QR CodeQR Code

28 فروری کی آل پارٹیز کانفرنس میں دہشتگردی کیخلاف متفقہ قومی لائحہ عمل دینگے، اسد عباس نقوی

24 Feb 2017 22:48

اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ شروع دن سے ہمارا موقف رہا ہے کہ جب تک دہشتگردوں کے سہولتکاروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا، جب تک انکی سپلائی لائن نہیں کاٹی جاتی یہ دہشتگردی جاری رہے گی۔ حالیہ واقعات سے ہمارے موقف کی تائید ہوئی ہے کہ آج بھی وہ لوگ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، جنہوں نے داعش کو پاکستان میں آنیکی دعوت دی، جنہوں دہشتگردوں کو شہید کا لقب دیا۔ جو آج بھی دہشتگردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور سہولتکاری کر رہے ہیں۔


سید اسد عباس نقوی کا تعلق پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ہے اور وہ لاہور میں ہی مقیم ہیں۔ وہ اس وقت مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی شعبہ سیاسیت کے مسئول ہیں۔ اس سے پہلے ایم ڈبلیو ایم پنجاب میں صوبائی کابینہ کے ممبر تھے۔ زمانہ طالب علمی میں سید اسد عباس امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں بھی کام کرچکے ہیں۔ اسکے علاوہ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف کے سابق مشیر حیدر علی مرزا مرحوم کے ساتھ بھی کام کرچکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اسد عباس نقوی سے ایم ڈبلیو ایم کیجانب سے بلائے جانیوالی "اے پی سی" اور دہشتگردی کی حالیہ لہر پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حالیہ دہشتگردی میں اضافہ کے بعد ایم ڈبلیو ایم نے کیا پالیسی اپنائی ہے۔؟
اسد عباس نقوی:
مجلس وحدت مسلمین کی شروع دن سے پالیسی ہے کہ اپنے آپ کو میدان میں حاضر رکھا جائے، یہی پالیسی لیکر ہم آج تک چل رہے ہیں اور دہشتگردوں کے مقابلے میں ایم ڈبلیو ایم ہر وقت میدان میں حاضر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشتگردوں کا اصل ہدف خوف کی فضاء پیدا کرنا ہے، ان کا مقصد ہے کہ لوگ خوفزدہ ہوکر گھروں میں بیٹھ جائیں، اپنی سرگرمیاں ترک کر دیں، جبکہ مجلس وحدت کا لائحہ عمل ہے کہ اس خوف کی فضاء کی توڑا جائے، دہشت گردوں کے آگے عوام کو سیسہ پیلائی ہوئی دیوار بنایا جائے۔ ہم نے لوگوں میں حوصلہ بلند کرنا ہے، انہیں تنہا نہیں چھوڑنا، اس طرح سے ہم دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لاہور سمیت چاروں صوبوں میں کئی مقامات پر دہشتگردوں نے حملے کئے ہیں، عوام کو خوف سے نکالنے کیلئے آپ لوگوں کی کیا سرگرمیاں رہی ہیں، جن سے اندازہ ہو کہ آپ لوگ دہشتگردوں کو انکے عزائم میں ناکام بنانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔؟
اسد عباس نقوی:
جی بالکل، اس پر ملک گیر احتجاج کی کال دی گئی، شہباز قلندر پر ہونے والے دھماکے خلاف سندھ میں ہڑتال کی گئی، اسی طرح سیاسی جماعتوں سے رابطے ہوئے، حکومتی سطح پر رابطے ہوئے، اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ شہباز قلندر کے مزار پر گذشتہ روز ہم نے زبردست عوامی اجتماع کیا، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ کراچی میں فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی، جس میں کراچی کی سطح کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی۔ متفقہ طور پر آواز بلند ہوئی اور ایک مشترکہ موقف سامنے آیا۔ ہم نے پاکستانی عوام کو پیغام دیا کہ اس معاملے پر سیاسی و مذہبی قیادت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہے، دہشتگردوں کے آگے جھکے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اب ہم 28 فروری کو اسلام آباد میں ایک بڑی اے پی سی کرنے جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: 28 فروری کو ہونیوالی کل جماعتی کانفرنس کی کیا تفصیلات ہیں، کراچی میں اے پی سی کرنیکے بعد اسلام آباد میں اے پی سی کا کیا مقصد ہے اور اب تک کن کن جماعتوں سے رابطے ہوچکے ہیں۔؟
اسد عباس نقوی:
جی دیکھیں کہ جو اے پی سی کراچی میں ہوئی تھی، وہ فوری ردعمل تھا، کیونکہ شہباز قلندر کے مزار پر حملے میں 100 سے زائد مسلمان شہید اور اتنے ہی زخمی ہوگئے۔ اس لئے کراچی کے دوستوں نے فوری رسپانس کیلئے مقامی سطح پر ایک اے پی سی کا انعقاد کیا اور پیغام دیا کہ ہم ایک ہیں۔ ہم خوف سے ہارنے والے نہیں ہیں، جبکہ اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے مرکزی لیڈر شپ شرکت کرے گی، جس میں دہشتگردی کی لعنت سے چھٹکارے کے حوالے سے جامع لائحہ عمل کا اعلان کیا جائیگا۔ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات تقاضا کرتے ہیں کہ سب سیاسی و مذہبی جماعتیں متفقہ لائحہ عمل کا اعلان کریں۔ جہاں تک رابطوں کی بات ہے تو پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل، اے پی ایم ایل، اے این پی، جماعت اسلامی سمیت کئی جماعتوں سے رابطے ہوچکے ہیں۔ مزید ایک دو دنوں میں تقریباً تمام مین اسٹریم جماعتوں سے رابطے ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: اس اے پی سی کے ذریعے کے کیا مسیج دینے جا رہے ہیں۔؟
اسد عباس نقوی:
جی اہم سوال ہے، دیکھیں ہم اس اے پی سی میں اس بات پر سوچیں گے کہ آخر کیا وجہ بنی کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے آپریشن ضرب عضب کی تائید کی، لیکن وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے جو ہونے چاہیئیں تھے۔ سُکم کہاں رہا ہے۔ آخر کیا وجہ بنی کہ دہشتگردوں نے اپنے آپریشن کا نام ’’غازی عبدالرشید شہید‘‘ رکھا اور کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا، اس کے بعد دہشتگردوں نے بڑی کامیابی سے کارروائیاں کیں، جبکہ ریاست اور ریاستی اداروں کی طرف سے وہ کام سامنے نہیں آیا، جو ضرب عضب کے نتیجے میں نظر آنا چاہیے تھا۔ ہم ان نقاص کی نشاندہی کریں گے۔ پوری سیاسی لیڈر شپ یہ سوچے گی اور سفارشات مرتب کرکے اعلامیے کی شکل میں پیش کی جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں نے اپنے آپریشن کا نام غازی عبدالرشید رکھا ہے اور چند دنوں میں دس بڑی کارروائیاں کر ڈالی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ہمسائے ملک سے یہ کارروائیاں انجام دی جا رہی ہے۔ کیا آپکی جماعت اس بات کو مانتی ہے کہ ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔؟
اسد عباس نقوی:
دیکھیں ہماری جماعت سمجھتی ہے اور شروع دن سے ہمارا موقف رہا ہے کہ جب تک دہشتگردوں کے سہولتکاروں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا، جب تک ان کی سپلائی لائن نہیں کاٹی جاتی، یہ دہشتگردی جاری رہے گی۔ حالیہ واقعات سے ہمارے موقف کی تائید ہوئی ہے کہ آج بھی وہ لوگ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، جنہوں نے داعش کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی، جنہوں دہشتگردون کو شہید کا لقب دیا، جو آج بھی دہشتگردون کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور سہولتکاری کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں جب تک دہشتگردوں کی سپلائی لائن نہیں کاٹی جائیگی جو افغانستان آتی ہے، اسی طرح جنوبی پنجاب کی باتیں کی جاتی ہیں، اس وقت تک دہشتگردی جاری رہے گی۔

اسلام ٹائمز: آپریشن ردالفساد شروع کر دیا گیا ہے، اس سے پہلے ضرب عضب شروع کیا گیا، کیا نیا آپریشن ضرب عضب کی ناکامی کا اعلان نہیں ہے۔؟
اسد عباس نقوی:
اس حوالے سے ابتک جو پڑھا ہے، اس سے یہی لگ رہا ہے کہ "ردالفساد" کا فوکس سہولتکار اور دہشتگردوں کی سپلائی لائن کاٹنا ہے اور میرے خیال میں یہ ضرب عضب کا تسلسل ہی ہے، اس لئے اسے ضرب عضب کی ناکامی سے تعبیر کرنے کے بجائے اسے اس کا حصہ ہی قرار دیا جائے۔ امید ہے کہ سہولتکاروں کو ٹھکانے لگانے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور ہمارا یہ پہلے دن سے یہی موقف رہا ہے۔ اگر یہ عزم کے ساتھ ان سہولتکاروں سے لڑے تو ان شاء اللہ دہشتگردوں کا پاکستان سے تابوت برآمد ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ویسے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ضرب عضب کی ناکامی کا اظہار ہے۔؟
اسد عباس نقوی:
میں اسے اس نظر سے نہیں دیکھتا، میں سمجھتا ہوں کہ ضرب عضب سے وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، جس کی عوام پاکستان کو امید تھی۔ اسی طرح اگر گڈ بیڈ طالبان کی پالیسی نہ اپنائی جاتی اور پوری قوت اور یکسوئی کیساتھ سہولتکاروں کو نشانے پر لیا جاتا تو آج اس آپریشن کی ضرورت نہ پڑتی۔ خیر اب بھی اگر درست سمت میں آپریشن کیا جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ توقع رکھتے ہیں کہ اس بار بیلنس پالیسی نہیں اپنائی جائیگی۔


خبر کا کوڈ: 612487

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/612487/28-فروری-کی-ا-ل-پارٹیز-کانفرنس-میں-دہشتگردی-کیخلاف-متفقہ-قومی-لائحہ-عمل-دینگے-اسد-عباس-نقوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org