0
Tuesday 14 Feb 2017 13:18
شدت پسند گروہوں کو کنٹرول کرنیکی ضرورت ہے

دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کی پالیسی واضح ہے، لیکن غیر ریاستی عناصر کے متعلق ابہام ختم نہیں ہوا، نجف عباس سیال

دہشتگردی اور جارحیت بھارتی سازش ہیں
دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کی پالیسی واضح ہے، لیکن غیر ریاستی عناصر کے متعلق ابہام ختم نہیں ہوا، نجف عباس سیال
پاکستان مسلم لیگ نون جھنگ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی نجف عباس سیال معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے پی ایم ایل این کے رکن مالیات، ہاوسنگ، اربن ڈیولپمنٹ اور پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کمیٹیز کے ممبر ہیں۔ لاہور سمیت ملک بھر میں ہونیوالے دہشتگردی کے واقعات، سرکاری اقدامات، قومی لائحہ عمل اور بھارتی سازشوں کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: فاٹا اور شہری علاقوں میں جاری سکیورٹی اداروں کے آپریشن کے باوجود کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات، بیرونی سازش ہیں یا اسکا سبب حکومتی اور سرکاری اداروں کی ناکامی ہے۔؟
نجف عباس سیال:
بہت زیادہ قربانیاں دینے کے بعد بھی ہم حالت جنگ میں ہیں، حکومتی اقدامات کی کامیابی کے امکانات کے باوجود ابھی مزید وقت لگے گا۔ سکیورٹی الرٹس، چوکوں اور شاہراہوں پہ چیکنگ، کیمروں کی تنصیب اور فرد فرد کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ جیسے تمام اقدامات کئے گئے ہیں۔ لیکن دشمن ہماری تاک میں بیٹھا ہے، جان لیوا حملے جاری ہیں۔ صرف کوئی شہر نہیں بلکہ ہر صوبہ اور ہر علاقہ دہشت گردوں کی دسترس میں ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ، پیٹرولنگ، انٹیلیجنس نظام میں بہتری، نیکٹا، سی ٹی ڈی جیسے ادارے زیادہ بااختیار ہیں۔ لیکن جب تک شدت پسندی پہ مبنی یہ سوچ موجود ہے، اس وقت تک پاکستانی قوم کو اس عفریت کا سامنا رہیگا۔ دشمن کا کام سازش کرنا اور پاکستانی قوم کے حوصلے پست کرنا ہے، دشمن کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لئے قومی عزم کو مضبوط بنانا اداروں کے اقدامات کا اہم جزو ہے۔ ہزاروں افراد کی قربانیوں کے باوجود پاکستانی قوم کے حوصلے پست نہیں ہوئے، نہ ہمارے عزم میں کوئی کمی آئی ہے۔ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی وجہ صرف کوئی ایک ایشو نہیں، جب بنگلہ دیش بنانے کی سازش کی گئی تو کسی ملک میں مداخلت نہیں تھی، نہ کوئی جہادی پالیسی تھی، نہ دہشت گردی کا الزام پاکستان کیخلاف تھا، اب بھی سی پیک جیسے منصوبے ہیں، پاکستانی کی خوشحالی اور ترقی ہے، جسکا بھارت دشمن ہے۔ کچھ اندرونی عناصر بھارت کے ان منصوبوں کو کامیاب بنانے کی ناپاک کوششوں میں اس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ یہ لوگ بے نقاب ہوچکے ہیں، قوم ان سے متنفر ہے، یہ جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی سطح پر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔؟
نجف عباس سیال:
یہ حالات ہماری اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، امریکی اشاروں پر جو جہادی تیار کئے گئے، وہ آج دہشت گردوں کا روپ دھار چکے ہیں، جنہیں اثاثہ قرار دیتے ہوئے طالبان کہا گیا، وہ بھیڑیئے بن چکے ہیں، یہ درندے انسانیت کی بو سے بھی واقف نہیں۔ نہ صرف یہ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں غیر ریاستی عناصر کو مضبوط بنا کر انہیں استعمال کرنیکی پالیسی نقصان دہ رہی ہے، بلکہ اب وہی عناصر ہمارے دشمن ممالک کی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ یہ سوچ ریاستی اور سرکاری اداروں میں سرایت کئے ہوئے ہے، ادارے دہشت گردی کی حمایت نہیں کر رہے، بلکہ ابہام کا شکار ہیں، ابھی اس پرانی فکر اور خیال سے چھٹکارا نہیں پایا جا سکا۔ دوسرا یہ اپنا ہی لگایا ہوا پودا اب درخت بن چکا ہے، اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے۔ دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کی ٹولیوں کے متعلق سوچ واضح ہے، آپریشن بھی کئے جا رہے ہیں، لیکن جہاد کشمیر سے منسلک تنظیموں اور دفاع پاکستان کونسل کے نام سے متحریک جماعتوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ حافظ سعید کی نظربندی ایک اہم قدم ہے، لیکن اس کے بعد انہیں رہاء کروانے کے نام پہ جو گروہ سرگرم ہیں، یہ اس سوچ کو دوبارہ سے تقویت دینگے۔ اصل مسئلہ بھی یہی سوچ ہے، اسکا منبع کالعدم جماعتیں اور ان سے منسلک مدرسے ہیں، انہیں قومی دھارے میں لانے اور کنٹرول کئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

صرف آپریشن کافی نہیں، بلکہ جامع اصلاحات کی ضرورت ہے، فی الوقت ہم قومی مفاد کے نئے بیانیہ کی ترتیب یا تشکیل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد کے منظر نامہ میں پالیسیوں اور بیانیہ میں تبدیلی آئی ہے، ضرب عضب اس کی واضح مثال ہے، لیکن سب سے مشکل کام جس نے حکومت اور ریاست کو الجھا کر رکھ دیا ہے، وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس عفریت پر قابو پانے کے حوالے سے نیا طریقہ کار ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد اور نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں اب سیاسی اور فوجی قیادت جہادی تنظیموں کو قومی انتخابی سیاسی دھارے میں لانے کے لئے نئے بیانیہ پر کام کر رہی ہیں۔ اس سے اختلاف بھی موجود ہے، لیکن یہ ایک اہم قدم ہے۔ فاٹا میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کے ساتھ ساتھ تمام کالعدم تنظیموں کے ساتھ صفر برداشت کی پالیسی بھی اختیار کی گئی ہے، جس میں فرقہ وارانہ اور دہشت گرد نیٹ ورکس دونوں ہی شامل ہیں۔ اب یہ نظر آرہا ہے کہ جن پر کوئی پابندی نہیں، انہیں قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا، پاکستان میں تمام مقامی اور بین الاقوامی نیٹ ورکس کا خاتمہ، دوسرے جہادی تنظیموں کو انتخابی سیاست میں آنے پر مائل کرنا اور تیسرے فاٹا، بلوچستان اور کراچی کے لئے بڑی اقتصادی اصلاحات کو روبہ عمل لانا شامل ہیں۔ اسی قومی ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کے لئے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس پر متفق ہیں۔ کسی بیانیہ سازی یا اس میں تبدیلی لانے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پوری قوم ہی اپنی جنگ سمجھ رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں ان حالات میں، بالخصوص لاہور کو نشانہ بنائے جانیکے کیا محرکات اور مقاصد ہوسکتے ہیں؟ جبکہ گذشتہ سال لاہور میں مکمل امن رہا ہے۔؟
نجف عباس سیال:
دہشت گردی جہاں بھی ہو، اس کا مقصد ایک ہوتا ہے، لیکن مختلف اوقات میں ضمنی اور ذیلی مقاصد بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ دشمن کی منظم کارروائیوں کا ایک سلسلہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو ترقی کے راستے سے روکنا ہے، دوسرا مقصد وہ یہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کو دنیا سے کاٹ دیں۔ جیسا کہ دبئی میں ہونیوالے کرکٹ میچ کے فائنلز لاہور میں ہونیوالے ہیں، وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس بین الاقوامی ایونٹ کو روکیں۔ اسی طرح پارا چنار، کوئٹہ، کراچی میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں، ان میں قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہوا ہے، لیکن میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں دہشت گردوں کو کوریج نہیں ملی، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان لاہور کا دل ہے، اگر لاہور میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے تو اس سے لازمی طور پر ذرائع ابلاغ کور کرتے ہیں، جس سے پاکستان میں حالات کو خراب رکھنے کی سازش کو تقویت ملتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بارڈر پر ہونیوالی چھڑپیں اور چاروں صوبوں میں دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے بھارت کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔؟
نجف عباس سیال:
پاکستان کو بین الاقوامی چیلنجوں اور اقتصادی محاذ پر زبردست چابک دستی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، ایک جانب آپریشن ضرب عضب اور انتہا پسندی کے خلاف نئے بیانیہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات ہو رہی ہیں، جس میں نیشنل ایکشن پلان بھی شامل ہے۔ دشمن اس عمل کو بھی روکنا چاہتا ہے۔ بھارت کنٹرول لائن پر چھڑپوں اور شہری علاقوں میں دہشت گردی سے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے، لیکن کشمیر پر پاکستان کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ حریت پسندوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ پہلے القاعدہ، طالبان اور پھر داعش کے ابھرنے کے بعد ہمیں مشکل صورتحال کا سامنا ہے، پاکستان اس کا اثر و نفوذ روکنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ فوجی جوانوں سمیت 60 ہزار پاکستانیوں کی قربانیوں کے بعد پاکستان کو بین الاقوامی حمایت درکار ہے۔ دوسرا پاکستان بین الاقوامی سطح پر بھارت کا ظالمانہ چہرہ بے نقاب کر رہا ہے، بھارت اس سے بھی توجہ ہٹانا چاہتا ہے، لیکن پوری قوم کا کشمیر پر اتحاد ہے، جس وجہ سے ہر پاکستانی دہشت گردی اور بھارتی جارحیت کیخلاف مسلح افواج، سکیورٹی اداروں کیساتھ سینہ سپر ہے۔

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کے ناپسندیدہ اقدامات کے نتیجے میں امریکہ اور عالمی سایست پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
نجف عباس سیال:
ٹرمپ اپنے بیانات اور فیصلوں سے ثابت کر رہے ہیں کہ ان کا چناؤ، نائن الیون کے سانحہ جیسا ہی ہے۔ ٹرمپ کی جیت میں جو نعرے لگاے گے اور وعدے کئے گئے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ تارکین وطن، بالخصوص میکسیکو کے رہنے والوں اور مسلمانوں پر امریکہ میں داخلہ بند یا سخت کر دیا جائیگا۔ امریکی معاشرے میں تعصب بھی موجود ہے، کیونکہ امریکہ میں ایسے لوگ جو خالص گورے یعنی یورپین نسل کے نہ ہوں، ان کو بھی مکمل پسند نہیں کیا جاتا اور انہیں Coloured People کہا جاتا ہے۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ 30 لاکھ غیر قانونی، غیر ملکی باشندوں کو ملک بدر کر دیا جائے۔ ٹرمپ اس پر کہیں زبانی، کہیں دھونس اور کہیں بندوق سے عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سات مسلم ممالک کے باشندوں پر انہوں نے پابندی لگا دی ہے۔ پناہ گزینوں کو امریکہ کا راستہ دکھانے پر آسٹریلوی وزیراعظم ٹرن کے ساتھ ٹیلی فون پر تمام سفارتی آداب کو نظرانداز کرکے ان پر برس پڑے اور طے شدہ شیڈول ایک گھنٹے کے بجائے پچیس منٹ بعد فون بند کر دیا۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کرکے کہا کی اخراجات میکسیکو ادا کرے گا، میکسیکو کے انکار پر اس کے صدر کو فون کرکے حملہ کرنے کی دھمکی دیدی۔ اسی طرح اب تک ہر وہ شخص جو کوئی بھی ہنر یا قابلیت رکھتا ہو، اس پر امریکہ کے دروازے کھلے رہے، مگر ٹرمپ اب اس کے برعکس کرتے نظر آرہے ہیں۔ عالمی سایست پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین، مسلم ممالک، چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں سب کیساتھ تعلقات کا مستقبل غیر یقینی ہے، لیکن ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ میں ادارے مضبوط ہیں، یہودی لابی کا ہولڈ ہے، وہ اپنے مفادات کی خاطر ٹرمپ جیسے کئی صدر بھی لا سکتے ہیں اور پالیسیاں بھی بنا سکتے ہیں، تبدیل بھی کروا سکتے ہیں، لیکن حد سے زیادہ عجلت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ خود ٹرمپ ہی عہدہ صدارت پہ فائز نہ رہ سکیں، چہ جائیکہ وہ دنیا میں امریکی سیاست یا دوسرے ملکوں کی سیاست کو بدل کے رکھ دیں۔
خبر کا کوڈ : 609401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش