0
Tuesday 21 Feb 2017 14:45
ہمسایہ ممالک کیساتھ جو بھی مسائل ہیں، انہیں بیٹھ کر ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کیا جائے

ہمارے ملک میں حکومتیں ایجنسیز کی مرضی سے بنتی ہیں، حاجی غلام احمد بلور

کالا باغ ڈیم کے بننے سے سندھ سوکھے گا، خیبر پی کے ڈوبے گا اور پنجاب کو فائدہ ہوگا، کسی ایک صوبے کو نقصان اور باقی کو فائدہ پہنچایا جائے یہ ہمیں
ہمارے ملک میں حکومتیں ایجنسیز کی مرضی سے بنتی ہیں، حاجی غلام احمد بلور
حاجی غلام احمد بلور المعروف حاجی صاحب، عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیر برائے ریلوے ہیں۔ وہ تین مختلف وفاقی حکومتوں میں وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ 25 دسمبر 1939ء کو باجوڑ ایجنسی میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباو اجداد نے وہاں سے پشاور ہجرت کی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم خداد ماڈل سکول اور اسلامیہ سکول پشاور سے حاصل کی، انہوں نے ایڈورڈ کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ انہوں نے جامشورو یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ انکے والد شہر کے کامیاب بزنس مین اور باچا خان کے بڑے مداحوں میں سے تھے۔ بچپن سے ہی انکا سیاست کی طرف رجحان تھا۔ انہوں نے 1965ء میں محترمہ فاطمہ جناح کی ایوب خان کے خلاف صدارتی مہم میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے 1970ء میں عوامی نیشنل پارٹی کو جوائن کیا اور ابھی تک اسی پارٹی سے منسلک ہیں۔ وہ 1975ء میں 6 سال کیلئے سینیٹر منتخب ہوئے، 2002ء کے عام انتخابات کے سوا، غلام احمد بلور نے 1988ء سے ابتک ہونیوالے تمام انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ 1988ء میں بلور کو آفتاب شیر پاؤ کے ہاتھوں شکست ہوئی، تاہم شیر پاؤ نے وزارتِ اعلٰی کیلئے قومی اسمبلی کی نشست خالی کی اور یوں ضمنی انتخابات میں بلور کامیاب ہوگئے۔ 1990ء کے انتخابات میں بلور بینظیر بھٹو کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ 1993ء میں  پھر منتخب ہوئے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں غلام احمد بلور نے حصہ نہیں لیا، لیکن این اے ون پشاور ون سے 2008ء میں پھر منتخب ہونے کے بعد غلام احمد بلور کو وفاقی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزارتِ ریلوے کا قلمدان سونپا گیا۔ اسلام ٹائمز نے ملک کی حالیہ صورتحال بالخصوص دہشتگردی کے حوالے ان سے گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ملک میں ہونیوالی حالیہ دہشتگردی کی لہر کے بارے میں آپ کیا کہین گے۔؟
غلام احمد بلور:
دہشتگردی تو ہم کافی سالوں سے بھُگت رہے ہیں، کبھی رُک جاتی ہے اور کبھی ایک دم سے تیز ہو جاتی ہے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ دہشتگردی ہو کیوں رہی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ روس میں دہشتگردی نہیں ہے، چائنہ، انڈیا، یورپ، جاپان اور آسٹریلیا وغیرہ میں نہیں ہے، صرف اور صرف مسلمان ممالک میں کیوں ہے؟ سب سے پہلے تو اسی بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ ایک آدمی اگر مرنے یا مارنے کا ارادہ کر چکا ہے تو وہ اپنی جان وہیں پہنچا کر ہی رہتا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں اور کارروائیاں بھی کرسکتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنائیں، ہمسایہ ممالک کے ساتھ جو بھی مسائل ہیں، ان کو بیٹھ کر ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کریں، ورنہ یہ مسائل حل ہونے والے نہیں، چاہے وہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا پاکستان افغانستان کشیدگی کا۔

اسلام ٹائمز: آنیوالے الیکشن میں عوامی نیشنل پارٹی کو کس پوزیشن میں دیکھ رہے ہیں، کیا یہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں اپنی جگہ بنا پائے گی۔؟
غلام احمد بلور:
ہمارے ہاں ایک یہ بڑا مسئلہ ہے کہ ہم لوگ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے جو کہا تھا، کیا وہ اُس چیز پر پورے اترے ہیں؟ نہیں نہ۔ انہوں نے یہ کہا کہ تبدیلی لائیں گے، کیا وہ لے آئے؟ تبدیلی کا لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور ہے کہ غریب لوگ امیر ہو جائیں گے اور امیر سب جیلوں میں ہوں گے، سب کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا، لیکن ایسا دیکھنے میں نہیں آیا، لوگ ان سے خوش نہیں ہیں۔ آپ لوگوں سے پوچھیں کہ ان کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔ پارٹی کے اکثر لوگ جو پی ٹی آئی کے حامی تھے، اب وہی ان کے مخالف ہیں۔ جہاں تک اے این پی کی پوزیشن کا سوال ہے تو ان شاء اللہ اس بار ہمارا رزلٹ بہت بہتر ہوگا، اگر درمیان میں کچھ لوگوں نے گڑ بڑ نہ کی تو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت بنے گی اے این پی کی، پر یہ ضرور کہوں گا کہ خیبر پی کے کی سب سے بڑی پارٹی یہی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے ابھی یہ کہا کہ کچھ لوگ گڑ بڑ کرتے ہیں، اس بات سے کیا مراد ہے؟ وہ لوگ کون ہیں۔؟
غلام احمد بلور:
ہماری ایجنسیز ہیں، جو یہ کام کرتی ہیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ 1970ء کے بعد جتنی بھی حکومتیں ہیں، یہ بنی نہیں ہیں بلکہ بنائی گئی ہیں، چاہے وہ مسلم لیگ (ن) کی ہو، پی ٹی آئی ہو، جمیعت علماء اسلام (ف) ہو۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ میرا ہمیشہ 45000 سے 50000 ووٹ بنک ہوتا ہے، پچھلی بار میں چوبیس ہزار پے آگیا اور عمران خان نے 96000 ووٹ لیا، یہ سب کس نے کیا؟ کیسے ہوا یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ ایجنسیوں کو چاہیئے کہ یہ معاملہ لوگوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ جس کو ووٹ دیتے ہیں، اس کو حکمرانی ملے، اگر بیچ میں یوں ہی انٹرفیئرنس رہی تو لوگوں کا اعتبار ووٹ سے اُٹھ جائے گا۔

اسلام ٹائمز: آنیوالے الیکشن میں آپکی پارٹی کا بڑا مدِمقابل کون ہے۔؟
غلام احمد بلور:
جب سے پاکستان بنا ہے، کبھی بھی ہمارے چھوٹے صوبوں میں ایک پارٹی نے حکومت نہیں بنائی، کچھ پارٹیز ایسی ہیں، جو اس بار مل کر الیکشن لڑیں گے اور کچھ الگ سے۔ ہمارے جو اپنے پاکٹس ہیں، ہم ان میں ضرور کامیاب ہوں گے ان شاء اللہ۔ اگر آپ یہ توقع کریں کہ اے این پی ڈیرہ اسماعیل خان میں جیتے تو وہ نہیں جیتے گی، یہی صورتحال ایبٹ آباد کی بھی ہے، کیونکہ وہاں ہمارے پارٹی ورکرز کی اکثریت نہیں ہے۔ جن جن علاقوں میں ہمارا ہولڈ ہے، وہاں سے ہم ضرور جیتیں گے۔

اسلام ٹائمز: اے این پی کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں پیش پیش رہی ہے، اسکی بنیادی وجہ کیا ہے، کیوں مخالفت کی گئی۔؟
غلام احمد بلور:
ہماری کوئی ذاتی مخالفت نہیں ہے اس ڈیم سے۔ پنجاب کے اندر اس وقت پانچ دریا موجود ہیں اور پنجاب کی ترقی بھی انہی دریاوں کے ارد گرد ہے۔ دریائے سندھ جو کہ پنجاب کا نہیں ہے اور یہ بات واضح ہے۔ پنجاب اس وقت دریائے سندھ سے کالا باغ کے مقام پر 12000 کیوسک پانی لے رہا ہے، ساتھ ہی چشمہ بیراج ڈیرہ اسماعیل خان سے 21000 کیوسک پانی لے رہا ہے، اس کے علاوہ تونسہ بیراج سے بھی 12000 کیوسک پانی لیا جا رہا ہے، کُل ملا کر 45000 کیوسک پانی دریائے سندھ سے پنجاب لے رہا ہے، جس سے پنجاب کی پینتالیس لاکھ ایکڑ زمین آباد ہے۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے صوبے کو بھی پانی کی ضرورت ہے، جو اسی دریا سے مل سکتا ہے، اس کے علاوہ سوات، دیر اور دریائے کابل سے جو پانی آتا ہے، تقریباََ 21000 کیوسک ہے، اس 21000 کیوسک کا آدھا ہم ڈیرہ اسماعیل خان کیلئے مانگتے ہیں، جو کہ ہمیں نہیں ملا، اگر مل جاتا تو اس سے ہمارے صوبے کا گیارہ لاکھ کے قریب رقبہ کاشتکاری کے قابل بنایا جا سکتا تھا۔ کالا باغ ڈیم بجلی کے لئے نہیں بنایا جا رہا، بجلی تو اس ڈیم میں بہت تھوڑی سی بنتی ہے۔ اس کا اصل مقصد دریائے سندھ کا پانی پنجاب میں منتقل کرنا ہے، سندھ والے کہتے ہیں کہ اگر اس میں سے مزید پانی کاٹا تو ہم پیاسے مریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر ڈیم بن جاتا ہے تو جہانگیرہ کا علاقہ مکمل ڈوب جاتا، ساتھ ہی نوشہرہ شہر کو بھی خطرہ تھا، ہم سے کہا گیا کہ نوشہرہ کے مقام پر ہم بند باندھ دینگے تو شہر بچ جائے گا، لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ اس ڈیم کے بننے سے سندھ سوکھے گا، خیبر پی کے ڈوبے گا اور پنجاب کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان سب کا ہے، ہم بھی پاکستانی ہیں، سندھ بھی، بلوچستان بھی اور پنجاب بھی۔ کسی ایک صوبے کو نقصان اور باقی کو فائدہ پہنچایا جائے، یہ ہمیں گوارہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ضربِ عضب سے آپ کتنے مطمئن ہیں، کیا یہ آپریشن سیاسی مصلحت کی نظر تو نہیں ہوگیا ہے۔؟
غلام احمد بلور:
ضربِ عضب آپریشن بہت اچھا ہوا ہے، لیکن اُس سے بہت دکھ بھی ملا ہے۔ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور ابھی تک وہ واپس اپنے علاقوں کو مکمل طور پر نہیں پہنچ سکے، جو کہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ہم نے جب آپریشن کرایا تھا سوات میں تو تین مہینوں کے اندر اندر لوگوں کو واپس اپنے گھر لے گئے۔ موجودہ حکومت اس معاملے میں بہت سستی سے کام لے رہی ہے، بنوں میں ابھی تک آئی ڈی پیز موجود ہیں، اسی طرح باقی علاقوں میں بھی۔ آپ آپریشن والے علاقے کا دورہ کریں تو وہاں گھروں اور دکانوں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے، لڑائی تو دہشتگردوں سے تھی، گھروں اور دکانوں سے تو نہیں، یہی چند مسئلے ہیں، اگر ان پر غور و فکر کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ ایک بار پھر سے کہہ دوں کہ آپریشن بہت ہی اچھا ہوا ہے، لیکن لوگوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی حکومت کی دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے جو حکمت عملی ہے اسکے بارے میں آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
غلام احمد بلور:
حکومت زور لگا رہی ہے، لوگ مر رہے ہیں، فوج اور پولیس والے بھی نشانہ بن رہے ہیں، حکومت اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہی ہے، لیکن پاکستان کے اندر دہشتگردی ایک کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہے، اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوسکتی۔ سیہون میں جو حملہ ہوا، وہاں پولیس موجود تھی، لیکن پھر بھی حملہ آور اندر گھس گیا، یہی صورتحال داتا دربار کی بھی تھی۔ کہاں کہاں حکومت ان کو روکے، حکومت اپنی طرف سے ان کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بعض جگہوں پہ حکومتی ادارے کامیاب ہوتے ہیں اور بعض میں نہیں۔ یہ چوہے بلی کا کھیل ہے۔ اس وقت ضرورت اس چیز کی ہے کہ افغانستان کی فوج اور پاک فوج مل کر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرے، آپ ان کو ماریں اور وہ آپکو تو یہ اس چیز کا حل نہیں ہے۔ بارڈرز کی بندش کا دہشتگردی کے رکنے سے کوئی ربط نہیں ہے۔ افغانستان کے راستے بند کرنے سے دشمن کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ہم ہمسایہ ملک کو اپنے سے دور کرکے انڈیا کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے اندر کچھ ہسپتال بنے ہوئے ہیں، جو کہ افغان لوگوں کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ اب چونکہ ان لوگوں کا داخلہ بند ہوگیا ہے تو اس سے ہمیں مالی طور پر بھی نقصان ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ انڈیا نے افغانستان کیلئے ہوائی جہازوں کی ٹکٹس کے ریٹ کم کر دیئے، اب جو بیمار ہے، اسے انڈیا لے جایا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ سنجیدگی سے اس کا مسئلے حل نکالے۔ دہشتگرد عام لوگ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ بارڈر کے ذریعے اندر آتے ہیں، انہوں نے پاکستان کے اندر آنا ہے تو وہ آ کر ہی رہیں گے، چاہے بارڈر کھلا ہو یا بند۔

اسلام ٹائمز: آپ جب وفاقی وزیر ریلوے تھے تو آپ پر کرپشن کے الزامات تھے اور اس وجہ سے آپ نیب کی انویسٹیگیشن میں بھی ہیں، اس بات پر روشنی ڈالیں۔؟
غلام احمد بلور:
خدا کا شکر ہے کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں لگا، میں بالکل کلیئر ہوں اور کسی قسم کی کرپشن نہیں کی، جہاں تک نیب کی بات ہے تو نہ ہی مجھے کوئی نوٹس ملا اس حوالے سے اور نہ ہی کوئی بات سامنے آئی، اگر ایسا مسئلہ ہوتا مجھے عدالت میں بھی پیش ہونا پڑتا یا کوئی ثبوت ہوتا لیکن ایسا کچھ نہیں، یہ سراسر جھوٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ پر 39000 ٹن ریلوے سکریپ کی کرپشن کا الزام ہے، جسکی قیمت تقریباََ 300 ملین روپے بنتی ہے، اس بات میں کتنی سچائی ہے۔؟
غلام احمد بلور:
سب جھوٹ ہے، جس کسی نے بھی یہ سب میرے بارے میں کہا ہے، یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں، الحمدللہ میں نے کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اے این پی بھی پی ٹی آئی کی طرح پانامہ لیکس کے مسئلے پر حکومت کیخلاف ایکشن چاہتی ہے، اس کیس کی کامیابی کے کتنے چانسز ہیں۔؟
غلام احمد بلور:
پانامہ کیس کے اندر خود نواز شریف کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹوں کا نام ہے۔ کیس عدالت میں چل رہا ہے، لہذا ابھی اس پر بات کرنا مناسب نہیں، جو فیصلہ ہوگا دیکھا جائے گا، ہم احتساب چاہتے ہیں، جس نے بھی کرپشن کی، اس کا احتساب ہونا چاہیئے، باقی ہم نے فیصلہ عدالت پر چھوڑا ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 611552
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش