QR CodeQR Code

فاٹا کے شہریوں میں ذہنی صحت کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں، جس پر توجہ دینے کی ضروت ہے

فاٹا اصلاحات کے بغیر قیام امن کی خواہش دانشمندی نہیں، ثمرینہ خان وزیر

نیشنل ایکشن پلان پر درست سمت اور صحیح معنوں میں عملدرآمد نہ ہونے کیوجہ سے دہشتگردی کے سانحات پیش آئے

18 Feb 2017 03:56

فاٹا کے حقوق کیلئے سرگرم معروف سماجی کارکن اور فاٹا اسٹوڈنٹس فی میل کی صدر نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت سنجیدگی سے فاٹا کے شہریوں کا طرز زندگی، طرز فکر بدلنے پر کام کرے، اصلاحات کے ذریعے دہشتگردوں کو فراہم ہونیوالی افرادی قوت کا راستہ روکے، جنگ کے ذریعے وقتی طور پر شدت پسندوں کو ختم کیا جاسکتا ہے مگر شدت پسندی کے خاتمے کیلئے اسے ذہنوں سے ختم کرنا ہوگا، اس کیلئے حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ آج بھی اپنے سیاسی فائدے کیلئے ان اصلاحات کو نظرانداز کر رہی ہے، جو امن کے قیام اور شدت پسندی و دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ناگزیر ہیں۔ لوگوں کو حقوق دیکر، انہیں تعلیم دیکر، انہیں انصاف دیکر بدلا جاسکتا ہے۔ کب تک آپریشنز، جنگ کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ کب تک عوام کو محروم رکھا جاسکے گا۔ کب تک میڈیا اور بیرونی دنیا سے انہیں دور رکھ پائیں گے۔ مسئلہ یا زخم چھپانے سے ٹھیک نہیں ہوگا، بلکہ پورے جسم میں پھیلتا جائے گا، اسکو ٹھیک کرنے کیلئے اس کا علاج کرنا ہوگا۔


ثمرینہ خان وزیر فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (خواتین ونگ) کی صدر ہیں، ان کا شمار ان قبائلی خواتین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی محنت و ہمت کے بل بوتے پر نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیابیاں سمیٹی بلکہ فاٹا کے عوام کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کی۔ ثمرینہ خان وزیر یونیورسٹی آف پشاور، لا کالج سے امتیازی نمبروں کے ساتھ قانون کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں اور بطور وکیل پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گریجویشن پشاور یونیورسٹی سے مکمل کی اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے براؤن تمغہ حاصل کیا، جبکہ انٹرمیڈیٹ فیڈرل بورڈ آف اسلام آباد سے کرکے بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔ ابھی فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے فاٹا کے نوجوانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ بنیادی طور پر فاٹا کی جنوبی وزیرستان ایجنسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف پروگرامز، ورکشاپس، ایونٹس کا حصہ رہ چکی ہیں اور فاٹا کے نوجوانوں کے مسائل پر کئی مباحثوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے مطالبے کے ساتھ فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، فاٹا کے حقوق کیلئے چلنے والی نوجوانوں کی تحریک میں ثمرینہ خان وزیر قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ دہشتگردی کے حالیہ سانحات، حملہ آوروں کے فاٹا سے تعلق، فاٹا ریفارمز اور رواج ایکٹ پر اسلام ٹائمز نے ثمرینہ خان وزیر کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جو کہ انٹرویو کی صورت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: ملک بھر میں دہشتگردی کے سانحات رونما ہوئے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ان میں فاٹا کے لوگ ملوث ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
دہشت گردی کے حالیہ سانحات جو پیش آئے ہیں، وہ ہر درد دل رکھنے والے انسان بالخصوص ہر پاکستانی کیلئے انتہائی باعث افسوس ہیں۔ ان سانحات کے بعد سیاستدانوں کی جانب سے جو اظہار مذمت کیا گیا ہے، یہ کافی نہیں ہے۔ ہم سالوں سے یہ چیز سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ دہشت گردی سے لڑنے کیلئے، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سابق آرمی چیف کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین نے بیٹھ کر ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔ جس میں دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کیلئے کافی چیزیں شامل تھیں، فاٹا اصلاحات بھی انہی کا حصہ تھیں، مگر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نیشنل ایکشن پلان پر صحیح سمت میں اور حقیقی معنوں میں عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس حوالے سے حکومت کی غیر سنجیدگی سمجھ سے بالاتر ہے۔ فاٹا میں صرف آپریشن سے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ خواہ ضرب عضب کتنا ہی کامیاب کیوں نہ ہو۔ جنگ کے ذریعے امن کبھی بھی نہیں لایا جاسکتا۔ امن کیلئے مستقل مزاجی سے ان مسائل کا سدباب کرنا ہوتا ہے، جو بدامنی کی وجہ بن رہے ہیں۔ مسائل حل کرکے انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ دہشت گردی میں بچوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان بچوں کو، نوجوانوں کو دہشت گردوں سے، ان کے نظریات سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا کوششیں ہوئی۔ تو اس کا جواب صفر میں ہے۔

کئی آرٹیکلز میں، یہاں تک کہ جو آرٹیکلز میں نے اسلام ٹائمز کیلئے بھی لکھے، ان میں بھی اسی چیز پر زور دیا گیا کہ حکومت سنجیدگی سے فاٹا کے شہریوں کا طرز زندگی، طرز فکر بدلنے پر کام کرے، اصلاحات کے ذریعے دہشت گردوں کو فراہم ہونے والی افرادی قوت کا راستہ روکے، جنگ کے ذریعے وقتی طور پر شدت پسندوں کو ختم کیا جاسکتا ہے، مگر شدت پسندی کے خاتمے کیلئے اسے ذہنوں سے ختم کرنا ہوگا، اس کیلئے حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ آج بھی اپنے سیاسی فائدے کیلئے ان اصلاحات کو نظرانداز کر رہی ہے، جو امن کے قیام اور شدت پسندی، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ناگزیر ہیں۔ لوگوں کو حقوق دیکر، انہیں تعلیم دیکر، انہیں انصاف دیکر بدلا جاسکتا ہے۔ کب تک آپریشنز، جنگ کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ کب تک عوام کو محروم رکھا جاسکے گا۔ کب تک میڈیا اور بیرونی دنیا سے انہیں دور رکھ پائیں گے۔ مسئلہ یا زخم چھپانے سے ٹھیک نہیں ہوگا، بلکہ پورے جسم میں پھیلتا جائے گا، اس کو ٹھیک کرنے کیلئے اس کا علاج کرنا ہوگا۔ دہشت گردی، شدت پسندی کی بیماری کا علاج کیا جائے۔ حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس پر سوچنا چاہیئے۔ نیشنل ایکشن پلان بہت اچھا تھا، اس پر بتدریج اور من و عن عمل ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا کے اندر سے دہشتگردی، شدت پسندی کیسے ختم کی جا سکتی ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
نائن الیون کے بعد جو جنگی ماحول یہاں بنا، اس کی وجہ سے نہ صرف فاٹا بلکہ پورے پاکستان میں لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی نفسیات پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ فاٹا کے عوام میں نفسیاتی مسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ ایک پورا علاقہ ایک طرف حکومت سے حقوق نظرانداز کئے جانے پر ناراض ہو، دوسرا وہاں کے شہری نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں تو مثبت رویوں کی ترویج کیسے کریں گے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے رتی برابر کام نہیں کیا جا رہا۔ ابھی تک جو نقصان اٹھایا، گرچہ وہ بہت زیادہ ہے، مگر اس نقصان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کہ جو مزید آگے ہوسکتا ہے۔ اتنی طویل جنگ کے اثرات اپنی جگہ، احساس محرومی اپنی جگہ، ذہنی صحت کی پیچیدگیاں اور مسائل اپنی جگہ یوں ہی رہے تو مزید آگے چل کر کیا ہوگا۔ خدانخواستہ اب بھی مستقل مزاجی سے ان مسائل کے خاتمے پر کام نہیں کیا گیا تو زیادہ نقصان ہوگا۔ طویل المدت پالیسی تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہاں پر پورے پورے خاندان تو دہشتگردی یا شدت پسندی میں ملوث نہیں ہوتے، بلکہ اس فیملی کا کوئی ایک آدھ بچہ یا نوجوان شامل ہوتا ہے۔ ان کے پورے خاندان نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کے بارے میں پتہ ہونے کے باوجود، اس کی مشکوک سرگرمیوں کے اندیشے کے باوجود وہ خاندان کسی سے بات تک نہیں کر پاتے، یہاں پر بھروسے اور اعتماد کا فقدان کارفرما ہے۔ انتقامی جذبے کا شکار ہونے والے نوجوانوں کے اوپر بھی کام نہیں اور نہ ہی ان کی فیملی خاندان کا رابطہ یا اعتماد اس قدر بحال ہے کہ وہ کسی کو کچھ بتائیں۔ ایسے اقدامات ہونے چاہیں کہ فیملیز کو یہ اعتماد ہو کہ اگر وہ اپنے بچوں کی، نوجوانوں کی مشکوک سرگرمیوں یا رویے کی کسی سے بات کریں تو ان کے بچے اور وہ خود محفوظ رہیں گے۔ جو نوجوان گرفتار ہوتے ہیں، ان کا نفسیاتی علاج کیا جائے۔ انہیں دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ذہنوں سے نفرت نکالنی چاہیے۔ والدین کو آگاہی دینی چاہیے۔ لوگوں میں شعور کی بیداری پر کام کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپ حنا شاہنواز کے قتل کا پس منظر اور واقعہ بیان کریں، ؟یہ کوئی جائیداد کا تنازعہ تھا، یا غیرت کا مسئلہ تھا۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
حنا شاہنواز کوہاٹ کی رہائشی 27 سالہ نوجوان خاتون اور اپنے گھر کی واحد کفیل تھی۔ جسے صرف اس کی خودداری کی پاداش میں اپنے ہی کزن محبوب عالم نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا اور خود فرار ہوگیا۔ حنا شاہنواز اپنے خاندان کی سب سے پڑھی لکھی خاتون تھیں، جنہوں نے ایم فل تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی، سائیکالوجی میں۔ والد کینسر کے خلاف لڑتے لڑتے چل بسے تھے۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد اس کے بھائی کو بھی ایک جھگڑے کے دوران قتل کر دیا گیا۔ بھائی کے قتل کے بعد اس کی اہلیہ اور دو بچوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی حنا پر آن پڑی۔ حنا کی بہن کے شوہر کا بھی انتقال ہوگیا، جس کے باعث اس کی اور اس کے بیٹے کی کفالت کا بیڑا بھی حنا نے ہی اٹھایا۔ والدہ کے انتقال کے بعد وہ قرض کے بوجھ تلے بھی دب گئی، جس کے باعث اس نے کچھ پراپرٹی بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔ حنا اپنی تعلیم کو بروئے کار لاکر ایک این جی اوز میں جاب کر رہی تھی۔ سگا چچا کہ جس کے بیٹے کی تعلیم بھی واجبی سی تھی۔ نہ صرف حنا سے شادی کرنا چاہتا تھا بلکہ اس کی نوکری کے بھی خلاف تھا۔ ایک ستائیس سالہ نوکری پیشہ لڑکی کیسے اپنے یتیم بھانجے بھتیجوں کی کفالت کیسے چھوڑ دیتی، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ وہ واحد کفیل ہے۔ کزن نے جب اس سے نوکری چھوڑنے کی فرمائش کی تو حنا نے جواب دیا کہ مجھے ان بچوں کی کفالت کیلئے چالیس ہزار ماہانہ دیدو، میں نوکری چھوڑ دوں گی۔ بس یہی جرم بن گیا، حنا کا اور اس کے اپنے ہی کزن نے گولیاں مار کر اسے قتل کر دیا۔ بس اپنے آئینی حقوق کے حصول کی خواہش حنا کی موت کی وجہ بنی۔

اسلام ٹائمز: جسٹس فار حنا شاہنواز کمپئن کیا ہے اور اس کمپئن میں مطالبہ کیا ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
جی جسٹس فار حنا شاہنواز کمپئن فاٹا یوتھ نے شروع کی ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ حنا شاہنواز کے قاتلوں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور عام عورت کے تحفظ کیلئے یہ ناگزیر ہے۔ ایسے جرائم تو ہمارے قبائلی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ قبائلی قوانین میں اتنے مسائل ہیں کہ روزانہ کی بنیادوں پر ایسے سانحات درپیش آتے ہیں، جبکہ یہ قتل تو کوہاٹ کے اندر ہوا ہے، جہاں ایف سی آر کا کالا قانون لاگو نہیں بلکہ آئین و قانون کی عملداری ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اتنی قابل خاتون کا اتنی بیدردی سے قتل کر دیا گیا اور پھر اس پہ خاموشی بھی چھا گئی۔ اکتوبر 2016ء میں ڈومیسٹک وائلنس کے خلاف قانون پاس ہوا ہے، مگر اس کے باوجود یہ حالت ہے تو پھر صاحبان اقتدار کو سوچنا چاہیئے کہ ایسے کون سے مسائل ہیں، کون سے خلا ہیں کہ جن کی وجہ سے معاشرے میں عورت عدم تحفظ کا شکار ہے۔ قبائلی معاشرے کو تو رہنے دیں، یہاں تو روزانہ کی بنیاد پر تشدد ہوتا ہے۔ ایسے معاملات میں نہ مجرم کو سزا ملتی ہے اور نہ حکومت سرپرستی لیتی ہے۔ خواتین ڈر کر معاف کر دیتی ہیں، حالانکہ خواتین کے حقوق وہی ہونے چاہیئے، جو مرد کو حاصل ہیں۔

اسلام ٹائمز: فاٹا اصلاحات پر بات ہوتے ہوتے رواج ایکٹ کی بات شروع ہوگئی ہے، یہ رواج ایکٹ کیا ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
رواج ایکٹ کو آپ ایف سی آر کی ایک بدلی ہوئی شکل کہہ سکتے ہیں۔ جب ایف سی آر کے خلاف قبائلی نوجوانوں اور خواتین نے آواز اٹھائی تو حکومت کو پتہ چل گیا کہ اب کسی بھی صورت میں ایف سی آر کو لاگو رکھنا ممکن نہیں اور نہ ہی یہ لوگ قبول کرنے پر تیار ہیں، تو اسی کی وضع قطع بدل کے رواج ایکٹ کے طور پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رواج ایکٹ نہ کسی نے مانگا، نہ بات ہوئی، نہ مشاورت ہوئی۔ جب سے رواج ایکٹ کی بات ہوئی ہے، کوئی موقع یا پلیٹ فارم ایسا نہیں ہے کہ جہاں ہم نے رواج ایکٹ کے خلاف احتجاج نہ کیا ہو۔ رواج ایکٹ کے خلاف باقاعدہ ایک کمپئن چل رہی ہے۔ پہلے ایف سی آر جو لاگو تھا تو اس میں بھی ایک یہی توجیہہ پیش کی جاتی تھی کہ اس میں ہمارے رواج کا تحفظ ہے۔ اب براہ راست رواج ایکٹ لایا جا رہا ہے۔ ہمارے رواج کتنے اچھے ہیں۔ ہمارے رواج میں تو دشمنی ہے، قتل ہے، گھروں کا مسمار ہونا ہے، خواتین کا استحصال ہے۔ ہمارے تو رسم و رواج ظالمانہ ہیں۔ ان رواجوں میں خواتین کا تحفظ تو ناممکن ہے۔ ہمیں کسی صورت یہ رواج ایکٹ منظور نہیں ہے۔ خبر نہیں ہمارے ایم این ایز نے اس ایکٹ پر کس طرح سائن کئے ہیں۔ ویسے بھی ظالمانہ اور استحصالی چیزوں کو کھینچ تان کر انسانی حقوق کے زمر ے میں لانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ ویسے شائد رواج ایکٹ سے مردوں کو کوئی مسئلہ نہ ہو مگر خواتین کو ہے۔ پارلیمنٹیرین کو بھی نہیں معلوم کہ یہ رواج ایکٹ حقیقت میں ہے کیا۔ بنا مانگے ایک چیز زبردستی لادنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بس۔

اسلام ٹائمز: رواج ایکٹ کیخلاف قبائلی خواتین نے آواز کیوں نہیں اٹھائی۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
ہمارا پہلے دن سے ہی ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ فاٹا سے بھی خواتین کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے۔ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے جو فاٹا ریفارمز کمیٹی تشکیل دی گئی، اس میں سرے سے خواتین کی نمائندگی ہی نہیں تھی۔ جب اس میں کوئی خاتون شامل ہی نہیں تو کیسے ممکن ہے کہ یہ کمیٹی خواتین کے حقوق اور تحفظ کی بات کرے۔ یہی صورت حال رواج ایکٹ کے حوالے سے بھی درپیش ہے۔ فاٹا میں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہیں اور رواج ایکٹ میں خواتین کی ہی آراء کو شامل نہیں کیا گیا۔ اب اس سے اندازہ لگا لیں کہ رواج ایکٹ میں خواتین کے حقوق پر کتنی بات کی گئی ہوگی۔ اگر ایک بھی قبائلی خاتون کی اس ایکٹ کے حوالے سے رائے لی جاتی تو یہ ایکٹ منظور نہ ہوتا۔ ضروررت اس امر کی تھی کہ خواتین کی بات سنی جائے۔ ان کو ان کمیٹیوں اور پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے تو فاٹا کو نکال دیا گیا، اب ریفارمز کیسے ہونگی۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
فاٹا کا مسئلہ کبھی بھی کابینہ کے ایجنڈے میں زیر غور نہیں رہا۔ چنانچہ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت فاٹا ریفارمز کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر بات کی جاتی ہے، کیونکہ امن ضروری ہے، مگر کیا امن کیلئے فاٹا ریفارمز ضروری نہیں ہیں۔؟ ایک کروڑ کی آبادی والے فاٹا کو سرے سے ایجنڈے پر نہ لانا، اس کے معاملات ایشوز پر بات نہ کرنا، حکومتی غیر سنجیدگی کا مظہر ہے۔ فاٹار یفارمز کے حوالے سے کچھ نہیں کیا جا رہا۔ معاملہ بیان بازیوں کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ قبائلی نوجوانوں نے بار بار اس مسئلہ پر آواز اٹھائی ہے۔ بعض آراء یہ ہے کہ ملٹری قیادت کی تبدیلی کی وجہ سے فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حالانکہ قطعاً ایسا نہیں ہے۔ جو مطالبہ قبائلی کر رہے ہیں، جو قبائل چاہتے ہیں، ملٹری بھی وہی چاہتی ہے۔ گذشتہ دنوں جب آرمی چیف نے فاٹا کا دورہ کیا تو انہوں نے وہی بات کی، جو ہم بار بار مطالبہ کر رہے ہیں۔ یعنی ہمارے مطالبے سے ہٹ کر اگر دفاعی تناظر میں بھی اس مسئلہ کو دیکھا جائے تو بھی آرمی کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ آرمی چیف کئی بار اپنے بیان میں اس جانب واضح اشارہ دے چکے ہیں کہ فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے ہم وہی چاہتے ہیں جو قبائل مانگ رہے ہیں، اصلاحات ایسی ہی ہونی چاہیں۔ القصہ مختصر کہ حکومت کے پاس اب مزید کوئی بہانہ نہیں ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے آرمی یا اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی۔ ہم نے ایجنسی وائز احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ رواں ماہ کی 12 تاریخ کو ہنگو میں احتجاجی مظاہرہ ہوا، 14 کو باجوڑ ایجنسی میں، 15 کو کوہاٹ میں ہوا۔ اب 18 کو پارا چنار میں ہو رہا ہے۔ ہم پہلے بھی احتجاج کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے رہیں گے، جب تک کہ ہمارے مسقبل کا فیصلہ ہماری خواہشات کے مطابق نہیں کیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: کیا جے یو آئی کے دباؤ میں آکر حکومت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت کو اچکزئی اور فضل الرحمن کی ضرورت ہے، لیکن حکومت کو بھی یہ دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ سیاسی مفادات کیلئے ایک کروڑ کی آبادی والے فاٹا کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں۔ ہم اب وہ پہلے والے قبائل نہیں رہے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی باتوں اور دباؤ میں آکر اپنا حق چھوڑ دیا۔ اب ہم اپنا یہ آئینی، قانونی اور انسانی حق نہ جے یو آئی کو چھیننے دیں گے، نہ اچکزئی اور اس کی جماعت اور نہ ہی پی ایم ایل کو۔ ہم قبائل نہ ہی کوئی بہانہ قبول کریں گے اور نہ کوئی دلاسہ۔ اب فاٹا اصلاحات ہوکر رہیں گی۔

اسلام ٹائمز: فاٹا میں کون سی سیاسی جماعت مضبوط ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
گذشتہ ادوار میں فاٹا پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ رہ چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فاٹا کیلئے بہت کچھ کیا، شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے دور میں فاٹا ریفارمز کے حوالے سے کوششیں ہوئیں۔ فاٹا کیلئے پیپلز پارٹی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ فاٹا پیپلز پارٹی کا احسان مند ہے۔ اب پی ٹی آئی بھی مختلف ایجنسیز میں زور پکڑ رہی ہے، چونکہ نوجوان تبدیلی کے طلبگار ہیں۔ اس لئے وہ پی ٹی آئی سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز بھی قبائلیوں کے دلوں میں جگہ بناسکتی ہے، مگر اس صورت میں جب وہ قبائلیوں کے مطالبے پر، فاٹا اصلاحات پہ مثبت اور خلوص سے بات کرے۔ ماضی میں مختلف ایجنسیز میں مختلف جماعتیں مضبوط رہی ہیں۔ اب قبائلی سب سمجھتے ہیں، چنانچہ حکمران جماعت کو بہانے اور تاخیری حربوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کنونشن سنٹر میں فاٹا کے موضوع پر ہونیوالا سیمینار کس حد تک سود مند تھا۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
فاٹا اصلاحات کے حوالے سے پہلے بھی پروگرام ہوتے رہے ہیں۔ کنونشن سنٹر میں ہونے والا یہ پروگرام بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی تھا۔ کوئی پروگرام متاثر کن کوششوں کے باعث بنتا ہے۔ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے یہ پروگرام تو بہت اچھا تھا اور اس میں آئے ہوئے معزز مہمانان گرامی نے فاٹا اصلاحات کو ناگزیر بھی قرار دیا، مگر اگلے دن ہوا یہ کہ کابینہ کے ایجنڈے سے فاٹا کو سرے سے نکال دیا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی حق پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیتا، بلکہ خود ہی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ہم اپنے حق سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ حکومت کو متوجہ کرنے کیلئے کوششیں کرتے رہیں گے۔ کنونشن سنٹر میں ہونے والے پروگرام میں بھی ایک چیز جو مجھے بہت عجیب محسوس ہوئی، وہ یہ کہ اس پروگرام میں بھی رواج ایکٹ پہ خواتین کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جس چیز پر ہمیں تحفظات ہیں، اس پر ہمیں بات نہیں کرنے دی گئی، اس طرح ہم اپنی بات کو وہاں تک پہنچا سکتی۔ ویسے ایک طبقے کے ساتھ ظلم کرکے، اصلاحات سے امن اور اچھی امیدیں وابستہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ خواتین کو نظرانداز کرکے آپ کسی طور امن نہیں لاسکتے۔


خبر کا کوڈ: 610547

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/610547/فاٹا-اصلاحات-کے-بغیر-قیام-امن-کی-خواہش-دانشمندی-نہیں-ثمرینہ-خان-وزیر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org