0
Wednesday 26 Oct 2016 14:30

پاکستان گیس پائپ لائن مکمل کرے، ایران پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی شامل ہوگا، عباس بدری فر

پاکستان گیس پائپ لائن مکمل کرے، ایران پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی شامل ہوگا، عباس بدری فر
عباس بدری فر اس وقت اسلام آباد میں قائم ایرانی سفارتخانے میں بطور سیکنڈ قونصلر ہیں اور سفارتخانے کے ترجمان کی حیثیت بھی کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے عباس بدری فر سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں حائل رکاوٹوں اور موجودہ اسٹیٹس سمیت دیگر معاملات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن کا موجودہ اسٹیٹس کیا ہے۔؟
عباس بدری فر:
میں آپ کی آمد پر بہت شکر گزار ہوں، جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اتنا بتاتا چلوں کہ گیس پائپ لائن منصوبے کا موجودہ اسٹیٹس جوں کا توں ہے، آخری اجلاس میں پاکستان کے وزیر پیٹرولیم شاہد خان عباسی نے ایران کو یقین دہانی کرائی تھی کہ چھ ماہ میں پاکستان اپنے حصے کا کام شروع کر دے گا، لیکن تاحال اس پر کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ ایران اپنا کام مکمل کرچکا ہے اور اس بارے میں ہمارے محترم سفیر مہدی ہنردوست کئی بار اس بات کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اس منصوبے کی اہمیت کو جانتے ہوئے اپنے حصہ کام جلد شروع کرے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی حکام اس منصوبے میں تاخیر کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں، ایک یہ کہ ایران پر عالمی پابندیاں ہیں، دوسرا یہ کہ کوئی بھی کمپنی اس منصوبے پر کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
عباس بدری فر:
ہنستے ہوئے، آپ جانتے ہیں کہ ایران پر عالمی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں، اب یہ جواز بنتا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ترکی کیوں ہم سے گیس خرید رہا ہوتا، اسی طرح آرمینیا گیس درآمد کر رہا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پاکستان قطر سے ایل پی جی خرید رہا ہے، جو ایران کی گیس سے کہیں مہنگی ہے، اس کی نقل و حرکت، ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال، پھر اس کی قیمت اور ٹرانسپوٹیشن کے اخراجات الگ ہیں، اس لحاظ سے ایران کی گیس تو کہیں زیادہ سستی ہے۔ معاہدے کے مطابق پاکستان 2014ء میں یہ منصوبہ مکمل کرنے کا پابند تھا اور ہم دی گئی تاریخ پر عدم تکمیل پر جرمانے کا کلیم کرسکتے تھے، لیکن ہم نے دوستانہ تعلقات اور اسلامی روایات کی بنیاد پر ایسا نہیں کیا۔ نہ ہی پاکستان سے جرمانہ مانگ رہے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ایران نے اربوں ڈالر اس منصوبے پر انویسٹ کئے ہیں، آپ اپنے حصہ کا کام مکمل کریں، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اس وقت دہشتگردی کی لعنت سے لڑ رہا ہے، اسی وجہ سے ہم نے پاکستان کو یہ رعایت دی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران کو کیا لگتا ہے کہ یہ منصوبہ کیوں تاخیر کا شکار ہے، جبکہ آپ کہہ رہے ہیں عالمی پابندیاں بھی اٹھ چکی ہیں۔؟
عباس بدری فر:
جی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عزم کی کمی ہے، جس کے باعث یہ منصوبہ تکمیل کی طرف نہیں بڑھ رہا، اگر ترکی اور آرمینیا پابندی کے دنوں میں بھی ایران سے گیس درآمد کرسکتے ہیں تو یہاں یہ مشکل کیوں پیش آ رہی ہے، جبکہ اب تو پابندیاں بھی اٹھ چکی ہیں۔ بہرحال فی الحال تو مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیاسی عزم کی کمی ہے، جس دن انہوں نے اپنے عزم کے ساتھ اس منصوبے پر کام شروع کیا تو یہ معاملہ ختم ہو جائیگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ ہم ایران سے درخواست کرینگے کہ گیس کے نرخوں پر نظرثانی کریں، کیا ایران اس کیلئے تیار ہے۔؟
عباس بدری فر:
عجیب ہے کہ ایک معاہدہ ہوچکا ہے، اس کی تمام جذیات طے ہوچکی ہیں، ان جذیات کے طے ہونے کے بعد اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے، اس کے بعد ایران اپنی پائپ لائن بچھا چکا، اب یہ گیس کے نرخوں پر بات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، ایران ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گا۔ جیسے میں نے کہا کہ ایرانی گیس قطر سے درآمد کی جانی والی ایل این جی سے کہیں سستی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ روس کے بعد ایران دوسرا بڑا ملک ہے، جس کے پاس گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ آپ اس منصوبے کو مکمل کریں اور اپنے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور توانائی بحران پر قابو پاکر اپنی معیشت کو بہتر بنائیں۔ اس سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہے۔ یہاں پر ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، افرادی قوت کھپے گی۔

اسلام ٹائمز: شروع میں بھارت بھی اس منصوبے کا حصہ بننا چاہتا تھا، لیکن سیاسی معاملات خراب ہونے کے بعد وہ اس منصوبے سے نکل گیا تھا، کیا اب بھی اگر بھارت چاہے تو اس منصوبے میں شامل ہوسکتا ہے۔؟
عباس بدری فر:
جی بالکل کیوں نہیں، اگر بھارت چاہے اور تینوں فریقین آپس میں مل بیٹھیں تو اس پر بات کی جاسکتی ہے، لیکن اس پر تینوں فریقین کا راضی ہونا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: خبر ہے کہ ایران چین اقتصادی راہداری منصوبہ میں شرکت کا خواہاں ہے۔؟
عباس بدری فر:
جی بالکل، ہم کہتے ہیں کہ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرو، ہم تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، اس منصوبے سے پورے خطے کا فائدہ ہے۔ پاکستان کو سنٹرل ایشیاء تک رسائی ملے گی۔ ایران کئی ملکوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: چاہ بہار اور گوادر کے بارے میں میڈیا کا بعض حصہ منفی پروپیگنڈا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چاہ بہار گوادر کے مقابلے میں تعمیر کی جا رہی ہے اور بھارت اس میں کام کر رہا ہے۔؟
عباس بدری فر:
دیکھیں یہ منفی پروپیگنڈا دشمن کی جانب سے ہو رہا ہے۔ چاہ بہار اور گوادر ایک دوسرے کی معاون پورٹس ہوسکتی ہیں لیکن مدمقابل نہیں۔ دوسرا یہ کہ بھارت کی چاہ بہار میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں ہے۔ نہ ہی ایران اپنے کسی ہمسائے ملک کے خلاف کسی کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے کمزور کرے۔ یہ فقط اور فقط منفی پراپیگنڈا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ روز کوئٹہ میں ایک بڑا سانحہ پیش آیا ہے، ایران اس پر کیا کہتا ہے۔؟
عباس بدری فر:
ایران اس سانحہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے، یہ لوگ انسانیت کے قاتل ہیں، ایک انسان جنت کی لالچ میں دوسرے انسان کا قتل کر دے اور وہ یہ سوچے کہ وہ دوسرے کو قتل کرکے جنت جائیگا، کتنا عجیب ہے۔ مجھے تو بہت ہی عجیب لگتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان اور ایران کے درمیان فری ٹریڈ کے حوالے بات چیت کا آغاز ہوا تھا۔ اس پر کیا پیش رفت ہوئی ہے۔؟
عباس بدری فر:
جی بالکل، صدر روحانی کے دورہ پاکستان کے موقع پر اس معاملے پر بات ہوئی تھی، ایران کی جانب سے اس معاملے پر سفارشات اور تجاویز پاکستانی حکام کے حوالے کر دی گئی ہیں، اب پاکستان کی تجاویز کا انتظار ہے۔ اس کے بعد تہران میں اس پر دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان اجلاس ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 578511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش