0
Sunday 25 Dec 2016 21:54
پاکستان چین، روس اور ایران بلاک سے الگ نہیں رہ سکتا، آج نہیں تو کل اسے انکے ساتھ کھڑا ہونا پڑیگا

شام امریکہ سمیت مغربی طاقتوں کیلئے قبرستان ثابت ہوا، ایران نے شیطان بزرگ کو شکست دیدی ہے، عبداللہ گل

جو پاکستان نے امریکہ کیساتھ افغانستان میں کیا، وہی کچھ ایران نے امریکہ اور اسکے حواریوں کیساتھ شام میں کیا ہے
شام امریکہ سمیت مغربی طاقتوں کیلئے قبرستان ثابت ہوا، ایران نے شیطان بزرگ کو شکست دیدی ہے، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عنداللہ گل سے حلب اور خطے کی نئی بدلتی ہوئی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حلب کا دوبارہ حکومتی کنٹرول میں آنا اسٹریٹیجک لحاظ سے کتنی بڑی اہم پیشرفت ہے۔ اسکے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
محمد عبداللہ گل:
جو بھی ہوا وہ قابل افسوس ہے، بنیادی طور پر شام کے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ہے، وہ موت اور غربت کی زندگی گزار رہے تھے کہ ان پر دہشتگردی کا فتنہ ڈال دیا گیا، کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے کسی فتنے نے اسرائیل کی طرف رخ نہیں کیا، یہ سارے فتنے مسلمانوں کی طرف ہی رخ کر رہے ہیں، خدارا سارے مسلمان بیدار ہو جائیں، خصوصی طور پر عرب ممالک محسوس کریں کہ خطرہ کونسا ہے، آنے والے کل پر نگاہ رکھیں، ماضی سے چھپ کر نہ بیٹھیں، حال اور مستقبل پر نگاہ رکھیں، سچ یہ ہے کہ ہمارا حال بےحال کر دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال صرف شام ہی کی نہیں، پاکستان، عراق، افغانستان، میانمار اور کشمیر کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کیا مسلمانوں کی زندگی ہندوستان میں امن کی طرف جا رہی ہے، ان کے حکمران کہہ رہے ہیں کہ 2021ء میں صرف ہندووں کو رہنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: رابرٹ فسک حلب کی صورتحال کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں اور اسے اسٹریٹیجک حوالے سے اہم پیشرفت گردان رہے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
محمد عبداللہ:
رابرٹ فسک بہت اچھے تجزیہ کار ہیں، ایک سچے دل سے کہوں تو حقیقت یہ ہے وہ حقیقت پر نگاہ رکھتے ہیں، میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ فقط مسلمانوں پر نگاہ رکھتے ہیں اور فیور کرتے ہیں بلکہ وہ حق بات کرتے ہیں اور بڑے عرصے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے سچ بولا ہے اور میں ان کی بہادری کو سلام پیش کرتا ہوں ہے۔ ان کی پرانی روش ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان میں بھی یہی ہو رہا تھا، دنیا کی تمام فورسز آکر یہی چاہتی تھیں کہ ان کے وسائل اور ذخائر پر قبضہ کرلیں، جب سرد جنگ ختم ہوئی تو امریکہ کو جگہ نہیں ملی، اڈے ختم ہونے لگے، اس کے بعد انہوں نے یہاں کا رخ کر لیا، جنرل حمید گل مرحوم کہا کرتے تھے کہ 9/11 ایک بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان اصل نشانہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب جنگ ہوتی ہے تو دنیا بھر کی قوتیں اس ملک میں گھس جاتی ہیں، ایسی صورتحال میں حکمرانوں سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا، حلب میں قتل عام ہوا، بشار الاسد کو کہا گیا کہ کمیائی ہتھیار تلف کر دو تو کیا انہوں نے نہیں کیا؟، انہوں نے تمام ہتھیار تلف کئے، لیکن کیا ان کی جان چھوڑ دی گئی، نہیں، کیونکہ اصل میں شیر نے بکری کو کھانا تھا۔ باوجود یہ کہ بکری کہہ رہی تھی کہ چڑھائی تو آپ کر رہے ہیں، پانی تو آپ کی طرف سے آ رہا ہے، میں کہاں سے گندہ کر رہی ہوں، لیکن اس کو تو بہانا چاہیئے تھا۔ آپ نے دیکھا کہ پوری دنیا شام کے اندر گھس گئی، میں پوچھتا ہوں کہ فرانس اور امریکہ کا کیا کام تھا کہ وہ شام کے معاملے میں داخل اندازی دینا شروع ہوگئے، جب ایران شام میں آیا اور انہیں احساس ہونے لگا کہ ایران تو جنگ جیتا جا رہا ہے، تو ان کو تکلیف شروع ہوگئی، پھر دیگر ممالک بھی آگئے۔ ان کی تکلیف کی شدت اس وقت بڑھنا شروع ہوگئی، جب روس بھی شام کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ روس نے کیونکہ شام کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا ہوا تھا تو اس نے اس کا پاس رکھا، پیوتن نے جس طرح جارجیا میں اپنے معاہدے کا پاس رکھا اور جس طرح سے یوکرین میں ہمت دکھائی۔

دنیا میں نئی سرد اور گرم جنگ کا آغا ہوگیا ہے۔ میں ایک سوال کرتا ہوں کہ اگر داعش کے ابوبکر البغدادی کے ساتھ آپ کی یا میری تصویر آجائے تو یہ ہمیں گونتاموبے جیل میں پہنچا دیں، تو پھر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ سینیٹر جان مکین آج تک کیسے آزاد پھر رہا ہے، یہاں بات آتی ہے تو امریکیوں کو چپ لگ جاتی ہے اور وہ اس پر گفتگو ہی نہیں کرنا چاہتے۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ داعش سے نمنٹے کیلئے 30 سال چاہیئں، ارے بھائی 30 برسوں میں تو دنیا تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر روس کے ساتھ چین بھی آگیا، چین، روس اور ایران کے ساتھ پاکستان بھی آگیا ہے، پاکستان اس بلاک سے الگ نہیں رہ سکتا، آج نہیں تو کل کھڑے ہونا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ طاقتیں ایران اور پاکستان کے تعلقات میں دراڑیں ڈال رہی ہیں۔ ان کو یہ تعلقات اچھے نہیں لگ رہے۔ میں اس اجلاس میں موجود تھا جس میں جمہوری اسلامی کے صدر حسن روحانی نے ایمان آفروز انداز میں کہا کہ پاکستان پر حملہ ایران پر حملہ تصور کیا جائیگا، انہوں نے دو بار یہ جملہ کہا، بلوچستان سے متعلق میرے والد کہتے رہے کہ غلط بات ہے کہ ایران پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، کیونکہ اگر فرض بھی کرلیں تو ایران کا سیستان چلا جائیگا۔ اصل نقشہ کس کا ہے، اس پر کوئی سوچ ہی نہیں رہا۔ اصل میں ایک خوف کی بنیاد پر ایک پالیسی تشکیل دی گئی۔ عرب ممالک کو خوف دلایا گیا کہ ایران ان کے ساتھ پتہ نہیں کیا کرے گا، میں سمجھتا ہوں کہ ایران کے کوئی ایسے عزائم نہیں ہیں۔ ایران نے وہی کیا کہ جو پاکستان نے افغانستان میں ایک بڑی طاقت کو شکست دے ڈالی، جس کی وجہ سے پاکستان کا دفاع ممکن ہوا اور افغانیوں کو ایک فتح نصیب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پالیسی کو آگے نہیں چلایا گیا۔ شام میں ساری مغربی طاقتیں تھیں لیکن شام کا میدان جنگ ان کیلئے قبرستان ثابت ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: ترکی کی پالیسی میں بڑی تبدیلی آئی، حلب محاذ میں شریک نہیں ہوا، ماسکو میں اجلاس تھا تو ایک دن قبل انقرہ میں روسی سفیر کا قتل ہو جاتا ہے، اس ساری صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد عبداللہ گل:
صاف سی بات ہے کہ امریکہ سے دوری کا نتیجہ ہے، ایک نئے بلاک کے ساتھ کھڑے ہونے کا نتیجہ ہے، آپ کے ساتھ سابقہ انٹرویو میں گزارش کی تھی کہ کل کے دشمن دوست بنے والے ہیں اور آج کے دوست کل کے دشمن ہوں گے، تو بات آپ کے سامنے آگئی۔ خطے کے اندر نئی تبدیلی رونما ہو رہی ہے، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ جب گوادر میں 26 چینی باشدوں کو مار دیا گیا تھا اور ہمارے ایک وزیر صاحب وہ لاشیں لیکر چین پہنچے تھے، لیکن چین نے اس پر ایک حرف بھی نہیں کہا تھا بلکہ کہا تھا کہ ہمیں پتہ ہے کہ یہ لاشیں کیوں آئی ہیں، کیونکہ وہ اصل سازش کو سمجھتے تھے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ اسی طرح روس نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کیا اور ایک دن بعد ہونے والے ماسکو اجلاس کو منسوخ نہیں ہونے دیا اور کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اصل کھلاڑی کون ہے، جو پیچھے چھپا ہوا ہے۔ اصل میں یہ سارا کام شیطان بزرگ ہی کر رہا ہے، اس کے کندھے پر بیٹھا اسرائیل کر رہا ہے، یہ اس کو چلانے والا ہے۔

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ نے اسرائیل کیخلاف ایک قرارداد منظور کرلی ہے، جس میں اسے روکا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقوں میں نئی تعمیرات بند کرے، پہلی بار امریکہ نے اس کو ویٹو نہیں کیا لیکن ووٹ بھی نہیں ڈالا، کیا امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔؟
محمد عبداللہ گل:
امریکہ کے اندر بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے، آپ دیکھیں کہ ٹرمپ کچھ بیان دیتا تو اوباما کچھ بیان دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جی ٹرمپ 20 جنوری کے بعد صدر ہوگا، ابھی میں ہی صدر ہوں۔ اب ایک ہی پالیسی چلے گی جو صدر امریکہ کی چلے گی۔ امریکہ نے بہت ظلم کر لئے ہیں، اب ان کی باری ہے۔ اب ٹرمپ کو پالیسی تبدیل کرنی چاہیئے، پہلے ہی لوگ بش اور اوباما کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اگر پالیسی میں تبدیلی لائیں گے تو یہ امریکی عوام اور انسانیت کیلئے بہتر ہوگا۔ اگر نہیں کریں گے تو ظالم ہمیشہ کی طرح نسیت و نابود ہو کر رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکی صدر اوباما کہہ رہا ہے کہ روس نے امریکہ کے ووٹ ہیک کئے ہیں۔ اس بیان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد عبداللہ گل:
پہلی بات یہ ہے کہ روس کو کیا ضرورت پڑی تھی، پہلے تو یہ ساری دنیا کے الیکشن ہیک کرتے رہے، مینڈیٹ پر زبردستی ڈاکہ ڈالتے رہے، اپنی مرضی کے لوگ لاتے رہے۔ کیا یہ کام پاکستان کے اندر نہیں ہوا۔ عجیب نہیں کہ پاکستان کے حکمران عوام سے ووٹ لیتے ہیں لیکن مینڈیٹ امریکہ کا لیتے ہیں، ڈکٹیشن ان کی ہوتی ہے، آج امریکہ کے ساتھ ہوا تو اس پر یہی کہوں گا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی، یا پھر امریکہ شکست قبول کر لے۔ نائن الیون سے قبل ان کا دعویٰ تھا کہ ہماری سکیورٹی کا ایسا نظام ہے، ویسا نظام ہے، وارننگ سسٹم لگا ہوا ہے، وہ نظام خود بخود فوٹو لیتا ہے اور وارننگ جاری کرتا ہے، کسی بھی طیارے کو ورلڈ سنٹر سے 12 کلومیٹر پہلے ہی تباہ کیا جاسکتا ہے، اس سب کے باوجود جہاز سولہ کلومیٹر اندر گھس گئے۔ یہ باتیں تو آپ نے بتائی تھیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی پرانی ہوچکی ہے، ان کو روس سے سبق سیکھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: عراق میں بھی صرف موصل باقی رہ گیا، اسکے بعد امریکہ کا خطے میں کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔؟
محمد عبداللہ گل:
میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ ماضی کا قصہ اور تاریخ بنتا جا رہا ہے، ایک ڈوبتا سورج بننے والا ہے، یہ تو ہونا تھا، ظلم پر زیادہ دیر معاملات نہیں چلتے، پچھلی دو دہائیوں سے انسانیت کا بہت خون بہا، اب امریکہ کا ایک ہی رول ہے کہ نو رول، خطے مین نئی طاقتوں نے جنم لیا ہے، عرب اسپرنگ ختم نہیں ہوئی، معاملات خرابی کی طرف جا رہے ہیں، سعودی عرب میں آپ نے دیکھا کہ بادشاہ سلمان اوباما کی بیوی کے سامنے نماز پڑھنے چلا گیا، ان کے ساتھ ان کی تلخی چل رہی ہے۔ ایک سوچ میں تبدیلی آرہی ہے۔ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ عرب اسپرنگ ختم نہیں ہوئی۔ او آئی سی کوئی کردار ادا نہیں کرسکتی تو کوئی ایک اسلامی ملک رول ادا کرے۔ ایک نئی یونائٹڈ نیشن تشکیل دیں۔

اسلام ٹائمز: جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کوئٹہ سانحہ کے حوالے سے انکوائری رپورٹ میں بہت کچھ واضح کر دیا ہے، وفاقی وزیر داخلہ کی نااہلی، اسکے علاوہ کہاں کہاں کمی کوتاہی ہوئی، سب کچھ بتا دیا، اسکے بعد کیا حکومت کو اپنی سمت درست نہیں کر لینی چاہیئے۔؟
محمد عبداللہ گل:
یہ بات درست ہے کہ انہوں نے 54 دن میں یہ رپورٹ تیار کی ہے، اس عرصہ میں انہوں نے بہت سارے ڈاکومنٹس کو چک کیا ہے اور رپورٹ تیار کی ہے، انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر نظریہ کو تبدیل کیا جانا چاہیئے، یعنی دین اور سیاست کو جدا جدا رکھا جائے، میرے خیال میں پاکستان میں یہ ممکن نہیں ہے، جو کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے وہ درست ہیں، اس کے علاوہ ہیومن ایرر (Human Error) موجود ہے، بنیادی طور پر انہوں نے خاکہ فراہم کر دیا ہے، اس میں مزید گھس کر تحقیق ہونی چاہیئے، تھینک ٹینک کو شامل کیا جانا چاہیئے، کمی کوتاہی کو درست کیا جانا چاہیئے۔ ویسے آج تک حمود الرحمان کمیشن رپورٹ اور ابیٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو سامنے نہیں لایا گیا، لیکن یہ پہلی رپورٹ ہے جو منظر عام پر لائی گئی ہے، اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: نیب کی سال 2016ء کی رپورٹ چک کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ساری خرابی فقط سندھ یا بلوچستان میں ہے، اسکے علاوہ پنجاب میں سب ٹھیک ہے۔ جنرل کیانی کا بھائی ڈی ایچ اے سکینڈل میں مرکزی کردار تھا لیکن مکھن سے بال کی طرح اسے نکال لیا گیا، یہ انصاف تو نہ ہوا نا۔؟
محمد عبداللہ گل:
آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو، آپ اور میں بھی آواز خلق ہی ہیں نا، ہم کہہ رہے ہیں کہ انصاف نہیں ہو رہا۔ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔ ایک چیف جسٹس صاحب پانامہ لیکس پر گھر چلے جاتے ہیں، وہ انصاف ہی نہیں کرتے، اس کے علاوہ دیگر اقوام کو دیکھیں، لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں، ایک وزیراعظم گھر چلا جاتا ہے۔ ویسے ہماری قوم کا کردار بھی کمزور نظر آتا ہے، کورین ہم سے مضبوط نکلے، جن کا کوئی مذہب نہیں۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ انہیں جنرل راحیل نے حکومت اور عدالت پر دباو ڈلوا کر باہر بھجوایا۔ کہاں ہے انصاف، ایک آرمی چیف کو یہ زیب دیتا ہے۔ اس بیان پر کیا کہتے ہیں۔؟
محمد عبداللہ گل:
دیکھیں اس پر تو جنرل راحیل کو ہی موقف دینا چاہیئے۔ ابھی تو وہ گھر چلے گئے ہیں، ابھی تو کئی اور بھی سوال اٹھیں گے۔ ایک مجرم کو جنرل راحیل نے سپورٹ کی ہے، قوم اسے مجرم سمجھتی ہے، کشمیر کے اوپر اس نے باڑ لگانے دی، یہ مجرم بندے پکڑ کر پانچ ہزار ڈالر پر امریکہ کو فروخت کرتا رہا۔ اس مشرف نے کیا کیا ہے؟، ڈرون حملے کرنے دیئے۔ یہ اچانک انکشاف کیوں کیا؟، جب تک راحیل شریف موجود رہے، اس وقت کچھ نہیں کہا، کوئی بیان نہیں دیا، یہ ٹائمنگ بڑی اہم ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، آپ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ فوج عدالت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے، آپ نے جنرل راحیل کے کردار کو داغدار کیا، جنہوں نے بڑی محنت کرکے فوج کا امیج بہتر بنایا۔ میں اسے جنرل کہنا ہی نہیں چاہتا، جنرل کبھی بکتا نہیں۔ یہ تو بک گیا تھا۔ ایک فون کال پر امریکہ کے آگے ڈھیر ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 594608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش