1
0
Tuesday 17 Jan 2017 20:23

کالعدم جماعت کالعدم ہوتی ہے، وزیر داخلہ گڈ بیڈ کالعدم کے چکر سے نکلیں، علامہ طاہر اشرفی

کالعدم جماعت کالعدم ہوتی ہے، وزیر داخلہ گڈ بیڈ کالعدم کے چکر سے نکلیں، علامہ طاہر اشرفی
علامہ حافظ طاہر محمود اشرفی پاکستان علماء کونسل کے سربراہ ہیں، اسکے علاوہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہ چکے ہیں، ایک ٹی وی ٹاک شو میں بطور مہمان بھی خدمات انجام دے رہے ہیں، میڈیا میں اکثر ان رہتے ہیں، خادمین حرمین شریفین کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں علامہ اشرفی کے بارے میں فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے امریکہ سے معاہدہ کرنے کی خبریں بھی چھپیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ملک کے اہم ایشوز پر ایک تفصیلات انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ چل رہا ہے، آپ حق میں ہیں یا مخالفت میں۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
پہلی بات یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں فوجی عدالتوں کا کوئی تصور نہیں ہوتا، لیکن کیونکہ ہمارا عدالتیں نظام اتنا مضبوط نہیں ہوا کہ وہ دہشت گردوں کے سامنے کھڑا ہوسکے، اس لئے پہلے حکومت عدالتی نظام مضبوط کرلے پھر کوئی بات کرے، ورنہ دوسرا راستہ تو یہی ہے کہ فوجی عدالتی نظام کو اس وقت تک قبول کر لیا جائے، جب تک دہشتگردی کا معاملہ چل رہا ہے۔ یہ کام حکومت کا ہے کہ اس کا حل نکالے، وہ عدلیہ کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکالے، ورنہ بہ امر مجبوری ہمیں فوجی عداالتوں کو قبول کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہوا ہے۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
بالکل بھی نہیں، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا، اسے مسجد مدرسے تک محدود کر دیا گیا، جو نفرت انگیز لٹریچر تھا، وہ اسی طرح چھپ رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب میں کچھ عمل ہوا، لیکن باقی صوبوں میں کوئی عمل نہیں ہوا، کالعدم جماعتیں اسی طرح کام کر رہی ہیں، ان کے جلسے اسی طرح ہو رہے ہیں، پہلے ہم نے گڈ اور بیڈ طالبان کی اصطلاح سنی تھی، اب گڈ بیڈ کالعدم تنظیموں کی اصطلاح سن رہے ہیں۔ سراب نگر میں چھاپا لگا اور کچھ گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، لیکن اب امریکہ سمیت پوری مغربی دنیا اس پر چیخ رہی ہے، کیا نیشنل ایکشن پلان فقط مسجد مدرسے تک ہی رکھنا ہے۔ وہاں سے وہ لیٹریچر ملا ہے، جس میں تمام مذاہب کی توہین ہے، لیکن حکومت اس کے آگے لیٹ گئی ہے، اگر یہ کرنا ہے تو پھر حکومت خود ہی نیشنل ایکشن پلان کا جنازہ پڑھ رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا کہہ سکتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: یہ جو آپ نے بیڈ گڈ کالعدم جماعت کی بات کی ہے تو آپکے خیال میں تمام کالعدم جماعتوں کو بند ہونا چاہیئے یا انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کوئی راستہ نکالنا چاہیئے۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
پہلی بات یہ ہے کہ ان کالعدم جماعتوں کو حکومت نے کالعدم قرار دیا ہے، ظاہر ہے کہ ان کو کالعدم کسی وجہ سے کیا گیا ہوگا، نہ کہ بغیر کسی وجہ انہیں کالعدم قرار دیا گیا۔ اب چوہدری نثار ان کیلئے گڈ بیڈ کی اصطلاح متعارف کرا رہے ہیں تو ہمارا اتنا سوال ہے کہ اگر انہیں بغیر کسی وجہ کے کالعدم قرار دیا تھا تو پھر قوم سے معافی مانگیں، سب کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرو۔ اگر پابندی کسی وجہ سے لگائی تھی تو پھر اس کا جواب تو حکومت اور وزارت داخلہ دے۔ پھر ان کو کیسے کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: چوہدری نثار کی گذشتہ دنوں کالعدم جماعتوں سے متعلق کی گئی پریس کانفرنس سے مطئمن ہیں۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
میرے خیال میں وزیراعظم صاحب چوہدری نثار کو پیٹرولیم کی وزارت دیں، وزارت داخلہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم کے اس اقدام سے ملک کے کچھ حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کا کیا انجام دیکھ رہے ہیں، آپکی جماعت اس اہم ایشو پر کیا موقف رکھتی ہے۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
ہم سمجھتے ہیں کہ پانامہ کیس میں شامل تمام لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیئے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں ہے، عدالت سے قوم انصاف کی توقع رکھتی ہے۔ لہذا ہم پرامید ہیں کہ عدالت انصاف کرے گی۔

اسلام ٹائمز: فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے کیا تجاویز رکھتے ہیں۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
ہم تو اس پر کام کر رہے ہیں، پاکستان علماء کونسل دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف کام کر رہی ہے، داعش کے خلاف سب سے پہلے پاکستان میں موقف اور فتویٰ ہم نے دیا۔ ابھی ہم نے لاہور میں دارالافتاء قائم کیا ہے، جو فتوے دیا کرے گا۔ یہ جو ہر بات پر فتویٰ آجاتا ہے، اس حوالے سے قوم کو ایک راستہ اور رہنمائی مل سکے گی۔

اسلام ٹائمز: اگر آپ دارالافتاء قائم کر رہے ہیں تو اصل معاملہ یہ تو ہے کہ ہر مکتب فکر کا اپنا فتویٰ ہوتا ہے، ایسے میں اس دارالافتاء کا کیا فائدہ ہوگا۔؟
حاظ طاہر اشرفی:
دیکھیں ہم جو دارالافتاء قائم کرنے جا رہے ہیں، اس میں چاروں مکاتب فکر کے علماء کو بیٹھائیں گے، چاروں مکاتب فکر کے علماء ملکر فتویٰ دیں گے۔ جو آپ نے بات کی ہے، ہم اس مسئلے کو بھی حل کر رہے ہیں۔ لاہور میں ہم نے دارالافتاء قائم کر دیا ہے، اگلے ایک ماہ میں یہ مکمل فنکشنل ہوجائیگا۔

اسلام ٹائمز: بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے کیا اقدامات ہونے چاہیئں۔ یہاں تو اقلیتوں کیساتھ بھی زیادتی ہو جاتی ہے۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
ہمیں اپنے مسلک اور دین پر رہتے ہوئے اس پر بھی بات چیت کرنی چاہیئے، اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے نا۔

اسلام ٹائمز: روزنامہ اوصاف میں آپ سے متعلق خبر چھپی ہے کہ آپ نے فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے امریکہ کیساتھ متبادلہ بیانیہ دینے کیلئے معاہدہ کر لیا ہے۔ اس خبر کی تصدیق کرینگے۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
کوئی ایسی سرگرمی نہیں ہو رہی، کچھ لوگ یہ معاملہ چار ماہ سے لیکر پھر رہے ہیں، آئی سی آر ڈی ایک عالمی ادارہ ہے، جو پاکستان میں مصالحتی کونسلوں کے حوالے سے کام کر رہا ہے، اس ادارے کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے، انہوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کی کنسلٹنسی چاہتے ہیں۔ ان کی جانب سے ہمارے پاس پر متبادلہ بیانیہ سامنے نہیں آیا۔ جب چیزیں آئیں گی پھر دیکھیں گے اور فیصلہ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: یہ سوال اس لئے کیا کہ کہا جا رہا ہے کہ آپ نے امریکہ کیساتھ معاہدہ کیا ہے۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
کیا کسی معاہدے میں کٹنگ شامل ہوتی ہے، معاہدہ اس طرح کیا جاتا ہے؟، اس میں تو کسی ایک پیج کی کٹنگ لگائی ہوئی ہے۔ اس میں چیزیں ہاتھ سے لکھی جاتی ہیں؟، یہ دیکھ کر تو آپ بھی ہنس پڑیں گے، اس میں ہاتھ سے چیزیں لکھی ہوئی ہیں اور ہاتھ سے کٹنگ لگی ہوئی ہے، کسی کو میرے گھر کے ایڈریس کا بھی پتہ نہیں تو یہ کونسا معاہدہ ہے۔؟ ایک بندہ میرے ساتھ ایک کروڑ روپے کا معاہدہ کرنے آرہا ہے اور چیزیں ہاتھ کی لکھی ہوئی استعمال کر رہا ہے، اس سے بڑھ کر کیا مذاق ہوگا۔ کنسلٹنسی کرنا اور پارٹنرشپ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ میں آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ میڈیا کے معاملات میں کنسلٹنسی کریں اور آپ مجھ سے کہہ سکتے ہیں کہ عربی کے معاملے میں ہمارے ساتھ کنسلٹنسی کریں، پہلے بات یہ کہ یہ جرم نہیں ہے۔ تیسری بات یہ کہ دنیا بھر کے بیشمار ادارے ہیں جو کام کرتے ہیں۔ ابھی نہ کوئی چیز سامنے آئی ہے، نہ کام کیا ہے۔ اگر ہم جرات کے ساتھ رمشا مسیح کیسز لڑ سکتے ہیں، سلمان تاثیر کا کیس لڑ سکتے ہیں، تو جب کریں گے تو اوپن تسلیم کریں گے۔ ابھی تک وہ متبادلہ بیانیہ آیا نہیں، اگر آئے گا تو ہم دیکھیں گے اور دل مانا تو کام کریں گے، نہیں مانا تو نہیں کریں گے۔ یہ کونسی غلط بات ہے۔

اسلام ٹائمز: آئے روز پاکستان میں فتوں کی پٹاری کھل جاتی ہے، سلمان تاثیر کے بیٹے کے قتل کا بھی فتویٰ جاری کر دیا گیا۔ اسکو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
حافظ طاہر اشرفی:
(طنز کرتے ہوئے) سلمان تاثیر کے بیٹے کو جو درکار تھا وہ اسے مل گیا، اب ماشاءاللہ اس کا کینیڈا میں ٹھیک انتظام ہو جائیگا، دوسری بات یہ ہے کہ سلمان تاثیر کی فیملی اسے اوون ہی نہیں کرتی۔ وہ بیچارہ یہاں ایسے ہی پھرتا تھا، اس نے غیر سنجیدہ کام کیا ہے، ان لوگوں کیلئے جو پاکستان میں امن اور رواداری کیلئے کام کر رہے ہیں، ان کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ جہاں تک آپ نے فتوے سے متعلق بات کی ہے تو اتنا کہوں گا کہ ان فتووں کو شرعی نگاہ سے نہ دیکھیں، ان فتووں کو آپ جس نگاہ سے دیکھیں دیکھ سکتے ہیں۔ سلمان تاثیر کے بیٹے نے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا ہے، لوگوں کو بلاوجہ مشتعل کرنا عقلمندی تو نہیں ہے نا۔ ایک ایشو ہی نہیں اس کو ایشو نہ بنائیں، جب طالبان کا مسئلہ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ جی عدالت آئیں، جب اپنا مسئلہ آتا ہے تو کہیں نہیں، آسیہ بی بی کا معاملہ عدالت میں ہے، ہم لبرل اور مذہبی دونوں کو کہتے ہیں کہ آپ عدالت میں آئیں عدالتی فیصلہ کا انتظار کریں۔ یہ عجیب قسم کے لوگ ہیں، یہ چاہتے ہیں ماورائے عدالت معاملہ ہو۔ ہم رمشا مسیحی کیس کو عدالت میں لیکر گئے، پاکستان علماء کونسل کو عدالت سے انصاف ملا۔
خبر کا کوڈ : 600779
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Russian Federation
اپنی فطرت کے عین مطابق ۔۔۔۔ آئیں بائیں شائیں ۔۔۔ لگتا ہے مدہوش نہیں تھا۔۔
ہماری پیشکش