0
Wednesday 9 Mar 2011 02:29

پاکستان میں تمام مسائل اور دہشت گردی کا ذمہ دار امریکہ ہے، جب تک یہ پاکستان میں موجود رہے گا، یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا، سید رحمن شاہ

پاکستان میں تمام مسائل اور دہشت گردی کا ذمہ دار امریکہ ہے، جب تک یہ پاکستان میں موجود رہے گا، یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا، سید رحمن شاہ
سید رحمن شاہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر ہیں اور کراچی یونیورسٹی میں آئی آر میں ماسٹر کر رہے ہیں۔ اس سے قبل آپ مرکزی کابینہ میں بطور سینئر نائب صدر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ سندھ کے صوبائی صدر اور ڈویژنل صدر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ رحمن شاہ کی ملکی وبین الاقوامی حالات پر گہری نظر ہے اس کے علاوہ آپ پاکستان کے شیعہ طلبہ کی واحد نمائندہ تنظیم کے مرکزی مسئول ہیں جس کی وجہ سے ان پر ملّی حوالے سے بھی کافی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں تنظیم کے بانی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی کے سلسلہ میں وہ لاہور آئے ہوئے تھے تو ”اسلام ٹائمز“ نے ان سے خصوصی گفتگو کی۔ جو قارئین کے لئے پیش کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز:آپ موجودہ حکومت اور پاکستان کو اس وقت کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟
رحمن شاہ: مولائے متقیان ع کا فرمان ہے کہ” حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے ظلم سے نہیں“ اس وقت پاکستان ظلم و بربریت کی آگ میں گھرا ہوا ہے۔ مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان ہے، بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔ ان تمام مسائل اور مشکلات کا ذمہ دار ہماری نظر میں امریکہ ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں کے تحت ملک میں جو بھی کام ہو گا اس کا فائدہ امریکہ اور ان مالیاتی اداروں کو ہو گا۔ یہ ادارے اور امریکہ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کی نظر میں پاکستان سونے کی چڑیا ہے اور اس کو وہ کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہم پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے ہیں، جن کو عوام کا ذرہ بھر احساس نہیں، اگر احساس ہوتا تو یقیناً ہمارے یہ مسائل نہ ہوتے۔
اسلام ٹائمز:شاہ صاحب آپ ریمنڈ ڈیوس کے کیس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
رحمن شاہ:ریمنڈ ڈیوس کا کیس پاکستان کی سالمیت پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ اگر حکومت ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ گستاخی رسول ص ہو گی۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو گستاخانہ خاکے شائع کرتے ہیں، قرآن مجید کو نذرآتش کرتے ہیں، شعار اسلام کی توہین کرتے ہیں اور آزادی صحافت کا نام دے کا خود کو اس اوچھی حرکت سے الگ بھی کر لیتے ہیں۔ اگر ریمنڈ ڈیوس یہاں سے بچ کر چلا گیا تو یہ دوسرے ایجنٹوں کے لئے لوٹ سیل کا پیغام ہو گا کہ آو اور پاکستان میں جس کو مرضی چاہو گولیاں مار دو اور باعزت بری ہو جاو۔ اس کے علاوہ صرف ایک شخص کے لئے امریکہ کے صدر تک کو فکر لاحق ہو گئی ہے۔ اس سے ہمارے حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ اس سے ضرور سبق سیکھیں کہ اپنے لوگ کتنے اہم ہوتے ہیں، مگر ان کے لئے اپنے عوام سے زیادہ امریکی مفادات اہم ہیں، اسی لئے تو ایمل کانسی اور یوسف رمزی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ نواز شریف اس ایشو پر اس لئے زیادہ نہیں بول رہے چونکہ ایمل کانسی کو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ ریمنڈ ڈیوس کو قرار واقعی سزا دے۔ اگر اسے رہا کیا گیا تو یہ پاکستان، پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ یہ ملکی سالمیت کے لئے خطرہ ثابت ہو گا۔ اور پاکستان کے عوام کسی طور یہ نہیں چاہتے کہ ریمنڈ رہا ہو۔ لہذا حکمران امریکہ کی بجائے عوام کی رائے کا احترام کریں۔
اسلام ٹائمز:شاہ صاحب، جان کیری کادورہ ہوا اور وہ بھی مایوس گیا، کیا اس سے نہیں لگتا کہ حکومت ریمنڈ کو سزا دینے کا فیصلہ کر چکی ہے؟
رحمن شاہ: ایسا کہنا قبل از وقت ہو گا۔ پاکستانی حکومت اور ادارے امریکی قاتل ریمنڈ کو نکالنے کی کوشش کریں گے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی عوامی توجہ ہٹانے کے لئے آپس میں لڑیں گے جو کہ ایک ”بیاناتی جنگ “ جاری ہے۔ اسی جنگ کاسلسلہ جاری رہے گا۔ عوام ان کے بیانات سے لطف اندوز ہوں گے اور یہ ریمنڈ کو کسی کنارے لگا دیں گے، ممکن ہے واپس امریکہ ہی بھیج دیں۔ لیکن عوام کا دباﺅ بہرحال موجود ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مقتولین کے ورثاء کو لالچ دے کر خرید لیا جائے، عدلیہ سے بھی مک مکا ہو سکتا ہے۔ پولیس کو بھی خریدا جا سکتا ہے اور ضمنیاں اتنی کمزور لکھوائی جائیں گی جن میں وہ عدالت سے باعزت بری ہو جائے گا۔ یہاں میں سمجھتا ہوں کہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ایشو سے توجہ نہ ہٹائے بلکہ اس پر مسلسل کڑی نظر رکھیں اور اس قومی مجرم کو سزا دلوا کر ہی دم لیں۔
اسلام ٹائمز:شاہ صاحب، وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔؟
رحمن شاہ: شہباز بھٹی کا قتل بھی امریکی سی آئی اے کی کارستانی ہے۔ یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ اسلام آباد میں سخت ترین سیکیورٹی انتظامات ہیں۔ ہر داخل ہونے والی گاڑی کی سخت تلاشی لی جاتی ہے۔ اس علاقے میں اسلحہ لے کر داخل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ صرف امریکی قونصلیٹ میں ہی اسلحہ موجود ہے جو وہ سفارتی بیگ کے ذریعے لاتے ہیں چونکہ سفارتی بیگ کی تلاشی نہیں ہوتی، اس لئے اس میں آنے والا اسلحہ پاکستانیوں کے قتل میں استعمال ہو رہا ہے۔ شہباز بھٹی کو بھی امریکہ نے اس لئے مروایا ہے کہ انہوں نے ان کے لئے مزید کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ توہین رسالت ص ایکٹ میں ترمیم اور اسے ختم کروانے میں بری طرح ناکام ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ موجودہ حکومت نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا جن جن وزراء نے توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کی بات کی تھی حکومت نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ اس وجہ سے شہباز بھٹی امریکہ کی ہٹ لسٹ میں تھا۔ پاکستان میں تمام مسائل اور دہشت گردی کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ جب تک یہ پاکستان میں موجود ہے یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار کے راستے کھل گئے ہیں، کیا یہ امن معاہدہ مستقل چل سکے گا۔؟
رحمن شاہ: پاراچنار میں گزشتہ چار برس سے عوام محصور تھے۔ حکومت نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ اب جب کہ بہت سے لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں تو حکومت کو ہوش آیا اور انہوں نے دہشت گردوں کے ساتھ معاہدہ کر کے امن قائم کروایا۔ امریکہ کو یہ معاہدہ پسند نہیں آئے گا اور ممکن ہے وہ دوبارہ کوشش کرے کہ اس راستے پر دہشت گردی ہو۔ بہر حال حکومت کو اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ قیام امن کے لئے اگر حکومت مخلص ہو جائے تو یقینا وہاں امن قائم ہو جائے گا، لیکن خلوص شرط ہے نیک نیتی شرط ہے۔
اسلام ٹائمز:شاہ صاحب، آپ کی نظر میں کراچی میں جاری ٹارگٹ گلنگ میں کون لوگ ملوث ہیں۔؟
رحمن شاہ:کراچی چونکہ پاکستان کی مرکزی بندرگاہ ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی حوالے سے بھی کراچی کی اہمیت اپنی جگہ، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا وہاں امن ہو۔ اسکے علاوہ بھارت اور اسرائیل بھی پاکستان میں امن نہیں دیکھ سکتے، یہ تینوں مل کر یا الگ الگ، بہرحال یہ تین وہ قوتیں ہیں جو کراچی سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کروا رہی ہیں اور ٹارگٹ گلنگ کے پیچھے بھی ان کا ہاتھ ہے۔ ان کے مفاد میں ہے کہ پاکستان میں بدامنی رہے۔ یہ پاکستان کی ایٹمی قوت سے بھی خائف ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ضائع ہو جائیں۔
اسلام ٹائمز: بلوچستان میں جاری شورش کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
ج:سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ بلوچستان پاکستان ہے، اور اسے پاکستان میں ہی رہنا چاہیے۔ علیحدگی کی باتیں کرنے والے بھارت کی مداخلت کے باعث ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ چونکہ گوادر پورٹ بن چکی ہے اس سے پاکستان میں تجارت کو بہت زیادہ فروغ حاصل ہونا ہے اس سے بھارت کی ممبئی متاثر ہوئی ہے اس لئے بھارت نہیں چاہتا کہ بلوچستان میں امن ہو۔ اس کے علاوہ بھارت ہمارا روایتی اور قدرتی دشمن ہے۔ وہ کبھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا۔ بلوچ لبرشن فرنٹ بن چکی ہے۔ اس فورس کو تربیت کون دیتا ہے یہ پاکستانی اداروں کو پتہ چلانا چاہیے۔ اس میں ہمارے مسلمان دوست ملک  یو اے ای والے بھی شامل ہیں وہ بھی اس حوالے سے انڈیا کو سپورٹ کرتے ہیں بلوچستان میں شورش بڑھ رہی ہے۔ وہاں ڈھاکہ جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ ان کو ان کے حقوق دیے جائیں، تاکہ بھارتی اور دیگر دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوں۔ اگر حکومت نے اس جانب توجہ نہ دی تو مسائل گھمبیر ہو سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: شاہ صاحب، پاکستانی طلبہ کن مسائل کا شکار ہیں۔؟
رحمن شاہ: پورا ملک مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ تعلیم کا شعبہ بھی متاثر ہے۔ یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے نظام تعلیم متاثر ہو رہا ہے۔ سفارشی بھرتیاں کی جا رہی ہیں اور ایسے لوگوں کو پروفیسر اور لیکچرر لگایا جاتا ہے، جن کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ لیکچر ہوتا کیا ہے؟ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ داخلوں کا نظام انتہائی برا ہے۔ پنجاب میں آپ دیکھیں کہ آن لائن داخلوں کی وجہ سے میٹرک کے طلبہ کو کن پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا؟ امتحان شروع ہوئے چار دن ہو گئے ہیں لیکن ہزاروں طلبہ و طالبات کو ابھی تک رول نمبر سپلس جاری نہیں ہو سکیں۔ جن اداروں میں سکالرشپس آفر ہوتا ہے وہاں میرٹ پر سکالر شپ نہیں دیا جاتا۔
اسلام ٹائمز:شاہ صاحب، کیا آپ پاکستان میں پڑھائے جانے والے تعلیمی نصاب سے مطمئن ہیں۔؟
رحمن شاہ: نصاب کسی حد تک ٹھیک ہے۔ ہم چونکہ کسی اور فکر سے وابستہ ہیں، لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ نصاب ایسا ہونا چاہیے جس میں نوجوانوں کی فکری تربیت بھی ہو۔ اس نظام میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو نوجوانوں کو مسلمان بنانے کی بجائے سیکولر بناتی ہیں۔ اس نصاب میں اصلاحات کی بہرحال ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دو نظام نہیں ہونے چاہیے، امیروں کے لئے اولیول اے لیول ہے جب کہ عام آدمی کے بچوں کے لئے عام نصاب ہے۔ تو یہ تفریق بھی معاشرے میں تفرقہ کا باعث ہے اس سے او لیول پڑھنے والے خود کو عام تعلیم یافتہ نوجوانوں سے اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں، جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ حکومت تعلیم پر توجہ نہ دے کر پاکستان کے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔ پاکستانی طلبہ ٹیلنٹڈ ہیں۔ باصلاحیت ہیں۔ یہ پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انکو مواقع ملنے چاہیے، ان کو ماحول ملنا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: عرب ملکوں میں بیداری کی جاری لہر کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ج:بیداری کی یہ لہر، ہماری نظر میں یہ عالمی انقلاب کی جانب پیش رفت ہے۔ اور اس کی منزل اسلامی انقلاب ہے۔ یہ حکمران امریکہ کے غلام تھے اور امریکی مفادات کے لئے سرگرم عمل تھے عوام نے ان کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا اور آج یہ دربدر ہیں، اور ان کا سرپرست امریکہ بھی ان سے ہاتھ اٹھا چکا ہے۔ ہمارے حکمرانواں کو بھی اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ امریکہ مشکل وقت میں کسی کے کام نہیں آتا۔ یہ تبدیلی امام زمانہ ع کے انقلاب کی زمینہ سازی ہے۔ بڑے بڑے بت گر رہے ہیں اور بڑی تیزی سے گر رہے ہیں۔ ہم اس بیداری کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ عرب ممالک سے ہی نہیں پوری دنیا سے امریکہ کا بستر گول ہونا چاہیے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک یہ بیداری مسلمانان پاکستان کی قسمت میں بھی لکھ دے اور یہ بھی انقلاب اسلامی کے لئے بیدار ہوں اور ان امریکی غلاموں سے نجات حاصل کریں۔
خبر کا کوڈ : 58358
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش