0
Monday 13 Mar 2017 11:06
امریکہ پوری دنیا میں خوفناک انداز میں دہشتگردی کروا رہا ہے، ہم سب سے زیادہ امریکی دہشتگردی کا شکار ہیں

کچھ دہشتگرد پہاڑوں، کچھ ایوانوں اور کچھ دفتروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، سردار سبطین خان

ذہنی غلامی زیادہ بدتر چیز ہے، ذہنی طور پر ہمیں امریکہ کا غلام نہیں ہونا چاہیے، بیانیہ اذہان اور اعلٰی دماغ سے جنم لیتا ہے، خالی نعروں سے نہیں
کچھ دہشتگرد پہاڑوں، کچھ ایوانوں اور کچھ دفتروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، سردار سبطین خان
پاکستان تحریک انصاف میانوالی کے رہنماء، پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر اور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار سبطین خان 1958ء میں پیدا ہوئے، 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی اور 1983ء سے بلدیاتی سیاست سے اپنے سیاسی کیئریر کا آغاز کیا۔ 1990ء میں صوبائی وزیر جیل خانہ جات اور 2002ء سے 2007ء تک صوبائی وزیر معدنیات رہے۔ 2013ء میں پی ٹی آئی کی طرف سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز کی پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کیساتھ ملکی اور حالات پر گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: پنجاب سمیت ملک کے شہری علاقوں میں رینجرز کی تعیناتی اور آپریشنز کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ سول حکومت اور پولیس سمیت سول ریاستی ادارے ناکام ہوچکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ریاست کا نظام درست انداز میں چل پائے گا۔؟
سردار سبطین خان:
کچھ برس پہلے تک دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ جنگ صرف شمال مغربی سرحدی صوبے جو اب خیبر پختونخوا بن چکا ہے، بلکہ فقط فاٹا میں ہی لڑی جا رہی تھی، اس جنگ کا اصل بیس کیمپ اُس وقت بھی قبائلی علاقہ جات تھے یا پھر بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔ ان دونوں جگہوں پر دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے ساتھ فوجی کارروائیاں جاری تھیں، لیکن پھر سابق صدر پرویز مشرف کے آخری دنوں میں پنجاب اور سندھ میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہوگئیں۔ عسکریت پسندوں میں پنجابی طالبان کی ایک نئی اصطلاح سامنے لائی گئی، جس کے بعد جنوبی پنجاب میں شدت پسند گروہوں کے گڑھ ہونے کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھیں تو پنجاب میں بھی رینجرز کے آپریشن کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف رینجرز کے آپریشن کا یہ مطالبہ اپوزیشن کی جانب سے کیا جاتا رہا۔ پہلے پہل تو صرف یہ ہوا کہ پنجاب میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا تو اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ آتا کہ رینجرز کو پنجاب میں بلاکر کراچی طرز کے اختیارات دے کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرایا جائے، لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ بھی ہونے لگا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی کا واقعہ ہونے پر رینجرز کا آپریشن پنجاب میں کرانے کا مطالبہ دہرا دیا جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ رینجرز پنجاب میں پہلے سے ہی موجود ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں یعنی پولیس یا سی ٹی ڈی کو جب بھی رینجرز کی ضرورت پڑتی ہے تو رینجرز اُن کی مدد کرتے ہیں، مگر دہشت گردی کی حالیہ لہر جس میں لاہور میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی میں دواعلٰی پولیس افسران بھی نشانہ بنے اور پھر لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خونیں واقعہ کے بعد ایک بار پھر پنجاب میں رینجرز کو بلانے کا مطالبہ شدت پکڑ گیا، جس پر وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف نے یہ فیصلہ کیا کہ دہشت گردوں کو پوری قوت سے نشانہ بنایا جائے گا اور انکو اُن کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ جس کے بعد بالآخر رینجرز کو پنجاب میں بلانے اور خصوصی اختیارات دے کر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرانے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی رینجرز کو تلاشی اور گرفتاری کے اختیارات حاصل ہیں۔ اگرچہ اپیکس کمیٹی میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ پنجاب میں رینجرز کو انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لئے کراچی سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں، لیکن اس کا حتمی تعین بہرحال اپیکس کمیٹی ہی کرے گی کہ رینجرز کو یہ اختیارات پنجاب کے کن علاقوں میں حاصل ہوں گے۔؟ یوں تو رینجرز کے نیم فوجی دستے پاکستان میں مختلف علاقوں میں اندرونی سلامتی سے متعلق فرائض پہلے سے سرانجام دے رہے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہوگا کہ رینجرز کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں قیامِ امن کی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پنجاب میں رینجرز کا آنا کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے کیونکہ کراچی کے علاوہ گلگت بلتستان، اسلام آباد، تربیلا، راجن پور اور کشمور میں بھی پنجاب رینجرز قیام امن کے لئے مستقل بنیادوں پر پہلے سے ہی تعینات ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پنجاب میں رینجرز کو مستقل تعینات رہنا چاہیے۔؟
سردار سبطین خان:
لاہور میں دہشت گردی کے حالیہ واقعہ کے بعد سے فورسز، رینجرز، سی ٹی ڈی اور پولیس بہت موثر طریقے سے پنجاب میں انفرادی اور مشترکہ طور پر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن حقیقت یہ کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد فوج میں یہ ضرورت شدت سے محسوس کی گئی کہ ان آپریشنز کو جو دہشت گردوں کے خلاف جاری ہیں، اُنہیں مزید موثر بنایا جائے۔ اسی لئے رینجرز کو مزید موثر اور با اختیار بنایا جا رہا ہے، تاکہ وہ ان آپریشنز میں اپنا کردار ادا کر سکیں، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس یا انتظامیہ ناکام ہوگئی ہے۔ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے، پولیس کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ناکام قرار دینا زیادتی ہوگا۔ دوسرے اداروں کی طرح پولیس نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، بلکہ ہمہ وقت عوام میں رہنے کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس دہشت گردوں کے لئے انتہائی آسان ترین ٹارگٹ بھی تھی، یہی وجہ ہے کہ کم و بیش دہشت گردی کے ہر واقعہ میں جہاں عام شہری شہید ہوئے، وہیں ان میں مسجدوں، سکولوں، ہسپتالوں، اہم عمارتوں، چوراہوں اور بازاروں میں فرائض سرانجام دینے والی پولیس کے جوان اور افسران بھی شہید ہوئے۔

دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے ملک دشمن عناصر نے پاکستان کی پہلی دفاعی لائن کو بددل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، جس کا ایک واضح ثبوت دہشت گردی کی حالیہ لہر میں عام سپاہی سے لے کر اعلٰی رینک کے پولیس افسران کی جانب سے بہادری کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا بھی ہے۔ بلاشبہ پولیس نے بڑی بہادری سے فرنٹ لائن پر آکر دہشت گردی کے خلاف اِس جنگ میں حصہ لیا ہے، لیکن پولیس کی اِن بے مثال قربانیوں اور کامیابیوں کے باوجود یہ بھی کچھ غلط نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا دفاع کے اس پہلے حصار اکیلے کے بس کا کام نہیں۔ اس مقصد کیلئے دیگر اداروں کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ اُنہیں بوقت ضرورت عملی کارروائیوں میں بھی شریک کرنا ہوگا ۔ پنجاب میں رینجرز کو دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے خصوصی اختیارات دینے کے پیچھے بھی یہی امر کارفرما ہے کہ کچھ بھی ہو اب دہشت گردی کے ناسور کو ہر صورت جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر جس طرح لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا، ویسی صورتحال پنجاب میں دیکھنے میں نہیں آئے گی۔ ایک جانب اگر رینجرز کے اختیارات منتخب علاقوں تک ہوں گے تو دوسری جانب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کسی قسم کی قانونی رکاوٹ کو حائل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: اگر رینجرز پہلے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی معاونت کیلئے پنجاب میں موجود تھے، لیکن دہشتگردی خاتمہ نہیں ہوسکا، آئندہ توقع کی جا سکتی ہے، یہ آپریشن آخری ثابت ہوگا۔؟
سردار سبطین خان:
دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور ان کی سہولت کاروں کی موجودگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب سمیت صوبے کے 18 سے زائد اضلاع میں دہشت گردوں کے 220 سے زائد سلیپر سیلز موجود ہیں۔ صوبہ کے اٹھارہ سے زائد اضلاع میں دہشت گردوں کے سہولت کار، بم بنانے کے ماہر، اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کے ماہرین، دہشت گردوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کے آلہ کار اور دہشت گردی کے لئے فنڈنگ کا انتظام کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ درجنوں کالعدم تنظیموں کے دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز بھی ان سلیپر سیلز سے منسلک ہوچکے ہیں۔ یہ صورتحال ایک بھرپور آپریشن کا ہی تقاضا کر رہی ہے۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن اور خودکش جیکٹس یا بارودی مواد کے ساتھ پکڑے جانے والے دہشت گردوں کو موقع پر ہی کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ یہ فیصلہ بھی مناسب ہے، لیکن اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہوگی، تاکہ کوئی بے گناہ گولیوں کا نشانہ نہ بن جائے۔ ہہ فیصلہ بھی اس حوالے سے مناسب ہے کہ آپریشن کی تفصیلات خفیہ طور پر طے ہوں اور ان کو افشا نہ ہونے دیا جائے تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بے خبری میں اُچکا جا سکے گا، بصورت دیگر وہ وقتی طور پر کہیں اور منتقل ہو جائیں گے اور جب آپریشن کی شدت میں کمی آئے گی تو واپس آ کر پھر سے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں لگ جائیں گے۔ مسلح افواج اور قومی سلامتی کے اداروں سے توقع تو ہے کہ آپریشن کے حوالے سے ٹائم فیکٹر کو مدِنظر رکھا جائے گا۔ ویسے تو اس کے معاملات وزارتِ داخلہ، صوبائی انتظامیہ اور رینجرز حکام نے طے کرنے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ آپریشن سرعت کے ساتھ عمل میں لایا اور جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ یہ برسوں طویل نہیں ہونا چاہیے اور چند ہفتوں یا مہینوں میں مکمل کرنے کی سعی کی جائے تو بہتر نتائج و اثرات سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: داخلی سطح پہ کئی کمزوریاں ہیں، خارجہ پالیسی بھی واضح نہیں، لیکن ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات درست کئے بغیر دہشتگردی کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ممکن ہے۔؟
سردار سبطین خان:
پُرامن اور خیر خواہ ہمسایہ کسے پسند نہیں ہوتا؟ مگر پاکستان بننے کے بعد سے بھارتی حکومت نے جس طرح اس ریاست کو اپنے وجود کے لئے ایک کلنک کے ٹیکے کی حیثیت دی ہے اور جس طرح وہ اس مقصد کیلئے کوشاں چلا آرہا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست کو ختم کر دیا جائے، وہ کس سے مخفی ہے؟ خصوصاَ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے تو پاکستان توڑنے کی سازشوں میں عملاً شریک ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے اور وہاں کے حاضر سروس افسران پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں اور وہاں کے ریٹائرڈ افسران بھی وقتاً فوقتاً ایسا بیان جاری کرتے رہتے ہیں، تو کیا اس میں شک باقی رہ جاتا ہے کہ بھارت قطعاً بھی ایک پُرامن اور خیر خواہ ہمسایہ نہیں ہے۔ پھر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی وزیراعظم ملک سے باہر جا کر اس بھارت کو راضی کرنے کے لئے ایسا بیان دیتے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ اس کی اپنے بیان کے لحاظ سے بھی غلط ہے اور عوام سے غلط بیانی کا بھی غماز ہے بلکہ ملکی ریاستی نظریئے سے بھی میل نہیں کھاتا۔

کیا یہ ظلم نہیں کہ ہمارے وزیراعظم بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے الیکشن میں بھارت سے دوستی کے نام پر ووٹ لیا، اس کے خلاف سازش نہیں کر رہے، ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات اور تجارت بڑھانا چاہتے ہیں، بھارت کے خلاف کوئی بری خواہش تھی، نہ ہے، پاکستان اپنی سرزمین بھارت مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ یہان تک تو درست ہے کہ ہماری سرزمین کسی ملک کیخلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہیے، باقی سب اپنی دوستی پکی کرنیکی باتیں، جو قومی مفاد کے خلاف ہے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں، مودی اپنا الیکشن پاکستان کی مخالفت کی بناء پر جیت رہا ہے، بھارت ہمارا دشمن ہے، ہم حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی ووٹ لے کر کامیاب ہوا ہے، اب ایسے دشمن کے سامنے اس قدر ذلت آمیز رویہ اپنانے کا کیا تک بنتا ہے؟ جو بات قوم سے کہی ہی نہیں گئی، اسے قوم کی رضامندی بتا رہے ہیں۔ کیا ایک ملک کے لیڈر کا یہی رویہ ہونا چاہئے۔؟ یاد رکھنا چاہئے کہ قوم کے ساتھ خیانت کرنا بہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کی سزا بہت کڑی ملا کرتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں ردالفساد، بلاامتیاز آپریشن ہو رہا ہے۔؟
سردار سبطین خان:
جہاں تک فوج کا تعلق ہے، وہ تو واضح کر چکے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد بلا امتیاز تمام مجرموں کے خلاف ردّالفساد کے نام سے فوجی آپریشن ہو رہا ہے، یہ تاثر کہ افغان اور پختون باشندے اس کا خصوصی ہدف ہیں اور اس حوالے سے صورت حال پنجاب میں خاص طور پر زیادہ سنگین ہے۔ قومی اتحاد اور یکجہتی کے لئے جس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتا تھا، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی اس صورت حال پر سخت اذیت اور تشویش کا شکار ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے دوٹوک الفاظ میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ آپریشن ردالفساد پنجاب سمیت پورے ملک میں نسل، زبان، علاقے اور مذہب و مسلک کے تمام امتیازات سے بالاتر ہے اور اس کا ہدف ملک کے کسی بھی حصے میں سرگرم ہر دہشت گرد ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت و بلتستان کے باشندے آپس میں بھائی بھائی ہیں، پاکستان ہم سب کا ہے اور دہشت گردی کے خلاف کومبنگ آپریشن کسی علاقے یا نسل کے نہیں بلکہ ہر دہشت گرد کے خلاف ہے۔ آپریشن ردالفساد کے دوران کارروائیاں کسی خاص صوبے کے افراد کے خلاف نہیں ہو رہیں بلکہ مشتبہ افراد کی بلاتفریق گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ اس آپریشن کے نام ہی سے واضح ہے کہ اس کا مقصد فساد کو ختم کرنا اور ملک میں استحکام واپس لانا ہے۔ تمام ادارے اپنے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں اور دہشت گردوں پر فزیکل کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔ فوج کی طرف سے وضاحتوں کے بعد آپریشن کے بارے میں بدگمانیاں دور ہو جائیں گی اور ملک بھر سے دہشت گردی کے خاتمے کے ہدف کا حصول جلد ممکن ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مذہب کے نام پر دہشتگردی کیلئے خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے قومی ایکشن پلان میں، لیکن عملی طور پر کوئی اقدامات سامنے نہیں آئے، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
سردار سبطین خان:
حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہماری سرحدیں اور پاکستان جنگ کا مرکز بن گیا ہے۔ حکمراں میٹھا خود کھاتے اور کڑوا فوج کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان میں مسلح دہشت گردی کے ساتھ مالی اور نظریاتی دہشت گردی ہو رہی ہے، کچھ دہشت گرد پہاڑوں، کچھ ایوانوں اور کچھ دفتروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، حکمرانوں کی دہشت گردی کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں، مساجد، مزارات پر دھماکے ہو رہے ہیں، مگر جب کارروائی کی جاتی ہے تو اس میں بھی مساجد اور مزارات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، سب مذہبی لوگ دہشت گردی میں ملوث نہیں، اسلام نام ہی سلامتی کا ہے، جب کسی حکمراں کے خلاف بات کی جاتی ہے، تو سارے وزیر اس کے دفاع میں میدان میں آ جاتے ہیں، مگر رسولؐ کی گستاخی پر سب خاموش ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے 20 کروڑ عوام یرغمال ہیں۔ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ موجودہ پاکستان قائداعظم کا نہیں، اسی طرح مذہب کے نام پہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ بھی اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں، جہاد اور فساد میں فرق کیلئے قوم کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اب یہ مسئلہ پاکستان سے نکل کے پوری دنیا میں پھیل چکا ہے، لیکن پاکستان کو اب بھی انفرادیت حاصل ہے، یہاں ضرورت پڑنے پر فتوے کیلئے علماء اور لڑنے کیلئے طالبان مل جاتے ہیں، اپنے مقصد کےحصول کے لئے لوگ یہاں مختلف ڈرامے کرتے ہیں، ملک کی سلامتی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے دو سال پہلے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پارلیمنٹ سے قانون منظور کیا گیا، جس میں ساٹھ تنظیموں کو کالعدم قرار دیکر ان کے خلاف کارروائی کی گئی، اب اس بل کی آئینی مدت پور ی ہوچکی ہے، اس قانون کو دوبارہ منظورکرنے کے لئے جمہوری قوتوں نے ماحول بنا دیا ہے۔

یہ جو پاکستان میں بیانیہ تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے اور ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ نیا بیانیہ کیا ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ موجود بیانیہ، جہاد کا بیانیہ، جو دہشت گردی کے بیانیہ میں بدل چکا ہے، ہمارا نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں امریکہ نے دیا تھا، ہم نے اسے قبول کیا تھا، تمام درسی کتب میں اس کو رائج کیا گیا، نہ صرف مدرسوں میں پڑھایا گیا بلکہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں تعلیم دیا گیا۔ یہ ہماری کمزروری ہے کہ ہم ذہنی خوراک کہیں اور سے لیتے ہیں، یہ غلامی کی خو ہے، جسے بدلنے کیلئے اقبال جیسا مفکر چاہیے، ورنہ افکار اور زہریلے نظریات کی تبدیلی ہمارا خواب رہیگا۔ ہم سزاوں کیلئے قانون بنا سکتے، ان پر عملدرآمد بھی کروا سکتے ہیں، لیکن نظریہ نہ سمھجتے ہیں نہ پڑھا سکتے ہیں۔ امریکہ اب بھی خطے میں خطرناک کھیل کھیل رہا ہے اور سازش کے تحت اس خطے میں اپنے تسلط کو قائم کرنے کے لئے مسلمانوں کی گردنیں مسلمانوں کے ہاتھوں کٹوائی جا رہی ہیں، اب مغربی قوتیں طالبان کو سپورٹ کرتی ہیں، داعش کے خلاف اور داعش کو اسپورٹ کرتے ہیں، طالبان کیخلاف، پھر اسکا دائرہ شہری علاقوں تک بڑھا کر اس کو جہاد کا نام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا جہاد ہے اور کیا فساد اس کیلئے اب بھی قوم کو رہنمائی کی ضرورت ہے، جیسے ضیاءالحق کے دور میں تھی، لیکن رہنمائی کرنیوالا کوئی نہیں تھا، اب بھی ایسا ہے۔ عموماََ امریکی امداد کی بات کی جاتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم مسئلہ طرزفکر کا ہے، ذہنی غلامی زیادہ بدتر چیز ہے، ذہنی طور پر ہمیں امریکہ کا غلام نہیں ہونا چاہیے، جس کیلئے تعلیم اور ریسرچ کے میدان میں اپنی قوم کو خود کفیل بنانے کی ضرورت ہے، بیانیہ اذہان اور اعلٰی دماغ سے جنم لیتا ہے، خالی نعروں سے نہیں۔

اسلام ٹائمز: امریکی کانگریس نے پاکستان کو دہشتگرد اور دہشتگردوں کا کفیل ملک قرار دینے کیلئے صدر ٹرمپ کو 90 روز میں جواب دینے کیلئے بل پیش کیا ہے، آپکے خیال میں امریکی کیا چاہتے ہیں۔؟
سردار سبطین خان:
ہہ بل پیش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں پاکستان مخالف لابی ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہے، اس بل کا منظور ہونا ایک خطرناک اور پیچیدہ صورتحال کا باعث بن سکتا ہے، ایسا ہونے کی صورت میں پاک امریکہ پہلے سے تناؤ کے شکار تعلقات میں مزید خرابی پیدا ہوسکتی ہے، ویسے بھی اس بل میں کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ پاکستان وہ واحد ملک ہے، جس نے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ اقدامات کئے اور سب سے زیادہ متاثر ہوا، اس وقت بھی ملک کے مختلف حصوں میں فوج اور رینجرز کے آپریشن جاری ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتائج سب کے سامنے ہیں، اس کے باوجود یہ بل پیش ہونا تشویشناک امر ہے، حکومت کو اس بل کو منظور ہونے سے رکوانے کے لئے متحرک ہونا چاہیے، کیونکہ ہمارے لئے یہ بات کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن بھی جاری رکھیں اور اس کو بڑھانے کے حوالے سے مطعون بھی کئے جائیں، یہ بل پاس ہوگیا تو پاکستان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ بل تو ہمیں پیش کرنا چاہیے کہ امریکہ پوری دنیا میں خوفناک انداز میں دہشت گردی کروا رہا ہے، ہم سب سے زیادہ امریکی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 617607
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش