QR CodeQR Code

عوام کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے بعد لاتعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں

پاکستان کو کسی مخصوص بلاک کا حصہ بننے سے پرہیز کرنا ہوگا، پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری

مستقل وزیر خارجہ نہ ہونے کے باعث پاکستان کا خود اپنا امیج بین الاقوامی سطح پر خراب ہو رہا ہے

22 Dec 2016 22:42

اسلام ٹائمز: جامعہ کراچی کے سینیئر استاد، رکن سینڈیکیٹ اور سابق چیئرمین شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سربراہ کا "اسلام ٹائمز" کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کے بہت مضبوط برادرانہ تعلقات ایران سے ہمیشہ رہے ہیں اور اتنے ہی مضبوط تعلقات سعودی عرب سے بھی رہے ہیں، عالم اسلام میں پاکستان کو انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے، جسے برقرار رکھتے ہوئے اسے سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہیئے، پاکستان کو ملکی و عالمی سطح پر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کو کسی مخصوص بلاک کا حصہ بننے سے پرہیز کرنا ہوگا، اگر پاکستان کسی ایک بلاک میں چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا پاکستان خود اپنے وجود کی نفی کرنے جا رہا ہے۔


پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری پاکستان کی معروف درسگاہ جامعہ کراچی کے رکن سینڈیکیٹ اور شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سابق سربراہ ہیں، وہ 1983ء سے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، قومی و بین الاقوامی سطح پر تحقیق و تدریس سے منسلک ہیں، 1988ء سے آج تک جامعہ کراچی سے منسلک ہیں، اس سے قبل کمیشن کا امتحان پاس کرکے کالج سے وابستہ ہوئے، وہ جامعہ کراچی کی سینڈیکیٹ کے رکن بھی ہیں، وہ کئی مرتبہ جامعہ کے کیپمس ایڈوائزر اور مشیر امور طلبہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، اس کیساتھ ساتھ مستقل طور پر ملکی نجی و سرکاری ریڈیو و ٹی وی چینلز پر فورمز اور ٹاک شوز میں بحیثیت تجزیہ کار اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری کیساتھ پاکستان کے موجودہ و مستقبل کے سیاسی و جمہوری حالات کے حوالے سے جامعہ کراچی میں انکے دفتر میں مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان کا سیاسی و جمہوری مستقبل کیا نظر آتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ پاکستان کا سیاسی اور جمہوری مستقبل بہت اچھا ہے، اس حوالے سے قومی جمہوری ادارے بھی پوری طرح ساتھ دے رہے ہیں، جبکہ دیگر ذمہ دار ریاستی ادارے بھی ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دینا چاہتے ہیں، یقیناً اس کے اندر مسائل ہیں اور جب کوئی نظام اپنے سیاسی عبوری دور سے گزر رہا ہو، تو اس کے اندر بہت سارے مسائل آتے ہیں، دنیا کی ہر قوم و ریاست کو اس مزاج کے ساتھ اپنے آپ کو آگے لیکر بڑھنا ہوتا ہے، اس حوالے سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جو قوم مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہوتی ہے، وہی قوم زندہ رہتی ہے، رہے گی ورنہ وہ قوم فنا ہو جاتی ہے اور پاکستان ایک زندہ قوم ہے، یہ کوشش کر رہی ہے کہ کسی بھی طرح زندگی کو سیاسی اعتبار سے ڈھالے، تاکہ پاکستان میں سیاسی ترقی ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: جمہوریت کا فائدہ عوام کو پہنچنا چاہیئے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس سے صرف حکمران و سیاستدان طبقہ فائدہ اٹھاتا نظر آتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
جب کوئی ریاست بنتی ہے تو کسی ایک طبقے کو کہیں نہ کہیں فائدہ ہمیشہ پہنچتا ہے، جو سوشل ازم کی بات کرتے ہیں، تو کیا سوشلسٹ یونینسٹ یا سوشلسٹ ری پبلکس کے اندر فائدہ صرف سوشلسٹ کو نہیں پہنچا، کیا جب کمیونسٹ جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو کیا صرف کمیونزم کے ماننے والوں کو فائدہ نہیں پہنچا، اس حوالے سے سوویت یونین (موجودہ روس) اور انقلاب فرانس کی ہے، جن جن ممالک میں جو جو بنیاد رکھتے ہیں، پہلا فائدہ انہی کو ملتا ہے، وہ سسٹم کو لے کر چل رہے ہوتے ہیں، لیکن جب آہستہ آہستہ عوام میں شعور بڑھتا ہے تو پھر تمام ملکی ادارے عوام کے مزاج کے ساتھ ڈھلتے ہیں، لہٰذا یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ کتنی سنجیدگی کے ساتھ ان کے مزاج و ذہن کو تبدیل کرتی ہے، عوام اپنا دباو کیسے قائم کرتی ہے، جب عوام کو پتہ ہے کہ فلاں شخص ایماندار نہیں ہے، قانون کی دھجیاں اڑاتا ہے، تو وہ اسے ووٹ کیوں دیتی ہے، کسی نے گن پوائنٹ پر تو اسے ووٹ ڈالنے کو نہیں کہا ہوتا ہے، عوام کسی بہتر و ایماندار شخص کو منتخب کرے۔ آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ سب ایک جیسے ہیں، لیکن سب ایک جیسے نہیں ہوتے، اگر فرض کر لیں کہ سب برے ہیں، تو اصول ہے کہ آپ کم برائی کے حامل کا انتخاب کرلیں، اس طرح کم برائی والے بھی کم ہوتے ہوتے ایک بہتر نظام بن جائے گا، یہ عبوری دور کے مسائل ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو حقوق نہ ملنے کی ذمہ دار خود عوام ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
عوام نااہل، کرپٹ سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر بار بار اعتماد کیوں کرتی ہے، ہاں آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ پھر عوام کیا کرے، اس کا جواب بہت آسان ہے کہ عوام ان ذمہ داروں کو جو بار بار اقتدار میں آتے ہیں، انہیں مجبور کرے کہ وہ انکی بات کو سنیں، ان کے حقوق دیں اور قومی اداروں کو عوام کے مفادات کے تحت چلائیں۔ عوام اپنی جو سپورٹ اپنے قومی رہنماؤں کو دیتے ہیں، ان پر دباؤ بڑھائیں کہ آپ نے جس کام کیلئے ہمارا ووٹ حاصل کیا ہے، وہ کام بھی کرکے دکھائیں۔

اسلام ٹائمز: اس تناظر میں عوام سے کہاں اور کیا غلطی سرزد ہو جاتی ہے کہ جنہیں دور کرکے عوام اپنے حقوق حاصل کرسکتی ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
عوام کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے بعد لاتعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں، جب لاتعلق ہو جاتے ہیں تو وہ منتخب نمائندے بھی عوام سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ جو آج کل ملک میں ہر جگہ ہو رہا ہے یعنی انارکی، لاقانونیت، اقربا پروری، نفرت، تعصب، عصبیت، علاقائیت، اس کے بعد پھر معاملات بگڑتے بگڑتے دہشتگردی اور نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ کسے سمجھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف عوام ہی ہوتی ہے، عوام کی طاقت کا سرچشمہ اللہ اور اسکے نبی کا وہ پیغام ہے، جس میں انسانیت کو برابر قرار دیا گیا ہے یعنی قرآن کریم، پاکستان اسلامی جمہوریہ ریاست ہے تو اس میں میری ذاتی رائے ہے کہ اس میں طاقت کا سرچشمہ کتاب و سنت ہے، جس کی بالادستی کیلئے عوام میدان میں آتی ہے، جس کو امت مسلمہ کہتے ہیں، یہ عوام اگر پاکستان کے اندر ہے تو عوامی نظام کے اندر اور اگر باہر نکلتی ہے تو ملت اسلامیہ کیلئے کام کرتی ہے، اسی لئے پاکستان کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا سے قریبی تعلقات خاص طور پر استوار کرے گا۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام انتخابات 2018ء میں کونسی جماعت کا مستقبل اچھا نظر آرہا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
اس حوالے سے ہم خدشات کی بنیاد پر باتیں زیادہ کرتے ہیں، خدشات زیادہ نمایاں ہو جائیں تو قوم مجموعی طور پر ذہنی بیمار ہو جاتی ہے، اس حوالے سے تمام میڈیا نہیں بلکہ لیکن میڈیا کے بہت سارے ذمہ داران جن کا کام ہی صرف ذہنی مریض بنانا ہے، وہ اس طرح کے خدشات پھیلا کر اپنے آپ کو اور عوام کو بھی پریشانی میں ڈالتے ہیں، دن بھر ایسا لگتا ہے کہ دو منٹ بعد ہندوستان پاکستان پر ایٹم بم گرا دے گا یا پاکستان ہندوستان پر ایٹم بم گرا دے گا، دو منٹ میں لگتا ہے کہ نواز حکومت گھر چلی گئی اور نئی حکومت قائم ہوگئی، دو منٹ میں لگتا ہے کہ فلاں کو سزائے موت ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ خدشات و حالات پیدا کرنے والے چند لوگ ہیں، جن کا تعلق کسی فرد، مسلک و ملت سے نہیں ہے، یہ افراد ایک خاص ایجنڈے پر کام کرتے ہیں، ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیئے کہ پاکستان کے حق میں کیا بہتر ہے، دین اسلام کے حق میں کیا بہتر ہے، ملت اسلامیہ کے حق میں کیا بہتر ہے، آپ ملت اسلامیہ کے تشخص و مسائل کے حل کیلئے تو کوئی بات نہیں کرتے، آپ نے ایک دن یوم کشمیر منایا اور بھول گئے، ایک دن یوم القدس منایا اور بھول گئے، ایک کلمہ طیبہ کیلئے مجتمع ہوئے، ریلیاں نکالیں اور بھول گئے، بہرحال آپ نے مفاد پرستوں کو آزاد چھوڑا ہوا ہے، چاہے وہ قومی سطح پر ہوں یا بین الاقوامی سطح پر۔

اسلام ٹائمز: ملک و قوم کو کئی بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہے، عوام و خواص کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
آنے والے وقتوں میں منفی سوچنے کے بجائے قومی مفاد کیلئے سوچیں، ایک دوسرے پر اعتبار کریں۔ مثال کے طور پر مختلف مسالک و مکاتب کے لوگ ایک دوسرے سے نہیں ملتے، کیوں، اس لئے کہ ایک دوسرے کے بارے میں عقیدے و دیگر حوالے سے خدشات رکھتے ہیں، کوئی کسی کو زبردستی شیعہ سے سنی اور سنی سے شیعہ نہیں بنا سکتا، اسی طرح سیاسی حوالے سے بھی جماعتیں اور افراد ایک دوسرے کے بارے میں خدشات رکھتے ہیں، مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم ہو یا مذہبی جماعتیں، یا دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں، سب ایک دوسرے سے ملیں گے، لیکن جب قومی مفاد کے تحفظ کی بات ہو، قومی سطح پر ہم آہنگی کی بات ہو تو اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں، ایک دوسرے کے بارے میں خدشات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم پاک فوج کے بارے میں اتنی منفی بات کرتے ہیں کہ جیسے پاک فوج کیلئے نہیں بلکہ ہندوستانی فوج کے بارے میں بات کر رہے ہوں، کیا کسی قومی ادارے کیلئے ہمارا یہ رویہ درست ہے، اسی طرح کبھی عدلیہ پر اتنا اعتبار کرتے ہیں کہ جیسے وہ آسمان سے اترے ہوئے ہوں اور جب نفرت کرتے ہیں تو پاکستان کا بدترین ادارہ بنا دیتے ہیں، اسی طرح ہم حکومتوں کے بارے میں رویہ اختیار کرتے ہیں، لہٰذا یہ رویہ درست نہیں ہے۔

جب تک حزب اقتدار و حزب اختلاف کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں ہوگا، پاکستان کے دستور اور آئین کی بالادستی کیلئے، جب تک قومی وقار کے مطابق تعلقات نہیں بنیں گے، جب تک ہمارے بعض سیاسی رہنما سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرینگے، عوام ایسے ہی سڑکوں پر آئے گی اور گھروں کو جائے گی۔ دوسری جانب قومی مفاد کو حاصل کرنے والے وہ لوگ جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کیلئے راستے کب ہیں، ان راستے روکے ہوئے ہیں، سب سے بڑا راستہ تو عوام نے خود اپنا روکا ہوا ہے، عوام ہی نے مفاد پرست لوگوں کو اعلٰی سطح پر پہنچا دیا ہے، خاندان کا ایک فرد ایک جماعت میں تو دوسرا فرد دوسری جماعت میں ہوتا ہے، مارشل لا کا مخالف خود اندرونی طور پر اس کو ویلکم کرنے والا نکلتا ہے، اس رویئے نے پاکستان کو کہاں تک پہنچا دیا ہے، اسی نے پاکستان کے دو لخت کر دیا ہے، اب کیا مزید نفرتوں کی بنیاد پر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا قومی مجرم کوئی ایک نہیں بلکہ سب ہونگے۔

اسلام ٹائمز: عالمی حساس منظر نامے میں پاکستان کو مستقل وزیر خارجہ نہ ہونے سے کیا نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
مستقل وزیر خارجہ نہ ہونے کے باعث پاکستان کا خود اپنا امیج بین الاقوامی سطح پر خراب ہو رہا ہے، حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیئے، تاکہ ایک مستقبل بنیادوں پر آزاد ملکی خارجہ پالیسی بن کر سامنے آئے۔

اسلام ٹائمز: شام سمیت اسلامی دنیا کے حالات کے پیش نظر پاکستان کی پالیسی کیا ہونی چاہیئے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری:
پاکستان کے بہت مضبوط برادرانہ تعلقات ایران سے ہمیشہ رہے ہیں اور اتنے ہی مضبوط تعلقات سعودی عرب سے بھی رہے ہیں، عالم اسلام میں پاکستان کو انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے، جسے برقرار رکھتے ہوئے اسے سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہیئے، پاکستان کو ملکی و عالمی سطح پر بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کو کسی مخصوص بلاک کا حصہ بننے سے پرہیز کرنا ہوگا، اگر پاکستان کسی ایک بلاک میں چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان خود اپنے وجود کی نفی کرنے جا رہا ہے، حکومت کو عزت نفس اور ملکی وقار کے خلاف کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے اور پاکستان کو ملت اسلامیہ کے اتحاد اور مسائل و بحرانوں کے حل کیلئے غیر جانبدار رہتے ہوئے کوششیں کرنا چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 593833

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/593833/پاکستان-کو-کسی-مخصوص-بلاک-کا-حصہ-بننے-سے-پرہیز-کرنا-ہوگا-پروفیسر-ڈاکٹر-احمد-قادری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org