکی وجہ سے آنسو بہا رہے ہیں، ایک ظالم کیسے رو سکتا ہے، لوگوں کا خون چوسنے والے اور لوٹ مار کرنے والے نتے نئے ڈرامے کرکے لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمران غریبوں کی غربت پر ٹسوے بہا رہے ہیں، وزیراعظم صحت کی سہولیات پہ کیوں رو رہے ہیں، یہ کیسا مذاق ہے، برس ہا برس سے پنجاب پر شریف خاندان کی حکمرانی ہے اور میاں نواز شریف ہوں یا میاں شہباز شریف کو پنجاب کی حکمرانی کے دوران کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، اس کے باوجود پنجاب میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے، ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے اور لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر لیٹے تین تین مریض بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں، کیونکہ برآمدوں میں بے یارو مددگار پڑے مریضوں سے وہ بہرحال بہتر ہیں۔ لیکن شریف خاندان کی خاندانی قیام گاہ جاتی امرا کے پڑوس میں رائیونڈ ہسپتال کی حالت زار پر میاں شہباز شریف کا اظہار برہمی، پنجاب کے مضافاتی شہروں اور قصبوں میں طبی سہولتوں کے فقدان اور محکمہ صحت کی ناقص کارگزاری کا ثبوت مُنہ بولتا ہے۔ 1985ء سے اب تک حکومت پنجاب کے صوبائی خزانے سے چلنے والی تشہیری مہم کا ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو قصباتی مراکز صحت بھی آغا خان ہسپتال اور شوکت خانم ہسپتال کے ہم پلّہ ہونے چاہئیں۔ دوسری طرف اربوں روپے صرف تشہیری مہم پر خرچ ہوئے، مگر وزیراعلٰی پنجاب رائیونڈ اور قصور کے ہسپتالوں میں طبی سہولتوں کی کمی اور بدترین کارگزاری پر برہم ہیں اور گداز قلب و غریب نواز، وزیراعظم کو رونا آ رہا ہے۔ یہ نہیں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیمی اور طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اورنج ٹرین، موٹر وے، میٹرو بسوں کے لئے وسائل دستیاب ہیں، حکمرانوں کی عیش و عشرت اور بے مقصد بیرونی دوروں کے لئے روپے پیسے کی کمی نہیں اور ان کی خدمت پر مامور بیوروکریسی کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے بھی خزانہ بھرا ہے۔ مگر غریب آدمی کو تعلیم و صحت کے لئے فنڈز درکار ہوں تو کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ نجی طبی اور تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں، مگر سرکاری شعبے کی حالت پتلی ہے، اتنی پتلی کہ میاں صاحب کو بھی رونا آگیا۔ کاش وہ اپنے گریبان میں جھانکتے کہ طبی شعبے کی یہ حالت کن حکمرانوں کی غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے اور انہوں نے اب تک اس پر توجہ کیوں نہیں دی۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کے سابق صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے الزام لگایا ہے کہ عمران خان غیر ملکی قوتوں کے کنٹرول میں ہیں اور انکا ایجنڈا وزیراعظم کو غیر آئینی طریقے سے بے دخل کرنا ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
یہ تو مخدوم صاحب کو بھی نظر آ رہا ہے کہ کون کس کے سہارے لے رہا ہے، کرپٹ کون ہے اور ہمارا دشمن کون ہے، جو پاکستان کی اندر اور باہر سے کمزور کرکے ختم کرنا چاہتا ہے، جب بھی احتجاج کرتے ہیں تو مودی نواز شریف کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے پہلے ہی کام آر پار ہو جائے گا۔ نواز شریف خود کو پاناما لیکس سے بچانے کے لئے بھارتی و اسرائیلی لابی سے مدد مانگ رہے ہیں، جب بھی نواز شریف کے خلاف تحریک شروع ہوتی ہے تو ایل او سی پر گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے، مودی نواز شریف کو سپورٹ کر رہا ہے، یہ لوگ کہتے تھے کہ بے نظیر ملکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ نواز شریف سے بڑا خطرہ کیا ہوگا۔ موجودہ حکومت فوج کو بھی بدنام کر رہی ہے اور نواز شریف کا اپنی فوج کو تنہا کرنے سے بڑا سکیورٹی تھریٹ کیا ہوسکتا ہے جبکہ اس وقت فوج کا کردار اہم ہے۔ پاک فوج پر حملے ہو رہے ہیں اور نواز شریف خاموش ہیں۔ قومی سلامتی کے اجلاس کی خبر لیک کرنیوالوں کیخلاف تحقیقات خفیہ رکھنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے، قومی سلامتی کے ان کیمرہ اجلاس کی خبر منصوبہ بندی کے تحت لیک کی گئی اور خبر لیک کروا کر دنیا بھر میں پاک فوج کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اب عوام خود فیصلہ کریں گے کہ کون غیر ملکی ایجنڈے پہ عمل کر رہا ہے، کرپشن کیخلاف جہاد کرنے والے یا فوج کیخلاف سازش کرنے والے۔

اسلام ٹائمز: اعتزاز احسن اور خورشید شاہ نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر سیاسی کارکنوں کیخلاف تشدد ہوا تو انکی پارٹی جموریت بچانے کیلئے نہیں آئیگی؟ کیا پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی آپس میں اتحاد کرچکی ہیں۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے چار مطالبات منوانے کے لئے عمران خان کی احتجاجی تحریک سے پیدا ہونے والے دباو سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے، آصف زرداری کی طرح وزیراعظم اپنے خاندان کی کرپشن بچانے کے لئے قومی ادارے تباہ کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس موقع پر مصالحتی سیاست کی تو نواز شریف اسے ایک بار پھر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیں گے۔ تخت رائے ونڈ کو صرف عمران خان سے خطرہ ہے، بلاول نے جرأت مندانہ سیاست کا آغاز کیا، لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس پالیسی کو رول بیک کرنا پڑا، جس سے جیالوں کو مایوسی ہوئی اور اب وہ بھی دوسری جماعتوں کا رخ کر رہے ہیں۔ جو جماعتیں اپنی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں، وہ ملک میں کیا جمہوریت لائیں گی۔ سندھ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا، لیکن اس وقت سب سے زیادہ غربت سندھ میں ہے۔ حکومت ملک گروی رکھ کر ترقی و خوش حالی کے خواب دیکھ رہی ہے، یہ صورت حال برقرار رہی تو کرپٹ سیاستدانوں کی جمہوریت کو کفن پہنانے والا بھی کوئی نہیں رہے گا۔

اسلام ٹائمز: قومی ایکشن پلان میں تمام جماعتیں شریک تھیں، لیکن دہشتگردی ختم نہیں ہوئی، کیا اسکی ذمہ دار صرف حکومت ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
دہشت گردی کے اندرونی عوامل بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ سب سے زیادہ کردار بھارت کا ہے، مودی بلوچستان میں گڑبڑ کروا رہا ہے، لیکن حکمران کشمیر کی صورتحال پر مکمل خاموش ہیں، جو حکومت کبوتروں سے ڈرتی ہے، ہمارے حکمران اس حکومت سے بھی ڈرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام شیر ہیں، لیکن قیادت گیدڑوں کے ہاتھ میں ہے۔ فوج نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا ہے، اسی لئے کوئٹہ جیسے واقعات ہو رہے ہیں، انکے پیچھے بھارت ہے، اب بھی 2 لاکھ سے زائد افواج ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کیلئے پاکستان کے شمالی حصہ میں تعینات ہیں۔ دہشت گردی نے ملکی ترقی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے پر ہی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ہے۔ فوج نے اپنا فرض تقریباً ادا کر دیا ہے۔ اب سول حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، اس وقت ملک کے اندرونی سیاسی حالات تشویشناک ہیں۔ مکمل قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے بغیر، سی پیک جیسے میگا پراجیکٹ مطلوبہ رفتار سے جاری نہیں رہ سکتے۔ عوام توقع رکھتے ہیں کہ سیاسی قوتیں فوج کی کامیابیوں کو رائگاں نہیں جانے دیں گی۔ آپریشن ضرب عضب کے ضمن میں افسوسناک بات یہ ہے کہ سول اداروں اور محکموں کو جس کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کر پائے۔ نیشنل ایکشن پلان کی کئی شقیں عملدرآمد کی محتاج ہیں۔
خبر کا کوڈ : 578156
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش