QR CodeQR Code

کوئی اتحاد کیطرف دعوت دے اور کہے کہ صرف میری بات مانو تو یہ اختلاف کیطرف دعوت ہے نہ کہ اتحاد کی طرف

شہیدؒ کے زمانے کے فعال علماء چاردیواری میں بند جبکہ جوان علماء احساس ذمہ داری کیساتھ میدان میں حاضر ہیں، مولانا غلام عباس رئیسی

کسی بھی تنظیم کو پوری شیعہ قوم کو اپنی جاگیر نہیں سمجھنا چاہیئے، بلکہ ملی مسائل کے حل میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں

19 Jan 2017 23:55

پاکستان کے متدین بزرگ عالم دین اور حوزہ علمیہ امام خمینیؒ کے پرنسپل کا ”اسلام ٹائمز“ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم پاکستانیوں نے ثابت کیا ہے کہ رہبر کی بات نہیں ماننی۔ ہمارے اختلافات ختم کرنے کیلئے رہبر نے جو حل پیش کیا تھا، ہمارے یہاں کے لوگوں نے اسے کھل کر ٹھکرا دیا۔ خود مولا امیر (ع) کے مطابق وہ امام جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہو، اس کی رائے کا کیا فائدہ ہے، یہ ایک بہت بڑی مشکل ہے۔ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی تاریخ تشیع کا بے مثال واقعہ ہے، یعنی قوم میں صلاحیت ہو تو یہ خود اپنے اندر قیادت پیدا کرلے گی، صحیح قیادت کو پہچان لے گی۔ بہرحال اُس وقت رہبر نے شوریٰ کا نظریہ پیش کرکے کہا تھا کہ آپ مومنین پاکستان اپنے مسائل کو حل کریں، ان شاء اللہ یہ مجمع شیعان پاکستان کے مفاد میں ہوگا، اس میں یہی کوشش تھی کہ سب شیعوں کی نمائندگی ہو، سب مل جل کر اپنے مسائل حل کریں، کیونکہ مسائل باہر سے حل نہیں ہوسکتے۔


حجة الاسلام و المسلمین مولانا غلام عباس رئیسی کا شمار پاکستان کے متدین، جید اور بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے، علماء کے حلقے میں آپکی شخصیت کو منفرد مقام حاصل ہے۔ بنیادی طور پر آپکا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ بلتستان سے ہے، بقول انکے والد بزرگوار انکی پیدائش سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، والدہ محترمہ کے ہمراہ نجف اشرف چلے گئے، تاہم وہاں پہنچے پر والدہ محترمہ کا سایہ بھی زیادہ دیر ساتھ نہ رہا۔ بڑے بھائی کی فیملی کے ساتھ نجف میں اسکول کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1975ء میں نجف سے نکال دیئے گئے اور یوں وطن واپس آکر کراچی میں مدرسہ جعفریہ میں داخلہ لیا۔ چار سال تک وہاں لمعہ تک تعلیم حاصل کی، اسکے ساتھ ساتھ کالج کی بھی تعلیم حاصل کی۔ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کے بعد اسی سال کے آخر میں قم المقدس چلے گئے اور یوں ایران میں درس و تدریس میں مصروف رہے۔ 1989ء سے 2003ء تک مدرسہ امام خمینی (رہ) جمہوری اسلامی ایران میں پڑھاتے رہے۔ آپ جامعہ عروة الوثقٰی لاہور سے بھی واپستہ رہے۔ آج کل آپ حوزہ علمیہ حضرت امام خمینیؒ، کراچی کے پرنسل کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا غلام عباس رئیسی کے ساتھ عالمی تشیع، پاکستانی تشیع اور اسکے مسائل و حل، علماء کی ذمہ داری و مدارس کی صورتحال سمیت مختلف موضوعات پر حوزہ علمیہ امام خمینیؒ، کراچی میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے انکے ساتھ کیا گیا اہم انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: عالمی منظر نامے میں تشیع کو کس مقام پر کھڑا دیکھتے ہیں۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ تشیع اس وقت عالمی سطح پر ماضی سے لیکر ابتک سب سے بہتر مقام پر موجود ہے، تشیع وارث انبیاؑ و آئمہؑ ہے، جس نے انبیاؑ و آئمہؑ کے علم حق کو بلند رکھا ہوا ہے، اس وقت عالم کفر و استکبار و ظلم کے مقابلے میں کوئی طاقت کھڑی ہے تو وہ تشیع ہے، اس وقت تشیع کی قیادت اسلامی ایران کر رہا ہے، جس کا دنیا بھر کے شیعہ ساتھ دے رہے ہیں، ایک زمانہ تھا کہ عالم اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہوتی تھیں، جس کا کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا، لیکن اب ایرانی قیادت میں تشیع عالم اسلام کے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کو سمجھتا ہے، بے نقاب کرتا ہے، تدارک کرتا ہے، اس حوالے سے بھی امت مسلمہ کو بیدار و ہوشیار کرتا ہے، جیسا کہ آئمہ اطہار علیھم السلام امت کو بیدار کرتے تھے، دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے تھے، امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی یہی ذمہ داری آج بھی تشیع انجام دے رہی ہے، باطل کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے، ماضی کی طرح آج بھی تشیع سب سے زیادہ مظلوم ہے، اسے مسلسل قتل و غارت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بہرحال مختصر یہ کہ اس وقت ایک طرف عالم کفر و استکبار ہے، جن کے ساتھ عالم جہل و نفاق و ناصبی ہیں، جبکہ ان کا مقابلہ عالم تشیع کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں تشیع کو کس مقام پر دیکھتے ہیں، وہ کن مسائل سے دوچار ہے۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
پاکستان میں شیعہ جغرافیائی لحاظ سے پراکندہ ہیں، سوائے چند ایک حلقوں کے ہماری اکثریت نہیں ہے، یہ ایک مشکل ہے، پاکستان میں تشیع کو حقوق دینے کی راہ میں سعودی عرب کا اثر و نفوذ بھی رکاوٹ ہے، لیکن ہم اس کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایک بہت بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ ہمارے درمیان اکثریت اسلام و تشیع کے اعلٰی اہداف سے آگاہ نہیں ہے، جن ذاکرین کے ساتھ ان کا رابطہ ہے، وہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتے، اسلام کی انقلابی و سیاسی فکر اور اعلٰی اہداف سمجھنے والوں کی تعداد کم ہے، یہ ایک بڑی مشکل ہے۔ ہمارے مدارس میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ صرف فقہ ہے، اسی لئے مدارس کے طلباء کو بھی اسلامی تفکر کو پھیلانے کیلئے ہم تیار نہیں کر رہے ہیں، ہم مقررین و خطباء کے ذریعے اسلامی پیغام پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، یا پھر مصنفین کے ذریعے بھی، اگرچہ کچھ مدارس نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے، اس قسم کے مدارس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر یہ کہ خود جو انقلابی افراد میدان میں ہیں، یہی آپس میں متحد نہیں ہیں، اگر آپ کا ہدف ایک ہے، تو کیوں اس ہدف واحد پر متحد نہیں ہیں، جس مسئلے میں دو گروہوں کے درمیان اختلاف ہے، اس مسئلے میں ساتھ نہ دیں، لیکن جس مسئلے میں دونوں مشترک ہیں، اس مسئلے میں ساتھ نہ دینے کی وجہ کیا ہے، یہ ایک عجیب بات ہے۔ مثلاً چھوٹے بچے جب آپس میں لڑتے ہیں، کہتے ہیں کہ جو بات میں نے کہی، وہ آپ نہ کہیں، دوسرے بچے کو کہنے کی بھی اجازت نہیں دیتے، اسی جیسی بچگانہ حرکتیں کہیں ہم بھی انجام نہیں دے رہے، یعنی ایسی چیزیں جن پر اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہے، جب دونوں کا مقصد ایک ہے، تو کیوں اس مقصد واحد تک پہنچنے کیلئے مل کر کام نہیں کرتے۔

میں نے عام طور پر دیکھا ہے کہ کہتے ہیں کہ ہم اتحاد چاہتے ہیں، لیکن دوسرے الفاظ میں یوں کہتے ہیں کہ اتحاد چاہتے ہیں، لیکن آپ میرا ساتھ دو، میری بات مانو، تو پھر یہ اتحاد تو نہیں ہوا، اتحاد تو اس وقت ہوگا کہ جس کو دونوں مانتے ہوں، دونوں مل کر کام کرینگے، اتحاد ایک دوسرے کے تابع بننا نہیں ہے، کوئی اتحاد کی طرف دعوت دے اور کہے کہ میری بات مانو، یہ تو بالکل اختلاف کی طرف دعوت ہے نہ کہ اتحاد کی طرف۔ انقلابی افراد اور قیادت میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ دریا دل ہوں، شرح صدر کے مالک ہوں، دوست و دشمن کو سب کو اپنے اندر سمو سکیں، ایسی دریا دلی کی ضرورت ہے، بصیرت کی ضرورت ہے کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں، دشمن کون ہے، کیا کہتا ہے، کیا چاہتا ہے، ہمارا دشمن استکبار اور اس کے پٹھو ہیں، لہٰذا دوست و دشمن کی پہچان کی بصیرت ہو، اپنی اور دشمن کی طاقت کی پہچان ہو، اپنی جو طاقت ہے اس کے ذریعے دشمن پر حملہ کریں، مثلاً امریکا کے ساتھ آپ ہوائی جہاز کے ذریعے جنگ کرینگے تو نہیں جیت سکتے، مشکل ہے، ان کے پاس ہم سے کہیں جدید اسلحہ رکھتا ہے، لیکن آپ معنویت کے ذریعے، شہادت کے ذریعے امریکا سے جیت سکتے ہیں، کیونکہ امریکا والے مرنا نہیں چاہتے، ان کے پاس ایمان نہیں ہے، ایمان کا اسلحہ ان کے پاس نہیں ہے، ہمارے پاس ہے، اسی لئے خود امریکی صدر رونالڈ ریگن نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جنگ میں کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ثقافتی جنگ ہو، ان کے عقیدے کو خراب کریں، دینی عقیدے کو خراب کریں تو یہ ان کے ساتھ جنگ جیت سکتے ہیں۔

لہٰذا جب تک شہادت پر یقین رکھتے ہوں، اس قوم سے کوئی نہیں جیت سکتا، امام خمینیؒ نے امریکی صدر جمی کارٹر سے کہا تھا کہ تم ایسی قوم کو کہ جس کے پاس رمضان ہو، اسے معاشی دھمکیوں کے ذریعے، پابندیوں کے ذریعے اور جس قوم کے پاس کربلا ہو، اسکو حملے کے ذریعے ڈرانا چاہتے ہو، یہ ناممکن چیز ہے۔ پاکستان میں سیاسی حوالے سے تھوڑے سے مسائل ہیں، پراکندگی ہے، ثقافتی لحاظ سے پہلے کی نسبت بہت آگے بڑھ چکے ہیں، ماضی میں اسی کراچی شہر میں صرف دو مدارس تھے، ان میں سے بھی ایک صرف برائے نام تھا، جبکہ دوسرے میں صرف تیس طلاب تھے، اب اسی شہر کراچی میں اس مدرسے سے کہیں زیادہ بڑے بڑے تیس سے زائد مدارس ہیں۔ ملک میں داڑھی نہ رکھنے والے جوان تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے، مثلاً یہیں پر جو خواتین آتی تھیں مجلس سننے، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ مسلمان ہیں یا مسلمان نہیں ہیں، لیکن اب حجاب کے حوالے سے صورتحال بہت بہتر ہوچکی ہے، مذہبی فعالیت کے حوالے سے صورتحال بہت بہتر ہے، تقلید کے لحاظ سے یا دیگر حوالوں سے صورتحال بہت بہتر ہوچکی ہے، اسی لئے آج جو مرجعیت کے خلاف، علماء کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں، اسی پیشرفت کو دیکھ کر ہو رہی ہیں، ہاں جیسا کہ کچھ سیاسی لحاظ سے ہاں شہیدؒ کے زمانے سے ابھی ہم پیچھے گئے ہیں، لیکن ان شاء اللہ سب کو احساس ہے، اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا، انشاءاللہ۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے پاکستان میں علماء کرام سے کس کردار کے خواہاں ہیں۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
میرا خیال ہے کہ کم از کم پاکستان میں جید و معروف علماء کرام مختلف سوچ کے باوجود کچھ اجتماع کریں، میٹنگ کریں، یہ علماء جب میٹنگ کرینگے تو نتیجے تک نہ بھی پہنچیں، تب بھی فاصلے کم ہو جائیں گے، ایسی میٹنگیں فاصلے کم کرنے کا باعث بنیں گی، بعض اوقات فاصلوں کی وجہ غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ لبنان کے بہت بڑے عالم دین سید شرف الدین کہتے ہیں کہ اگر لوگ ایک دوسرے سے آشنا ہو جائیں گے، ایک دوسرے کو پہچان لیں گے، تو نزدیک آئیں گے۔ لہٰذا دور ہونے کی وجہ سے مختلف وجوہات کی بناء پر فاصلے مزید بڑھتے ہیں، تو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے، تو پتہ چلے گا کہ اہداف میں فرق نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ طریقہ کار میں فرق ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ دو شیعہ کی نیت اور ہدف مختلف ہوں، قرآن اور سنت محمدؐ و آل محمدؐ ہمارا ہدف ہے، تو اس میں اختلاف ممکن نہیں، طریقہ کار میں ممکن ہے اختلاف ہو، لیکن مل بیٹھنے سے طریقہ کار میں اختلاف بھی کم ہو جائیں گے۔ لہٰذا ناصرف علماء بلکہ قوم کے سارے عمائدین کو مل کر بیٹھنا چاہیئے، نتیجے تک نہ بھی پہنچیں، لیکن بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اختلاف کم ہو جائیں گے، اپنائیت کا احساس بڑھ جائے گا۔ تعلیم یافتہ علماء کرام مجالس سے غیر علماء سے زیادہ بہتر پیغام دے سکتے ہیں، اس میں شک نہیں ہے، لیکن علماء کرام میں بھی یہی ضروری ہے کہ کل اسلام منبر سے کرسکیں، وہ اسلام جو اہلبیت علیھم السلام کا اسلام ہے، جس کیلئے اہلبیتؑ نے قربانیاں دی ہیں۔

مجھے اجتماعیات آتا ہی نہیں ہے، اسی لئے داخل ہی نہیں ہوتا ہوں، کیونکہ اس میدان میں آنے کیلئے کافی سیاسی سوجھ بوجھ اور معاشرے کی شناخت کی ضرورت ہے نا، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ قم میں (پاکستان کے) جو سب سے معروف علماء ہیں، میں نہیں کہتا کہ علمی لحاظ سے بھی یہ لوگ سب سے معروف ہیں، لیکن یقیناً علمی لحاظ سے بھی اعلٰی درجات پر ہونگے اور پاکستان بھر میں جو سب سے معروف علماء ہیں، ہر کوئی اپنی چار دیواری میں بند ہوگیا ہے، کسی زمانے میں قومیات میں حصہ لیتے تھے یا شہیدؒ کے زمانے میں، لیکن ابھی اپنی اپنی چار دیواری میں بند ہوگئے ہیں، اب جوان علماء میدان میں ہیں، احساس ذمہ داری کرتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں، بالکل اسی طرح غیر علماء میں بھی میں سمجھتا ہوں کہ جو ہمارے اعلٰی تعلیم یافتہ افراد ہیں، وہ بھی قومیات سے لاتعلق ہیں، یہ طبقات اگر اتنی علمی و معاشرہ شناسی کی بصیرت کے ساتھ اگر قومیات میں حصہ لیتے تو اور بہتر ہوتا، لیکن بہرحال ابھی بھی وہی درد رکھنے والے، احساس مسئولیت کی وجہ سے انقلابی جوان علماء و غیر علماء میدان میں ہیں اور علم فی الحال ان کے ہاتھ میں ہے، اے کاش وہ طبقہ اول بھی کم از کم مشورے کی حد تک ہی ان کے ساتھ ہو اور پشت پناہی کریں تو بہت مؤثر ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے فرمایا کہ پاکستان میں تشیع کی اکثریت اسلام و تشیع کے اعلٰی اہداف سے آگاہ نہیں ہے، اسکا حل کیا پیش کرتے ہیں۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
ایک فوری حل یہ ہے کہ جیسے کچھ مساجد میں چھوٹے بچوں کیلئے جزوی طور پر کام ہوتا ہے، لیکن تمام شیعہ جوانوں کیلئے تمام علاقوں میں کم از کم اتوار کے روز دینی کلاسز ہوں، اسلامی معارف کا کلی ضابطہ ان کے پاس ہو، اسلامی معارف کے کلی اصول ان ہاتھ میں آجائیں، اس طرح شیعہ اسلام، اہلبیتؑ کے اسلام کا نظریہ سب کے پاس آئے گا اجمالاً، تو کوئی انہیں دھوکہ نہیں دے سکے گا، گمراہ نہیں کرسکے گا، کراچی میں آئمہ جمعہ و جماعت اور شیعہ مدارس کو اس حوالے سے کوشش کرنا چاہیئے، انہیں مساجد و مدارس و دیگر جگہوں میں ان کلاسز کا انتظام کرنا چاہیئے، اس کے ساتھ ساتھ مساجد و امام بارگاہوں کے منتظمین، فعال مومنین کو بھی ان کلاسز کا اہتمام کرنا چاہیئے، اس میں زیادہ پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگا، کم خرچے میں بہترین کام ہوسکتا ہے، حتٰی ایک مجلس سے بھی کم تر خرچے کی ضرورت ہے، لہٰذا ہر محلے اور علاقے میں ایسی کلاسز کا اہتمام ہو، اس سے جوان تشیع کے اصل پیغام و ہدف سے آگاہ ہو جائینگے، پھر نہ دھوکہ کھائیں گے، نہ گمراہ ہونگے، نہ انکے کردار پر حرف آئے گا۔ پھر جب عوام کی جانب سے ایسے علماء کرام کی مانگ بڑھے گی، جو کل اسلام کو بیان کریں، تو پھر خود بخود ہمارے مدارس کا نصاب بھی عوام کی مانگ کے مطابق بدل جائے گا، نصاب بھی کل اسلام کے مطابق ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ درست ہے کہ ہمارے دینی مدارس طلباء کی تربیت اس نہج پر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ طلباء معاشرے میں جا کر کل اسلام کو پھیلانے کیلئے تبلیغ کر سکیں، تشیع کے پیغام کے پھیلاؤ کیلئے مؤثر ثابت ہوسکیں، تو اس حوالے سے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
ماضی میں نجف میں بھی ایسا ہی تھا، عموماً ہمارا نصاب فقہی تھا، یعنی طالب علم کو مجتہد بننے کیلئے تیار کرتے تھے، اس نصاب میں سب نہیں بلکہ پڑھنے والے علمی لحاظ سے بہت عمیق و باریک بین ہو جاتے ہیں، لیکن اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے 99 فیصد پیچھے رہ جاتے ہیں، کیونکہ سفر بہت طویل ہے، بہت کوشش کی ضرورت ہے اور ہمارے پاکستان میں اجتہاد اور علم دونوں کی قدردانی نہیں ہے، اسی لئے پاکستانی طلباء زیادہ آگے بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے تھے۔ اسی لئے عموماً مجتہدین ایرانی، عراقی، لبنانی وغیرہ کے افراد بنتے ہیں، کچھ افغانی بھی بنتے ہیں، لیکن پاکستان و ہندوستان کے طلاب کا مجتہد نہ بننا یا کم بننے کی وجہ یہاں علم کی قدردانی نہ ہونا ہے، لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ نصاب فقہ کیلئے ہی ہے، جو فقہا ہوتے تھے، وہ اپنی تحقیق، تفسیر، عقائد وغیرہ میں کرتے تھے، لیکن اب زمانے کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے، اسی لئے اب حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں کافی تبدیلیاں آئیں ہیں اور تمام اسلامی علوم میں کام کرنا شروع کر دیا گیا ہے، اگرچہ اب بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں ساٹھ فیصد فقہ ہے، لیکن تب بھی چالیس فیصد دیگر تمام اسلامی علوم میں کام ہو رہا ہے، اگر اشتباہ نہ کروں تو شہید مطہری نے اپنی کتابوں میں کہا ہے کہ ہمارا حوزہ کسی زمانے میں یونیورسٹی تھا، ابھی کالج بن گیا ہے، کیونکہ ان کے زمانے میں صرف فقہ و اصول کا کالج بن کر رہ گیا تھا، کل اسلام پیش کرنا جو حوزہ کی ذمہ داری ہے، کیونکہ حوزہ سے بہتر کوئی اور نہیں پیش کرسکتا، اس لئے کہ اسلام سمجھنے کیلئے جو معیار، اصول و علوم ہیں، وہ صرف حوزہ میں ہیں، لیکن اب انقلاب اسلامی کے بعد تمام اسلامی علوم میں کام ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھی مدارس کی ایک تعداد اسی طرف ہیں، ان کا نصاب بھی اسی کی طرف ہے، باقی بھی اسی کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، پہلے کی نسبت نصاب میں تبدیلی تقریباً سب میں آئی ہے، لیکن ابھی بھی عام طور پر اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی مسائل کے حل کیلئے ملی تنظیموں، اداروں، خواص کی روش کیا ہونی چاہیئے۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
پاکستان بھر میں عاشورا کے روز بہت بڑے بڑے جلوس برآمد ہوتے ہیں، جسے روکنا کسی طاقت کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اس میں ہر گروہ اپنا حصہ ڈالتا ہے، کوئی گروہ دوسرے گروہ کے حق کو غضب کرنے کی کوشش نہیں کرتا، کسی انجمن کے سو افراد ہوں، انکے ساتھ اور کسی انجمن کے پاس ہزار افراد ہو، وہ ہزار افراد کے ساتھ اپنا حصہ ڈالتا ہے، لہٰذا سب حصہ ڈالیں، اپنے تشخص کے ساتھ یا کسی بھی تشخص کے بغیر حسینؑ کے نام پر حصہ لے لیں، تشیع کے مسائل و دیگر مسائل میں بھی اسی طرح سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ پوری شیعہ قوم میری جاگیر ہے، یہ ایک بہت بڑی مشکل ہے کہ ہماری پارٹیاں سوچتی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں، بلکہ غلط فہمی میں خود بھی مبتلا ہیں کہ شیعہ قوم پوری کی پوری میری جاگیر ہے، اسی لئے جب دوسری پارٹی میدان میں نکلتی ہے تو برداشت نہیں کرتیں، لہٰذا جس طرح عاشورا کے جلوس میں ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے سب اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور جلوس عزا کامیاب ہوتا ہے، اسی طرح ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، مثبت کام کریں، اپنا اپنا کام کریں، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بیان کریں گے کہ یہ کام ہم نے کیا، وہ کام ہم نے کیا اور قوم دھوکہ کھا جائے گی، نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے، قوم اندھی نہیں ہے، ایک دو تین سال کا بچہ بھی سمجھتا ہے کہ جو بڑے ہیں، کون ان سے زیادہ محبت کرتا ہے، کون کم محبت کرتا ہے، اسی لئے جو زیادہ محبت کرتا ہے، بچہ اسے دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے، ان کے پاس جاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ بچہ ان کے عمل کو دیکھتا ہے، لہٰذا قوم بھی سمجھتی ہے کہ کون زیادہ خدمت کرتا ہے، ممکن ہے ایک سال، دو سال دھوکہ کھائے، لیکن بہرحال ہمیشہ کیلئے دھوکہ نہیں کھائے گی، لہٰذا جو عمل کرے گا تو خودبخود قوم اس کی قدر کریگی اور خدا کے پاس بھی قدر ہوگی، لیکن اگر عمل نہیں کرینگے، صرف تقریروں کے ذریعے بے وقوف بنانے کی کوشش کرینگے تو یہ قوم روز بروز بدظن ہوتی جائیگی۔ اس کے ساتھ ساتھ قوم کا بھی ایک مسئلہ ہے کہ جلدی سوئے ظن کرنا، بدگمانی کرنا، سب ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، اسی لئے آپ فوراً کسی پر بدگمانی، سوئے ظن نہ کریں، کسی نئی تنظیم کی تشکیل ہو تو یہ نہ سوچیں کہ یہ قبضہ کرنے کیلئے آئے ہیں، بلکہ قوم اس کے عمل کو دیکھے، کیا عمل کرتا ہے، اگر مخلص ہو تو ساتھ دیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ملت تشیع کے مسائل کے حل کیلئے رہبریت کی نگاہ کیا کہتی ہے۔؟
مولانا غلام عباس رئیسی:
ایک باپ بھی اپنے بیٹے کی خدمت نہیں کرسکتا، جب تک بیٹا خود آمادہ نہ ہو، حدیث میں ہے کہ کسی واعظ کا اثر کسی پر نہیں ہوتا، جب اس کے اندر کوئی واعظ نہ ہو، لہٰذا ہمارے اندر آمادگی کی ضرورت ہے۔ ایک دن رہبر معظم نے عالمی سطح پر کسی ایرانی پہلوان کے جیتنے کے موقع پر اس کیلئے مبارک باد کا پیغام دیا تو قم میں ہمارے کسی پاکستانی طالب علم نے کہا کہ دیکھو ہمارے پاکستان کے اتنے مسائل ہیں، اس پر رہبر کچھ نہیں کہتے، ادھر ایک کھلاڑی کیلئے کہتے ہیں، تو میں نے کہا کہ مالک اشتر کے نام خط میں مولا امیر المومنین (ع) نے مالک سے فرمایا کہ اکثریت کی خوشی کو مدنظر رکھو، یعنی عموم کی، خواص راضی ہوں یا نہ ہوں۔ ہم پاکستانیوں نے ثابت کیا ہے کہ رہبر کی بات نہیں ماننی۔ ہمارے اختلافات ختم کرنے کیلئے رہبر نے جو حل پیش کیا تھا، ہمارے یہاں کے لوگوں نے اسے کھل کر ٹھکرا دیا۔ خود مولا امیر (ع) کے مطابق وہ امام جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہو، اس کی رائے کا کیا فائدہ ہے، یہ ایک بہت بڑی مشکل ہے۔ ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی تاریخ تشیع کا بے مثال واقعہ ہے، یعنی قوم میں صلاحیت ہو تو یہ خود اپنے اندر قیادت پیدا کرلے گی، صحیح قیادت کو پہچان لے گی۔ بہرحال اس وقت رہبر نے شوریٰ کا نظریہ پیش کرکے کہا تھا کہ آپ مومنین پاکستان اپنے مسائل کو حل کریں، ان شاء اللہ یہ مجمع شیعان پاکستان کے مفاد میں ہوگا، اس میں یہی کوشش تھی کہ سب شیعوں کی نمائندگی ہو، سب مل جل کر اپنے مسائل حل کریں، کیونکہ مسائل باہر سے حل نہیں ہوسکتے۔ بہرحال اتحاد ہو، قوم کے مسائل کا ادراک ہو، درد ہو، بصیرت ہو، سب رہبریت کی طرف رجوع کرینگے، اگر رہبر کی بات مانیں گے، تو رہبر بات کرینگے، لیکن افسوسناک بات ماضی میں ثابت ہوئی ہے کہ رہبر کی بات اگر میرے مفاد کے مطابق نہیں ہوگی تو اسے نہیں ماننا۔


خبر کا کوڈ: 601809

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/601809/شہید-کے-زمانے-فعال-علماء-چاردیواری-میں-بند-جبکہ-جوان-احساس-ذمہ-داری-کیساتھ-میدان-حاضر-ہیں-مولانا-غلام-عباس-رئیسی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org