QR CodeQR Code

پاکستان کو دوست ممالک کیساتھ ملکر اپنے آپکو مضبوط بنانا ہوگا

امریکہ، بھارت اور کئی مغربی ممالک پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل نہیں چاہتے، ڈاکٹر اصغر علی

اگر ہم نے صحیح منصوبہ بندی نہیں کی تو سی پیک منصوبے کے مقامی صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں

21 Feb 2017 23:59

جامعہ کراچی کے معروف ادارے تحقیقی مرکز برائے اطلاقی معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہر معاشیات کا "اسلام ٹائمز" کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان سمیت خطے کیلئے گیم چینجر منصوبہ ہے، پورے خطے میں خوشحالی آئیگی، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک اس خطے کو خوشحال اور معاشی و اقتصادی طور پر ابھرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے، وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک اپنے فیصلے خود کریں، بھارت یہ دیکھ رہا ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان پورے خطے میں بہت بڑی طاقت بن کر ابھرے گا، جو کہ بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا۔


ماہر معاشیات و اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی کا تعلق پاکستان کی معروف درسگاہ جامعہ کراچی کے ادارے تحقیقی مرکز برائے اطلاقی معاشیات سے ہے، جو کہ اقتصادی حوالے سے ملک کا بڑا تھنک ٹینک ہے، وہ اسی تحقیقی مرکز کے نمائندہ میگزین کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ ورلڈ بینک و دیگر ملکی اور غیر ملکی اداروں کیلئے بھی بحیثیت کنسلٹنٹ ذمہ داریاں انجام دیتے رہتے ہیں۔ وہ چین سے پی ایچ ڈی مکمل کر چکے ہیں، اس سے قبل جامعہ کراچی سے معاشیات میں ماسٹرز اور تحقیقی مرکز برائے اطلاقی معاشیات سے ایم ایس (MS) کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ اسی تحقیقی مرکز میں وہ تقریباً آٹھ سال تدریسی و تحقیقی ذمہ داریاں بھی سرانجام دے چکے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ کئی سرکاری و نجی تعلمی اداروں میں بھی انکے لیکچرز کا سلسلہ جاری رہتا ہے، وہ ملکی و غیر ملکی معاشی و اقتصادی صورتحال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے ڈاکٹر اصغر علی کیساتھ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے ایک اہم نشست کی، اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کیا ہے۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (CPEC) کثیر الجہتی ٹاسک رکھنے والا منصوبہ ہے، اسکا سب سے اہم پہلو پاکستان کی گوادر بندرگاہ ہے، جو خطے میں سب سے زیادہ Deep Sea ہے، یعنی جہاز بالکل بندرگاہ کے ساتھ لنگر انداز ہوسکتا ہے، پھر یہ ایک راہداری منصوبہ ہے، گوادر سے لیکر چینی سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقے خنجراب تک کی یہ راہداری ہے، جہاں سے پاکستان اور چین سینٹرل ایشیا سمیت دنیا بھر میں برآمدات اور درآمدات کرینگے، پورے خطے میں خوشحالی کے حوالے سے یہ سب سے بڑا منصوبہ ہے، اس منصوبے کے حوالے سے پاکستان میں چین سے جو سرمایہ کاری آئی ہے، اس کے تحت راہداری انفرااسٹرکچر، انرجی سیکٹر اور گوادر ڈویلپمنٹ پر کام کیا جائے گا، انرجی سیکٹر میں اس سرمایہ کاری سے جو کام ہونگے، اسی کی بنیاد پر حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ 2018ء میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیگی۔ شارٹ ٹرم میں یہ تقریباً 46 ارب ڈالرز کا یہ منصوبہ ہے، لانگ ٹرم میں 2018ء تا 2030ء کا الگ منصوبہ ہے، 46 ارب ڈالرز میں 35 ارب ڈالرز انرجی سیکٹر کیلئے ہے، باقی انفرااسٹرکچر اور گوادر ڈویلپمنٹ کیلئے ہے، اس راہداری کے ساتھ اور کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں 40-45 اکنامک زون یا انڈسٹریل پارکس بنائے جائیں گے۔ ابھی اقتصادی راہداری منصوبہ مغربی اور مشرقی روٹس پر مشتمل ہے، لیکن بعد میں اس کے اندر ایک اور روٹ نکالا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اکنامک زون یا انڈسٹریل پارکس سے کیا مراد ہے۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
اکنامک زون میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بہترین مواقوں کے ساتھ ترغیب دی جائے گی، گوادر کے نزدیک اکنامک زونز میں تو سیلز ٹیکس بھی معاف کر دیا گیا ہے، دس سال کیلئے ٹیکس فری کر دیا ہے، اسی وجہ سے ناصرف چینی سرمایہ کار بلکہ خطے اور خطے سے باہر کے سرمایہ کار بھی مختلف انڈسٹریز کے اندر سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: اقتصادی راہداری سے چین کو کیا فوائد حاصل ہوسکیں گے۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
چین اپنی تجارت شنگھائی کے ذریعے کرتا ہے، ارومچی (urumqi) چین کا صنعتی شہر ہے، پہلا یہ کہ چین اگر ارومچی سے شنگھائی کے راستے سے کوئی چیز کراچی بندرگاہ بھیجتا ہے تو اسے 8400 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا، لیکن اگر ارومچی سے خنجراب سے ہوتے ہوئے اس راہداری کے ذریعے کراچی بھیجے گا تو اسے صرف 2500 کلومیٹر سفر طے کرنا پڑے گا، یعنی اس کا 5900 کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوگیا، دوسرا اسی طرح شنگھائی کے راستے ارومچی سے گوادر بھیجتا ہے تو اسے 8700 کلومیٹر کاسفر طے کرنا ہوگا، لیکن اگر ارومچی سے خنجراب سے ہوتے ہوئے اس راہداری کے ذریعے گوادر بھیجے گا تو اسے صرف 2900 کلومیٹر سفر طے کرنا پڑے گا یعنی اس کا 5800 کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوگیا، تیسرا اگر شنگھائی کے راستے ارومچی سے دبئی کی بندرگاہ بھیجتا ہے تو اسے 9000 کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہوگا، لیکن ارومچی سے خنجراب کے راستے سے اس راہداری کے ذریعے 3300 کلومیٹر سفر طے کرنا پڑے گا، یعنی اس کا 5700 کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوگیا، چوتھا اگر شنگھائی کے راستے ارومچی سے لندن یا یورپ بھیجتا ہے تو اسے 14500 کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہوگا، لیکن اس راہداری کے ذریعے 9500 کلومیٹر سفر طے کرنا پڑے گا، یعنی اس کا 5000 کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوگیا۔ ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ کم ہو جانے سے چین کی تجارتی لاگت میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگی، انرجی اور سروسز کی مد میں لاگت کم ہوگی، وقت کی بچت ہوگی، اس وجہ سے اس کی اشیاء کی بہت سستے داموں عالمی مارکیٹ میں دستیاب ہونگی، تیل کی رسد کے لنکس بھی گوادر بندرگاہ سے بہت قریب ہیں، اسی طرح دنیا بھر سے آنے والا سامان بھی گوادر آکر اس راہداری کے ذریعے خنجراب سے ہوتا ہوا چین جائے گا، تو یہ دو طرفہ تجارت ہوگی۔ یہ وہ بڑے فوائد ہیں جو چین کو حاصل ہونگے۔

اسلام ٹائمز: اقتصادی راہداری کے مشرقی اور مغربی روٹس کی تعمیر کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور نواز حکومت پر چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کرنیکے حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
یہ بحث تین چار سال پہلے بہت زیادہ ہو رہی تھی، حکومت نے اپنے طور پر واضح کر دیا ہے، پاکستان میں مشرقی و مغربی روٹس کا مسئلہ رہا ہے، یہ دونوں روٹس ہیں کیا اور کن کن علاقوں سے گزریں گے، میں اس حوالے سے مختصر بتا دوں، مشرقی روٹ خنجراب کے بعد اسلام آباد سے ہوتا ہوا لاہور، فیصل آباد آتا ہے، وہاں سے ملتان سے ہوتا ہوا سکھر اور پھر وہاں سے خضدار اور پھر گوادر نکل جاتا ہے، یہ مشرقی روٹ ہے، جبکہ مغربی روٹ اس کے برعکس بالکل الگ ہے، خنجراب سے نکلنے کے بعد مانسہرہ، ایبٹ آباد، پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، کوئٹہ سے ہوتا ہوا گوادر کی طرف آتا ہے۔ مشرقی روٹ مغربی کے مقابلے میں تین چار سو کلومیٹر زیادہ ہے، پاکستانی و چینی حکومتیں اس لئے مشرقی روٹ کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں کہ اس روٹ پر تمام شہر آباد ہیں، آبادی ہے، محفوظ ہے، اس روٹ پر بننے والے اکنامک زونز اور انڈسٹریل پارکس کیلئے انہیں شہر آباد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ وہ پہلے سے ہی آباد ہیں، وہیں سے انہیں باآسانی افرادی قوت بھی مہیا ہو جائے گی، کہیں بھی اربنائزیشن (urbanization) ہوتی ہے تو اس سے پہلے انڈسٹرلائزیشن (industrialization) کی ضرورت ہوتی ہے، انڈسٹرلائزیشن ہوتی ہے تو انڈسٹریل پارکس، زونز بنتے ہیں، اس کے بعد ہی اس کے اردگرد لوگ آکر آباد ہونا شروع کرتے ہیں، ان کی سہولیات کیلئے، مسجد، اسکول، کالج، جامعات، پارکس، مارکیٹس، اسپتال وغیرہ بننا شروع ہوتے ہیں، پھر وہ ایک شہر بن جاتا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ مشرقی روٹ کیلئے انہیں یہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ دوسری جانب مغربی روٹ پر پورا پہاڑی اور چٹانی علاقہ ہے، اس لئے اسے ڈویلپ (develop) کرنے کیلئے انہیں بہت زیادہ وقت، سرمایہ چاہیئے، شہر آباد کرنے ہونگے، اربنائزیشن کرنا ہوگی وغیرہ وغیرہ، لیکن ایسا نہیں ہے کہ مغربی روٹ نہیں بنے گا، وہ بھی بن رہا ہے، دونوں روٹس استعمال ہونگے، اس کے ساتھ ساتھ آگے جاکر ایک وسطی روٹ بھی نکالا جائے گا، جس کے بعد اقتصادی راہداری منصوبے کے تین روٹس ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: تجارتی سامان لانے لے جانیوالے کنٹینرز کو اس راہداری پر کتنے دن کا سفر طے کرنا ہوگا۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
کنٹینرز کیلئے راہداری کے ذریعے خنجراب تا گوادر بندرگاہ تین دن کا سفر ہوگا، ایک دن میں پانچ سو کنٹینرز خنجراب سے گوادر کیلئے اس روٹ پر نکلیں گے اور اسی طرح پانچ سو کنٹینرز گوادر سے خنجراب کیلئے روٹ پر آئیں گے، یعنی تین دن میں تین ہزار کنٹینرز اس راہداری پر سفر کر رہے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے کتنا مددگار ثابت ہوگا۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کراچی میں دو اکنامک زونز سمیت ملک کے دیگر حصوں میں 40-45 اکنامک زون بنائے جائیں گے، گوادر کے نزدیک اکنامک زونز میں تو سیلز ٹیکس بھی معاف کر دیا گیا ہے، دس سال کیلئے ٹیکس فری کر دیا ہے، اس سے تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی، ان اکنامک زونز میں صرف چینی سرمایہ کار ہی نہیں ہونگے، بلکہ اس میں یورپ سمیت دنیا بھر سے غیر ملکی سرمایہ کار آرہے ہیں، مقامی سرمایہ کار بھی آرہے ہیں، لہٰذا غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے راہداری انتہائی پرکشش اور حوصلہ مند ثابت ہوگی، انکا اعتماد بحال ہوگا کہ وہ دوبارہ سے پاکستان میں اطمینان کے ساتھ سرمایہ کاری کرسکیں، جو کہ ماضی میں رک گئی تھی۔ پھر مشرقی و مغربی روٹس جہاں سے گزریں گے، وہاں لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا جبکہ عوام میں تشویش پائی جاتی ہے کہ راہداری منصوبے اور اس سے متعلق پروجیکٹس پر کام کرنے کیلئے چینی شہریوں کو بھرتی کرکے پاکستان لایا جائیگا، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
یہ اس لئے ممکن نہیں ہے کہ اگر ہم کسی مزدور کو چین سے پاکستان لے کر آتے ہیں تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ آتا ہے تو اسے یہاں آباد کرنا ہوگا، اس کیلئے گھر سے لیکر دیگر تمام سہولیات مہیا کرنا ہونگی، اب اس چینی مزدور پر زیادہ لاگت آئے گی یا مقامی مزدور پر کہ جو پہلے سے ہی یہاں رہتا ہے اور اس کو بھرتی کیا جاتا ہے، اس حوالے سے عقلمندانہ بات یہ ہے کہ چینی کے بجائے مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے، ہاں یہ ضرور ہے کہ جب چینی کمپنی کوئی منصوبہ شروع کریگی تو انتظامی عہدوں پر چینی افراد ہوسکتے ہیں، لیکن نچلی سطح پر چین سے بھرتی کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس پر بہت زیادہ خرچے آئیں گے، انکی پیداواری لاگت بھی متاثر ہوگی، وہ یہاں آکر اپنے خرچے کم کرنا چاہتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہوا تو ان کا یہاں آنے کا کیا فائدہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ تحفظات درست ہیں کہ مقامی صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
گذشتہ دنوں جامعہ کراچی کے ادارے تحقیقی مرکز برائے اطلاقی معاشیات کے میگزین کی رونمائی کیلئے ہم نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال صاحب کو دعوت دی، میں نے ان سے پاکستانی سرمایہ کاروں و تاجر برادری کے تحفظات کے حوالے سے سوالات کئے تو وہ اس حوالے سے خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تحفظات دور کر رہے ہیں، حکومت توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے انرجی سیکٹر پر ہونے والی راہداری منصوبے میں سے 35 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری اور اس کے نتیجے میں 17 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار پر، جس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور قیمت میں کمی واقع ہوگی، جس کا فائدہ مقامی صنعت کو ہوگا، اس سے ان کی پیداواری لاگت میں کمی واقع ہوگی، لیکن حکومت اب تک تاجر و صنعتکار برادری کو مطمئن نہیں کر سکی ہے، گذشتہ دنوں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، میں نے بھی احسن اقبال صاحب سے کہا ہے کہ اگر ہم نے صحیح منصوبہ بندی نہیں کی تو ہماری مقامی صنعتوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے، جو کہ بالکل آئے گا، اس حوالے سے وفاقی حکومت کو لازمی سوچنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا گوادر بندرگاہ کی فعالیت سے ایران اور اسکی چاہ بہار بندرگاہ پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
یہ بے بنیاد مفروضہ ہے، اس میں کسی بھی قسم کی کوئی صداقت نہیں، پاکستان کی تو خواہش ہے کہ ایران اس اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہو جائے، چین ایران کو شمولیت کی دعوت دے چکا ہے، ایران نے بھی رضامندی ظاہر کر دی ہے، بلکہ روس کی بھی خواہش ہے کہ وہ اس منصوبے کا حصہ بنے، اس طرح سے یہ ایک بہت بڑا اکنامک بلاک بن جائے گا، جس میں کئی دیگر ممالک بھی شامل ہو جائینگے، جس کا ایران کو بھی بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ بات درست ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے پیچھے اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالف دشمن قوتیں ہیں۔؟
ڈاکٹر اصغر علی:
سی پیک پاکستان سمیت خطے کیلئے گیم چینجر منصوبہ ہے، پورے خطے میں خوشحالی آئے گی، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک اس خطے کو خوشحال اور معاشی و اقتصادی طور پر ابھرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتے، وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک اپنے فیصلے خود کریں، بھارت یہ دیکھ رہا ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان پورے خطے میں بہت بڑی طاقت بن کر ابھرے گا، جو کہ بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا، صرف بھارت ہی نہیں بلکہ افغانستان بھی نہیں چاہے گا، جہاں بہت سارے ممالک کی ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، وہ بھی اس منصوبے کی تکمیل نہیں چاہیں گے، امریکہ اور بہت سے مغربی ممالک بھی یہ نہیں چاہیں گے، ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگرد گروہ کے پیچھے ان ممالک کا بھی ہاتھ ہو، جہاں تک بات ہے امریکہ کی تو ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے بعد تو اس سے کسی قسم کی اچھائی کی امید نہیں رکھی جا سکتی اور اس سے قبل بھی کبھی بھی امریکہ نے مخلصی کے ساتھ کوشش نہیں کہ پاکستان کی اقتصاد کو آگے بڑھایا جائے، بہرحال پاکستان کو دوست ممالک کے ساتھ ملکر اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 611793

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/611793/امریکہ-بھارت-اور-کئی-مغربی-ممالک-پاک-چین-اقتصادی-راہداری-منصوبے-کی-تکمیل-نہیں-چاہتے-ڈاکٹر-اصغر-علی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org