0
Sunday 22 Jan 2017 15:55
ایف سی آر کا انہدام شروع ہوچکا ہے، بوسیدہ نظام میں ہم نے دراڑیں ڈال دی ہیں

سانحہ پاراچنار میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا اور غفلت کے مرتکب افراد کا محاسبہ کیا جائے، شوکت عزیز

میری رہائی کیلئے باقاعدہ شرط رکھی گئی کہ میں حکام اور نظام کیخلاف بات نہیں کرونگا
سانحہ پاراچنار میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا اور غفلت کے مرتکب افراد کا محاسبہ کیا جائے، شوکت عزیز
فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر شوکت عزیز کا تعلق فاٹا میں کرم ایجنسی کی تحصیل صدہ سے ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں بی ایس پولیٹیکل سائنس کے طالب علم ہیں۔ فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں وجود رکھنے والی ایسی تنظیم ہے، جس میں پورے فاٹا کی مختلف ایجنسیز اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طالب علم شامل ہیں۔ اس تنظیم کے ممبران کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے زائد ہے۔ شوکت عزیز پچھلے دو سال سے بطور مرکزی صدر فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے فاٹا میں فروغ تعلیم اور ایف سی آر کے کالے قانون کے خاتمے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان کی داخلی پالیسی میں فاٹا انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اسلام ٹائمز نے فاٹا کو درپیش مسائل کی اہمیت کے پیش نظر فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر سے ملاقات کا خصوصی اہتمام کرکے فاٹا کے موضوع پر گفتگو کی ہے، جو کہ انٹرویو کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گذشتہ روز پارا چنار بم دھماکے میں بے گناہ لوگ شہید و زخمی ہوئے ہیں، ایف ایس او کا اس دہشتگردی کے بارے میں کیا موقف ہے۔؟
شوکت عزیز:
فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاراچنار میں ہونے والے بم دھماکے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ دہشتگردی چاہے کسی بھی شکل میں ہو، قابل مذمت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس دھماکے میں ملوث افراد کو فی الفور گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جن کی غفلت کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ہے، ان کا بھی محاسبہ کیا جائے۔ ہم اس سانحہ میں جاں بحق و زخمی افراد کے خانوادوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے نہ صرف مرکزی سطح پر اس واقعہ کی مذمت کی ہے بلکہ ایجنسیز کی سطح پر بھی ہمارے عہدیداران نے اس سانحہ کے مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس دھماکے کے متاثرین کو فوری طور پر معاوضہ ادا کیا جائے۔ پولیٹیکل انتظامیہ کرم ایجنسی کے امن کو یقینی بنائے اور بازاروں سمیت تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا خاطر خواہ انتظام کرے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں آپکو گرفتار کیا گیا تھا، اس گرفتاری کی انتظامیہ نے کیا وجہ بتائی تھی۔؟
شوکت عزیز:
میری گرفتاری صوبائی حکومت کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھی، ڈی سی پشاور ریاض محسود نے اپنے سپیشل اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے مجھے کے تحت گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے پیچھے اے سی ایس کا ہاتھ تھا۔ فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی فاٹا کے طلباء کیلئے دو سال پر مشتمل فنی تعلیم دیتی ہے، انہوں نے دو سال کے بجائے ایک سال میں ہی بچوں کو سرٹیفکیٹس دینا شروع کردیئے تھے۔ اس پر ہم نے احتجاج کیا۔ فدا وزیر ایف ڈی اے چیف تھے۔ جو اب اے سی ایس ہے وہ ہمارے مخالف ہوگیا اور اس کی جانب سے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا گیا۔ پھر سیفران منسٹری کی طرف سے پی سی پشاور میں ایک پروگرام تھا، گورنر اور وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا مہمان خصوصی تھے۔ ایک منصوبے کے تحت ایک ملک کو تقریر دی گئی، جو شیڈول کا حصہ نہیں تھا۔ اس نے فاٹا ریفارمز، فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور ملک کے خلاف باتیں کی۔ اس نے اپنی تقریر میں ہم طالب علموں کو اشتعال دلایا۔ جس پر ہم نے گو ایف سی آر گو کے نعرے لگائے۔ ملکان نے فاٹا ریفارمرز کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ پروگرام شروع ہونے کے ساتھ ہی بدنظمی کے باعث اختتام پذیر ہوگیا۔ اسی بدنظمی کو جواز بناکر مجھے گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے احکامات گورنر ہاؤس سے جاری ہوئے، جنہیں مس گائیڈ کیا گیا تھا کہ شوکت عزیز آپ کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: براہ راست گورنر کے احکامات سے ہونیوالی گرفتاری کے بعد آپکی رہائی کس طرح عمل میں آئی۔؟
شوکت عزیز:
میرے گرفتاری سے فاٹا کے نوجوانوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہو گیا۔ قبائلی نوجوانوں نے میری رہائی کیلئے مسلسل پانچ روز احتجاجی کیمپ لگایا۔ اس کیمپ میں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی اور اپنے تعاون کی یقین دھانی کرائی۔ مجھے کہا گیا کہ ایف سی آر کے خلاف بات کرنا بند کرو، رہائی مل جائے گی مگر میں نے جیل سے اپنے نوجوان ساتھیوں کو پیغام بھیجا کہ فاٹا کے حقوق کی جنگ میں جیل آنے پر مجھے فخر ہے، سڑکیں بند کرنا، جلاؤ گھراؤ پتھراؤ ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ شہریوں کیلئے مشکلات پیدا نہ کی جائیں مگر اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ جیل میں مجھے ذہنی طور پر اذیت دینے کیلئے ہیروین کا نشہ کرنے والے عادی افراد کے ساتھ رکھا گیا جو کہ نیم پاگل تھے۔ قبائلی طلباء میری گرفتاری پہ شدید غصے میں تھے۔ اگر انہیں پرامن رہنے اور احتجاجی کیمپ کی بات نہ کی جاتی تو نقصان کا اندیشہ تھا۔ پانچ دن جیل میں رہنے کے بعد چار افراد کی شخصی ضمانت پر رہا کیا گیا اور تحریراً حلف لیا گیا کہ میں حکام اور نظام کیخلاف نہیں بولون گا۔

اسلام ٹائمز: آپکی رہائی کیلئے کمپئین کی قیادت کس نے کی اور اس کمپئن کے قبائلی نوجوانوں پر کیا اثرات دیکھتے ہیں۔؟
شوکت عزیز:
اس میں کوئی شک نہیں کہ میری غیر موجودگی میں ثمرینہ خان وزیر نے بہترین طریقے سے قبائلی نوجوانوں کے لیکر کمپئن چلائی۔ انہوں نے کمال خوبصورتی و مہارت کے ساتھ آرگنائزیشن کے ممبران کو منظم و بیدار رکھا اور میڈیا میں اس مسئلہ کو اجاگر کیا۔ انہوں نے قبائلی طلباء اور میرے خلاف ہونے والے بے بنیاد پروپیگنڈے کو توڑا۔ کیونکہ نہ صرف میری گرفتاری کو غلط رنگ دیا جارہا تھا بلکہ میڈیا اور قبائلی طلباء کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، تاہم ثمرینہ خان وزیر نے انتہائی جرات کے ساتھ ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور سچ کو سامنے رکھا، سازشوں کو بے نقاب کیا اور ایسے حالات بنائے کہ جن کی وجہ سے میری رہائی ممکن ہوئی، میں خود ثمرینہ خان وزیر اور ان نوجوانوں کا ممنون ہوں، جنہوں نے یہ تحریک چلائی۔

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا پہ آپ حکومت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں، کیا فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر لیا گیا ہے۔؟
شوکت عزیز:
جہاں تک سوشل میڈیا پر حکومت کے شکریے کا تعلق ہے تو وہ ہم نے اصلاحاتی کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ پر ادا کیا ہے۔ اصلاحات قبائلی عوام کے امنگوں کے مطابق ہو رہے ہیں، کمیٹی کی رپورٹ قبائل کی آواز ہے۔ جس پر ہم نے حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اب ان اصلاحات کے نفاذ میں وہ کس حد تک مخلص ہے، اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: جمعیت علماء اسلام (ف) کیجانب سے باقاعدہ تحریک چل رہی ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم نہ کیا جائے، اس تحریک کی کیا وجہ ہے۔؟
شوکت عزیز:
فاٹا میں تعلیم کی کمی ہے۔ سیاسی شعور بھی نہیں ہے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے قبائلی بھائیوں کو استعمال کررہے ہیں۔ جے یو آئی (ف) ان لوگوں کیساتھ ملی ہوئی ہیں، جو قبائلی بچوں کے سکولوں پر قابض ہیں، جو مراعات کے مد میں قبائلی عوام کے حقوق نیلام کرتے ہیں۔ جے یو آئی کو شائد اس بات کا ڈر ہے کہ سیاسی آگاہی کے صورت میں ان کا ووٹ بینک ختم ہوجائے گا۔ سینیٹ کی نشستیں چلی جائیں گی اور سب سے بڑھ کر جے یو آئی اس لیے بھی کررہی ہے کہ اس بات کا کریڈٹ لے کہ جے یو آئی نے قبائلیوں کی آزادی سے بچا لیا، حالانکہ قبائل اس وقت ایف سی آر کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی تنظیم تمام ایجنسیز میں پھیلی ہوئی ہے، کون سی ایجنسی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کیخلاف ہے۔؟
شوکت عزیز:
حقیقت تو یہ ہے کہ فاٹا کے نوے فیصد سے زیادہ عوام خیبر پختونخوا میں انضمام چاہتے ہیں۔ ہم نے ہر ایجنسی کا وزٹ کیا ہے۔ سیمینارز کئے ہیں۔ عوامی سطح پر تقاریب کا اہتمام کیا ہے۔ سب ایجنسیاں خیبر پختونخوا میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے ہر ایجنسی کا دورہ کیا تھا، بیوروکریسی نے زیادہ تر مراعات یافتہ لوگ بلائے تھے، لیکن کالے قانون ایف سے آر سے تنگ غیور قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد ہر ایجنسی میں نکلی۔ اگرچہ ہال کے اندر انہیں جانے نہیں دی گئی لیکن ہال کے باہر انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کراکے ثابت کیا کہ ہم اس کالے قانون کے نیچے مزید ایک دن بھی نہیں گزار سکتے اور ہم کے پی میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کس دور حکومت میں فاٹا کے اندر زیادہ ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور کن ایجنسیز کے اندر نوگو ایریا کے باعث تعلیمی سرگرمیاں مفلوج ہیں۔؟
شوکت عزیز:
اگر حقیقت بتائی جائے تو پیپلزپارٹی نے فاٹا کے عوام کیلئے بہ نسبت دیگر پارٹیز کچھ نہ کچھ کیآ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں فاٹآ کا دورہ کیا اور مختلف ایجنسیز میں ڈگری کالجز کی بنیاد رکھی جو اس سے ہہلے فاٹا میں نہیں تھے۔ اس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی ترقیاتی کام ہوئے۔ پھر آصف علی زرداری صاحب نے اپنے دور حکومت میں کچھ اصلاحات کی، جس کیوجہ سے قبائلی عوام نے سیاسی آزادی حاصل کی اور اج الحمدللہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے نکل پڑے ہیں۔ جہاں تک نوگو ایریاز کا تعلق ہے تو فاٹا میں اب مکمل امن آچکا ہے۔ ساؤتھ وزیرستان، خیبر ایجنسی کے کچھ علاقے اور اورکزئی ایجنسی کے ماموزئی اور ڈبرہ میں ابھی حالات سازگار نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔

اسلام ٹائمز: فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنیوالی خصوصی کمیٹی نے کیا سفارشات مرتب کی ہیں۔؟
شوکت عزیز:
اس رپورٹ کے تحت فاٹا کو مرحلہ وار خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے گا اور پانچ سال کے عرصے میں فاٹا مکمل طور پر خیبر پختونخوا میں ضم ہو جائے گا۔ رپورٹ میں فاٹا کے علاقوں کے لئے 10 سالہ ترقیاتی منصوبے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ 10 سال تک ان علاقوں کے لئے سالانہ 90 ارب روپے مختص کئے جائیں گے جبکہ 21 ارب روپے اس سے پہلے سالانہ دیئے جا رہے ہیں۔ اس طرح یہ 111 ارب روپے ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا میں جے یو آئی (ف) کا ووٹ بینک ہے، کیا اس ووٹ کی مخالفت میں فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ممکن ہوگا۔؟
شوکت عزیز:
اس میں کوئی شک نہیں کہ فاٹا میں جے یو آئی کا ووٹ ہے لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ فاٹا میں تمام سیاسی پارٹیاں بشمول وکلاء برادری، اساتذہ کرام اور طلباء تنظیمیں اصلاحات چاہتے ہیں، جس کے مقابلے میں جمیعت علمائے اسلام ایک اقلیت کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ مرکزی حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات بڑے مضبوط ہیں، مشکل وقت میں مرکز کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اب وہ بھی مولانا صاحب کے رائے کو فوقیت دیتے ہیں، ممکن ہے مولانا صاحب کے وجہ سے اصلاحات مزید تعطل کا شکار رہے، جو انتہائی افسوس ناک امر ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ایف ایس او کے حالات اور پروگراموں کی مختصر سی تفصیل بیان فرمائیں۔؟
شوکت عزیز:
قبائلی عوام خیموں میں ذلیل ہو رہے تھے، راشن کی قطاروں میں وہ خوار ہو رہے تھے، ہم تعلیم یافتہ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ کوئی بھی قبائلی عوام کیساتھ مخلص نہیں ہے۔ سیاسی رہنما بھی وہی کرتے ہیں جو پارٹی کی مفاد میں ہوتا ہے نہ کہ فاٹا کی مفاد میں، سو ہم نے ایک مخلصانہ تحریک کی ضرورت محسوس کی۔ میں اکیلا نکلا تھا، لوگ مجھے پاگل کہتے تھے، میں ایک ایک قبائلی طالب علم کے ہاس جاتا تھا اور انہیں اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کرتا، آج الحمدللہ ہمارے ساتھ لاکھوں نوجوان ہیں۔ ہم نے ہر ایجنسی میں آگاہی سیشنز کئے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے دورے کیئے۔ سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور قبائلی عوام کو اپنے حقوق کیلئے تحریک چلانے پر آمادہ کیا ہے۔ اس میں ہمیں بے تحاشہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔ قبائلی عوام کیلئے ہر حد تک جائیںگے۔ انکے حقوق لیکر رہینگے اور مستقبل قریب میں فاٹا کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے آگاہی سیمینارز منعقد کرنے کا پروگرام ہے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا میں اصلاحات کی اتنی زیادہ ضرورت کیونکر محسوس کرتے ہیں۔؟
شوکت عزیز:
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں ایک کروڑ سے زائد پختون قبائل موجود فرسودہ قبائلی نظام کی آغوش میں تعلیم کی نعمت سے محرومی کی وجہ سے جہالت اور غفلت کی گہری نیند سو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دین اسلام اور نام نہاد قبائلی روایات کے نام پر انگریزی نظام کے مخالفین محروم قبائلی عوام کے بدترین استحصال میں مصروف ہیں اور انگریزوں کے یہ پهٹو ہمیشہ قبائلی علاقہ جات میں قبائلی عوامی مفادات کی خاطر اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کو اس ظالمانہ عمل میں جاگیردارانہ نظام کے محافظوں (بیوروکریٹس )کی مکمل حمایت حاصل ہے، لیکن دنیا میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے قبائلی نظام پر کچھ ایسے اثرات مرتب ہوررے ہیں جس کے نتیجے میں قبائلی علاقہ جات میں موجود فرسودہ قبائلی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور یہ نظام اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والا ہے۔ قبائلی نظام میں اب تک نہ صرف بہت سی دراڑیں پڑ گئی ہیں بلکہ اس کے انہدام کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ گرچہ قبائل اور اقوام کی زندگی میں تبدیلی لانا قبائلیوں اور اقوام کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے لیکن صد افسوس کہ پختون قبائلی علاقہ جات اور خاص طور پر قبائلی علاقہ جات کے کچھ قبائلی رہنماء صرف اپنے ذاتی مفادات کی خاطر قبائلی نظام میں اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قبائلی علاقہ جات میں مفادپرست قبائلی ملکوں نے ہمیشہ قبائلی عوام کی مفادات پر سودے بازی کی ہے اور نتیجے میں پورے پاکستان میں فاٹا سب سے زیادہ پسماندہ ترین ہے۔ قبائلی نظام سے مراد انسانی بنیادی حقوق کے منافی قبائلی روایات اور خاص طور پر قبائلی عوام پر 1901ء سے مسلط شده فرنٹیئر کرائمز ریگولیش (ایف سی آر) ہے۔ جس کے تحت قبائلی عوام غلاموں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
خبر کا کوڈ : 602352
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش