0
Friday 28 Oct 2016 23:07
اسٹیبلشمنٹ کو پندرہ بیس تیس سالوں بعد چہروں کی تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے

نواز حکومت عسکری اسٹیبلشمنٹ کیساتھ سودے بازی کرکے اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جائیگی، عباس عالم

اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں جماعتیں تو رہیں لیکن انکی تجربے کار قیادتوں کو اب مائنس ہونا چاہیئے
نواز حکومت عسکری اسٹیبلشمنٹ کیساتھ سودے بازی کرکے اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جائیگی، عباس عالم
کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی عباس عالم تجزیہ کار و کالم نگار ہیں، وہ ملک کے معروف اخبار روزنامہ جسارت سے منسلک رہ چکے ہیں، جہاں وہ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ فارن ڈیسک کے انچارج بھی رہ چکے ہیں، اس کے ساتھ وہ معروف انگریزی اخبار اسٹار میں بھی نیوز رپورٹنگ اور کالم نگاری انجام دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تجزیئے و کالم کئی ملکی اخبارات و جرائد کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ وہ آن لائن جرنل ازم کے حوالے سے بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے جناب عباس عالم کے ساتھ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے انکے دفتر میں مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف کی نواز حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے حوالے سے کیا کہیں گے، آزاد ہے یا کسی کے اشارے پر ہو رہی ہے۔؟
عباس عالم:
تحریک انصاف کی جس طرح سرگرمیاں جاری ہیں، اسے تھوڑی سی دقت کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو یہ آزاد نظر نہیں آتی، اس وقت تحریک انصاف، طاہر القادری، مسلم لیگ قائد اعظم کی تحریکیں بیک وقت جاری ہیں، اس کے مقابلے میں جو نواز لیگ کا ردعمل نظر آتا ہے، ان دونوں میں یکسانیت نظر آتی ہے، پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق یہ سب ایک خاص قسم کا اسٹیج ڈرامہ نظر آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی تحریک عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہو رہی ہے کہ جو نواز حکومت کو دباؤ میں لاکر اپنی مرضی کا نیا آرمی چیف لانے سمیت اپنی باتیں منوانا چاہتی ہے۔؟
عباس عالم:
ہوسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہو کہ نواز شریف نہ رہے، ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں، نواز شریف ہوں، الطاف حسین ہوں، آصف زرداری ہوں یا کوئی اور، جو بیس پچیس سالوں سے کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی سطح پر اقتدار میں ہیں، اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اب یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں تو نہیں ہیں بلکہ اب یہ عالمی قوتوں کے بھی کنٹرول میں ہیں ایک ہی وقت میں، یہ کچھ کام وہ کر رہے ہوتے ہیں جو انہیں باہر سے ملتے ہیں اور کچھ وہ کام جو لوکل مل رہے ہوتے ہیں، لیکن لوکل انتظامیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس کے کنٹرول میں ہوں، اس لئے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انہیں چہرہ تبدیل کرنا ہوتا ہے، کیونکہ جب نیا چہرہ آتا ہے تو اس ملک سے باہر تعلقات قائم کرنے میں پھر دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں اور اسی طرح عالمی طاقتوں کو بھی اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں، اب جو پاکستان میں مائنس ون فارمولا چل رہا ہے، اسے بھی اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نظر آ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مائنس الطاف ایم کیو ایم، مائنس زرداری پیپلز پارٹی اور مائنس شریف برادران مسلم لیگ پر کام کر رہی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
عباس عالم:
جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا، اس تناظر میں یہ بالکل ہوتا نظر آ رہا ہے، پچھلے تیس سالوں سے آپ کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا، یہ سارے سیاسی کھلاڑی تیس سال پہلے میدان میں اترے تھے، زرداری، نواز شریف اور الطاف حسین، لہٰذا اب اسٹبلشمنٹ کو ایسے سیاسی کھلاڑیوں کے ڈیل کرنا پڑ رہا ہے جو تیس سال پرانے ہیں، جن کے اندرونی و بیرونی تعلقات قائم ہیں، لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خصوصاً انہیں اپنے اشاروں پر نچانے میں، لہٰذا وہ انہیں تبدیل کرکے نئے چہرے سامنے لانا چاہتے ہیں، جنہیں نہیں پتہ ہوتا کہ یہ سارا گیم کیسے کھیلا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کی نظر میں جماعتیں تو رہنی چاہیے، لیکن ان کی تجربے کار قیادتوں کو اب مائنس ہونا چاہیئے، جن کے باعث انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے کہے کہ بھارت سے تعلقات ختم کر لو اور نواز شریف انہیں ختم کرنے کا کہہ بھی دیں، لیکن جو دوستی اور تعلقات اتنے عرصے پر محیط ہو، وہ پھر دوبارہ کسی بھی وقت استوار ہوسکتے ہیں، لہٰذا نواز شریف یہ ان جیسے دیگر سیاسی کھلاڑیوں پر اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد کی سطح ویسی نہیں ہوسکتی، جو کسی نئے چہرے پر ہوسکتی ہے، جس کے نہ تو بیرونی تعلقات اتنے موثر ہوتے ہیں اور نہ ہی تجربہ۔

اسلام ٹائمز: اگر سیاسی کھلاڑی بیس تیس سال اقتدار سمیت سیاسی منظر نامے میں رہنے کے باوجود بیرونی قوتوں سے تعلقات استوار نہیں کرتیں تو اسٹیبلشمنٹ کو مائنس فارمولے کی ضرورت نہیں ہوتی۔؟
عباس عالم:
جب آپ اتنا عرصہ سیاسی منظر نامے میں کام کرتے ہیں تو آپ کے اندرونی و بیرونی تعلقات قائم ہو ہی جاتے ہیں، یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کے تعلقات نہ ہوں، یہ بات سوچنا بیکار ہے کہ اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو کیا ہوتا، جب آپ تیس سال عالمی سطح پر آئیں جائیں گے تو آپ کہ تعلقات قائم ہوں گے، آپ جہاں ان عالمی طاقتوں سے فائدہ اٹھائیں گے تو وہ بھی آپ سے اپنے کام کروائیں گی، عالمی قوتوں کو بھی ان سیاسی کھلاڑیوں سے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ جب وہ اسٹیبلشمنٹ سے یا عسکری اسٹیبلشمنٹ سے کسی معاملے میں اس وقت بہتر معاملات یا مذاکرات کرسکیں گے کہ جب ان کے پاس پاکستان میں ان جیسے کھلاڑیوں کی صورت میں کئی آپشنز ہوں، تاکہ وہ اس بنیاد پر اثر و رسوخ کو استعمال کرسکیں، اس طرح فوج یا اسٹیبلشمنٹ ان عالمی قوتوں کے سامنے تھوڑا سا دباؤ میں رہتی ہے، لیکن اگر عالمی طاقتوں کے پاس ملک میں کوئی آپشن نہ ہو تو فوج یا اسٹیبلشمنٹ اپنی شرائط و ضوابط پر باتیں منوا سکتی ہیں۔ اسی لئے اسٹیبلشمنٹ کو پندرہ بیس تیس سالوں بعد چہروں کی تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ صورتحال صرف پاکستان کی حد تک نہیں ہے، تقریباً دنیا میں یہ صورتحال پائی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کا مستقبل کیا نظر آتا ہے۔؟
عباس عالم:
نواز حکومت اگر اقتدار کھو دیتی ہے تو اس کا دوبارہ اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہوگا، یہ بات شریف برادران کو بھی معلوم ہے، ان کے پاس کوئی ایسا نظریہ یا اصول بھی نہیں ہے کہ جسے بچانے کی خاطر وہ اقتدار کو قربان کر دیں، یعنی اپنے نظریات و اصولوں کو قربان نہیں کرسکتے، چاہے حکومت جائے تو جائے۔ لہٰذا اس وقت ایسی کون سی چیز نواز حکومت کے پاس ہوسکتی ہے کہ حکومت چلی جائے لیکن ہم انہیں قربان نہیں کرسکتے۔ لیکن ہمیں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے اقتدار کی بقا کیلئے کوئی سودے بازی نہ کریں، لہٰذا حکومت اگر چلی جاتی ہے تو یہ بہت دلچسپ بات ہوگی کہ آخر ایسی کیا بات تھی، کیا شرط تھی کہ جسے نواز حکومت حل نہیں کرسکی، کہاں پر آ کر یہ جھک نہیں سکے، میرا اپنا خیال ہے کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ سے نواز حکومت کی ڈیل ہو جائے گی یا ہو جانی چاہیئے، نواز حکومت اسٹیبلشمنٹ یا عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کرکے اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 579140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش