1
1
Monday 28 Nov 2016 22:01
2000ء کے بعد دہشتگردی کی جو لہر چلی، اس نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا

نوحہ، مرثیہ یا قصیدہ نگاری محض تخیل کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی بلکہ اس کیلئے علم و معرفت لازم ہے، غلام عباس حیدری

ذکر محمد و آل محمد (ص) ذریعہ معاش نہیں بلکہ ذریعہ نجات ہے
نوحہ، مرثیہ یا قصیدہ نگاری محض تخیل کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی بلکہ اس کیلئے علم و معرفت لازم ہے، غلام عباس حیدری
شاعر اہلبیت غلام عباس حیدری کا تعلق دریائے سندھ کے کنارے آباد دھرتی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ سیال ’’ملنگ‘‘ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوحہ نگاری کی دنیا میں ان کا نام بہت مقبول ہے۔ انکے کئی شاگرد اب مکتب اہلبیت علیھم السلام کے فضائل و مصائب شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ غلام عباس نام جبکہ حیدری ان کا تخلص ہے۔ انکے لکھے نوحوں کی بدولت ڈی آئی خان شہر کو دیگر ملکوں میں پہچان ملی۔ شاعری میں مصائب کربلا سننے کے شیدائی حیدری کے کلام کے رسیا ہیں۔ انکے متعلق بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حیدری صاحب کے نوحے ہند، سندھ، مشرق و مغرب میں مقبول ہیں۔ بذات خود شہید فیملی سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ غلام عباس حیدری کا کلام عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ تبلیغ و تربیت کو اپنے دامن میں سموئے ملتا ہے۔ حیدری صاحب کو یہ بھی ملکہ حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری سے نہ صرف واقعات کربلا کو اجاگر کیا بلکہ قرآن و احادیث سے خاندان رسالت (ص) کی عزت و عظمت کو بھی بیان فرمایا۔ انکی شاعری میں جہاں سوز و الم دکھائی دیتا ہے، وہیں کربلائی جوش ولولہ اور وقت کے جابر و ظالم کے سامنے کلمہ حق کہنے کا درس بھی ملتا ہے۔ اردو نوحوں پر مشتمل انکا ایک مجموعہ کلام حسیں (ع) زندہ باد کے عنوان سے پبلش ہوچکا ہے۔ اب تک سینکڑوں نوحے اور قصائد رقم کرچکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے نوحہ نگاری اور اسکے اثرات و ثمرات کے عنوان سے غلام عباس حیدری صاحب سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: زندگی کا پہلا نوحہ کتنی عمر میں لکھا اور اب تک کتنا کلام لکھ چکے ہیں۔؟
غلام عباس حیدری:
میری تاریخ پیدائش 1959ء کی ہے اور میں نے پہلا نوحہ 1981ء میں لکھا۔ جو کہ میرے مجموعہ کلام میں شائع ہوا ہے۔ جس کا مطلع تھا ’’یارسول خدا کربلا میں، کنبہ مارا گیا فاطمہ کا۔‘‘ میرا پہلا شوق ذاکری تھا جبکہ شاعری کا شوق اس کے بعد تھا۔ بچپن میں ذاکری بھی کی۔ نوحہ خوانی کا بھی شوق تھا۔ چونکہ ذاکری میں حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ اس لئے ذاکری والا وقت بھی نوحہ خوانی کو دیا۔ اب اسے قدرت کا انعام سمجھیں کہ اس وقت ہماری ماتمی سنگت (لشکر حسیں (ع) نوحہ خوان پارٹی) کو بھی نوحوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ شعراء کی کمی تھی۔ فطری صلاحیت موجود تھی، اس لئے شاعری کی جانب زیادہ رجوع کیا۔ ہماری فیملی میں پہلے کوئی شاعر نہیں گزرا، مگر گھر سے پرورش اور تربیت اچھی ہوئی۔ میرے والد خود صاحب طریقت تھے۔ ان کے ساتھ محافل میں بیٹھتے تو ان محافل میں ہمیشہ ذکر محمد و آل محمد (ص) ہی بیان ہوتا۔ ہمارے بزرگ گرچہ معاشی لحاظ سے مضبوط تھے، مگر اس کے باوجود انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ اب تک تقریباً ایک سو سے زائد اردو نوحے اور تقریباً اتنے ہی سرائیکی نوحے لکھ چکا ہوں۔ اس کے علاوہ قصائد بھی لکھے ہیں۔ میرے بھانجے ہیں، جن کی قصیدہ خواں پارٹی بڑی معروف ہے، ان کیلئے قصیدے بھی لکھے ہیں۔ دس سال سے وہ بھی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، میں بھی ہر سال تین، چار قصیدے لکھتا ہوں۔ تو اس طرح ایک سو سے کچھ کم قصائد بھی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نوحہ نگاری میں کن شخصیات کی روایات کو سامنے رکھتے ہیں یا تاریخ کربلا کی کن کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔؟
غلام عباس حیدری:
تعلیم کی بہترین اور پہلی درسگاہ انسان کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ جہاں سے وہ ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ مکتب تشیع میں گھر کے بعد تعلیم کا دوسرا بڑا ذریعہ منبر حسینی (ع) ہے، جہاں سے ہم سبق حاصل کرتے ہیں۔ ہم منبر حسینی (ع) سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے سٹیج سے اچھے اچھے علماء کو سنا۔ ڈی آئی خان سے تشیع کے بڑے بڑے ذاکرین، شاعر گزرے ہیں۔ جنہوں نے روایات کو بہت احسن طریقے سے پیش کیا۔ ان میں میاں بخش فدوی، محمود مولائی، شیرازی خاندان نے بڑی تحقیق کے بعد لکھا ہے۔ واقعات کربلا و شام جو ہمیں ازبر یاد ہوئے، وہ انہی شخصیات کی مخلصانہ کاوشوں سے ہوئے۔ اس کے بعد اللہ رب العزت کی جانب سے جب شعور ملا تو کتب کا مطالعہ کیا۔ ان میں مقاتل کی جو بنیادی کتب ہیں، ان سے روایات لی ہیں۔ جن میں سید طاؤس، ابی مخنف کی مکتب ابی مخنف، ریاض القدس انہی کتب سے روایات کی مد میں مدد لی جاتی ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہر دور کا مورخ جب بھی تاریخ لکھے گا تو اسے انہی کتب کا ہی سہارا لینا پڑیگا۔ اس کے علاوہ ہمارے اساتذہ قابل تھے، استاد سعید جو کہ پرنسپل اور لیکچرر ریٹائرڈ ہوئے۔ نوحہ خوانی اور شاعری کے استاد بشیر حسین قریشی مرحوم، اس کے علاوہ ہمارے بزرگ عبدالرحیم سیال سے بھی علم حاصل کیا۔

اسلام ٹائمز: شروع میں نوحہ لکھنے کیلئے شاعری کی کتابوں سے مدد حاصل کی یا سن کر لکھنا شروع کیا۔؟
غلام عباس حیدری:
یہ ایک فطری عمل ہے، جس کو ادب، شاعری سے شغعف ہوگا وہ سنے گا بھی سہی اور لکھے گا بھی سہی۔ اچھا شاعر بننے کیلئے علم حاصل کرنا پڑتا ہے، کتب کا مطالعہ کیا۔ ڈی آئی خان میں اچھے اچھے شعراء بھی گزرے ہیں۔ جن میں ملک محسن علی عمرانی مرحوم سرفہرست ہیں، جو کہ مدرسہ الواعظین لکھنو سے فارغ التحصیل تھے، وہ خود ذاکر بھی تھے اور محمود مولائی جو کہ معروف مناظر تھے، کے خاندان سے تھے۔ ان کا خاندان ڈیڑھ دو سو سال سے یہی خدمات سرا انجام دے رہا ہے۔ اس طرح میاں فدوی کا خاندان بھی ابھی تک اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے۔ خدا بخش نازش ایڈووکیٹ، قیصر، منظور شیرازی، عبداللہ یزدانی، مختار ساقی، صادق حسین جرات، مرحوم رائت بڑے نام ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے بزرگ لکھنو سے بھی نوحے لیکر آئے تھے۔ جو کہ آج بھی مخصوص مقام پر مخصوص وقت میں پڑھے جاتے ہیں۔ انہی شخصیات سے ان کے کلام سے مدد لی ہے۔

اسلام ٹائمز: نوحہ شاعری کی کس صنف سے تعلق رکھتا ہے، کیونکہ ہمیں کوئی نوحہ مسدس میں ملتا ہے، کوئی غزل کی ترکیب میں کوئی مخمس، کوئی مثلث، ایسا کیوں۔؟
غلام عباس حیدری:
نوحہ کا مطلب ذکر مصائب (مصائب کربلا، شام، اہلبیت علیھم السلام) کو بیان کرنا ہے۔ جس طرح مرثیہ ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں صرف مصائب ہی بیان کرنا ہے یا کسی ایک صنف میں بیان کرنا ہے۔ ذکر فضائل بھی بیان ہوسکتا ہے اور جتنے بھی اصناف سخن ہیں، ان سب میں نوحہ لکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ یعنی دو مصرعی بھی ہوسکتا ہے، مثلث بھی، مربع بھی، مخمس بھی، مسدس بھی اور اس میں کربلا کے ہر پہلو کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ بظاہر چھوٹا سالفظ ہے مگر اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے۔ بہترین نوحہ علمی، ادبی اور سب سے بڑھ کر ان میں معرفت ہونی لازم ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ آپک یا آپکے شاگردوں کے کلام میں عصر حاضر میں تشیع کو درپیش مسائل کا ذکر زیادہ نہیں ہوتا۔؟
غلام عباس حیدری:
ایسی بات نہیں ہے، میں نے اپنے نوحوں میں دہشتگردی کا بالخصوص ذکر کیا ہے، البتہ حالات و واقعات، سامعین کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ میرے نوحوں پر انتظامیہ کی جانب سے کوئی پابندی نہیں لگی۔ میں مصائب سے زیادہ قرآن و حدیث، انبیاء کے واقعات اور مستند تاریخ کا زیادہ حوالہ دیتا ہوں۔ حقائق کو بھی اس انداز میں بیان کیا کہ وہ قابل گرفت نہیں۔ ڈی آئی خان میں پندرہ سے بیس شاگرد ایسے ہیں، جن کے نوحے پاکستان بھر میں پڑھے جاتے ہیں۔ اسی طرح باہر کے شہروں، ملکوں میں بھی شاگرد موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکے نوحے اب تک کن ممالک یا کن شہروں میں پڑھے گئے ہیں۔؟
غلام عباس حیدری:
نوحہ خوانی کی کوئی سرحد نہیں۔ پاکستان کی جہاں تک نوحہ خوانی کی دنیا ہے، وہاں خصوصاً پہچان ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں عمومی طور پر ہم اور ہمارے نوحے جانے، پڑھے، پہچانے جاتے ہیں۔ اس طرح بیرون ملک ایران، عراق، شام ، مقامات مقدسہ سمیت یورپ، امریکہ، دبئی یہاں تک کہ سعودی عرب تک میں میرے نوحے پڑھے گئے ہیں۔ میں خود تو بیرون ملک نہیں گیا مگر میرے نوحے گئے ہیں اور انہی نوحوں سے مجھے پہچانا جاتا ہے۔ پیر سید سبطین شاہ بخاری ہمارے استاد بھی ہیں اور پیر بھی ہیں، جو کہ لشکر حسین (ع) کے سالار اور بہترین نوحہ خوان جو کہ موثر اور مبلغ نوحہ خوان ہیں کہ جن کی وجہ سے ڈی آئی خان کا نام پاکستان اور دیگر ملکوں میں روشن ہوا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں کس شہر کے لوگ نوحہ خوانی کے اچھے سامعین ہیں۔؟
غلام عباس حیدری:
نوحہ خوانی کے حوالے سے ملتان ہمارا مرکز ہے۔ جتنی بھی سرائیکی پٹی ہے، یہ اچھے سامعین ہیں۔

اسلام ٹائمز: عام شعراء کا کلام تو ذریعہ آمدن کا باعث بنتا ہے، مگر جو شعراء مذہبی شاعری سے وابستہ ہیں، انکا ذریعہ معاش کیا ہے۔؟
غلام عباس حیدری:
جہاں تک ڈی آئی خان کا تعلق ہے، یہاں بزرگوں سے دیکھتے آئے ہیں کہ رزق اپنا کماتے تھے اور عزاداری بناء کسی لالچ کے کرتے تھے۔ ڈی آئی خان کی جتنی بھی ماتمی سنگتیں ہیں، ان کا ذریعہ معاش عزاداری، نوحہ خوانی، شاعری نہیں ہے۔ اس خدمت کے ذریعے دنیا نہیں آخرت کماتے ہیں اور الحمد کہ اسی میں سرخرو ہیں۔ میرا بھی ذریعہ معاش نوحہ نگاری نہیں ہے۔ میری اپنی تعلیم بی کام، بی اے ہے۔ میری کئی مرتبہ ملازمت بھی ہوئی ہے مگر میں نے نہیں کی۔ ہماری فیملی آسودہ تھی اور اپنے کاروبار تھے، چنانچہ اس مد میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی، کیونکہ نوکری کے ساتھ میں نوحہ خوانی و نوحہ نگاری پر اتنی توجہ نہیں دے سکتا تھا، لہذا نوکری کے بجائے کاروبار کو ترجیح دی، مگر 1987ء، 1988ء کے کرائسز میں باقی اہل تشیع کے ساتھ ساتھ ہمارے بھی کاروبار ختم ہوئے۔ جن دکانوں میں لاکھوں کا کاروبار ہوتا تھا، وہی دکانیں ہمیں کرائے پر دینی پڑیں۔ اس کے بعد 2000ء کے بعد دہشتگردی کی جو لہر چلی، اس کی کوئی انتہاہی نہیں تھی۔ اس نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا، ضروریات محدود ہیں، جو کہ باآسانی پوری ہوتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: منبر حسینی (ع) سے ذاکرین اور نوحہ خوان کربلا کے جو واقعات پیش کرتے ہیں، ان میں تضاد پایا جاتا ہے۔؟ ایسا کیوں ہے، حالانکہ سانحہ تو ایک ہی ہے۔؟
غلام عباس حیدری:
سانحہ کربلا ایک ایسا عظیم واقعہ ہے، جو مختلف نوع کے تمام مصائب اور آلام کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ تاریخ انسانی میں یا مستقبل میں ایسا کوئی ظلم نہیں جو یزیدی فوج کی جانب سے خانوادہ رسول (ص) پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ چنانچہ کوئی ایک روایت، کوئی ایک کتاب مکمل طور پر کماحقہ اسے بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ جس طرح محمد و آل محمد (ص) کے فضائل کی کوئی حد نہیں ہے، اسی طرح کربلا کے مصائب کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ سانحہ کربلا کے مختلف راوی ہیں۔ انہوں نے اس کے مختلف پہلو بیان کئے ہیں۔ اب راویوں نے تھوڑے تھوڑے فرق کیساتھ بیان کیا ہے، تاہم اس کا اصل اور حقیقت مسلمہ ہے۔ دوسرا فرق انداز بیاں کا ہے۔ مختلف علماء، ذاکرین اپنے الفاظ و انداز میں بیان کرتے ہیں تو مرثیہ نگار، شعراء، نوحہ خوان اسے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ کہیں ادبی ذوق رکھنے والے اپنے الفاظ و تراکیب کا استعمال کرتے ہیں تو کہیں ثقافتی، فی البدیہ رسمی انداز بیاں میں الفاظ مختلف ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ معمولی فرق تاریخ کربلاء، واقعات کربلاء کی صحت کے حوالے سے نہیں بلکہ انداز بیاں کا ہے۔ البتہ تاریخ کربلا کے بیان میں اس امر کا بہرحال لحاظ رکھنا چاہیئے کہ حقیقت مسخ نہ ہو۔ شاعری میں زیادہ احتیاط لازم ہو جاتی ہے، کیونکہ نوحہ خوانی، مرثیہ نگاری یا قصیدہ نگاری میں عام غزل نظم کی طرح یہ آزادی حاصل نہیں کہ محض تخیل کی بنیاد تحریر کر لی جائے۔ مذہبی شاعری بالخصوص نوحہ خوانی میں نہ صرف مستند تاریخ کو بیان کرنا ہوتا ہے بلکہ اسے عصر حاضر کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے الفاظ کا پیراہن دے کر انہیں آراستہ و پیراستہ کیا جائے کہ وہ سننے والوں کے قلوب کو مسخر کریں، یعنی ان میں تاثیر ہو۔ علاوہ ازیں سانحہ کربلا لافانی ہے، اس میں فقط حیات ہے، خاک کربلا، خاک شفا بنی تو خون حسین (ع) کی بدولت اور امام حسین (ع) ناطق قرآن ہیں۔ قرآن مجید کی یہ شان ہے کہ زندگی کے ہر دور میں یہ عظیم الشان ہے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ اربعین پر بھی کوئی تازہ کلام پیش کیا ہے۔؟
غلام عباس حیدری:
جی میرے دو نوحے حالیہ اربعین پر لشکر امام حسین (ع) المعروف پیر سبطین شاہ سنگت نے پڑھے۔ ان میں سے ایک نوحہ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی غربت اور استقامت کے موضوع پر لکھا گیا ہے، جبکہ دوسرے نوحہ میں ارض کربلا کی شان، زائر امام حسین (ع) کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔ یہ دونوں نوحے سرائیکی کے ہیں۔ اس کے علاوہ میرے نوحوں پر مخالفین اعتراض تو کرسکتے ہیں مگر انہیں غلط ثابت نہیں کرسکتے۔ نوحہ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے ایسے الفاظ کے پیراہن میں پیش کیا جانا ضروری ہے کہ سامعین تک قرآن، حدیث، تاریخ سے ثابت مستند بات پہنچائی جائے، جو کہ قابل گرفت نہ ہو۔ یہاں ایک مثال دوں کہ ضیاء کا دور بہت سخت تھا۔ ہر شریف آدمی اس کے شر سے گھبراتا تھا۔ علماء کو اس نے خریدنے کی کوشش کی۔ اس نے علامہ نصیر اجتہادی کو بلایا۔ اب علامہ صاحب کو ایک جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بھی بولنا تھا اور جان بھی بچانی تھی۔ جنرل ضیاء نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیا کہتے ہیں شرعی سزائیں دیکر، کوڑے مار کر کیا میں ظلم کر رہا ہوں۔؟ علامہ نصیر اجتہادی نے جواب دیا کہ جنرل صاحب: لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں کوڑا ہے، میں تو کہتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ میں چھڑی ہے۔ چنانچہ اسی طرح ہم نے شاعری میں بھی یہی اصول اپنایا، مشکل بات بھی کی اور رنجش بھی نہیں بنی۔

اسلام ٹائمز: لکھنے والوں کیلئے کوئی پیغام ۔؟
غلام عباس حیدری:
دیکھیں مذہبی شاعری میں بنیادی چیز وہ ثواب ہے، یعنی یہ ہماری عبادت ہے۔ نہ تو کوئی یہ دکان ہے کہ جہاں دنیاوی نفع کا لالچ دل میں ہو، نہ ہی کوئی شہرت کا ذریعہ۔ کربلا والوں کی شان میں یا کربلا والوں کے مصائب لکھنے والے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اپنے اندر خلوص ہو، محبت ہو۔ دوسری بڑی چیز علم ہے، کیونکہ یہ ان کا ذکر ہے کہ جو سلونی سلونی کے مالک تھے۔ اس میں صرف شاعری کا ہنر ہی کافی نہیں بلکہ تاریخ کا بھی پتہ ہونا چاہیے، احادیث کا بھی، قرآن کا بھی کیونکہ امام حسین (ع) کو صرف تاریخ سے پیش نہیں کرنا بلکہ قرآن سے بھی بتانا ہے، حدیث سے بھی سمجھانا ہے۔

غلام عباس حیدری کے کلام سے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔

حسین (ع) والی یہ دنیا نماز تو سیکھے
کہ جس نماز نے ثابت کیا خدا کو خدا
جو ڈھونڈ سکتے ہو ڈھونڈو حسین (ع) کا سجدہ
جو لاشریک تھا سجدہ، جو لاشریک کو تھا
خدا ہے راضی اگر حیدری، نبی (ص) راضی
نبی (ص) ہے راضی اگر راضی لعل زہرا (س) کا

آؤ چلیں حسین (ع) کی نگری میں ایک بار
جیتے جہاں بہتر (72) لاکھوں گئے تھے ہار
اس نور کی زمین کے ہیں زوار کل ملائک
آتے ہیں ابنیاء بھی یہاں باندھ کے قطار
سرکار آٹھویں سے منقول ہے روایت
تسبیح ہے پاک رب کی لے سانس جو زوار


اس دوش کا سوار شہنشاہ حسین (ع) تھا
جس دوش پر لکھا تھا کلمہء لا الہ
ہے ہر زبان پر حیدری لبیک یاحسین (ع)
قاتل نہ جانتا تھا ہے لہو بھی ہے بولتا

اے ماتمی صف ماتم کا جان لے رتبہ
انہی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں رسول اللہ (ص)
امام عصر (عج) کا سینے پر ہاتھ دیکھا گیا
صد حیف دنیا نے ماتم کو ہی نہیں سمجھا
سلام کرکے یہ خود کہہ رہی ہے بسم اللہ
حسین (ع) بسم اللہ، حسین (ع) بسم اللہ
واں راہبوں نے تھا انجیل میں تجھے پایا
یاں پنڈتوں کو ہے گیتا میں توں نظر آیا
عزا سے گوتم بدھ بھی مہنت کہلایا
سوا یزید کے ہر قوم نے تجھے چاہا
سلام کرکے یہ خود کہہ رہی ہے بسم اللہ
حسین (ع) بسم اللہ، حسین (ع) بسم اللہ


شبیر شہید اعظم ہے، انجیل میں بھی قرآن میں بھی
یہ ذکر شہادت لکھا ہے، تورات میں بھی، فرقان میں بھی
کیا حدیث نبی (ص) کی یاد نہیں، لڑ جائے جو کل ایمان سے
وہ کفر کل بن جاتا ہے، مسجد میں بھی، میدان میں بھی
اس علم کے دور میں کہتے ہو، مقتول بھی حق، قاتل بھی حق
اتنی کمزوری اور پستی، ایمان میں بھی، اذھان میں بھی
آیا حیدری سر شاہ نیزہ پر، ورفعنا لک ذکرک بن کر
ہر پہلو سے باعظمت ہے، یہ شان میں بھی، ارمان میں بھی
خبر کا کوڈ : 587075
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلمان علی
Pakistan
بہت بہتر ین انٹرویو اور بہت بہترین کاوش ہے بھائی آپکے چینل کی۔ بھائی ایک عرض میں ایک حقیر شاعر ہوں، مجھے استاد غلام عباس حیدری کا نمبر بھیجیں، استادی لینی ہے۔
ہماری پیشکش