2
0
Monday 26 Dec 2016 21:28
داعش کوئی فرقہ نہیں، اسلام کو بدنام کرنے کیلئے بنایا گیا گروہ ہے

امریکہ کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے، علی جاوید نقوی

امریکہ مشرق وسطٰی میں شیعہ اور سنی کو لڑانا اور سعودی عرب کو بھی تقسیم کرنا چاہتا ہے
امریکہ کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے، علی جاوید نقوی
علی جاوید نقوی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، وہ سینیئر تجزیہ کار، صحافی، دانشور اور کالم نگار ہیں۔ اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز انہوں نے کالم نگاری سے کیا۔ روزنامہ جنگ، روزنامہ پاکستان، روزنامہ انصاف، روزنامہ دن، روزنامہ دنیا میں چیف رپورٹر، میگزین ایڈیٹر اور سیاسی رپورٹر رہے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت کے ہفت روزہ میگزین "ندائے ملت" کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ سچ ٹی وی کے پہلے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اب تک قومی و بین الاقوامی سیاست پر 9 سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ عالمی حالات بالخصوص مشرق وسطٰی کی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حلب کو آزادی مل گئی، یہ بہت بڑی پیشرفت ہے، اسکے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
علی جاوید نقوی:
آزادی کے ہمیشہ اچھے اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں، لیکن کیا فریقین اس آزادی کو تسلیم بھی کرتے ہیں یا شکست خوردہ فریق مزاحمت کیلئے کوئی اور راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حالات دوبارہ بگڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ، سعودی عرب اور اتحادی ممالک شامل ہیں، تکفیریوں کی یہ شکست فتح تو ہے، لیکن اس کیخلاف پروپیگنڈہ زیادہ ہو رہا ہے۔ بعض ممالک داعش کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ترکی، روس اور ایران کا اجلاس ہوا ہے، جس میں شام کی سالمیت پر اتفاق کیا گیا ہے اور فیصلہ ہوا ہے کہ شام میں قیام امن کیلئے کردار ادا کیا جائے گا۔ یہ مثبت امر ہے، اس سے بہتر حل یہ ہے کہ اتحادی بشار الاسد کے مخالفین کی امداد کی بجائے انہیں مذاکرات کی میز پر لائیں، بات چیت کے ذریعے مسائل حل کئے جائیں، کیونکہ آخر کار ہر جنگ کا خاتمہ مذاکرات سے ہی ہوتا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ہم امن چاہتے ہیں تو پھر سارے حلب کی آزادی
کو تسلیم کریں۔ اگر اس آزادی کو تسلیم نہ کیا گیا تو یہ آگ مزید پھیلتی جائے گی اور اردگرد کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حلب میں تکفیریوں کی شکست کا ردعمل پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے۔؟؟
علی جاوید نقوی:
تکفیریوں کی شکست کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے، اس کیلئے یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے حامی کیا سوچ رہے ہیں۔ داعش کو جب تک بیرونی امداد ملتی رہے گی، یہ نہ صرف شام بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرہ ہے۔ داعش کے حوالے سے یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ یہ پورے خطے میں پھیل رہی ہے۔ پاکستانی حکومت نے تو تردید کی ہے کہ داعش کا یہاں کوئی وجود نہیں۔ ہمارے سکیورٹی ادارے بھی کہتے ہیں کہ یہاں داعش نہیں، لیکن بہت سی ایسی تنظیمیں ضرور موجود ہیں، جن کے داعش کیساتھ تعلقات ہیں۔ بہت سے لوگ گئے ہیں شام، داعش میں شمولیت کیلئے، حتٰی یہاں داعش کیلئے بھرتیوں تک کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ تو سکیورٹی اداروں کو اس سلسلہ کو روکنا ہوگا۔ داعش کی پاکستان میں سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ داعش کوئی فرقہ نہیں، بلکہ یہ ایک خوف ہے، جو پاکستان و اسلام دشمن قوتوں نے پیدا کیا ہے۔ داعش ہو یا القاعدہ، لشکر جھنگوی ہو یا تحریک طالبان، یہ سب پاکستان کیخلاف ہیں۔ ان میں باہمی روابط ہیں۔ ان تمام تنظیموں کے ڈورے ہلانے والی ایک ہی ایجنسی ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے اس صورتحال سے آگاہ ہیں۔ اگر ان تنظیموں کو ڈھیل دی گئی یا ان کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کا مظاہرہ کیا گیا تو ملکی سالمیت کیلئے تباہ کن ہوگا۔

داعش کے نظریاتی خاتمے کیلئے لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ داعش اسلام کی جنگ نہیں لڑ رہی، نہ یہ اسلام کی ترجمان ہے۔ جو طاقت داعش کے پیچھے ہے، اس کا مقصد مسلم ممالک کو لڑانا ہے۔ ان کے وسائل تباہ کرنا ہے۔ شام میں بشار الاسد کیخلاف جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟ سرکاری فوج متاثر ہوئی، ملک معاشی
بحران کا شکار ہوا، یہ سب کیوں ہوا؟ صرف اس لئے کہ شام خطے میں واحد ملک تھا جو اسرائیل کو چیلنج کرتا تھا۔ شام کو اسی جرم میں کمزور کرنے کیلئے داعش کو گلے ڈال دیا گیا۔ اس سے مسلمان نے مسلمان کا گلہ کاٹا۔ یہ داعش مسلمانوں کے لبادہ میں دراصل اسلام دشمنوں کی آلہ کار ہے۔ کہاں تھا یہ ابوبکر البغدادی پہلے؟ اسے تو کوئی جانتا تک نہیں تھا، اچانک کہاں سے نکل آیا؟ یہ سب اسلام دشمنوں کی پیداوار ہے اور ان کا مقصد صرف اسلام اور مسلم ممالک کو نقصان پہنچانا ہے۔ دشمن چاہتا ہے پاکستان میں بھی داعش کا نیٹ ورک قائم کر دیا جائے، لیکن پاکستان کے عوام باشعور ہیں اور ان سازشوں کو سمجھتے ہیں۔ داعش کو پاکستان میں کسی فرقے کی حمایت حاصل نہیں۔

اسلام ٹائمز: ترکی میں روسی سفیر کے قتل کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں۔؟
علی جاوید نقوی:
ترکی اور روس ایک دوسرے کے قریب آ رہے تھے، اس قربت سے امریکہ کو نقصان ہونا تھا، اس لئے امریکہ نہیں چاہتا کہ روس اور ترکی ایک دوسرے کے قریب ہوں، کیونکہ ان کی قربت سے مشرق وسطیٰ میں مسائل حل ہونے کا امکان ہے۔ روسی سفیر کو کس کے کہنے پر قتل کیا گیا، اس کی تحقیقات ہو رہی ہیں، یہ واضح ہو جائے گا کہ اس میں امریکہ ملوث ہے یا اسرائیل، سب حقائق سامنے آجائیں گے۔ اس قسم کے واقعات پوری سیاست کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ روسی سفیر کو جس پولیس اہلکار نے قتل کیا، یہ اس کا ذاتی فعل نہیں، نہ یہ کوئی ردعمل تھا، یقینی طور پر اس کی برین واشنگ کی گئی تھی، ایسے حالات بنائے گئے تھے کہ وہ روسی سفیر کو قتل کر دے۔ روس اور ترکی دونوں اس سازش کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو ہر سطح پر قائم رکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل کیخلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کے پاس ہونے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟؟
علی
جاوید نقوی:
اسرائیل کیخلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کا پاس ہونا اچھا پیغام ہے، پہلی بار امریکہ کھل کر اسرائیل کیخلاف آیا ہے، لیکن آپ دیکھیں کہ اگلے دن اسرائیل کے وزیراعظم نے ان ممالک کے سفیروں کو طلب کرکے احتجاج کیا اور کہا اسرائیل یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ پیغام عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ان ممالک کو چاہیے کہ اسرائیل کیخلاف اقتصادی و تجارتی پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکہ و برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت روک دیں۔ لیکن اس قرارداد کے باوجود امریکہ اور اسرائیل میں دوستانہ تعلقات برقرار رہیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ قرارداد سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، مزید پیچیدگی پیدا ہوگی۔ اسرائیلی وزیراعظم کے بقول اوباما اور ہیلری کلنٹن کی وجہ سے قرارداد منظور ہوئی ہے۔ یعنی ٹرمپ کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر اس طرح نہیں کریں گے۔ اسرائیل کی ڈھٹائی دیکھیں امریکہ 2 ارب ڈالر سے زیادہ امداد دے رہا ہے، برطانیہ اور یورپی یونین سے ملنے والی امداد الگ ہے۔ یہ امداد وہ فوجی طاقت میں اضافے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ اگر خطے میں قیام امن کیلئے سنجیدہ ہے تو اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روک دے۔ اقتصادی پابندیاں عائد کر دے اس سے خطے میں امن قائم ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اوباما نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح میں روس نے کردار ادا کیا، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علی جاوید نقوی:
ابھی تک الزامات کا کوئی ثبوت نہیں آیا، سی آئی اے کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا ہے، ممکن ہے اس کے پاس کوئی ثبوت ہوں، لیکن ٹرمپ کی یہ بات درست ہے کہ اگر روسی ہیکر یہ کام کر رہے تھے تو کیا سی آئی اے سو رہی تھی؟ اگر روسی خفیہ ایجنسی امریکہ کے صدارتی الیکشن پر اثرانداز ہوسکتی ہے اور اپنی پسند کا امیدوار
کامیاب کروا سکتی ہے تو پھر امریکہ کو سوچنا چاہیے کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا، جو ملک اپنے انتخابی سسٹم کو تحفظ نہیں دے سکتا، وہ مشرق وسطٰی یا دوسرے ممالک کو کیا تحفظ دے گا، سی آئی اے کا یہ الزام خود اس کی کمزوری کا اعتراف ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطٰی میں امریکہ کو مسلسل شکست ہو رہی ہے، مستقبل کا نقشہ کیا دیکھ رہے ہیں۔؟؟
علی جاوید نقوی:
امریکہ کی تمام پالیسیاں ضروری نہیں کہ کامیاب ہوں، بہت سی پالیسیاں ناکام بھی ہوئی ہیں، اس سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کو بھی بہت نقصان پہنچا، امریکہ مشرق وسطٰی کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، وہ شیعہ اور سنی کا بلاک بنانا چاہتا ہے۔ اس کی پالیسی یہ ہے کہ دونوں کو آپس میں لڑایا جائے اور اپنا اسلحہ فروخت اور اپنے مفادات پورے کئے جائیں۔ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا بھی اس کی پالیسی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ کا ایجنڈا مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے، مضبوط کرنا نہیں۔ اسی لئے وہ داعش جیسی تنظیمیں بناتا ہے، امریکہ نے لیبیا، شام اور عراق کو تباہ کر دیا۔ اب اس کا اگلا ہدف عرب ممالک ہیں، امریکہ سعودی عرب کو بھی تقیسم کرنا چاہتا ہے۔ ہم سب شیعہ ہوں یا سنی، ہمارے لئے حرمین شریفین کی حرمت اپنی جان سے زیادہ ہے، ہم میں سے کوئی بھی سعودی عرب کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، مگر مغربی میڈیا ایسے پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ جیسے مشرق وسطٰی میں 2 مسلمان فرقے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا جو یہودیوں کے زیر اثر ہے، انہیں کیا پڑی کہ وہ بتائیں کہ داعش کیخلاف شیعہ اور سنی مل کر لڑ رہے ہیں۔ عراق ہو یا شام شیعہ اور سنی متحد ہیں اور ان کا ہدف داعش جیسی اسلام دشمن تنظیمیں ہیں۔ مغربی میڈیا فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی تصاویر فوٹو شاپ کر کے شائع کر رہا ہے، جس کا مقصد شیعہ سنی کو مشتعل کرنا ہے، یہ آگ پاکستان میں بھی پھیلانے
کی کوشش ہو رہی ہے۔ مقدس مقامات سب کیلئے مقدس ہیں، خانہ کعبہ کی حفاظت کیلئے شیعہ سنیوں سے پہلے اپنا خون پیش کریں گے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ آپ سعودی عرب کے سیاسی نظام سے مطمئن نہ ہوں، ہمارے ہاں بھی لوگ نواز شریف سے اور کچھ لوگ زرداری سے مطمئن نہیں، یہ سیاسی اختلاف ہے، سعودی عرب سیاسی اختلاف کو مذہب کا رنگ نہ دے۔ کوئی آل سعود پر حملہ آور ہو تو وہ یہ شور نہ مچائے کہ نعوذباللہ کعبہ پر حملہ ہوگیا۔ آل سعود تو آل سعود ہیں، خانہ کعبہ تو نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: یمن کے صورتحال کے حوالے سے کیا کہتے ہیں؟؟
علی جاوید نقوی:
یمن میں بدقسمتی سے لڑائی جاری ہے، فریقین کوشش کے باوجود مذاکرات کی میز پر اکٹھے نہیں ہوسکے۔ مذاکرات کے 2 دور ہوئے، لیکن بات چیت کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس لڑائی میں نقصان عام آدمی کا ہو رہا ہے۔ جس کا تعلق شیعہ اور سنی دونوں سے ہے۔ یمن کی تباہی کی ذمہ دار بعض علاقائی اور عالمی طاقتیں ہیں، جن کا ایجنڈا مسلم ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔ وہ یمن کو دوبارہ فرقہ واریت کی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ یمن ہو یا بحرین، فیصلے کا اختیار وہاں کے عوام کو دیا جانا چاہیے، عوام جو نظام چاہتے ہیں، وہ لانے کی آزادی دی جائے، میں اور آپ فیصلہ نہ کریں کہ کس طرح کا نظام ہونا چاہیے۔ اتنی تباہی و بربادی کے بعد بھی یمن کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ او آئی سی مشرق وسطٰی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ نواز شریف نے ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کیلئے کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ میرے خیال میں پاکستان کو ہی مشرق وسطٰی کے مسائل کے حل کیلئے اپنا غیر جانبدارانہ اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ کسی ایک فریق کی حمایت میں اور دوسرے کیخلاف فوج بھیجنے کا اقدام قطعاً نہیں ہونا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 594840
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

فاطمہ اقبال
Pakistan
امریکہ واقعی مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے، نقوی صاحب کی بہت اچھی گفتگو ہے، امریکہ کا ہدف اب سعودی عرب ہے، وہ سعودی عرب کو تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ ایران اورسعودی عرب کو مل کر اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
اختر علی
Pakistan
بہت اچھا انٹرویو ہے، علی جاوید نقوی صاحب نے عالمی منظر نامے کے حوالے سے عمدہ جوابات دیئے ہیں، انٹرویو لینے والے تصور شہزاد بھی اچھے سوالات کے چناؤ پر داد کے مستحق ہیں۔ ابھی اس انٹرویو میں تشنگی پائی جاتی ہے، اگر ہوسکے تو انٹرویو کی ایک نشست اور ہونی چاہیے۔۔۔
ہماری پیشکش