0
Wednesday 4 Jan 2017 13:38

شہید ملت کے مفاد کیلئے بلا تخصیص ہر وقت کام کرنے کو تیار رہتے تھے، مسز روبینہ بلوچ

شہید ملت کے مفاد کیلئے بلا تخصیص ہر وقت کام کرنے کو تیار رہتے تھے، مسز روبینہ بلوچ
شہید اشفاق احمد بلوچ یکم نومبر 1968ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ مریالی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق بلوچ خاندان سے تھا، انکا گھرانہ کوئی خاص مذہبی یا سیاسی نہیں بلکہ ایک عام اہل تشیع گھرانہ ہے، ان کے والد ایک پولیس آفیسر تھے، شہید ایم ایس سی فزیکل ایجوکیشن اور سکول میں پڑھاتے تھے، وہ بہت لائق اور ذہین انسان تھے۔ انکی شہادت 4 جنوری 2011ء کو نامعلوم دہشتگردوں کے ہاتھوں ڈیوٹی پر جاتے ہوئے مریالی پیٹرول پمپ پر ہوئی، شہید کے سوگواروں میں 5 بیٹیاں اور ایک بیوی ہے، شہید کی اہلیہ روبینہ شاہین بلوچ ایم اے ایم ایڈ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک گورنمنٹ سکول میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔ شہید اشفاق احمد بلوچ کی برسی کے موقع پر شہید کی شخصیت کو مزید جاننے کے لئے اسلام ٹائمز نے انکی اہلیہ سے گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا۔؟
مسز روبینہ بلوچ:
شہید کا اپنے گھر والوں کے ساتھ نہایت بہترین، مشفقانہ اور ہمدردانہ رویہ تھا، وہ بہت ہی کیئرنگ انسان تھے، بڑے چھوٹے کا ہر لحاظ سے اور ہر مقام پہ خیال رکھتے تھے، چاہے زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو یا کوئی بھی مشکل ہو، وہ سب کے مسائل کو حل کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ وہ بہت ہی خدمت گذار انسان تھے۔

اسلام ٹائمز: کیا شہید کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے بھی وابستہ تھے۔؟
مسز روبینہ بلوچ: شہید کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے، لیکن اپنی فقہ جعفریہ پر جان قربان کر دینے والوں میں سے تھے۔ ملت کا درد کوٹ کوٹ کے ان کے سینے میں بھرا ہوا تھا۔ وہ جماعتوں سے بالاتر ہو کر صرف ملت کے مفاد میں کام کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتی ہیں کہ انکو کیوں ٹارگٹ کیا گیا؟ کیا انکی کسی سے ذاتی دشمنی بھی تھی۔؟
مسز روبینہ بلوچ:
شہید کو صرف اس لئے مارا گیا کیونکہ کو حسینؑ کے ماننے والے تھے، آئمہ طاہرین کے چاہنے والے تھے۔ وہ ہمیشہ حق کی بات کرتے تھے، انہیں فقہ جعفریہ سے مخلصانہ وابستگی اور مذہب کی خدمات میں پیش پیش ہونے کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ شہید بہت خوش اخلاق اور بہت رحم دل تھے، انکی کسی کے ساتھ بھی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

اسلام ٹائمز: انکی مذہبی خدمات کے بارے میں کچھ بتائیں۔؟
مسز روبینہ بلوچ: شہید زیادہ تر ملت جعفریہ سے وابستہ لوگوں کی مالی امداد کرتے تھے، بالخصوص امام بارگاہوں اور مساجد کے لئے کام کرتے تھے، مجالس ڈیوٹی انجام دینا انکا پسندیدہ کام تھا اور ڈیوٹی کے دوران انھوں نے کبھی وقت کی بھی پرواہ نہیں کی کہ آدھی رات ہوگئی ہے، اب گھر جانا چاہیئے۔ شہید کو لوگوں کی خدمت کرکے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی اور وہ خدمت خلق میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، جب بھی کسی نے کوئی کام بتایا تو جی اور بسم اللہ کرکے اُٹھے۔ میں نے کبھی کسی کیلئے ان کے منہ سے انکار نہیں سُنا۔ کبھی بھی کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے، یہ ان کی بہت ہی خاص بات تھی۔ وہ ہمیں بھی اکثر کہا کرتے تھے کہ جب بھی کوئی سوالی آئے تو اُسے کبھی خالی نہ لوٹانا، زیادہ نہ سہی کم ہی کیوں نہ ہو، دے ضرور دیا کرو۔ شہید مذہبی سرگرمیوں میں پیش پیش ہوتے تھے۔ اپنی ملت کے لئے بہترین خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

اسلام ٹائمز: کسی بھی خاتون کیلئے اسکا سب سے بڑا سہارا اسکا شوہر اور بچوں کیلئے انکا باپ ہوتا ہے، انکی شہادت کے بعد آپ کیسا محسوس کرتی ہیں۔؟
مسز روبینہ بلوچ:
ان کی شہادت کے بعد میں خود کو بہت تنہا اور اور بعض معاملات میں بےبس محسوس کرتی ہوں، کیونکہ بحیثیت شوہر وہ نہایت کئیرنگ انسان تھے، وہ میرے تمام حقوق اور میری ضروریات کا مکمل خیال رکھتے تھے، وہ بچوں کے لئے بہت شفیق باپ تھے اور بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ہر مقام پہ ان کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے، لیکن وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔

اسلام ٹائمز: انکی شہادت کے بعد انکی بچیوں کے کیا تاثرات ہیں، بچیوں میں سب سے زیادہ کون انہیں یاد کرتا ہے۔؟
مسز روبینہ بلوچ: شہید کی بڑی بیٹی ان کو سب سے زیادہ یاد کرتی ہے، کیونکہ اس کی شادی ان کی شہادت سے پہلے ہوگئی تھی۔ وہ باپ کی کمی کو بہت شدت سے محسوس کرتی ہے۔ جو سب سے چھوٹی بیٹی ہے، وہ اس وقت دو سال کی تھی اور ہر وقت باپ کے گلے کے تعویذ بنی رہتی تھی، وہ بہت زیادہ اپنے باپ سے مانوس تھی، بچیوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے بابا کی شہادت پہ فخر ہے، ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہم شہید کی بیٹیاں ہیں۔

اسلام ٹائمز: اپنی زندگی میں کبھی انہوں نے شہادت کی آرزو کی؟ یا کبھی آپ سے کہا ہو کہ مجھے لگتا ہے میں شہید ہونگا۔؟
مسز روبینہ بلوچ: جی ہاں، وہ شہادت کے شدت سے آرزو مند تھے اور دعا مانگا کرتے تھے کہ میں شہید ہو جاوں اور اپنی بڑی بیٹی سے اکثر کہتے تھے کہ میرے لئے دعا کرو کہ خدا مجھے مجاہدین امام زماںؑ میں شمار کرے، جب وقت ظہور ہو تو امام میری قبر کو ٹھوکر لگا کر کہیں کہ اٹھو میرے مجاہد۔ وہ اس بات کا یقین بھی رکھتے تھے کہ میں نے شہید ہونا ہے، اکثر ہم ان سے کہتے تھے کہ آپ کی صحت ٹھیک نہیں، اپنی صحت کا خیال رکھیں، تو وہ ہنس کر کہتے تھے کہ ہمیں کوئی عام موت آنی ہے؟ اور وہ خود کو امام کے منتظرین میں شمار کرتے تھے۔

اسلام ٹائمز: قرآن کی آیت کے مطابق شہید زندہ ہوتا ہے، کیا وہ کبھی آپکو خواب میں ملے یا آپکو کوئی نصیحت کی یا کسی مشکل میں آپکی رہنمائی کی ہو۔؟
مسز روبینہ بلوچ:
شہید ہمارے بہت ہی قریب ہیں، گھر میں کوئی بھی پروگرام ہو، غم ہو یا خوشی ہو، وہ خواب میں مل کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، اگر کوئی مصیبت آنے والی ہو تو وہ خواب میں آکے اس بات کا اشارہ دے دیتے ہیں کہ یہ کام ہونے والا ہے۔ اکثر شہید اپنے بھانجے بھتیجے وغیرہ کو خواب میں ملتے رہتے ہیں۔ ان کی کوئی بہن نہیں تھی، یہ چار بھائی تھے، ان کی منہ بولی بہن بنی ہوئی تھی، وہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، اکثر ان کے خواب میں پیغام دیتے کہ ہم تک پہنچا دیں۔

اسلام ٹائمز: کوئی پیغام جو آپ آج کی نسل اور بالخصوص شہداء کے خانوادوں کو دینا چاہیں۔؟
مسز روبینہ بلوچ: آج کی نسل کیلئے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ خود کو ہر قسم کے حالات کے لئے تیار رکھیں، کیونکہ موجودہ دور فقہ جعفریہ کے لئے انتہائی سخت دور ہے، نوجوانوں سے گذارش ہے کہ وہ اپنے کردار کو بہتر بنائیں اور اپنے کردار سے پہچانے جائیں، اس کے علاوہ اپنے مذہب کے لئے خدمات انجام دیں، آپس میں اتفاق سے رہیں، تاکہ مشکل کی گھڑی میں دشمن کے لئے فولاد کی دیوار ثابت ہوں، شہادت تو ہمارا فخر ہے اور شہادت کا جام پینے سے نہ گھبرائیں، مذہب کی بقاء اور دین کی تعلیم کے لئے آخری حد تک کوشش کریں۔ شہداء کے خانوادوں کے لئے یہی کہوں گی کہ صبر سے کام لیں، خدا کی رضا پر راضی رہیں، ہمت سے کام لیں، شہادت مصیبت کا نام نہیں بلکہ شہادت خدا کی عطا کردہ ایک نعمت ہے اور فخر محسوس کریں کہ خدا نے ان کے گھرانے کو آلِ محمدﷺ کی محبت میں منتخب کیا۔

اسلام ٹائمز: آخر میں کوئی ایسا پیغام جو آپ اسلام ٹائمز کے توسط سے موجودہ حکمرانوں کو دینا چاہیں۔؟
مسز روبینہ بلوچ: میرا حکمرانوں کے لئے خاص پیغام ہے کہ خدارا پاکستان کی تشکیل پر غور کریں، کیا یہ ملک فرقہ پرستی کی بنیاد پہ تشکیل ہوا تھا؟ کیا یہ شیعہ سنی الگ الگ کے لئے بنا تھا یا تمام مسلمانوں کے لئے تھا؟ صرف ہمارے ہی امن پسند لوگوں کے لئے یہ زمین کیوں تنگ کر دی گئی ہے، حالانکہ یہ مشترکہ سرزمین ہے، سب کا حق ہے اس پر، صرف ہماری ہی نسل کشی کیوں کی جا رہی ہے۔ ان حکمرانوں کا عدل کہاں ہے؟ اس ملک میں مخصوص فقہ کو نہ تو جان کا تحفظ دیتے ہیں، نہ مال کا، نہ ہی عزت کا۔ ہمارے ہی بچے یتیم ہو رہے ہیں، ہماری بہنوں سے ان کے بھائی چھن رہے ہیں، کیا ہمیں اس سرزمین پر جینے کا حق نہیں ہے؟ باقی ممالک میں بھی شیعہ سنی سب مل کر رہتے ہیں، وہاں تو یہ سب نہیں ہوتا، صرف پاکستان میں ہی کیوں؟ خدارا اس دہشتگردی کے ناسور پر قابو پائیں، تاکہ ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں اور یہ ملک امن کا ملک کہلائے، جیسا قائداعظم نے چاہا تھا، ویسا پاکستان بنے۔
خبر کا کوڈ : 596873
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش