0
Friday 18 Nov 2016 00:41
بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہر حربہ آزما رہا ہے

امریکی عوام نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ ڈیموکریٹک کیخلاف ووٹ دیا ہے، محمد اکرم ذکی

ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ متوقع ہے
امریکی عوام نے ٹرمپ کو نہیں بلکہ ڈیموکریٹک کیخلاف ووٹ دیا ہے، محمد اکرم ذکی
سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا کردار ہیں۔ ملکی تاریخ میں اب تک دو شخصیات کو فارن سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جن میں ایک اکرم ذکی صاحب ہیں۔ انہوں نے چین، امریکہ، نائیجریا اور فلپائن کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان سے تربیت پانے والے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے قابلیت کے بل بوتے پر اعلٰی ترین عہدوں پر رسائی حاصل کی۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی 1991ء سے 1993ء تک وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے جو کہ وزیر مملکت کے برابر شمار کیا گیا۔ 1997ء سے 1999ء تک سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین اور نیشنل ایجوکیشن کمیشن کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی انجمن فروغ تعلیم کے بانی صدر بھی ہیں۔ ان کو پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے بانی صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اہم فیصلوں میں ان کی رائے کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کے لئے اکرم ذکی صاحب سے حالیہ امریکی انتخابات کے نتائج اور ان کے اثرات کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو کہ پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا امریکی صدارتی انتخابات کا نتیجہ غیر متوقع ہے۔؟ اور انتخابات سے قبل ٹرمپ کی تقاریر کو سامنے رکھیں تو کیا یہ نتیجہ امریکی معاشرے کے اندر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا غماز نہیں ہے۔؟
اکرم ذکی:
جی نہیں، امریکی صدارتی انتخابات کا نتیجہ کوئی غیر متوقع نہیں ہے بلکہ حالات و اقعات یہی بتا رہے تھے۔
انتخابات سے چند روز قبل میں نے مختلف مواقع پہ ہونیوالی اپنی گفتگو میں بھی اس کا اظہار کیا تھا کہ انتخابات کا رزلٹ ٹرمپ کے حق میں ہوگا۔ جہاں تک اس کی جیت میں کار فرما عوامل کا تعلق ہے تو میرے خیال میں امریکی عوام نے ٹرمپ کو ووٹ نہیں دیا بلکہ ڈیموکریٹک کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ دیکھیں سولہ سال سے ایک پارٹی برسر اقتدار تھی، جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں جنگی پالیسیوں کو فروغ دیا۔ کئی ممالک بالخصوص مسلم ممالک پر جنگیں مسلط ہوئیں۔ نان سٹیک ایکٹرز قوی ہوئے۔ داعش جیسی تنظیموں کو تیار کرکے انہیں طاقتور کیاگیا۔ ظاہر ہے کہ یہ پالیسیاں عوامی حمایت کے حصول میں رکاوٹ بنی ہیں۔ عوام نے ٹرمپ کو منتخب نہیں بلکہ ان پالیسیوں کو مسترد کیا ہے، چنانچہ میرے نزدیک امریکی صدارتی انتخابات کا نتیجہ امریکی معاشرے میں شدت پسندی کے غلبے کا پتہ نہیں دیتا بلکہ انتشار پر مبنی پالیسیوں سے بیزاری کا اظہار ہے۔

اسلام ٹائمز: نومنتخب امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دورا ن انتہائی سخت بیانات دیئے تھے، کیا وہ شدت پسندی پر مبنی نہیں تھے۔؟
اکرم ذکی:
مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا پورا سچ پیش نہیں کیا، جس کی وجہ سے یہ تاثر قائم ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ بات کی تھی کہ مشرق وسطیٰ بشمول شام و عراق میں امریکی پالیسیوں کے باعث عوام میں سخت غم و غصہ ہے۔ چنانچہ اگر انہیں ابھی یہاں امریکہ میں لائے تو ممکن ہے کہ ان پالیسیوں کا کوئی ردعمل سامنے آئے۔ لہذا ابھی مہاجرین کو امریکہ میں لانا درست اقدام نہیں ہوگا۔ اس طرح اس نے یہ بھی کہا تھا کہ جتنے اخراجات وہاں جنگ پر ہوئے اگر اتنے امن پر ہوتے تو ہمارے لیے اتنی مشکلات نہ ہوتیں اور آج ہمارے دوست کم اور دشمن زیادہ نہ ہوتے۔ میرے خیال میں اسلامی
دنیا سے متعلق جنگی چھڑ چھاڑ پر مبنی پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔ البتہ فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ متوقع ہے، کیونکہ ٹرمپ بہرحال اسرائیل دوست لابی کے نمائندہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔؟
اکرم ذکی:
دیکھیں نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھارت سے محبت کرتے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں بھی یہ چاہیے کہ ہم تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ بھارت نے ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کے ساتھ تعلقات بہتر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہم انہی چیزوں میں الجھے رہے کہ اس نے یہ کہا تھا، اور وہ کہا تھا اور ہم مفروضوں میں ہی پھنسے رہے تو نئی امریکی حکومت کیساتھ بھی ہماری نسبت بھارت تعلقات زیادہ بہتر کریگا۔

اسلام ٹائمز: بھارت سے تعلقات میں بہتری کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔؟
اکرم ذکی:
بھارت پاکستان کی سلامتی، استحکام کا سب سے بڑا اور حقیقی دشمن ہے۔ اس کی پالیسی میں باقاعدہ طور پر یہ شامل ہے کہ ایک متحد اور بڑے اور طاقتور پاکستان کو ٹکڑے میں تقسیم کرے تاکہ اس سے نمٹنا اسی طرح آسان ہو جیسے نیپال، بھوٹان، میانمار کو ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے، کمزور کرنے اور خدانخواستہ اسے توڑنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہاہے۔ اندرونی مداخلت کا مرتکب ہے، ایک جانب سرحد پر کشیدگی میں اضافہ کئے ہوئے ہے تو دوسری جانب پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کررہا ہے، سی پیک کے خلاف سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں ایک بمبئی ہوا تو وہ اس کو لیکر ابھی تک پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر محاذ کھولے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں آئے روز حملے ہورہے ہیں مگر تدفین کے
ساتھ ہی یہ المناک سانحات بھی دفن کردیئے جاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے ما بین کشیدگی عوام بلکہ اقوام عالم کے لئے بھی باعث تشویش ہے۔ دونوں ممالک غیر معمولی عسکری طاقت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایسی جوہری طاقتیں ہیں، جنہوں نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط بھی نہیں کر رکھے۔پاکستان کی ترجیح خطے کا امن اور بھارتی حکمران بالادستی کے خواب سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ تو ایسی صورت میں تعلقات میں بہتری کی توقع تو کم ہی کی جاسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں شدت پسندی کے اسباب یا محرکات کیا ہیں۔؟
اکرم ذکی:
بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بعض مذہبی جماعتوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی، اور جن لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی، وہ پاکستان بننے کے بعد یہاں آگئے اور اب اس کے اندر بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اور اب ہماری آئیڈیالوجی ہتھیانا چاہتے ہیں۔ جب تک ہمارے ملک میں شدت پسند مولوی موجود ہے، ہمارے کسی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہوسکتے۔ چاہے وہ کوئی بھی ملک ہے۔ ایران ہے، ترکی ہے، یا چین ہے۔ جنرل ضیاالحق نے شدت پسندوں کی سرپرستی کی تھی، اور وہی آج ہمارے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ شدت پسند مولوی کو کنٹرول کرکے ہی کامیاب خارجہ پالیسی اپنائی جاسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں جاری دہشتگردی میں بیرونی عنصر کتنی حد تک کارفرما ہے۔؟
اکرم ذکی:
جب روس اور امریکہ ہزاروں ایٹم بم بنا چکے تھے، تو ایک بات واضح ہوگئی تھی کہ انہوں نے لڑنا نہیں ہے، اور یہ بات بھی طے تھی کہ انہوں نے صلح بھی نہیں کرنی۔ کے جی بی اور سی آئی اے نے تقریبا ہر ملک میں تنظیمیں بنائیں، شرارت کیلئے۔ جن کو نان اسٹیٹ ایکٹرز کہا گیا۔ ہم نے ان سے ملکر افغانستان میں مجاہدین بنائے، روس کو تباہ کیا۔ پھر وائٹ
ہاس نے انہی مجاہدین کو دہشتگرد ڈکلیئر کر دیا۔ دراصل ایٹم بم بننے کے بعد ہر ملک میں کھلی جنگ کے بجائے خفیہ جنگ شروع ہوئی۔ جو آج فورتھ جنریشن وار کے نام سے رائج ہے۔ اب یہ صورت حال ہے کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے، پاکستان نہیں کر رہا۔ اگر دونوں کر رہے ہوتے، تو بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا چین میں بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔؟
اکرم ذکی:
چین میں مسلمان نہیں دہشتگرد مارے جا رہے ہیں۔ چین کو غیر مستحکم کرنے کے لیے فسادیوں کو کھڑا کیا گیا ہے۔ ایک تنظیم ایسٹ ترکمانستان موومنٹ کے نام سے چلی، جس کا ہیڈ کوارٹر پہلے ترکی میں تھا، اب امریکہ میں ہے۔ اس طرح دلائی لامہ کا ہیڈ کوارٹر انڈیا میں ہے۔ تو بات یہ کہ چین دہشتگردوں کو مار رہا ہے۔ جب میں وہاں پر تھا، تو اس وقت پچیس ہزار مساجد کی ازسر نو آرائش حکومت نے کی، چنانچہ چین اسلام کے خلاف نہیں ہے، دہشتگردی کے خلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں تحفظ حرمین اور تحفظ آل سعود کے نام پر اجتماعات جاری ہیں، کیا حرمین شریفین خطرے میں ہیں۔؟ حالانکہ حملے تو یمن پر سعودی عرب کر رہا ہے، نہ کہ یمن۔۔؟
اکرم ذکی:
سعودی عرب اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں مساجد، مدارس سمیت مختلف نوع کے منصوبوں و معاملات پر خرچ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب کے حق میں زیادہ آواز اٹھتی ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ حملے یمن پر ہورہے ہیں۔ وطن عزیز کے اندر چند دینی جماعتوں کی جانب سے تحفظ حرمین شریفین کے نام پر ریلیاں، سیمینارز، کانفرنسز شروع ہیں اور کچھ بیرونی وظیفہ خوروں نے اسے شیعہ سنی جنگ قرار دینے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا ہے، تو کہیں سے سعودی عرب کی سلامتی کو درپیش خطرات کا ذکر خیر جاری ہوا۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ یمن کے مسئلہ پر غیر جانبدار رہنے کی زیادہ ضرورت یوں بھی ہے کیونکہ یمن سعودی عرب کے مقابلے میں ایک کمزور اور غریب ملک ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب کی سلامتی یا حرمین شریفین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں بلکہ یمن پر حملہ دوسرے عرب ممالک کی طرف سے ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: یمن جنگ میں کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا۔؟
اکرم ذکی:
یمن پر سعودی عرب اور اتحادیوں کے حملے میں یمنی عوام کی ہلاکتیں ہزاروں تک پہنچ چکی ہیں۔ جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ خوراک اور ادویات کی قلت ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے اپنی رپورٹس میں یہاں کے مسائل کی نشاندہی بھی کی ہے اور جنگ بندی کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ یمن پر عرب حملوں کا دوسرا بڑا نقصان داعش اور القاعدہ کے منظم ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یمن کے اندر یہی داعش حوثیوں پر حملے کر رہی ہے۔ یمن پر سعودی حملوں کے نتیجے میں اگر داعش، القاعدہ وغیرہ زیادہ منظم ہوتے ہیں۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کیلئے زیادہ خطرناک کون ثابت ہوگا۔

اسلام ٹائمز:یمن مسئلہ کا حل کیا ہے۔؟
اکرم ذکی:
یمن کے مسئلہ کا پرامن حل سب کے مفاد میں ہے۔ پاور شیئرنگ کی ایسی کونسل بنائی جائے، جس میں سب کی نمائندگی موجود ہو۔ یمن میں امن کا یہی راستہ ہے ۔ 2011 میں جس طرح کا معاہدہ کرکے حوثیوں کو شریک اقتدار کیا گیا، اب بھی اسی طرز کے معاہدے کی ضرورت ہے۔ چالیس فیصد آبادی کو شریک اقتدار کئے بغیر امن نہیں لایا جاسکتا۔ اگر جلد امن نہیں آیا تو جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ اس جنگ کا پھیلا یا طول سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔۔ طاقت کے بل بوتے پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
خبر کا کوڈ : 584698
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش