0
Saturday 21 Jan 2017 21:30
کرم انتظامیہ کی توپوں کا رخ ہمیشہ طوری بنگش قبائل کیجانب ہوتا ہے

دھماکے کے ذمہ دار خود جاکر تھانوں میں پیش بھی ہوجائیں تب بھی انہیں سزا نہیں ملے گی، علامہ عابد حسینی

موجودہ مشکل حالات میں غیر مسلح ہوکر ہم کسی کے رحم و کرم پر زندگی نہیں گزار سکتے
دھماکے کے ذمہ دار خود جاکر تھانوں میں پیش بھی ہوجائیں تب بھی انہیں سزا نہیں ملے گی، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 1968ء کو گورنمنٹ کالج پاراچنار سے ایف ایس سی کے بعد علوم دینی کے حصول کی غرض سے نجف اشرف اور اسکے بعد قم چلے گئے۔ انقلاب سے صرف ایک سال قبل پہلوی حکومت نے حکومت مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں انہیں ایران سے نکال دیا۔ جسکے بعد انہوں نے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں تدریس کا آغاز کیا۔ اسی زمانے میں قائد شہید بھی اسی مدرسے میں انکے ساتھ شامل تدریس تھے۔ 1980ء کے عشرے میں پاراچنار میں وقت کے مضبوط مرکزی نظام کی تکون کے ایک اہم عنصر تھے۔ پاراچنار میں مرکزی انجمن حسینیہ اور علمدار فیڈریشن کی بنیاد میں علامہ شہید عارف حسینی اور مرحوم شیخ علی مدد کے ہمراہ تھے۔ پاراچنار میں نماز جمعہ کی ابتداء سب سے پہلے 1982ء میں علامہ عابد الحسینی ہی نے کی اور 1990ء تک مرکزی جامع مسجد کے امام جمعہ کے فرائض بھی وہی انجام دیتے رہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے پاراچنار میں ہونے والے حالیہ دھماکے، نیز آپریشن کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاراچنار میں ہونیوالے حالیہ دھماکے کے بارے آپکا کیا خیال ہے؟ اسکے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔؟

علامہ سید عابد حسینی:
دھماکے کی ذمہ داری دہشتگرد تنظیم داعش کی جانب سے قبول کی گئی ہے، مگر اسکی بظاہر کوئی منطق سمجھ میں نہیں آرہی، یعنی یہ کہ دھماکہ داعش ہی نے کیا ہو، کیونکہ یہاں سب سے پہلا دھماکہ ایک مقامی باشندے غیور خان چمکنی نے کیا۔ اسکے بعد ایک سرکاری گاڑی میں دھماکہ ہوا۔ اسکے بعد جو دہرے دھماکے ہوئے، مبینہ طور پر ایک مقامی مسجد ہی سے دونوں خودکش حملہ آور نکلے تھے، تو میرے خیال میں پاراچنار کو جس انداز سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسکے پیچھے کوئی بھی عوامل ہوں، تاہم اس حوالے سے مقامی عوامل سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔

اسلام ٹائمز: ان دھماکوں سے مقامی یا غیر مقامی عوامل کے کیا عزائم ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ان دھماکوں و ایسی دیگر حرکتوں سے دہشتگردوں اور انکے مقامی سہولت کاروں کے متعدد عزائم ہوسکتے ہیں، یہ کہ ایسی حرکتوں سے وہ مقامی پرامن افراد کے حوصلوں کو خراب کرنا چاہتے ہیں، یہاں کے پرامن حالات کو سبوتاژ کرکے علاقے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش وغیرہ۔ تاہم یہ عناصر ببانگ دھل سنیں کہ اپنے ناپاک عزائم میں وہ ہرگز کامیاب نہیں ہونگے، نہ ہی طوری بنگش اقوام ایسی حرکتوں سے گھبرائیں گے۔

اسلام ٹائمز: جیسے آپ نے کہا کہ متعدد بار مقامی افراد ہی نے یہ سیاہ کارنامے سرانجام دیئے تو کیا انکے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
دیکھیں، یہ کوئی پہلا دھماکہ نہیں، پاراچنار میں یہ آٹھواں دھماکہ ہے۔ آج تک کسی دھماکے کی تحقیقات نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ آج کی طرح اکثر دھماکوں کی ذمہ داری بھی قبول کی جاچکی ہے، لیکن ذمہ دار افراد کو سزا نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ کرمی بازار میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری فوراً علاقے کے ایک دہشتگرد مولوی فضل سعید نے قبول کی، مگر اسکے خلاف کوئی خاطر خواہ کاروائی نہیں کی گئی، بلکہ حق تو یہ ہے کہ دہشتگرد اپنے جرم کا اعتراف کرکے خواہ تھانوں میں جا کر کیوں نہ پیش ہوجائیں، تب بھی انکے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔

اسلام ٹائمز: اسلحہ کے حوالے سے سرکار کیجانب سے جو الٹی میٹم دیا گیا ہے، اس حوالے سے کرم ایجنسی کے عوام اور خصوصا آپکی رائے کیا ہے۔؟

علامہ سید عابد الحسینی:
اسلحہ کے حوالے سے میرا بلکہ کرم ایجنسی کے تمام قبائل کا ایک ہی نکتہ نظر ہے اور وہ یہ کہ تین اطراف سے ہماری سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور ایک طرف ہمیں ایک غیر ملک کی حیثیت سے خطرہ لاحق ہے، اس کے علاوہ سرحد پار افغان قبائل سے بھی ہمیں ہر وقت خطرات لاحق ہیں، جبکہ غیر مسلح ہوکر ہم کسی کے رحم و کرم پر زندگی نہیں گزار سکتے۔

اسلام ٹائمز: سرحد پار دشمن سے نمٹنا تو حکومت خصوصاً افواج کا کام ہوتا ہے تو کیا حکومت یہ ذمہ داری صحیح طرح سے پوری نہیں کر رہی۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
کرم ایجنسی کی تاریخ کچھ ایسی رہی ہے کہ جب بھی یہاں کے مقامی قبائل کے خلاف اندرونی یا سرحد پار سے کوئی حملہ ہوا ہے تو مقامی قبائل ہی نے بڑھ کر اس کا جواب دیا ہے، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرحدی چوکیوں اور پوسٹوں میں موجود اہلکاروں نے از خود کارروائی تو درکنار، اپنے عوام کے حق میں ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ اس حوالے سے ہم کچھ واقعات کا حوالہ دینا مناسب خیال کرتے ہیں۔ جولائی اور اگست 1987ء میں افغان مہاجرین، نیز افغان سرحدی قبائل نے پاک سرحدی دیہات بوڑکی، خرلاچی، شنگک اور پیواڑ نیز لوئر کرم کے دیہات پر بھاری ہتھیاروں سے حملے کئے، بھاری ہتھیار حتٰی کہ میزائل تک استعمال کئے گئے۔ نزدیک تھا کہ مذکورہ دیہات دشمن کے قبضے میں چلے جائیںِ، قبائل نے قریبی چیک پوسٹوں سے کمک طلب کی، خصوصاً خرلاچی کے مقام پر موجود ایف سی کے قلعہ سے۔ مگر انکی جانب سے کسی قسم کا جواب نہ ملا بلکہ چپ سادھ لی گئی۔

اسی اثناء میں عوام نے نہایت محدود وسائل سے اپنا دفاع خود ہی کیا۔ اگرچہ انکے پاس دشمن کی طرح میزائل موجود نہ تھے، پھر بھی حتی المقدور اپنا دفاع اچھے انداز سے کیا گیا، جبکہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے لوئر کرم میں طوری قبائل کے ایک درجن دیہات جل کر خاکستر ہوگئے۔ اسکے بعد ستمبر 1996ء میں ایک بار پھر یہ تجربہ دہرایا گیا۔ سرحد پار سے حملے ہوئے، ہمارے دیہات کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ اس دفعہ بھی ہماری حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہاں تک کہ اپنے شہریوں کی کمک میں ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ عوام نے اس دفعہ بھی اپنی حکومت سے مایوس ہوکر خود ہی اقدام کیا اور دشمن کے مقابلے میں نہایت کم وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی سرزمین و اپنی سرحدوں کا بروقت دفاع کیا۔ سرحدی عوام کے مطابق اس دوران ہمارے قبائل نے دشمن کے ایک ٹینک کو بھی قبضے میں لے کر اسے اپنی حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔

اسلام ٹائمز: گویا حکومت عوام کا دفاع کرنے میں ناکام رہتی ہے۔؟

علامہ سید عابد الحسینی
:
نہیں حکومت ناکام نہیں رہتی بلکہ یہاں پتہ نہیں سرکاری پالیسی ایسی وضع کی جاتی ہے، یا کوئی اور وجہ ہے۔ یہاں مسئلہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہاں اکثر کچھ ایسے مسئولین یعنی افسران کی تعیناتی کی جاتی ہے، جن کو وطن عزیز سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ پاکستانی کم اور متعصب زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسے حالات میں انہیں ملکی مفادات کا خیال نہیں ہوتا، بلکہ انکی توجہ بیشتر اس بات پر ہوتی ہے کہ مقامی طوری قبائل کو کس طرح ذلیل و خوار کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: ان افسران کے پیش نظر بھی طوریوں کے حوالے سے کچھ خدشات و تحفظات ہونگے جو ایسا کرتے ہیں۔؟

علامہ سید عابد الحسینی:
انکے تحفظات ہوں تو وہ ہمارے ذمہ دار افراد کو بتا سکتے ہیں، لیکن مسئلہ خدشات کا نہیں بلکہ اندھے تعصب کا ہے۔ ہمارے قبائل کے متعلق اگر انکے تحفظات ہوں تو وہ دیگر افغان قبائل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ افغان قبائل تو سرے سے حکومت کو تسلیم ہی نہیں کر رہے۔ ان قبائل نے ہمیشہ دہشتگردوں کو پناہ دی ہے۔ اس وقت بھی وزیرستان سے فرار شدہ جو دہشتگرد کرم کے راستے آتے ہیں، انکا ٹھکانہ کہاں ہوتا ہے۔ حکومت کو بخوبی علم ہے۔ حکومت ان دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو سزا کیوں نہیں دے رہی۔ چنانحہ حقیقت یہ ہے کہ کرم انتظامیہ کی توپوں کا رخ ہمیشہ طوری بنگش قبائل کی جانب ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 602287
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش